کتاب: دیوانِ رشک

کتاب: دیوانِ رشک

عظیم انصاری 
جگتدل، مغربی بنگال ، ہند 
 موبایل نمبر: 9163194776

تاریخ گوئی ایک مشکل ترین فن ہے کیونکہ اس میں اوزان اور ردیف کی پابندی کے ساتھ حروف کے مقررہ اعداد کی پابندی بھی لازم ہے۔ تاریخی قطعات کہنا اور فنِ شاعری کے معیار کو برقرار رکھنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔ یہ عام شاعری سے کچھ جدا ہے۔ یہی سبب ہے کہ زیادہ تر شعرا اس میں دل چسپی نہیں لیتے۔ قدیم شعرا میں کچھ استاد شعرا گاہے گاہے تاریخی قطعات کہتے تھے لیکن اب تو تاریخی قطعات کہنے والے گنتی کے شعرا رہ گئے ہیں۔ اس فن کا سب سے اہم مقصد رونما ہونے والے اہم واقعات کے سال کو محفوظ رکھنا ہے۔ ولادت، شادی، وفات، کتابوں کی تصنیف، بادشاہوں کی تخت نشینی اور فتوحات وغیرہ اس کے خاص موضوعات میں شامل ہیں۔
فن ِ تاریخ گوئی (Chronogram) میں کسی خاص واقعے کے سال یا تاریخ کو حروفِ ابجد کے حساب سے نظم کرنے کی روایت ہے۔ جس مصرعے، فقرے یا ترکیب سے کوئی سال معلوم ہوتا ہے اسے ما دۂ تاریخ کہتے ہیں۔ اس کی بھی دو شکلیں ہیں، صوری و معنوی۔ صوری تاریخ میں الفاظ سال کی نشان دہی کرتے ہیں اور معنوی تاریخ میں ابجد کے حساب سے اعداد ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر اعداد پورے کرنے کے لیے کچھ الفاظ یا حروف بڑھانے پڑیں تو اس عمل کو تعمیہ اور الفاظ و حروف گھٹانے پڑیں تو اسے تخرجہ کہا جاتا ہے۔ مغربی مفکرین کی رائے میں یہ ایک جملہ یا نوشتہ ہے جس میں مخصوص حروف ہوتے ہیں جنھیں ہندسوں سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے دوبارہ ترتیب دے کر ایک خاص تاریخ کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یوں تو شعراے قدیم سے لے کر آج کے شعرا نے بھی گاہے گاہے تاریخی قطعات کہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس صنف سخن پر بہت کم کتابیں دستیاب ہیں۔ میری نظروں سے جن کتابوں کا ذکر گزرا ہے، وہ ذیل میں درج ہیں۔
1.قطعاتِ تاریخ تاجِ سخن (1910),دیوانِ اول، جلیل مانک پوری
2. رباعیاتِ شاد مع قطعات و قطعاتِ تاریخ (1915)، مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد
3.قطعات تاریخ تاجِ سخن (1931) جلیل مانک پوری
4. جامع التاریخ (1937)، مولانا سید دلدار حسین اظہر الہ آبادی
5. مجمع التواریخ (1983)- فضل نقوی
6.قطعات تاریخ بر وفات اہلِ قلم و متعلقینِ اہلِ قلم (1985) شان الحق حقی
7.قصائد و قطعات تاریخ (1995) جلیل مانک پوری-مرتب: ڈاکٹر علی احمد جلیلی
8. مجموعہ گل ہائے تاریخ (1441ھ)-مظہر محمود شیرانی
مذکورہ کتابوں کی فہرست سے یہ پتا چلتا ہے کہ جلیل مانک پوری ماہر تاریخ گو تھے اور یہ کہ ان کا دیوان بھی ہے۔
مغربی بنگال کے شعر و ادب کے منظرنامے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی تاریخی قطعات کہنے والے شعرا گزرے ہیں جن میں علامہ رضا علی وحشت، ناطق لکھنوی، سمیع اللہ اسد، اقبال کرشن، کیف الاثر، حامی گورکھپوری، علقمہ شبلی، شکیل نبی نگری اور خالد قمر اہم ہیں۔ موجودہ دور میں تاریخی قطعات لکھنے والے شعرا میں سفیرالدین کمال، عیسیٰ رشک، مظفر مینائی اور مجسم ہاشمی ہیں۔
مغربی بنگال کے لیے یہ خبر باعث فخر ہے کہ پہلی بار تاریخی قطعات کی ایک کتاب منظرِ عام پر آئی ہے اور وہ بھی دیوان کی شکل میں۔ اس کا سہرا عیسیٰ رشک کے سر جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک اچھے شاعر ہیں بلکہ عروض پر ان کی گرفت قابلِ رشک ہے۔ ان کی کتاب ”دیوانِ رشک" میں تقریباً 165قطعات ہیں۔ ان میں کثیر تعداد وفات کے قطعاتِ تاریخ ہیں جن کی تعداد تقریباً 72 ہے۔ تقریباً 20 قطعات کتابوں کی رونمائی سے متعلق ہیں۔ مزید قطعات ولادت، شادی خانہ آبادی، استقبال یا ایوارڈ سے متعلق ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تاریخی قطعات عیسیٰ رشک کی شاعرانہ صلاحیتوں کے عمدہ عکاس ہیں۔ مذکورہ کتاب کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے اس کتاب کو منصۂ شہود پر لانے کے لیے کڑی محنت اور ریاضت کی ہے۔ تاریخی قطعات کا یہ مجموعہ ان کی فن کاری کی دلیل ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انھوں نے اس دیوان کو مکمل کرنے میں کچھ موضوعات کو دہرایا ہے لیکن جہاں تک فن کی بات ہے تو انھوں نے اپنی گرفت کو کہیں ڈھیل نہیں دی ہے۔ یہ ہنرمندی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ تاریخی قطعات کی نفسیات اور داخلی کیفیات سے وہ مکمل طور سے بہرہ ور ہیں اور انھوں نے مذکورہ دیوان میں روایت کی پاس داری کے ساتھ دورِ جدید کے بدلتے رویوں، فنی پابندیوں اور زبان و بیان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے جو کہ ایک دشوار کام ہے۔ یہ کہنا غالباً مبالغہ نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کو بروئے کار لاکر قابلِ رشک تاریخی قطعات کہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دیوان اردو زبان و ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہوگا۔ عیسیٰ رشک نے اکابرین کی دنیا سے رخصتی پر جو تاریخی قطعات کہے ہیں وہ فنی اعتبار سے معیاری ہیں۔ ثبوت کے طور پر چند قطعات بر وفات احسن شفیق، حشم الرمضان، خواجہ جاوید اختر اور بیکل اتساہی ملاحظہ فرمائیں۔
قطعہ تاریخ عیسوی
احسن شفیق چل بسے، تھے شاعر و ادیب
احسن پہ رب کرے کرم و لطف بے حساب
چودہ تھی دسویں ماہ کی منگل کا رشک دن
” بخشش کرو شفیق کی اللہ” تم شتاب- 2014 ء
قطعہ تاریخ عیسوی
سخن میں شاعر، صفت میں صوفی
چلا جہاں سے ترے کرم پر
ہے التجا رشک کی خدایا
ہو ” ابر بخشش کرم چشم ” پر- 2013 ء
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:شہرِ غزل کا روشن منارہ: ڈاکٹر مشتاق انجم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے