رحمت الہی برق اعظمی کی یاد میں

رحمت الہی برق اعظمی کی یاد میں

بہ یادِ والد محترم رحمت الٰہی برق اعظمی مرحوم
رحمت الٰہی برق اعظمی۱۹۱۱۔۱۹۸۳ (ب: یکم ستمبر) 

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی 

رحمت الٰہی برق اعظمی جنھیں جانشین داغ دہلوی حضرت نوح ناروی سے شرف تلمذ حاصل تھا دیارِ شبلی شہر اعظم گڑھ کے ایک صاحبِ طرز اور باکمال استادِ سخن تھے جو اپنی خوئے بے نیازی، خاکساری اور زمانے کی نا قدر شناسی کی وجہ سے گوشہ گمنامی سے باہر نہیں آسکے جیسا کہ ان کے اس شعر سے ظاہر ہے۔
نا آشنائے حال ہے بے چارہ کیا لکھے
ساکت قلم ہے میرے سوانح نگار کا
ان کی خوئے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ وہ فرماتے ہیں کہ
زحمت مشاعروں کی اٹھائے مری بلا
وہ دے رہے ہیں داد غزل کہہ رہا ہوں میں

روحِ عروض جھوم رہی ہے بصد خوشی
فن کر رہا ہے صاد غزل کہہ رہا ہوں میں

برق اعظمی کی شاعری ان کے فطری شعری و ادبی ذوق اور ذہنی و فکری آسودگی کا ذریعہ تھی جس کا وسیلۂ اظہار مقامی شعر و سخن کی محفلیں تھیں جن میں انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں اپنی استادانہ مہارتِ زبان و بیان کے جوہر دکھائے ہیں اور ان کی شاعرانہ عظمت صرف فصیلِ شہر تک محدود رہی۔ زبان و بیان پر غیر معمولی تبحر اور قادرالکلامی کی وجہ سے ان کا اشہبِ قلم ہر میدان میں یکساں جولانیاں دکھاتا ہے لیکن ان کا جوہرِ امتیازی غزل اور قصیدے میں زیادہ نمایاں ہے۔ ان کی غزلیں قدیم و جدید اسالیبِ سخن کا ایک خوشنما مرقع ہیں جن میں لطفِ زبان اور حسنِ بیان کے ساتھ ساتھ بلند پروازی خیال، جدتِ ادا، تشبیہاتِ جدید، استعارات لطیف، دروں بینی، وسعتِ نظر اور دقتِ فکر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ انھوں نے طرزِ ادا میں بہت سی جدتیں کیں اور بیان کے نئے نئے اسلوب پیدا کیے اور ہر حال میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ وہ ایک معمولی سی بات کو لیتے ہیں اور اپنی مخصوص طرزِ ادا سے اس میں ندرت پیدا کردیتے ہیں۔۔ ان کی غزلوں میں عشق و ذوق، شور و شوق، نکتہ پردازی، مضمون آفرینی، سلاست و شیرینی، واردات و واقعات، سوز و گداز اور درد و تاثیر کی فرا وانی ہے۔
اس نابغۂ روزگار استادِ سخن کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
قبلِ تحریر سرِ خامہ قلم ہوتا ہے
تب کہیں عشق کا افسانہ رقم ہوتا ہے
ہے ماوارائے سخن برق گفتگو میری
خموش رہ کے بھی اکثر ہے بات کی میں نے
بے نتیجہ ہیں کتابوں کی ورق گردانیاں
ماجرائے عشق لفظوں میں بیاں ہوتا نہیں
آتشِ سیال کی صورت ہے رگ رگ میں لہو
جل رہا ہوں سر سے پا تک اور دھواں ہوتا نہیں
کشتی دل رکے جہاں ہے وہی ساحلِ سکون
منزل عمر ہے وہی نبض جہاں ٹھہر گئی
اف یہ کرشمہ سازیاں گردشِ روزگار کی
فصلِ بہار آئی جب قوتِ بال و پِر گئی
محبت میں محسوس ہوتا ہے ایسا
مرے دل کو جیسے کوئی مجھ سے چھینے
نئی افتاد پڑتی ہے ہمیشہ
نیا دل روز لاؤں میں کہاں سے
دل لگانا بُرا ہے یہ مانا
دل نہ مانے تو کیا کرے کوئی
بالآخر یہ قادرالکلام اور صاحبِ طرز شاعر ۳،۴ اکتوبر ۱۹۸۳ کی درمیانی شب میں ۲ بج کر ۱۰ منٹ پر اس احساسِ محرومی کے ساتھ کہ
اُٹھ گئے گوہرِ مضموں کے پرکھنے والے
کیجئے پیش کسے اب دُرِ دریائے سخن
اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ
مرکے ہم اے برق پائیں گے حیاتِ جاوداں
ہے بقا کا پیش خیمہ اختتامِ زندگی
مجموعۂ کلام : تنویرِ سخن
مولفہ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
فرزندِ رحمت الٰہی برق اعظمی



Rahmat Ilahii Barqi Azmi was a poet of caliber in his time and used to pen ghazals in his own style, that was a source of inspiration for others. He was born September 1, 1911 in a noble family at Azamgarh (UP-India). He started penning poetry since early adulthood. In the beginning he consulted Salig Ram Salig, who was a disciple of Shamshad Lakhnavi and later Nooh Narvi, who was a disciple of Daagh Dehlavi. Thus, Barq Azmi acquired best of both Lucknow and Delhi schools of Urdu poetry. He died on October 2, 1983 and laid to rest on October 3, 1983. The collection of Barq’s poetry titled Tanveer-e-Sukhan was published after his death by his sons including the illustrious poet Dr Ahmad Ali Barqi Azmi.


***
برقی اعظمی کی گذشتہ تخلیق :ہو گئی سید جلال الدین عمری کی وفات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے