ظفر کمالی کا کمالِ ہنر

ظفر کمالی کا کمالِ ہنر

حقانی القاسمی

بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات (کہانیاں، نظمیں، غزلیں) کی تفہیم و تنقید، تحسین و تعیینِ قدر کے صرف دو ہی طریق کار ہو سکتے ہیں۔
(الف) بڑوں کے نظریے سے تخلیقات کے موضوعاتی، لسانی، اسلوبیاتی اور صوتیاتی برتاؤ پر بحث کی جائے اور نفسیات اطفال کی روشنی میں تخلیقات کی معنویت اور اہمیت کا پتا لگایا جائے۔
(ب) بچوں کی نظر سے نگارشات اطفال کا جائزہ لیا جائے اور بچوں کی پسند نا پسند کو تخلیق کو پرکھنے کا پیمانہ بنایا جائے۔
میری نظر میں موخرالذکر طریق کار (ب) زیادہ مناسب ہے کیوں کہ ادب اطفال کے معتبر اور قابلِ اعتماد ناقد صرف اور صرف بچے ہی ہو سکتے ہیں۔ جن کے یہاں نہ نظریاتی کثافت اور آلودگی ہے اور نہ ہی گروہی طبقاتی تعصب۔ بچوں کی توتلی تنقید تملق اور تعصب سے پاک ہوتی ہے، اسی لیے بچے ہی بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کا بہترین محاکمہ اور محاسبہ کر سکتے ہیں کہ مخاطب ہی کو صحیح معنی میں تخلیق کا منہج اور معیار متعین کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ اسی لیے ادب اطفال کی تعیینِ قدر کے لیے قاری اساس تنقید کی طرح، طفل اساس تنقید زیادہ موزوں اور مناسب ہے۔ بیشتر باشعور افراد اس سے اتفاق کریں گے کہ صرف وہی نظمیں اور کہانیاں زندہ رہیں گی جن پر بچوں کی پسند کی مہر ثبت ہو گی۔ بڑے بڑے نقادانِ فن چاہے کسی کی نظموں اور کہانیوں کو بلند پایہ اعلا و ارفع قرار دے دیں مگر جب تک بچوں کی پسند کے معیار پر وہ نہیں اتریں گی تب تک ان نظموں اور کہانیوں کو زندگی و تابندگی نصیب نہیں ہوگی۔ آج بھی صرف وہی نظمیں زبان زد ہیں جنھیں بچوں کے ذہن اور زبان نے زندگی عطا کی ہے۔ علامہ اقبال کی ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدا یا میری“ یا ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ اسی لیے ذہنوں میں زندہ ہیں کہ انھیں ننھے منھے معصوم بچوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی کچھ نظمیں آج بھی تابندہ ہیں کیوں کہ بچوں کے ذہن اور ذوق سے وہ مناسبت رکھتی ہیں۔ ”رب کا شکر ادا کر بھائی/ جس نے ہماری گائے بنائی“ ٹکنالوجی کی ترقی کے باوجود، راکٹ اور روبوٹ کی موجودگی میں بھی بچوں کے ذہن میں گائے اور گلہری، کوّا اور کتّا، طوطا اور گوریا زندہ ہیں جب کہ ڈیجیٹل ایج میں بچوں کی نفسیات بدل چکی ہے اور ذہنی ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں اور نئے عہد میں بچوں کا ایک نیا ذہن اور وژن بھی تشکیل پا چکا ہے۔ آج کے بچے جن اور پریوں کے بجائے ڈزنی، باربی اور رینجرز میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ صارفیت نے بھی بچوں کی ذہنیت تبدیل کر دی ہے اور ان سے وہ معصومیت بھی چھین لی ہے جو ان کی شناخت ہوا کرتی تھی۔ سائنس، ٹیکنالوجی نے ہماری بہت سی قدریں بدل دی ہیں مگر بنیادی انسانی جذبات و احساسات وہی ہیں اسی لیے بچوں کا رشتہ ان فطری مناظر سے نہیں ٹوٹا ہے جو ان کے ذہن میں تحیر اور تجسس کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔بچوں کے تحت الشعور میں کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے اور ان کی بیانیہ فنتاسی بھی کچھ بدل گئی ہے اور ان کے ذہنوں میں کچھ نئے بیانیے بھی تشکیل پا رہے ہیں لیکن الف الیلہ کا سند باد، اِلہ دین کا چراغ، علی بابا اور دیگر کلاسکی نظمیں اور کہانیاں ان کے ذہنوں سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔
ظفر کمالی کی نظموں کو اگر بچے کی نظر سے دیکھا جائے تو صرف وہی نظمیں قابل قبول ٹھہریں گی جن میں بچوں کے جذبات، ان کے خواب اور خواہشات کی مکمل ترجمانی ہوگی اور جن میں بچوں کو متاثر کرنے والے صوتی اثرات (Sound Effects) بھی ہوں گے۔ اس ناحیے سے دیکھا جائے تو ظفر کمالی کی نظم ”چک بم چک بم“ بچوں کی پہلی پسند ہو گی کیوں کہ ”چک بم“ میں جو صوتی اثرات ہیں وہ بچوں کی سماعت اور ذہن کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ نظم اسی طرح کی ہے جیسے بچوں کے معروف ادیب صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی نظمیں ٹر ٹر، ٹمک ٹم، چی چوں چاچا وغیرہ ہیں۔ ان نظموں میں جو موسیقیت اور نغمگی ہے وہ بچوں کو بہت متاثر کرتی ہے۔ بچوں کے لفظوں اور آوازوں میں اگر نظم لکھی جائے تو وہ زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ ظفر کمالی کی نظم کا ایک بند دیکھئے:
محنت ہم کو پیاری ہے
اس سے ہم کو یاری ہے
خوابوں کی بیداری ہے
آگے بڑھنا جاری ہے
چک بم چک بم چک بم بم
اچھے سچے بچے ہم
اسی طرح بچوں کو بچپن سے مناسبت رکھنے والی نظمیں بہت پسند آئیں گی جن میں ان کی شوخیوں اور شرارتوں کا بیان ہوگا یا جن میں بچپن سے جڑے ہوئے رشتوں ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، آپا باجی کی باتیں ہوں گی۔ رشتوں کی نظمیں بچوں کے ذہن کو اس سلسلہ سے جوڑتی ہیں جو بچپن سے لے کر بوڑھاپے تک دکھ درد، خوشی اور غم کی صورت میں جاری رہتا ہے۔ ایسی ہی نظمیں احساس کے رشتوں کو زندہ رکھتی ہیں اور بچوں کو اپنے خاندان سے جوڑتی ہیں۔ ظفر کمالی کے شعری مجموعہ میں اس نوع کی کئی نظمیں ہیں۔ دادا پوتے کی دوستی، ماں باپ کی محبت، آئس کریم کھائیں۔ بچوں کے لیے ماں باپ کا رشتہ سب سے عظیم ہوتا ہے اور یہ وہ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اس رشتے کی معنویت ظفر کمالی کی اس نظم میں ملاحظہ فرمایئے:
مشقت سے انھوں نے ہم کو پالا
ہمیں بخشا محبت کا اجالا
کھلایا اپنے ہاتھوں سے نوالا
کہیں بھی لڑکھڑائے تو سنبھالا
محبت باپ ماں سے ہم کریں گے
اس نظم میں انھوں نے Anaphora کی ٹیکنیک بھی استعمال کی ہے جس سے نظم کا تاثر اور بڑھ گیا ہے۔
انھیں سمجھیں گے ہم رحمت خدا کی
انھیں سمجھیں گے ہم نصرت خدا کی
انھیں سمجھیں گے ہم نعمت خدا کی
انھیں سمجھیں گے ہم جنت خدا کی
محبت باپ ماں سے ہم کریں گے
(ماں پاب کی محبت)
”انھیں سمجھیں گے“ کی صوتی تکرار / رحمت، نصرت، نعمت، جنت کی صوتی تجنیس کی وجہ سے سماعت پر یہ نظم بہت اچھا اثر مرتب کرتی ہے۔
دادا سے پوتے کا رشتہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس تعلق سے یہ نظم دیکھیے کہ اس میں رشتے کی کتنی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے:
عینک پہن کے دادا کی وہ کھل کھلاتے ہیں
دادا بھی دل ہی دل میں بہت مسکراتے ہیں
مچلیں کبھی کہ مجھ کو ہوا میں اڑائیے
اچھلیں کبھی کہ میرے لیے چاند لائیے
ضد پر کبھی اڑیں کہ ٹب میں نہاؤں گا
خرگوش کو میں آپ کی چادر اڑھاؤں گا
بلّی کی دم پکڑنے کی خواہش کبھی کریں
بکریں پہ بیٹھنے کی کاوش کبھی کریں
(دادا پوتے کی دوستی)
موضوعی اور صوتی اعتبار سے بھی یہ نظم بہت خوب صورت ہے۔ بچوں کے مزاج اور ان کی فنتاسی کی بہت ہی عمدہ ترجمانی کی گئی ہے۔ اسی نوع کی ایک نظم اور ہے:
امّی کو ہم ہنسائیں آئس کریم کھائیں
لیتے رہیں دعائیں آئس کریم کھائیں
موسم ہے گرم دادی بٹوا تیرا کدھر ہے
گرمی کو ہم بھگائیں آئس کریم کھائیں
باجی ہو تم ہماری دو روپیے ہمیں دو
جاکر خرید لائیں آئس کریم کھائیں
بھیّا تم ہی بتاؤ ہم تو ہیں چھوٹے بچے
کیسے ابھی کمائیں آئس کریم کھائیں
چاچو سکھا رہے ہیں، ماموں کہو گدھے کو
یہ کام کر دکھائیں آئس کریم کھائیں
(آئس کریم کھائیں)
اس نظم میں جذباتی رشتوں کی ایک کہکشاں ہے۔ امّی ابّو، دادا دادی، بھیّا باجی یہ سب کردار نظم میں موجود ہیں اور ان کرداروں کی وجہ سے نظم میں ایک جذباتی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کیوں کہ بچوں کی دنیا ان ہی رشتوں سے آباد رہتی ہے اور یہی رشتے بچوں کو ہمت و حوصلہ کے ساتھ ساتھ ان کے خوابوں کو پرواز بھی عطا کرتے ہیں۔
بچوں کو جانوروں سے بھی بہت دل چسپی ہوتی ہے، اس لیے بچے جانوروں سے متعلق نظمیں اور کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ بچوں کے دل چسپ حیوانی کردار میں بلّی، کتّا، شیر اور بکری وغیرہ ہیں. یہی وجہ ہے کہ ادب اطفال کے شعرا نے جانوروں پر نظمیں کہی ہیں اور حیوانات کو کردار بنا کر کہانی کاروں نے کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ظفر کمالی کے یہاں بھی اس نوع کی کئی نظمیں ملتی ہیں۔ بلّی، میرا بکرا، گوریا رانی، بیمار چوہیا جیسی کئی نظمیں اس شعری مجموعہ میں ہیں۔
ہلکی پھلکی اور مزاح کی چاشنی لیے ہوئے تفریحی نظمیں بھی بچوں کو بہت پسند آتی ہیں۔ اس طرح کی نظمیں بچوں کو حظ و انبساط عطا کرتی ہیں اور اس ذہنی دباؤ سے بھی بچاتی ہیں جس کی وجہ سے بچے منفی ذہنیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی سی شرارت، تھوڑی سی شوخی بچوں کے ذہن کو تازگی اور فرحت عطا کرتی ہے۔ اب یہ نظم دیکھیے؛
الہٰی مجھے ایسا لڑکا بنا دے
جو سارے بزرگوں کے چھّکے چھڑا دے
بنا تے ہیں جو روزانہ مجھ کو جو مرغا
الہٰی انھیں تو بھی مرغا بنا دے
خدا یا بہت کھا چکا میں پٹائی
پٹائی کے صدقے مٹھائی کھلادے
اگر سا ل بھر میں نہ کھولوں کتابیں
نہ کر فیل تو پاس مجھ کو کرا دے
بچوں کی پسند میں اختصار، ترنم، تنوع، تحیر اور تجسس ترجیحی حیثیت رکھتے ہیں۔ بچے وہ نظمیں زیادہ پسند کرتے ہیں جو سوچ کے نئے دروازے کھولتے ہیں، جو بچوں میں جذبہ اور جوش پیدا کر سکیں، جن نظموں سے ان کی پرواز کو نئے جہان اور حوصلوں کو نئی اڑان مل سکے۔ بچوں کو وہ نظمیں بھی بھلی لگتی ہیں جن کو زبانی یاد کرنے میں آسانی ہو. حفظ کنی یا Memorizationبھی بچوں کی نظموں کی پسندیدگی کا ایک معیار ہے۔ اکثر وہ نظمیں جو بہت طویل ہوتی ہیں وہ بچوں کے لوح حافظہ سے غائب ہو جاتی ہیں۔ بچوں کے ذہن کی خالی تختیوں پر ہر نظم نقش نہیں ہو پاتی، صرف وہی نظمیں لوحِ ذہن پر محفوظ رہتی ہیں جو مختصر ہوں اور جن کی حفظ کنی دشوار نہ ہو۔ ظفر کمالی کے یہاں ترنم بھی ہے، تنوع بھی ہے مگر ان کی نظمیں طویل ہوتی ہیں. اس لیے شاید بچوں کے لیے یاد کرنا آسان نہ ہو۔ اگر وہ اختصار سے کام لیں تو ان کی نظموں میں ایسی مقناطیسی کیفیت ہے کہ بچے انھیں اپنے حافظے کا حصہ بنانا پسند کریں گے۔
ادب اطفال کی تعیینِ قدر میں اول الذکر طریق کار شاید زیادہ مفید نہیں کہ اردو میں ابھی تک ادب اطفال کی پرکھ اور پہچان کا کوئی مضبوط پیمانہ نہیں ہے۔ صرف تحسینی اور تشریحی نوعیت کی تنقید ہی سامنے آئی ہے۔ بہت سے اہم مباحث ادب اطفال کے ڈسکورس کا حصہ نہیں بن سکے ہیں جس کی وجہ سے ادب اطفال کی تنقید کوئی واضح صورت اختیار کرنے میں ناکام رہی۔ اس معاملے میں انگریزی زبان و ادب کے ماہرین اطفال کا رویہ زیادہ قابل تحسین و ستائش ہے کہ انھوں نے ادب اطفال کا نہایت معروضی، منطقی اور سائنٹفک انداز میں تجزیہ کا طریق کار اختیار کیا ہے اور مواد اور موضوع کے علاوہ ادب اطفال کے لسانیاتی، اسلوبیاتی اور صوتیاتی تجزیے کی صورت بھی نکالی ہے اور وہ تمام تنقیدی طریق کار اختیار کیے گئے ہیں جو بڑوں کی نگارشات کے تجزیے اور تحلیل میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہاں ادب اطفال کا جائزہ آئیڈیا لوجی، سیاست، ثقافت کی روشنی میں بھی لیا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے لکھے گئے شعری اور افسانوی متون کا مطالعہ بھی اعلا تنقیدی معیار سے کیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں ادب اطفال کے بہترین تنقیدی مطالعات سامنے آئے ہیں اور ان سے ادب اطفال سے وابستہ قلم کاروں کو بھی نئی روشنی اور رہ نمائی ملی ہے۔ Peter Hunt نے Understanding childerns literature کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جس میں چودہ مضامین ہیں اور ان میں مختلف زاویوں سے ادب اطفال کے مباحث کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نوع کی اور بھی کتابیں انگریزی میں موجود ہیں جن میں ادب اطفال پر نہایت سنجیدگی سے بحث کی گئی ہے مگر اردو میں ایسی کوئی تنقیدی کتاب نہیں ہے جس میں اس طرح کے مباحث شامل ہوں جن میں بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کا ہمہ پہلو ناقدانہ تجزیہ کیا گیا ہو۔ اردو میں ادب اطفال کی تنقید کے ضمن میں صرف سر سری نوعیت کی تحریریں ملتی ہیں جن سے تخلیقات کے تمام زاویے سامنے نہیں آسکتے۔
ظفر کمالی کی نظموں کا اگر بڑوں کے نظریے سے جائزہ لیا جائے تو اس میں کئی اہم مباحث اور سوالات شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں ایک اہم بحث یہ ہے کہ کیا جن موضوعات کو ظفر کمالی نے بیان کیا ہے۔ ان موضوعات کی آج کے عہد میں کوئی معنویت یا اہمیت ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی پرانے موضوعات تو نہیں ہیں جن پر پہلے کے شعرا لکھ چکے ہیں؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا کائنات کی جن اشیا سے یہ نظمیں متعارف کراتی ہیں کیا بچے ان سے پہلے ہی متعارف ہیں اور یہ بھی کہ کیا متعارف ہونا انھیں پسند بھی ہے یا نہیں؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ شاعری بچوں کو لفظوں کی نئی کائنات اور معانی کے نئے جہاں سے رو برو کراتی ہے؟ کیا یہ شاعری بچوں کی قوت ادراک اور قوت مشاہدہ میں اضافہ کرتی ہے؟ اور یہ بھی ایک سوال ہے کہ شعری متون میں جوثقافتی بیانیے پیش کیے جاتے ہیں کیا اس ثقافت سے بچوں کی ذہنی مناسبت ہے اور اسی سے جڑا ہوا یہ سوال بھی ہے کہ کیا یہ شاعری Posterior singulate cortex اور medial temporal lobes کو متاثر اور متحرک کرتی ہے؟ اس نوع کے کئی اور سوالات بھی قائم کیے جا سکتے ہیں جن کی روشنی میں بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کو پرکھا جا سکتا ہے۔
ظفر کمالی نے بچوں کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے ان میں سے چند ہی ایسے ہیں جن میں نئے عہد میں کوئی معنویت تلاش کی جا سکتی ہے۔ ظفر کمالی نے جو ماحولیاتی نظمیں لکھی ہیں وہ اس اعتبار سے اہم ہیں کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی بحران ہمارے عہد کا بہت ہی اہم مسئلہ ہے کیوں کہ اسی سے ہمارا وجود جڑا ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی کثافت اور آلودگی نے ہماری زندگی کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں اس لیے ماحولیات آج کی شاعری کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ خاص طور پر بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما اور نفسیاتی ارتقا میں ماحولیات کا بہت عمل دخل ہے. اس لیے بچوں میں ماحولیاتی بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر زبان میں شاعری کی گئی ہے اور قدرتی ذرائع کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ انگریزی میں ایسی ماحولیاتی شاعری کا ایک وافر ذخیرہ ہے جس میں فطرت اور ماحول کے رشتوں پر بہت ہی موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اردو میں بھی ماحولیات پر مرکوز بے شمار نظمیں لکھی گئی ہیں اور ماحولیات پر مبنی شعری مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ انصار احمد معروفی، متین اچل پوری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ظفر کمالی نے بھی اس تعلق سے جو نظمیں کہی ہیں ان میں ’ہرے درخت اور پانی‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کی نظم ’ہرے درخت‘ میں اسی ماحولیاتی تحفظ کی طرف اشارے کیے گئے ہیں:
ہماری روح کی راحت ہماری دولت ہیں
ہرے درخت خدا کی عظیم نعمت ہیں
بغیر ان کے یہ دنیا اجاڑ ہو جائے
یہاں پہ سانس بھی لینا پہاڑ ہو جائے
ہرے درختوں سے قائم ہماری ہریالی
ہرے درختوں سے آئے جہاں میں خوش حالی
کریں یہ عزم نئے پیڑ ہم لگائیں گے
ہرے درخت ہیں جتنے انھیں بچائیں گے
(ہرے درخت)
پیڑ سے متعلق اردو میں بہت سی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ فریاد آزر، حیدر بیابانی اور شفیق اعظمی کی نظمیں بھی اس باب میں معروف ہیں اور بھی بہت سے شعرا ہوں گے جنھوں نے درختوں کی ہریالی اور پیڑ پر نظمیں لکھی ہوں گی۔ ان یکساں موضوعاتی نظموں کا تقابلی مطالعہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان شعرا کے انفرادی طرز اظہار کے حوالے سے گفتگو کی جا سکے۔ اسی طرح ظفر کمالی نے پانی پر بھی نظم لکھی ہے۔ اس موضوع پر ان کے علاوہ اردو کے بہت سے شعرا نے شاعری کی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پروفیسر جابر حسین نے اردو نامہ پٹنہ کا ایک شمارہ پانی کے لیے مختص کیا تھا۔ اس میں پانی سے متعلق بہت عمدہ نظمیں تھیں۔ پانی سے متعلق ظفر کمالی کی یہ نظم دیکھئے:
زندگی کا مدار ہے پانی
اس چمن کی بہار ہے پانی
اس سے ہے آن بان مٹّی کی
ہے یہ پانی ہی جان مٹّی کی
بے مزا ہے حیات اس کے بغیر
کچھ نہیں کائنات اس کے بغیر
راحتوں میں یہ بڑی راحت ہے
یہ خدا کی عظیم نعمت ہے
کھیتیاں لہلہائیں پانی سے
پھول بھی مسکرائیں پانی سے
اس سے اگتی ہے یوں زمین پہ گھاس
جیسے دلہن کا شاندار لباس
سارے دریا رواں اسی سے ہیں
یہ سمندر جواں اسی سے ہیں
پیڑ پودے ہرے ہیں اس کے طفیل
پھل بھی رس سے بھرے ہیں اس کے طفیل
ہم جو پانی بچا کے رکھّیں گے
زندگانی بچا کے رکھّیں گے
(پانی)
بچوں کے معروف شاعر فراغ روہوی نے بھی پانی پر ایک نظم لکھی تھی۔ ان کی نظم کا انداز ظفر کمالی سے ذرا مختلف ہے:
بن اس کے جل جائے کھیتی
بن اس کے مر جائے مچھلی
بن اس کے بے کار ہے کشتی
بن اس کے دشوار ہے ہستی
سمٹے تو بن جائے قطرہ
پھیلے تو ہو جائے دریا
پھول، شجر، انسان، پرندہ
سب کے سب ہیں اس سے زندہ
اب ان دونوں نظموں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہوگا کہ بچوں کے ذہن پر کس نظم کا تاثر زیادہ بہتر مرتب ہوگا۔ دونوں نظمیں ہی اپنے مواد اور اسلوب کے اعتبار سے کامیاب ہیں.
ظفر کمالی نے ان موضوعات پر زیادہ نظمیں لکھی ہیں جو پرانے ہیں یا جن پر بچوں کے شعرا لکھ چکے ہیں۔ قلم، کتاب، زبان، وقت، بھائی چارا، چیونٹی، چوہیا، گوریا، نفرت، محبت، حب الوطنی، گڑیا، مزدور یہ وہ موضوعات ہیں جن پر پہلے ہی وافر شاعری ہو چکی ہے. اسی لیے اس نوع کی نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے تمام نظموں پر نگاہ رکھنی ہوگی اور اسلوبیاتی نقطہ نظر سے بھی ان کا تجزیہ کرنا ہوگا، تبھی موضوعی یکسانیت کے باوجود ان نظموں کی انفرادیت پر گفتگو ممکن ہوگی. ویسے ظفر کمالی نے پرانے موضوعات کو بھی نئی شکل و صورت عطا کی ہے اور اپنے الگ طرز اظہار کی وجہ سے وہ نظمیں بھیڑ میں بھی اپنی شناخت قائم رکھنے میں کامیاب ہیں۔ ظفر کمالی کے یہاں بھی اخلاقی اوصاف و اقدار کی وہی نظمیں ہیں جو ان سے پیش تر لکھی جا چکی ہیں یا ان کے معاصرین لکھ رہے ہیں۔ ادب اطفال کے زیادہ تر شعرا کا ارتکاز اقدار و کردار پر رہا ہے۔ ظفر کمالی کے یہاں بھی ان ہی اقدار کی نظمیں ملتی ہیں جن میں بچوں کو ایمان داری، سچائی، سمجھ داری، ایفاے عہد، عدل و انصاف، احترام حقوق اور دیگر اخلاقی معیارات کی تربیت اور تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی نظمیں بچوں کو بہت متاثر کرتی ہیں. اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شاعر اخلاقیات کے معلم ہوتے ہیں۔ بچوں کی نفسیات کے پیش نظر ہی Virtu Ethics پر بہت ساری نظمیں کہی گئیں ہیں اور بچے ان سے ترغیب اور تحریک بھی حاصل کرتے ہیں اور یقینی طور پر یہ شاعری کا ایک افادی پہلو ہے کہ اس کی وجہ سے بچوں میں مثبت جذبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں اور ان میں اچھے برے، غلط صحیح اور خیر و شر کی تمیز پیداہوتی ہے۔ بچوں کے باب میں بیشتر شعرا نے یہی روش اختیار کی ہے۔ ظفر کمالی کا بھی زور اقدار اور کردار پر ہے۔چند نظموں کے ٹکڑے ملاحظہ ہوں:
کوئی گورا ہو یا وہ کالا ہو
کوئی ادنیٰ ہو یا کہ اعلیٰ ہو
شیخ ہو برہمن ہو لالا ہو
چاہے سید ہو یا گوالا ہو
بھائی چارا بہت ضروری ہے
(بھائی چارا)
نفرتیں گھر تباہ کرتی ہیں
دل بشر کا سیاہ کرتی ہیں
(نفرت)
محنت سے ہی عزت ہے
محنت سے ہی راحت ہے
محنت سے ہی شہرت ہے
محنت سے ہی عظمت ہے
کام کریں ہم کام کریں
(کام کریں)
ہمتوں کا جہاں باقی رکھ
حوصلوں کی اڑان باقی رکھ
حوصلے جب اڑان بھرتے ہیں
چاند پر جا کر وہ ٹھہرتے ہیں
(حوصلوں کی اڑان)
مشترکہ موضوعاتی متون کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی ظفر کمالی کی شاعری کا رنگ و آہنگ الگ نظر آتاہے۔یہی ان کا کمال ہنر ہے۔
ظفر کمالی کا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں کو لفظوں کی نئی کائنات سے متعارف کرایا ہے اور ایسے الفاظ دیے ہیں جن سے ان کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافے کے ساتھ ساتھ معانی کی ایک نئی دنیا بھی نظر آتی ہے۔ بادِ بہاری، نسیمِ سحری، بامِ فلک، گلِ خنداں، شاخِ ثمردار، ماہِ تمام اور اس طرح کی بہت ہی خوش رنگ ترکیبیں ان کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ جن سے بچے نئے لفظوں سے روشناس ہوتے ہیں اور نئی ترکیبوں سے متعارف بھی. اور یہی ترکیبیں انھیں نئے الفاظ اور معنی کی جستجو کے لیے مہمیز بھی کرتی ہیں۔
ظفر کمالی کی شاعری میں قوت ادراک میں اضافہ کرنے والا عنصر بھی ہے کیوں کہ کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں مشاہدات، تجربات، مطالعات، اطلاعات اور معلومات کی دنیا آباد ہے۔ بچے ان نظموں کے ذریعے حیات و کائنات نئی کیفیات سے روشناس ہو سکتے ہیں۔
ظفر کمالی کی شاعری واقعی ایسی ہے جو دماغ کی کئی سطحوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس شاعری میں تحرک بھی ہے، تلاطم بھی، تکلم بھی اور ترنم بھی اور یہ چیزیں جذبہ و احساس کو بڑی حد تک متاثر کرتی ہیں۔
ظفر کمالی کی شاعری کا اسلوبیاتی اور صوتیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہی وہ طریق کار ہے جس سے یکساں موضوعات کے شاعروں کے انفرادی رنگ وآہنگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی غزلیہ اور نظمیہ شاعری کا مطالعہ صوتیاتی نقطہ نظر سے زیادہ مفید ثابت ہوگا کہ صوتی آہنگ کا حس سماعت سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ شعر کی غنائیت، نغمگی، اصوات کی تنظیم و تکرر کا بچوں کی سماعت پر خوشگوار اثر مرتب ہوتاہے۔ خوش آہنگ الفاظ بچوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہ وہ طریق کار ہے جس پر ادب اطفال کے ناقدین نے شاید کم توجہ دی ہے یا بالکل ہی توجہ نہیں دی ہے۔ صوتیاتی نقطہ نظر سے ظفر کمالی کی شاعری کا جائزہ لیا جائے، تو اس میں بہت سے شعری محاسن نظر آئیں گے۔ انھوں نے ان شعری تکنیکوں کا استعمال کیا ہے جن سے شاعری میں تاثیر اور تسخیر کی قوت پیدا ہوتی ہے اور جو تکنیکیں بچوں کو بھی محبوب اور مرغوب ہیں۔ تکریر حرف، صوتی تجنیس اور مشابہت نے بھی ان کی نظموں کو خوب صورتی عطا کی ہے۔ ایک نظم کایہ ٹکڑا دیکھیے جس میں Epiphora کی تکنیک استعمال کی گئی ہے:
فسانوں میں دل کش فسانہ کتاب
خزانوں میں نادر خزانہ کتاب
نہ ہو کیوں ہمارا ترانہ کتاب
کتابیں زمانہ، زمانہ کتاب
یہاں آخر میں ’کتاب‘ کی تکرار سے صوتی حسن پیدا ہو گیا ہے۔
اور انھوں نے کئی اور نظموں میں Alliteration اور Consonance کی تکنیکوں کا استعمال کیا ہے۔ بچوں کی نظموں میں یہ تکنیکیں بہت موثر اور اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ شعری تجمیل کے یہ طریق کار اکثر کہنہ مشق شعرا استعمال کرتے رہے ہیں اور اس کے لیے قادر الکلامی کے ساتھ ساتھ صنائع اور بدائع پر عبور بھی ضروری ہے۔
مجموعی طور سے دیکھا جائے تو یہ بچوں کے لیے بہت عمدہ، دل چسپ، معنیٰ خیز اور فکر انگیز شاعری کا مجموعہ ہے۔ اس میں تعلیم و تربیت کے ساتھ تفریح بھی ہے۔ ’بچوں کا باغ‘ اور ’چہکاریں‘ کے بعد ’حوصلوں کی اڑان‘ ادب اطفال میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ایک صحیح سمت کا سفر اور ایک نئی تخلیقی اڑان ہے۔
***
حقانی القاسمی کی گذشتہ نگارش:تشنگی اور خموشی کی تخلیقی اشارت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے