کتاب: جدوجہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے)

کتاب: جدوجہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے)

فارحہ امتیاز
اکبر پور، پریاگ راج، الہ آباد

گذشتہ ہفتے یوم آزادی کے موقعے پر الہ آباد یونی ورسٹی کی صدر شعبہ عربی و فارسی، پروفیسر صالحہ رشید کی ساتویں کتاب بہ عنوان ”جد و جہد آزادی۔۔(چند آزادی خواہوں کے قصے)“ منظر عام پر آئی جس نے اپنے عنوان اور موقع اشاعت کی وجہ سے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ اس کتاب کا کور بہت معنی خیز ہے۔ اس پر بیگم حضرت محل کی تصویر بیک گراؤنڈ سے ابھرتی نظر آتی ہے اور ساتھ میں میدان جنگ میں فوجیں دکھائی دیتی ہیں۔ اوپر آزادی کے امرت مہوتسو کا لوگو لگا ہوا ہے۔ کل ملا کر کور پیج اپنے درون سمائی داستان کو اشارتاً سمجھا دیتا ہے۔ یہ ١١٦/ صفحات اور ۱۳/ مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کے انتساب پر نظر ڈال لیتے ہیں۔۔”ان انقلابیوں کے نام جن کے خون کے قطروں سے لفظ آزادی رقم ہوا۔“ اس ایک جملے کی معنویت غور طلب ہے۔ اس کے پیش لفظ میں وہ لکھتی ہیں۔۔”گذشتہ برس حکومت ہند نے آزادی کے ٧٥ ویں سال کو خصوصی طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ ١٢/مارچ ٢٠٢١ سے یہ سلسلہ شروع ہوا جس کا ٧٥ واں ہفتہ ١٥/ اگست ٢٠٢٢ء کو پورا ہوگا۔ اس یوم آزادی کو بہت بڑے پیمانے پر منائے جانے کی تیاری ہے۔ اس پورے ٧٥ / ہفتہ کے دورانیہ کو آزادی کا امرت مہوتسو گردانا گیا۔ اس کے تحت ہم ہندستانیوں کو جنگ آزادی کے اسباب و علل اور اس میں شریک لوگوں کے کوائف کو جاننا اور اس داستان کو محفوظ کرنا ہے تاکہ آئندہ نسل اس تاریخ سے واقف ہو سکے۔“ اسی عظیم مقصد کے تحت یہ کتاب لکھی گئی۔ اس میں شامل مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں: 
پہلا مضمون بہ عنوان ’خار پای فرنگیان۔مولوی لیاقت علی؛ یہ وہی لیاقت علی ہیں جنھوں نے دس دن تک انگریزوں سے الہ آباد کو آزاد رکھا اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر کوتوالی پر بادشاہ کا پرچم لہرا دیا تھا۔دوسرا مضمون مرزا غالبؔ کی جنگ آزادی کی آنکھوں دیکھی داستان پر مبنی ہے۔ اس کے بعد مومن کانفرنس کے بانی عاصم بہاری اور ان کے خاندان کی روداد پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جدوجہد آزادی میں مسلم خواتین کا کردار بھی اپنے اندر پچاس ایسی خواتین کی داستان سمیٹے ہے جن کے بارے میں ہم کم ہی جانتے ہیں۔ آزادی کا پرچم اٹھائے بی اماں تو اس مہم میں پیش پیش رہیں۔ ان کے ساتھ ہی بیگم رقیہ سخاوت حسین جن کے نام پر آج بنگلا دیش میں یوم تعلیم منایا جاتا ہے اور مہاراشٹرا میں پہلا لڑکیوں کا اسکول قائم کرنے والی فاطمہ شیخ اور عثمان شیخ، پھر قومی پرچم کو حتمی شکل دینے والی کمیٹی میں شامل بیگم ثریا طیب جی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ الہ آباد میں مسلم بورڈنگ ہاؤس قائم کرنے والے مولوی سمیع اللہ خان، یہاں کے رہنے والے طلبا میں بیداری کی غرض سے لکھا گیا مولانا اسمٰعیل میرٹھی کا قصیدہ، الہ آباد یونی ورسٹی کے پہلے استاد مولوی ذکاء اللہ کی تعلیمی خدمات، مولانا ابو الکلام آزاد کی علمی کارگذاریاں اور گاندھی جی کی جان بچانے والے بطخ میاں انصاری جیسے مضامین شامل ہیں۔ یہ عنوان عام طور پر جنگ آزادی سے متعلق لکھی جانے والی تحریروں سے کچھ الگ نظر آتے ہیں۔ دراصل ان میں عہد تو ١٨٥٧ء کا ہی ہے مگر تعلیم کا فقدان اور اس کے سبب ہندستانیوں کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست موصوفہ کے پیش نظر رہی، اس لیے اس کتاب میں تعلیمی مسائل غالب ہیں یا ایک وجہ اور ہو سکتی ہے کہ وہ خود درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ایک خاتون ہیں لہٰذا خواتین اور تعلیم دو عنصر فطری طور پر راہ پا جاتے ہیں۔ بہر صورت کتاب جنگ آزادی سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ اسے ضیاے حق فاؤنڈیشن پبلیکیشنز ہاؤس نے پریاگ راج سے شایع کیا ہے اور اس کی قیمت دو سو روپے ہے۔ امید ہے پروفیسر صالحہ رشید کی اس کتاب کی اہل ذوق قارئین کے درمیان خاطر خواہ پذیرائی ہو گی۔ ان شاء اللہ
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب جد و جہد آزادی کی رسم اجرا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے