امان ذخیروی بہ حیثیت ادیب اطفال

امان ذخیروی بہ حیثیت ادیب اطفال

فوزیہ اختر ازکیٰ
کولکاتا

امان ذخیروی آسمان ادب کے ایک ایسے روشن ستارہ ہیں جس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی بلکہ روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اور جس نے بہار کے شعر و ادب کی دنیا کو منور کر دیا ہے.
ویسے تو میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ ان جیسی اعلا شخصیت پر کچھ لکھ سکوں پھر بھی میں نے چند‌ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے. یوں تو انھوں نے ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے. غزلیں بھی کہی ہیں، قطعات بھی کہے ہیں، رباعیاں بھی کہی ہیں، ماہیے بھی کہے ہیں، توشیحی نظموں کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری ہے، ہندی دوہوں کی تو ان کی کتاب بھی منظر عام پر آ چکی ہے، سنجیدہ نظموں کی ایک کتاب بہ عنوان "نوائے شبنم" بھی شائع ہو چکی ہے. ان کی غزلوں کا مجموعہ بہ عنوان "پرندوں کا سفر" بھی منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکا ہے. لیکن میں نے ان کے ادب اطفال کی خدمات کو اپنے مضمون کا موضوع بنایا ہے. بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب بہ عنوان "آغوش میں چاند" زیر طبع ہے.
میں نے جب ہوش سنبھالا تو ہمارے گھر میں قومی تنظیم پابندی سے آتا تھا۔ اور بچوں کے صفحہ پر امان ذخیروی صاحب کا نام بھی اکثر و بیشتر نظر آتا۔ نظمیں تو اور بھی ہوتی تھیں مگر امان ذخیروی کی نظمیں ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتیں۔ سب سے پہلے ان کی ہی نظم پڑھی جاتی۔ کیوںکہ اس میں ایک نیا پن ہوتا۔ مختلف موضوعات پر کہانی نما نظموں نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ انھی سے متاثر ہو کر میں نے اس طرح کی نظمیں اپنے اسٹوڈنٹ لائف میں لکھیں۔ میں نے اس زمانے میں ان کی جو نظمیں پڑھیں، ان میں چند کا ذکر لطف سے خالی نہیں ہے. ان کی ایک نظم "تاج محل" ہے. اس نظم میں انھوں نے شاہ جہاں اور ان کی بیگم ممتاز محل کے عشق کی پوری داستان بڑے ہی سہل انداز میں بیان کر دی ہے. چونکہ کہانی سننا بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے. اس لیے نظم کو انھوں نے کہانی کے انداز میں بیان کیا ہے تاکہ بچوں کو کہانی کا لطف بھی آئے اور انھیں تاج محل کے تعمیر کی تواریخ سے بھی واقفیت ہو جائے. شاعر نے اس نظم کو بالکل ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے. ایک تجسس ہے جو آخر تک برقرار رہتا ہے.
اس نظم کی شروعات کچھ یوں ہوئی ہے:
پیارے بچو سنو کہانی
ایک تھا راجا ایک تھی رانی
تھی دونوں میں خوب محبت
آج بھی زندہ ان کی الفت
راجا رانی پر مرتا تھا
ہر پل اس کا دم بھرتا تھا
پاکر اس راجا کو، رانی
بن بیٹھی اس کی دیوانی
اس کے بعد تاج محل کی تعمیر کے سلسلے میں ممتاز محل کی خواہش کے اظہار کو شاعر نے کچھ یوں پیش کیا ہے:
سن لو دو فرمائش میری
کر دینا یہ خواہش پوری
مرنے پر میرے، اے ساجن
مت لانا پھر میری سوتن
یاد میں میری، میرے پریتم
ایک عمارت بنوانا تم
نام جو اپنا زندہ رکھے
پیار ہمارا دنیا دیکھے
اس کے بعد شاہ جہاں کے وعدے کی پاس داری کو شاعر نے دکھایا ہے. پھر دوسری شادی کا نہیں کرنا اور اپنی بیگم کی یاد میں تاج محل کی تعمیر کروانا.
آخر میں شاعر نے بچوں کے تجسس کو کچھ اس طرح ختم کیا ہے کہ پورا واقعہ یکبارگی ان کے ذہن میں سما جاتا ہے. ملاحظہ فرمائیں:
پھر اس نے جمنا کے تٹ پر
ایک عمارت بھی بنوا کر
دنیا کو دی ایک نشانی
دنیا ہے جس کی دیوانی
چاند کے جیسا وہ نرمل ہے
شاہ جہاں کا تاج محل ہے
اس طرح اس نظم کی سحرکاری آخر تک برقرار رہتی ہے.
ان کی ایک مکالماتی نظم "بطخ اور مرغی" بھی بے مٹال ہے. اس نظم میں بھی کہانی پن ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک اچھا سبق بھی ہے. اس نظم میں نصیحت کے کئی پہلو نکل کر سامنے آتے ہیں. ایک تو ماں کی عظمت کا بچوں کو زبردست احساس کرایا گیا ہے کہ ماں جیسی عظیم ہستی کی قربانیوں کو بچے یاد رکھیں. وہیں آج کے دور کی فیشن پرست ماؤں پر بھر پور طنز بھی کیا ہے، جو اپنے معصوم بچوں کو آیاوں کے حوالے کر کے خود انگریزی میموں کی طرح کلبوں اور پارکوں کے چکر لگاتی رہتی ہیں. یہ بات تقریباً سب لوگ جانتے ہیں کہ بطخیں اپنے انڈے خود نہیں سیتیں، بلکہ ان کے انڈے مرغیاں سیتی ہیں اور کچھ دنوں تک ان کی پرورش بھی کرتی ہیں. گویا بطخوں پر مرغیوں کا یہ عظیم احسان ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بطخ مرغی کی احسان مند ہوتی. لیکن بطخ اس احسان کو بھلاتے ہوئے یوں گویا ہوتی ہے:
میں تو انڈے دے کے ہو جاتی ہوں دور
جن کو تم دن رات سیتی ہو حضور
مجھ سے ایسے کام کب ہوں گے بھلا
کون اس الجھن میں ہوگا مبتلا
بطخ کی غرور سے لبریز باتیں جب مرغی نے سنی تو اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے بطخ کو اس کی اوقات اور اس کی کم ظرفی کا آئینہ دکھا دیا. مرغی یوں گویا ہوتی ہے:
میں نہیں ہوتی تو سن اے بے شعور
نسل تیری ختم ہو جاتی ضرور
خود بنی پھرتی ہے تو انگریزی میم
میں ترے بچے سے کرتی ہوں پریم
آخر کا دو شعر اس نظم کی کہانی کا کلائمیکس ہے, جو اس نظم کو ماں کی ممتا کی صورت لازوال بنا دیتا ہے. ملاحظہ فرمائیں:
جس کا دل اس لطف سے خالی ہوا
سمجھو وہ دنیا میں کنگالی ہوا
ماں کی ممتا کا جہاں میں دھوم ہے
آہ! اس لذت سے تو محروم ہے
اب اس کے بعد کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچتا.
امان ذخیروی کے یہاں اس طرح کی مکالماتی نظموں کی بہتات ہے. یہاں سبھی نظموں پر تبصرہ تو مشکل ہے. میں ان کی چند مکالماتی نظموں کے عنوان لکھنے پر اکتفا کرتی ہوں، جس سے ان کی نظم نگاری کا اندازہ ہو سکے. ان کی ایسی نظموں میں "تتلی اور پھول"، "کوا اور کوئل"، "چاند اور تارے"، "ہاتھی اور شیر"، "بچہ اور ماں"، "بچہ اور چاند" اور "آغوش میں چاند" قابل ذکر ہیں.
اس کے علاوہ ان کے یہاں بیانیہ نظموں کی بھی کمی نہیں ہے. اس ضمن میں ان کی ایک نظم تاج محل کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.
بچے ہمارے ملک و ملت کے مستقبل ہیں. ان کی صحیح سمت میں رہ نمائی ملک کے ہر ایک ذی شعور فرد کا فرض ہے، تاکہ وہ بڑے ہوکر ایک ذمہ دار شہری بن سکیں. انھیں اپنے ملک اور ملت کی عظمت رفتہ کا احساس دلانا بھی ضروری ہے. اپنے اسلاف کے کارناموں سے بھی با خبر کرنا ضروری ہے. امان ذخیروی نے پوری ذمہ داری کے ساتھ اس فرض کو اپنی شاعری کے ذریعہ نبھایا ہے. ان کی اس سلسلے کی نظموں میں "کہانی ایک شاعر کی"، "میں بنوں گا ڈاکٹر عبد الکلام"، "تلوار ٹیپو کی"، "اقبال اور غالب" وغیرہ قابل ذکر ہیں. سر دست ان تمام نظموں پر تبصرہ مشکل ہے. ان میں سے ان کی ایک نظم "کہانی ایک شاعر کی" پر آپ کا ذہن مبذول کرانا چاہتی ہوں. در اصل اس نظم کے ذریعے علامہ اقبال سے بچوں کو روشناس کرانے کی شاعر نے کامیاب کوشش کی ہے. علامہ اقبال کے تمام حالات و کوائف کو انھوں نے بڑے ہی سادہ انداز میں نظم کے قالب میں ڈھال دیا ہے. اس نظم کا آغاز کچھ یوں ہوا ہے:
کہانی ایک شاعر کی سنو بچو سناتا ہوں
تمھیں گزرے ہوئے لمحوں کا آئینہ دکھاتا ہوں

اور آخر میں اس شعر کے ساتھ نظم کا اختتام ہو تا ہے، جو یقیناً بچوں پر اچھا تاثر قائم کرتا ہے.

قلم اس شاعر مشرق کے سب احوال کہتا ہے
ادب سے یہ زمانہ اس کو سر اقبال کہتا ہے

امان ذخیروی کا دل حب الوطنی کے جذبے سے بھی سرشار ہے. وہ چاہتے ہیں کہ یہ جذبۂ محبت بچوں میں بھی منتقل کریں. ان کے پاس اس طرح کی نظموں کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ ہے. ایسی نظموں میں "ہم ہوئے آزاد"، "نونہالان وطن کے نام"، "ہمالہ"، اور "ترنگے کی شان" وغیرہ خاص اہمیت کی حامل ہیں.
امان ذخیروی صاحب نے اردو شعر و ادب کی دنیا میں ‌ایک الگ مقام بنا لیا ہے اور وہ بھی اپنی محنت سے۔ ہندستان کے مختلف اخبارات و رسائل میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔ مضامین، افسانے، نظمیں اتنی عمدگی سے لکھتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کی نظموں کے مجموعے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جب کہ انھوں نے ایسی جگہ آنکھیں کھولیں جہاں دور دور تک شعر و سخن کا چرچا نہیں تھا. اس صنف سے کسی کو نہ واقفیت تھی اور نہ ہی دل چسپی. انھوں نے استاد شاعروں سے بھی مدد مانگی لیکن کسی نے انھیں درخورِ اعتنا نہیں جانا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے شوق اور محنت سے ایک مقام حاصل کر ہی لیا.
اور‌ ان کا سب سے بڑا کمال تو یہ ہے کہ روزنامہ "ایک قوم` کے گوشہ ادب میں ہر ہفتے ان کا ایک قطعہ بہ عنوان "اردو" شائع ہوتا ہے. یہ اردو کی ایسی خدمت ہے، ایسا قابل قدر کارنامہ ہے کہ ان کا یہ کارنامہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے