شہرِ غزل کا روشن منارہ: ڈاکٹر مشتاق انجم

شہرِ غزل کا روشن منارہ: ڈاکٹر مشتاق انجم

عظیم انصاری
جگتدل، مغربی بنگال
رابطہ: 91631964776

شاعری کسی بھی زبان و ادب کی جان ہوا کرتی ہے لیکن جہاں تک اردو شاعری کی بات ہے تو اس کی مقبولیت کے کیا کہنے۔ معروف شاعر و ادیب مرحوم وحید عرشی نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جو شخص بھی اردو سیکھ لیتا ہے وہ کم سے کم زندگی میں ایک شعر ضرور کہتا ہے۔ اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف غزل ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو فارسی زبان سے ہوتے ہوئے اردو زبان تک آیا ہے۔ اس کے معنی ہیں عورتوں سے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے۔ قدیم شعرا کا موضوع حسن و عشق ہی ہوا کرتا تھا لیکن بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں نمایاں تبدیلیاں آتی گئیں اور آج غزل میں ہر طرح کے مضامین باندھے جاتے ہیں۔ غزلیہ شاعری الفاظ و آہنگ کے تال میل پر مبنی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے غنائی صنف بھی کہتے ہیں کیونکہ ترنم و موسیقی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ اردو شاعری کا بیشتر سرمایہ غزلوں پر مشتمل ہے۔ دکن کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ بھی غزل گو تھا۔ میر، غالب، ذوق و مومن جیسے شاعروں نے غزل کے حسن کو دوبالا کیا تو بعد کے شاعروں نے اس کے گیسو سنوارتے سنوارتے اسے زندگی کی سچائیوں سے قریب تر کردیا۔ زمانے کے نشیب و فراز سے گذرنے کا یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے. بہ قول علقمہ شبلی:
"غزل ایک ایسی نگارِ خود آرا ہے جو بہ آسانی کسی کو منھ نہیں لگاتی۔ اس کی شانہ کشی کی تمنا تو ہر شاعر کو ہوتی ہے لیکن اس کا شرف ان چند شاعروں کو ہی ہوتا ہے جو اسے نئی آب و تاب اور رعنائی و دل کشی سے آراستہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔"
آئیے آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے ہی شاعر سے کراتے ہیں جو نئی آب و تاب کے ساتھ غزل کو آراستہ کرنے کا ہنر جانتا ہے. جسے دنیائے ادب ڈاکٹر مشتاق انجم کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ یہ بیک وقت ایک مقبول افسانہ نگار، ناول نویس اور کامیاب مترجم ہیں اور ساتھ ہی ایک خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1980 میں افسانہ نگار کی حیثیت سے کیا۔ اب تک افسانے کی تین کتابیں آچکی ہیں۔ "رانگ نمبر" کے نام سے ایک ناول بھی لکھا ہے۔ بنگلہ زبان کے دو ناولوں کا انھوں نے کامیاب ترجمہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق انجم نے اپنے شعری مجموعہ "آسماں پہچانتا ہے (2010)" کے پیشِ لفظ میں اپنی شاعری سے متعلق ان خیالات کا اظہار کیا ہے
"مجھے یاد نہیں کہ شعر کہنے کی خواہش میرے اندر کب جاگی لیکن جون 1985 میں پہلی بار جب اس خواہش نے سر ابھارا تو نظمیں، غزلیں، رباعیاں اور ماہیے کہنے کا سلسلہ شروع ہوا جو تا حال جاری ہے لیکن قتیل شفائی کا یہ شعر ہمیشہ پیشِ نظر رہتا ہے
کم کم کہو، سنبھل کے کہو، شان سے کہو 
روداد شوق ضبط کے عنوان سے کہو "
ڈاکٹر مشتاق انجم نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن میں یہاں ان کی غزل گوئی پر ہی روشنی ڈالوں گا۔ ایک بات تو طے ہے کہ ڈاکٹر مشتاق انجم نے اپنی شاعری سنبھل سنبھل کے کی ہے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے جہاں قدما سے استفادہ کیا ہے وہیں جدید تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا ہے۔ جو شخص سات کتابوں کا خالق ہو تو اس کی بالغ ذہنی کے کیا کہنے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں مشاہدات و تجربات کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وہ ایک شخص جو موجود ہے مرے اندر
زمیں کو عرش کرے، ذرے کو گہر کردے
نہ پا کے میں نے اسے اس طرح بھی پایا ہے
کہ مجھ سے ملتا ہے وہ شخص اجنبی کی طرح
قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے
کیوں اٹھاتے ہو عبث دیوار میری راہ میں
سوئے منزل تو مجھے عزمِ سفر لے جائے گا
بعدِ تکمیل ہوئی گھر کی حقیقت معلوم
گھر کہاں بنتا ہے دیوار سے، چھت سے، در سے
ظلم اس کا تو اٹھانا تھا اٹھایا لیکن
آگیا مجھ کو بھی جینے کا ہنر اس کے بعد
آسماں پہچانتا ہے میرے گھر کا راستہ
بجلیوں کا سلسلہ میرے مکاں کے ساتھ ہے
مندرجہ بالا اشعار ڈاکٹر مشتاق انجم کی بالغ نظری کی عمدہ مثال ہیں۔ ان اشعار میں روایت کے ساتھ جدت اور ندرت کے حسین عکس نمایاں ہیں، ساتھ ہی ان کا انفرادی لہجہ بھی روشن نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق انجم کے شعری مجموعہ کی تقریظ میں سالک لکھنوی نے لکھا ہے کہ:
"فنون لطیفہ کا کوئی فنکار ہو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر کسی دوسرے کا ہم خیال ہوتے ہوئے بھی جب اس خیال کو پیش کرتا ہے تو اندازِ بیان بدل جاتا ہے۔ آواز کے زیر و بم میں فرق آجاتا ہے، الفاظ بدل جاتے ہیں اور خیال ایک نیا لباس پہن لیتا ہے۔ یہی تبدیلی اس فنکار کا رنگ بن جاتی ہے اوروہ دوسروں سے الگ نظر آتا ہے۔"
ڈاکٹر مشتاق انجم کی غزلوں میں مرصع سازی اور میناکاری زبان کی فصاحت اور سلاست ہے۔ وہ رموز شاعری سے کماحقہ واقف ہیں اور اسی سبب وہ سادہ و سلیس زبان میں بلیغ بات کہہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں۔
نہ آرزوئے صدف ہے نہ جستجوئے گہر
یہی بہت ہے کہ اس سمت وہ نظر کردے
کام لیتا ہے مجھی سے وہ مصیبت میں سدا
بھول جاتا ہے مگر مجھ کو میرے کام کے بعد
اسی نے سنگِ عداوت مری طرف پھینکا
وہ ایک شخص جو کل تک مری پناہ میں تھا
دھوپ اوڑھے سر برہنہ لوگ ہیں گرمِ سفر
لطف موسم کا جدا، منزل کی لذت ہے جدا
رائج الوقت ہیں بازار میں کھوٹے سکے
جو کھرے ہیں انھیں ہوتے ہوئے رسوا دیکھا
شہرہ آفاق ناقد شمس الرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے:
"شاعری کی بنیاد مضمون ہے اور مضمون کی بنیاد استعارہ ہے۔ استعارہ ہمیں دنیا کے نئے نئے انداز دکھاتا ہے اور زندگی کی نئی نئی تعبیرات تک پہنچنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ شاعری کی زبان کو اظہارِ ذات اور انکشافِ حیات کے لائق بنانے کے لیے زبان کی اوپری سطح پر استعارہ کا سہارا لینا اشد ضروری ہے۔"
ڈاکٹر مشتاق انجم بھی اس ہنر میں کمال رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں ایسے اشعار کو اس سلیقے سے برتا ہے کہ بے ساختہ زبان سے واہ نکل جاتی ہے اور یہی وصف ان کی شاعرانہ بصیرت کی دلیل بھی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند اشعار دیکھیں:
مرے مزاج کی جولانیاں سمجھ اے چرخ!
رہِ حیات ہو آساں تو پرخطر کردے
حوصلوں کی چھاؤں میں رہتا ہوں سرگرمِ سفر
دھوپ کیا روکے گی بڑھ کر راستہ میرے لیے
پڑھنا ہے تو دل کو پڑھیے، دل ہی آئینہ ہے
چہرے پر چہرے ہیں کتنے ان کو پڑھنا کیسا
بیچ دو پاٹوں کے پس پس کر جیے
اک زمیں تھی اور اک تھا آسماں
کبھی تھی رسمِ جہاں بتیاں جلانے کی
وہیں ہے اب تو چلن بستیاں جلانے کا
نکلنا ڈوب کر سورج کا یہ پیغام دیتا ہے
خدا کی ذات سے انساں کبھی غافل نہ بن جائے
ہماری آنکھوں کا رشتہ چمکتے جگنؤں سے ہے
کبھی چڑھتے ہوئے سورج کی ہم پوجا نہیں کرتے
چھوٹی بحر میں غزل کہنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ اس میں مضامین کو باندھنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو شاعر چھوٹی بحر میں اچھی غزلیں کہتا ہے وہ یقیناً ایک اچھا فن کار ہے۔ چھوٹی بحر میں روانی کے ساتھ بات مکمل کرنا بڑی ہنر مندی کا کام ہے۔ یہ ہنرمندی مشتاق انجم کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں پیچیدگی بھی کم ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں: 
ذہن و دل کی جنگ کا حاصل یا اللہ!
کس نے کس کو الجھایا، میں کیا بولوں
گفتگو کون سے موڑ پر آگئی
میں کہیں مختصر، تم کہیں مختصر
رات، طوفانی ہوا، بارش کا زور
زندگی اک ناتواں چھپر لگے
آنکھ پر انصاف کی پٹی ہے اور
ہاتھ لمبا ہے بہت قانون کا
اسے کیا پتا، کیا ہے صحرا نوردی
ہواؤں کی جو بے زبانی میں گم ہے
قلم حق بات لکھ کر کیا کرے گا
کہیں اس کا کوئی قاری نہیں ہے
چھپ گیا زخمِ دل تبسم میں
ایسے پردے کا کچھ جواب نہیں
صبح دم کتنے فسانوں کا جہاں
ایک اخبار ہمارے آگے
انسان سماج کا اٹوٹ حصہ ہے۔ جس سماج میں وہ رہتا ہے، اس کے اردگرد کے تمام منظر پس منظر پر وہ اپنی نگاہ رکھتا ہے اور اپنے محسوسات کو اوروں پر اپنی عقلِ سلیم کے مطابق ظاہر کرتا ہے۔ ادب ان سماجی محسوسات کا آئینہ دار ہے۔ ایک بالغ نظر شاعر جب ان محسوسات کو شعری جامہ پہناتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔ عصری آگہی کا ادراک شاعر کو صرف سماج سے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا سے قریب کردیتا ہے۔ آج بہت سے شعرا عصری مسائل کو اجاگر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق انجم بھی ایسے ہی شعرا کی صف میں آتے ہیں۔ معروف بزرگ شاعر و ادیب حضرت قیصر شمیم کا کہنا ہے:
"مشتاق انجم اپنی آنکھیں بند نہیں رکھتے۔ وہ کھلی آنکھوں سے اپنے دور کے تمام حقائق کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور جائزہ لینے کے دوران ان کے دل میں جو کیفیات اجاگر ہوتی ہیں، انھیں وہ شعری قالب عطا کرتے ہیں۔"
آئیے اس روشنی میں ڈاکٹر مشتاق انجم کے ان اشعار کو دیکھیں:
گرم ہے بازار قتل و خون کا
کیا نومبر، کیا مہینہ جون کا
منظروں میں آنکھ ہے الجھی ہوئی
اور کیسی بے بسی ہے آج کل
جب سے بچے نے کھلونے سے بہلنا چھوڑا
دس برس میں ہی اسے تیس کے سن کا دیکھا
اک جانب ہے کالا پربت، دوسری جانب کھائی ہے
پربت کاٹ کے راہ نکالو، آج اسی میں بھلائی ہے
کیسے کٹتا ہے جگر، آنکھ سے بہتا ہے لہو
کتنے دلدوز ہیں حالات ہمیں جانتے ہیں
انجم قدریں بھاگ رہی ہیں تیزی سے
شاخِ گل کی جنبش سے ڈر جاؤں میں
آئینوں کی بھیڑ میں بھی دیکھئے
کس قدر بے چہرگی ہے آج کل
ایک چہرے کے بہت سے روپ ہیں
کس سے نفرت، کس کا ارماں کیجئے
مطلبی دور میں اخلاص کا پیکر وہ شخص
اس نے رکھا ہے بھرم پچھلے داستانوں کا
مشتاق انجم کی غزلوں میں کلاسیکی رچاؤ بھی ہے اور جدید رنگوں کی آمیزش بھی لیکن اس میں ان کا انفرادی لہجہ بھی جھلکتا ہے۔ اس قبیل کی غزلیں اس دورِ انتشار میں سامعین اور قارئین کے دلوں کے لیے راحت کا سامان بنی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق انجم کی غزلوں میں بھی ایسے اشعار موجود ہیں، ملاحظہ کریں:
مرے خیال کے رشتے کو با اثر کردے
میں اس کو سوچ رہا ہوں، کوئی خبر کردے
یاد تو آئے کئی چہرے ہر اک گام کے بعد
کوئی بھی نام کہاں آیا ترے نام کے بعد
مہربانوں میں ترا نام تو لکھا ہے مگر
خوب واقف ہوں مری جان ترے تیور سے
تیرے بوسے کا کرشمہ تھا کہ نظروں کا کمال
سنگ کو ہونا پڑا رشکِ گہر اس کے بعد
روزن کھلا تھا دل کا، ہوائیں بھی آئی تھیں
لیکن قریب تر تھا جو دلبر کہاں گیا
کیا کہوں، کیوں کہوں اور کس سے کہوں
قصۂ درد میرا نہیں مختصر
چوم کر ہاتھ مرا دیتا ہے وہ دل کو کسک
کیسا دشمن ہے کہ جو جان سے بھی پیارا ہے
ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر مشتاق انجم شہرِ غزل کے ایک اچھے سخنور ہیں اور ان کے اشعار میں روایت کی پاس داری کے ساتھ ندرتِ خیالی بھی ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری لہجے و آہنگ کے سبب نئے امکانات کو اجاگر کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ امکانات مزید روشن ہوں گے۔
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات:  ایک اہم تحقیقی کاوش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے