ڈاکٹر ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی کا ادبِ اطفال کے لیے ایوارڈ

ڈاکٹر ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی کا ادبِ اطفال کے لیے ایوارڈ

مختلف ادبی تنظیموں اور ادبا و شعرا نے مبارک باد دی
موجودہ عہد میں بچوں کی شاعری کے لیے ظفر کمالی کی شخصیت اعتبار کا درجہ رکھتی ہے: صفدر امام قادری

٢٤ اگست، ٢٠٢٢. آج ساہتیہ اکادمی نے ادبِ اطفال کے لیے مختلف زبانوں کی کتابوں سے منتخب افراد کو اپنے انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے اردو زبان کے لیے ’حوصلوں کی اڑان‘ کے لیے ڈاکٹر ظفر کمالی کو ادبِ اطفال کے لیے اردو زبان میں انعام کا مستحق قرار دیا۔ اردو زبان کے لیے سہ نفری جیوری کے ارکان پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر سید شاہ حسین احمد اور ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر پر مشتمل تھی۔ ایک صحیح انعام کے حق دار فرد کو منتخب کرنے کے لیے جیوری کے تمام اصحاب کو اردو کے ادبا شعرا مبارک باد پیش کررہے ہیں۔ واضح ہو کہ ٢٠٢٠ء میں ’حوصلوں کی اڑان‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ ظفر کمالی کی بچوں کے سلسلے سے تیسری کتاب تھی۔ پہلی کتاب ’بچوں کا باغ‘ ٢٠٠٦ء میں اور دوسری کتاب ’چہکاریں‘  ٢٠١٤ء میں شائع ہوئی۔
۳/اگست ١٩٥٩ء کو سیوان ضلع کے رانی پور گاؤں میں ظفر کمالی پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ظفر اللہ ہے۔ والد کمال الدین احمد اور والدہ آسیہ خاتون مرحومین تھے۔ پٹنہ یونی ورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے اور بی ایڈ کرنے کے ساتھ ’احمد جمال پاشا: احوال و آثار‘ موضوع پر انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ سیوان کے ذکیہ آفاق کالج میں شعبۂ فارسی کے استاد کی حیثیت سے گذشتہ ۳۳/برسوں سے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ظفر کمالی کی ادبی شخصیت کثیر جہاتی ہے۔ وہ محقق، ظریفانہ شاعر، رباعی گو اور بچوں کے شاعر کے طور پر اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ ١٩٨٦ء میں ان کی پہلی کتاب ’مکاتیبِ ریاضیہ‘ سامنے آئی تھی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ظرافتی ادب کے حوالے سے ’ظرافت نامہ‘ ٢٠٠٥ء میں سامنے آیا۔ ظرافت کے تعلق سے ان کی دوسری کتابیں ’ڈنک‘ ٢٠٠٩ء، ’نمک دان‘ ٢٠١١ء اور ’ضربِ سخن‘ ٢٠١٩ء اردو کے موجودہ ظریفانہ سرمایے میں اپنی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ تحقیق کے حوالے سے ان کی اولین کتاب ’متعلقاتِ احمد جمال پاشا‘ ٢٠٠٦ء میں سامنے آئی۔ ٢٠١٧ء میں ’تحقیقی تبصرے‘ کے عنوان سے گیارہ طویل تبصروں کی کتاب شائع ہوئی۔ ٢٠٢٢ء میں ’احمد جمال پاشا‘ کے سلسلے سے اردو ڈائرکٹوریٹ نے ان کا تحریر کردہ مونوگراف شائع کیا ہے۔ ظفر کمالی ایک رباعی گو کی حیثیت سے اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے سے ان کی پہلی کتاب ’رباعیاں‘ عنوان سے ٢٠١٠ء میں شائع ہوئی۔ ٢٠١٣ء میں ’رباعیاتِ ظفر‘ کے نام سے ان کا دوسرا مجموعۂ رباعیات شائع ہوا۔ ٢٠١٧ء میں ’رباعیات‘ کا دیوان ’خاکِ جستجو‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس کے علاوہ مجتبیٰ حسین کے نام مشاہیر کے خطوط کی ایک مکمل ضخیم جلد ان کی ترتیب و تدوین میں منظرِ عام پر آچکی ہے۔ مختلف ادبا و شعرا کی تحریروں کے انتخابات اور غیر مطبوعہ کلام کی یکجائی کے ساتھ اپنے تعارف اور مقدمے کے شامل ان کی اشاعت ان کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔
موجودہ اردو کے ادبی منظرنامے پر مٹھی بھر افراد ظفر کمالی کی طرح کثیر الجہات خدمات انجام دینے والے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جس صنف کو آزمانے کی کوشش کی، اس میں گہرائی اور مہارت کے ثبوت پیش کیے ورنہ یہ آسان نہیں ہے کہ جس کی تحقیقی حیثیت مسلم ہو، وہ ایک طرف طنز و ظرافت کو آزمائے اور دوسری جانب بچوں کے ادب کی تخلیق میں انھی کی سطح پر اتر کر سامنے آئے۔ ظفر کمالی کا یہ بھی حیرت انگیز اختصاص ہے کہ وہ رباعی جیسے مشکل فن کو اپنی مہارت سے اس مقام تک لے گئے ہیں جہاں فی زمانہ ان کے مقابل تھوڑے سے ہی افراد نظر آئیں گے مگر اسی کے ساتھ وہ باضابطہ طور پر ظریفانہ شاعری کے لیے پورے ملک میں صفِ اول میں شامل تسلیم کیے جائیں گے۔
ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ براے ادبِ اطفال کی اطلاع ملتے ہی پورے ملک بالخصوص صوبۂ بہار اور عظیم آباد میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسرصفدر امام قادری نے کہا کہ وہ مزاج سے خاصے گوشہ نشیں شخصیت کے حامل ہیں، غالباً اب تک ان کی کسی کتاب پر کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے نے کوئی انعام نہیں دیا۔ ایسے میں ساہتیہ اکادمی کا یہ انعام ظفر کمالی کی قدر شناسی کے لیے ایک تاریخ ساز کام ہے جہاں سے ان کے ہمہ جہت کاموں پر غور و فکر اور گفتگو کا ایک سلسلہ قائم ہو سکے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ عہد میں بچوں کی شاعری کے لیے ظفر کمالی کی شخصیت اعتبار کا درجہ رکھتی ہے۔ بزمِ صدف کی خواتین شاخ کی جنرل سکریٹری ڈاکٹر افشاں بانو نے اسے حق بہ حق دار رسید قرار دیا اور کہا کہ علم و ادب میں جو لوگ سنجیدگی سے کام کرتے ہیں، خدا انھیں ضرور نوازتا ہے۔ محمد مرجان علی نے اس موقعے سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ایک روز قبل ہی رسالہ ’زبان و ادب‘ میں ’حوصلوں کی اڑان‘ مجموعے پر ان کا تفصیلی تبصرہ شائع ہو ا ہے۔
صفدر امام قادری
ڈائرکٹر، بزمِ صدف انٹرنیشنل
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : شوکت حیات کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے:

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے