مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

بافیض عالم دین، حاذق حکیم، حضرت مولانا شاہ عبد القادری رائے پوری کے خلیفہ و مجاز صحبت، خانقاہ قادریہ شفائیہ کے بانی و سجادہ نشیں، مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کی مجلس شوریٰ کے رکن، بزم عرفان وحدت اور بزم صحبائے وحدت کے رمز شناش، عظیم مصلح، ظاہری طور پر مکمل مرداں حسن کے شاہ کار، خوب صورت اور نفیس رکھ رکھاؤ والے حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسار پوری ۲۲؍ جولائی ۲۰۲۲ء ۲ ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ کو نوے برس کی عمر میں بروز جمعہ نماز جمعہ سے قبل آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے، جنازہ کی نماز بعد مغرب حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم ناظم مدرسہ مظاہر علوم نے پڑھائی اور مقامی قبرستان سنسار پور میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیوں کو چھوڑا۔
مولانا حکیم سید مکرم حسین بن مولانا حکیم سید اسحاق بن حکیم سید حسن کی ولادت قصبہ سنسار پور، مظفر آباد بلاک ضلع سہارن پور، اتر پردیش میں نواسی سال قبل ہوئی، آپ کے دادا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کے خلیفہ مجاز تھے، آپ کے جد امجد مولانا حکیم سید فیض الحسن صاحب اور صوفی سید کرم حسین رحمہما اللہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے چشمۂ صافی سے تصوف و سلوک کی تشنگی بجھائی تھی اور حضرت گنگوہی نے انھیں خلافت دی تھی، ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔
اسی قصبہ میں واقع مدرسہ فیض رحمانی سے آپ نے ابتدائی تعلیم سے عربی چہارم تک تعلیم پائی، حفظ قرآن کی تکمیل بھی یہیں سے کی، یہاں حضرت کے والد درس و تدریس سے وابستہ تھے اس لیے شرح جامی تک کی بیش تر کتابیں خود اپنے والد یا ان کی نگرانی میں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں، پھر جامعہ مظاہر العلوم سہارن پور تشریف لے گئے اور ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۹۴۹ء میں اکابر علما کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرکے سند فراغت حاصل کی۔
علوم و فنون میں کامل دسترس کے بعد آپ تصوف و سلوک کی طرف متوجہ ہوئے، حالاں کہ آپ کا پورا خاندان اس معاملہ میں آگے تھا اور سوزومستی، جذب وشوق، عشق الٰہی و نبوی سے پورا گھرانا سرشار تھا، اس کے با وجود آپ نے خانقاہ رائے پور کا انتخاب کیا اور حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری
جو محبت رسول اور عبدیت کی شمع فروزاں کرنے میں ممتاز ہی نہیں، ممتاز ترین تھے، کے دست با فیض سے اپنے کو منسلک کر لیا، حضرت رائے پوری نے اپنے اس مرید پر خصوصی توجہ فرمائی؛ جس سے مولانا کا قلب جو پہلے ہی خاندانی ماحول اور ذکر و فکر کی وجہ سے مصفیٰ تھا، مجلّٰی ہوگیا، حضرت نے خلافت عطا فرمائی تو لوگوں کا رجوع آپ کی طرف ہونے لگا. آپ متبع سنت اور اپنے مرشد کی تعلیمات پر پوری طرح عامل تھے، بعد میں خواب میں مرشد کے اشارے کو پاکر آپ نے سنسار پور میں ہی خانقاہ قادریہ شفائیہ کی بنیاد ڈالی اور متوسلین کی اصلاح اور تزکیہ نفس کا فریضہ پوری زندگی انجام دیتے رہے۔
آپ نے زندگی کے کسی مرحلہ میں علوم دینیہ اور تصوف کو معاش کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، معاش کے لیے آپ نے خاندانی پیشہ طبابت و حکمت کو اپنایا، آپ اپنے وقت کے طبیب حاذق اور کامیاب معالج تھے، نبض دیکھ کر نہ صرف جسمانی امراض سے واقف ہوجاتے؛ بلکہ روحانی اعراض و امراض کی بھی نشان دہی فرماتے، دونوں کا علاج بتاتے، اللہ تعالیٰ نے دست شفا عطا فرمایا تھا، آپ کا مطب دوائے جسمانی اور روحانی دونوں کا مرکز تھا اور مخلوق خدا آپ کی دونوں صلاحیت سے بہ قدر ظرف مستفید ہوا کرتی تھی، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کے آپ آخری خلیفہ تھے، جو حیات تھے، مولانا کی وفات سے اس سلسلۃ الذھب کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی۔
مولانا مرحوم خلقی طور پر وجیہ اور خوش رو واقع ہوئے تھے، ذکر الٰہی کی روشنی ان کے چہرے پر کھلی آنکھوں دیکھی جا سکتی تھی۔ علوم و سلوک میں منتہی درجہ پر پہنچنے کے باوجود آپ کے اندر تواضع اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لہجہ سبک، الفاظ نرم اور اصلاح کی قلبی تڑپ سے جو آتا اسیر ہو کر رہ جاتا، نظروں سے بجلی گرانے کا محاورہ تو عام ہے، لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ’’نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ اس کے صحیح مصداق اور مظہر اتم آپ تھے۔
آپ کا سلوک ہر ایک کے ساتھ عالمانہ، داعیانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا تھا، منفی باتوں کو مثبت رخ دینے کا ہنر آپ کو خوب آتا تھا، وہ گالیاں سن کر دعائیں دینے کے نبوی طریقہ پر کار بند تھے، اس لیے آپ کے مخالفین بھی آپ کے چشم عنایت اور دست با برکت سے فائدہ اٹھا لے جاتے تھے، جس طرح سورج کی روشنی ہر کہہ و مہہ کو منور کر دیتی ہے ویسے ہی آپ کی محبت و شفقت اور عشق الٰہی کی روشنی سے سبھی فائدہ اٹھاتے اور سبھی بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیثیت خدا بیزار اور دین سے دوری کے اس دور میں قندیل رہبانی کی تھی جس سے ظلمتیں دور ہوتی تھیں، قندیل رہبانی ایک لفظ ہے جس سے بات کو سمجھایا جاتا ہے، ورنہ مولانا کے یہاں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں تھا، وہ عوام کے درمیان رہ کر ’’خلوت در انجمن‘‘ کا مزہ لیا کرتے تھے، اس کے لیے صحرا نوردی نہ اسلام میں جائز ہے اور نہ مولانا اس کو پسند کرتے تھے، اسلام نے رہبانیت سے منع کیا ہے، اس لیے وہ قندیل رہبانی بن بھی نہیں سکتے تھے، وہ عوام کے درمیان رہا کرتے تھے، خویش و اقارب بیوی بچے سب کے ساتھ ہوتے تھے، اور سب کی تربیت میں لگے رہتے تھے، اس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہھں محبوبیت اور مقبولیت دونوں عطا کی تھی، مولانا کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، اور کہنا چاہیے کہ ایک چراغ اور بجھا، روشنی اور گھٹی۔
اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور خانقاہ قادریہ شفائیہ سنسار پور کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے. خانوادے کے ساتھ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے مریدین، متوسلین اور معتقدین کو بھی۔ مولانا سے میری ذاتی ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی تھی، لیکن مشک کی خوشبو دور تک پھیلتی ہے اور نادیدہ لوگوں کے مشام جاں کو بھی معطر کرتی ہے، یہ حقیر ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کتاب: اسلام اور مسلمان (جلد دوم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے