کتاب: شیریں زبان، مفسر قرآن: مولانا ابو سلمہ شفیع احمد

کتاب: شیریں زبان، مفسر قرآن: مولانا ابو سلمہ شفیع احمد

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

’’تمیثل نو‘‘ کے شمارہ ۲۷؍ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے میں نے ایک خط میں ڈاکٹر امام اعظم کو لکھا تھا: ’’کولکاتا کے حوالے سے مضامین و مقالات اچھے ہیں۔ کمی صرف مذہبی سرگرمیوں کی رہ گئی ہے اور ان شخصیات کا تذکرہ بھی آنے سے رہ گیا ہے، جنھوں نے کولکاتا میں مذہبی شناخت کی بقا کے لیے کام کیا اور مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر و احکام سے دور نہیں ہونے دیا؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ طویل کمیونسٹ عہد حکومت میں مسلمانوں کو دہریہ، مذہب بیزار اور دین سے دور ہونے سے بچا کر رکھا، یہ بہت بڑا کام ہے جو وہاں کے علما اور مذہبی شخصیات نے انجام دیا ہے۔
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں اس خدمت کے لیے مولانا ابو سلمہ شفیعؒ جو بہار شریف کے رہنے والے تھے کا نام و کام محتاج تعارف نہیں، ان کی کئی کتابیں مقبول خاص و عام ہیں، پوری زندگی خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام ریڈ روڈ پر نماز عیدین کی امامت کرتے رہے، اور مختلف مسلک او رمکتب فکر کے لوگوں کو جوڑ کر رکھا، وہ سہل الحصول بھی تھے اور ہر سطح کے لوگوں تک خود پہنچا کرتے تھے‘‘ (آدھی ملاقات صفحہ۶۴)
پھر اس کے بعد میں نے مولانا کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک مختصر مضمون نقیب کے لیے بھی لکھا تھا، بد قسمتی سے وہ مضمون مولانا ابو طلحہ بن ابو سلمہ ندوی تک نہیں پہنچ سکا اور اس کتاب میں شامل ہونے سے رہ گیا۔
مولانا ابو سلمہ شفیع احمد (ولادت ۱۹۱۲ء وفات ۲۲؍ دسمبر ۱۹۸۵ء) بن مولانا حکیم امیر حسن مرحوم پر وفات کے چھتیس سال بعد مولانا کے صاحب زادہ مولانا طلحہ بن ابو سلمہ ندوی کے ذریعہ ’’حیات و خدمات و مشاہدات پر مشتمل گراں قدر مضامین‘‘ کا مجموعہ شیریں زبان مفسر قرآن حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع احمد کے نام سے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی، یہ ایک قرض تھا، جسے مولانا طلحہ ندوی نے اتارا ہے، حق تو یہ ہے کہ مولانا کی حیات و خدمات پر مفصل کتاب لکھی جائے اور اسے چھپوا کر عام کیا جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ مذہبی تعصب اور دین کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمارے علما کس قدر جد و جہد کیا کرتے تھے، بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ عالیہ یونی ورسٹی کے کسی اسکالر کو یہ موضوع دے کر پی اچ ڈی کا مقالہ لکھوانا چاہیے، مولانا مدرسہ عالیہ کے زمانہ دراز یعنی اپریل ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۳ء تک استاذ رہے ہیں، اس تحقیق سے مدرسہ عالیہ کے اس دور کی تعلیمی خدمات بھی لوگوں کے سامنے آسکے گی۔
فی الوقت ہمارے سامنے مولانا کی حیات و خدمات پر مضامین کا جو مجموعہ ہے وہ انتہائی وقیع ہے، آٹھ ابواب کے تحت ان مضامین کو یک جا کر کے مولانا کی متنوع خدمات اور تاثرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پہلا باب حیات و خدمات پر مشتمل ہے، جس میں کل بیالیس (۴۲) مضامین اہل علم و دانش کے ہیں، اس باب میں مولانا قاضی اطہر مبارک پوری، امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا عمیر الصدیق ندوی، پروفیسر احمد سجاد اور مولانا رضوان احمد ندوی معاون مدیر نقیب کے مضامین شامل اشاعت ہیں، دوسرے باب میں مولانا مرحوم کے نو مضامین و مقالات کو جمع کیا گیا ہے، جس میں مولانا کی تحریری خدمات اور ان کے اسلوب کا پتا چلتا ہے، مضامین و مقالات کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، لیکن چند مضامین کو محض مشتے نمونہ از خروارے کے تحت اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تیسرا باب مولانا کے مکاتب پر مشتمل ہے، یہ بھی بہت نہیں ہے، صرف تین چار خطوط ہیں، یہ ذخیرہ اس قدر تو ضرور ہے کہ محنت کی جائے تو مولانا کے مکاتیب کا الگ سے ایک مجموعہ تیار ہوجائے۔ چوتھے باب میں مولانا کے قائم کردہ ادارہ ترجمہ و تالیف کا اجمالی تعارف کرایا گیا ہے، اس میں کل چھ مضامین ہیں، جن میں ایک مضمون کلکتہ کا ایک علمی سفر کے عنوان سے مولانا قاضی اطہر مبارک پوری کا بھی ہے۔ پانچواں باب منظوم خراج عقیدت اور قطعات پر مشتمل ہے، جس میں نو شعرا نے مولانا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ چھٹا باب اکابرین و معاصرین کے تاثرات کے لیے مختص ہے، جس میں تینتالیس (۴۳) اکابر اور چار اداروں کے بیانات کو شامل کیا گیا ہے، ساتویں باب میں تعزیتی مضامین، روزنامہ، ہفتہ وار اور ماہ ناموں میں شائع تعزیتی بیانات و تجاویز کو جگہ دی گئی ہے۔ آٹھواں باب تعزیتی جلسوں کی رپورٹ کے لیے ہے۔ کتاب کا انتساب مولانا طلحہ ندوی نے اپنے والدین کے نام کیا ہے، جن کی تعلیم و تربیت نے ان کو اس لائق بنایا ، تین سو باسٹھ (۳۶۲) صفحات کی یہ کتاب ادارہ ترجمہ و تالیف کولکاتا سے شائع ہوئی ہے۔ قیمت درج نہیں ہے۔ ملنے کے لیے تین پتے دیے گیے ہیں، اگر آپ کولکاتا میں ہیں تو ادارہ ترجمہ و تالیف 28/H/15 سر سید احمد روڈ کولکاتا، لکھنؤ میں ہیں تو شاداب بلڈنگ، ٹیگور مارگ، ندوہ روڈ لکھنو اور نالندہ میں ہوں تو مکتبہ علم و حکمت محلہ سکونت کلاں، بہار شریف نالندہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
کتاب اچھی چھپی ہے، ٹائٹل پر مولانا مرحوم کی تصویر بھی دی گئی ہے اور آخر کے صفحات بھی اس سے مزین ہیں، ٹائٹل کے آخری صفحہ پر زیور محل جیولرس کا اشتہار ہے، طباعت کے لیے رقم نہ ہو تو یہ سب کرنا ہی پڑتا ہے۔
پروف ریڈر کی نگاہوں کے چوکنے کا شکوہ قاری کو بہت ہوگا، ٹائٹل پیچ کے تیسرے صفحہ کی سیٹنگ درست نہیں ہے، اس کا مواد اندر کے صفحات میں تین سو تینتالیس (۳۴۳) اور اندر کے صفحات میں علامہ ابو سلمہ شفیع احمد کے احباب و رفقا والے مضمون کا تین سو بیالیس (۳۴۲) سے اٹھ کر تین سو چالیس پر چلا گیا، کتابوں میں اس طرح کے بقیات کا سلسلہ روایتا نہیں ہوتا، اس سے قاری کو خلجان ہوتا ہے.
مولانا ابو طلحہ ندوی صاحب کی یہ محنت قابل قدر اور لائق ستائش ہے۔ دعوت و تبلیغ اور دینی کاموں سے جُڑے لوگوں کے لیے یہ کتاب انتہائی مفید ہے۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے