اہل بیت کے لیے علیہ السلام کہنے کا جواز

اہل بیت کے لیے علیہ السلام کہنے کا جواز

محمد شہباز عالم مصباحی*

کچھ سالوں پہلے جب میں نے اہل بیت اطہار کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام بالالتزام لکھنا شروع کیا تو میرے بعض احبابِ علما معترض ہوئے اور کہا کہ یہ طریقۂ اہل سنت کے بر خلاف ہے اور اس میں اہل تشیع کی پیروی ہے، خصوصی طور پر میرے علاقے ہی کے فاضل گرامی مفتی محمد شمشیر علی مصباحی بڑے ناراض دکھائی دیے اور مجھے کچھ سخت سست بھی کہا۔ تبھی سے میرے ذہن میں تھا کہ ایک مفصل مقالہ اس حوالے سے لکھنا ہے، لیکن فرصت کے لمحات میسر نہیں ہو رہے تھے، کیوں کہ میں ایک مختلف الجہات شخص ہوں، تحریر و قلم کے علاوہ تنظیم و جماعت سے بھی دل چسپی ہے اور سیاست حاضرہ سے بھی لگاؤ، مخصوص آف لائن و آن لائن پروگراموں اور سیمیناروں میں داعیین کے اصرار پر شرکت کرنا بھی ضروری رہتا ہے، اقربا و احباب کے یہاں مزاج پرسی کے لیے آنا جانا بھی لازمی اور پھر کالج کی تدریسی و ادارتی ناگزیر مصروفیات اور ادھر سال گزشتہ 11 اکتوبر، 2021 میں والد کریم جناب محمد اقبال نوری مرحوم کی وفات کے بعد تو میرے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہوگیا ہے کہ گھر کی ساری ذمہ داریاں اچانک میرے ناتواں کندھوں پر آن پڑی ہیں۔ خیر اس بار کے اول عشرۂ محرم کو چونکہ میں نے سنت مخدومی پر عمل کرتے ہوئے اہل بیت کے لیے مختص کردیا ہے تو اسی دوران میں نے اس مقالۂ معہود کو لکھنے کا عزم کرلیا اور اب وہ مقالہ آپ قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔
سب سے پہلے اسی حوالے سے سراج الہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (ف: 7 شوال، 1239ھ) کے فتاویٰ عزیزی (مترجم اردو) سے ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ کریں:
سوال: تحفۂ اثنا عشریہ میں صلوۃ و سلام یعنی درود و سلام بالاستقلال بارہ امام کے حق میں لکھا ہے، حالانکہ یہ امر اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ناجائز ہے۔ اس واسطے کہ اس میں اہلِ بدعت کی مشابہت لازم آتی ہے اور اہلِ سنت نے ایسی مشابہت سے پرہیز کرنا اپنے لیے لازم جانا ہے تو اس امر کے جواز کے لیے سند اہل سنت کی کتب معتبرہ سے بیان کرنا چاہیے۔
جواب: تحفۂ اثنا عشریہ میں کسی جگہ صلوۃ بالاستقلال غیر انبیا کے حق میں نہیں لکھا گیا، البتہ لفظ "علیہ السلام" کا حضرت امیر المومنین و حضرت سیدۃ النساء و جناب حسنین و دیگر أئمہ کے حق میں مذکور ہے اور اہلِ سنت کا مذہب یہی ہے کہ صلوٰۃ بالاستقلال غیر انبیا کے حق میں درست نہیں اور لفظ سلام کا غیر انبیا کی شان میں کہہ سکتے ہیں۔ اس کی سند یہ ہے کہ اہل سنت کی کتب قدیمۂ حدیث میں علی الخصوص ابو داؤد و صحیح بخاری میں حضرت علی و حضرات حسنین و حضرت فاطمہ و حضرت خدیجہ و حضرت عباس کے ذکر مبارک کے ساتھ لفظ علیہ السلام کا مذکور ہے۔ البتہ بعض علماے ماوراء النہر نے شیعہ کی مشابہت کے لحاظ سے اس کو منع لکھا ہے، لیکن فی الواقع مشابہت بدوں کی امر خیر (غیر) میں منع ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ پہلی کتاب اصول حنفیہ کی شاشی ہے۔ اس میں نفس خطبہ میں بعد حمد و صلٰوۃ کے لکھا ہے: "والسلام على أبي حنيفة واحبابه" یعنی سلام نازل ہو حضرت ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ پر اور آپ کے احباب پر۔ اور ظاہر ہے کہ مرتبہ حضرات موصوفین کا جن کا نام نامی اوپر مذکور ہوا حضرت امام اعظم کے مرتبہ سے کم نہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت کے نزدیک بھی لفظ سلام کا اطلاق ان بزرگوں کی شان میں بہتر ہے اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ لفظ "علیہ السلام" کا غیر انبیا کی شان میں کہنا چاہیے۔ چنانچہ یہ حدیث ہے: "عليه السلام تحية الموتى" یعنی اموات کی شان میں علیہ السلام کہنا ان کے لیے تحفہ ہے. یعنی بلا تخصیص ہر میت مسلمان کے لیے لفظ علیہ السلام کا تحفہ ہے تو اہل اسلام میں غیر انبیا کی شان میں بھی علیہ السلام کہنا شرعاً ثابت ہے۔ فقط ۔ (فتاویٰ عزیزی اردو، ص:261-260، ناشر: ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل، پاکستان چوک، کراچی، سالِ اشاعت: 1408)
اس کے علاوہ سراج الہند شاہ عبد العزیز نے اپنے عربی رسالہ "سر الشہادتین" میں جابجا اہل بیت اطہار کے ناموں کے ساتھ "علیہ السلام” استعمال کیا ہے۔ چنانچہ سر الشہادتین مطبوعہ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ، لاہور کے صفحہ نمبر 72 پر ہے:
فتوجهت عناية الله تعالى بعد انقضاء أيام الخلافة إلى هذا الإلحاق فاستنابت الحسنين عليهما السلام مناب جدهما عليه افضل الصلوات والتحيات۔
صفحہ نمبر 86 پر ہے:
وكتب إلى عامله بالمدينة الوليد بن عقبة أن يأخذ البيعة من الحسين عليه السلام فامتنع الحسين عليه السلام من بيعته. ولما وصل الخبر إلى أهل كوفة اتفق منهم جمع كثير وكتبوا إلى الحسين عليه السلام يدعونه إليهم.
صفحہ نمبر 88 پر ہے:
وفي ذلك اليوم خرج الحسين عليه السلام من مكة إلى الكوفة.
صفحہ نمبر 89 پر ہے:
فقال الحسين عليه السلام لا خير في الحيوة بعدكم. لقيه الحر بن يزيد الرياحي ومعه ألف فارس من أصحاب ابن زياد شاكي السلاح، فقال للحسين عليه السلام. فقال الحسين عليه السلام.
صفحہ نمبر 90 پر ہے:
ونزل الحر وجيشه قبالة الحسين عليه السلام بأرض كربلاء ثم كتب ابن زياد كتابا إلى الحسين عليه السلام يطالبه إلى بيعة يزيد فلما ورد الكتاب على الحسين فقرأه وألقاه وقال عليه السلام للرسول ما له عندي جواب.
یہ چند مثالیں رسالے سے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر پیش کردیں۔ باقی آپ از خود پورے رسالے کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
فتاویٰ رضویہ سے غیرِ انبیا و ملائکہ کے لیے علیہ السلام کا ثبوت:
اس حوالے سے اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی فتاویٰ رضویہ میں مندرجہ ذیل عبارت چشم کشا ہے اور اہل محبت کے لیے اس میں روشن دلیل۔ ملاحظہ کریں:
حضرت سیّد الشہداء اور حضرت مولی مشکل کشا رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی مجلس ذکر شریف منعقد کرنا اور "یا علی سلام علیك" و "یا ذکی سلام علیك" کہنا کچھ حرج نہیں رکھتا، جب کہ منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔ (فتاوی رضویہ،باب الإمامة، جلد:6، ص: 609، ناشر: رضا فاؤنڈیشن، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور، پاکستان)
بیہقیِ وقت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (ف: 1225ھ) کی درج ذیل عبارتیں جن میں حسن عسکری علیہ السلام لکھا ہوا ہے، من و عن ان کی تصنیف السیف المسلول سے اعلی حضرت فاضل بریلوی فتاویٰ رضویہ میں نقل کرتے ہیں. من و عن نقل کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنا درست ہے، ورنہ اعلی حضرت علیہ السلام کو حذف کرکے نقل کرتے یا پھر اس پر حاشیہ لگا دیتے۔ اب ملاحظہ فرمائیں۔
(١) فیوض و برکات کارخانۂ ولایت اول بر یك شخص نازل می شود و ازاں تقسیم شدہ بہر یك از اولیائے عصر می رسد و بہ ہیچ کس از اولیاء اﷲ بے توسط او فیضے نمی رسد۔ ایں منصب عالی تا وقت ظہور سید الشرفاء حضرت غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر الجیلانی بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بودہ۔
کارخانۂ ولایت کے فیوض پہلے ایك شخص پر نازل ہوئے۔ پھر اس سے منقسم ہوکر ہر زمانے کے اولیا کو ملے اور کسی ولی کو ان کے توسط کے بغیر فیض نہ ملا، حضرت غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ظہور سے قبل یہ منصب عالی حسن عسکری علیہ السلام کی روح سے متعلق تھا. (فتاوی رضویہ، رسالہ بركات الإمداد لأهل الاستمداد، جلد:21، ص: 334، ناشر: رضا فاؤنڈیشن، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور، پاکستان)
(٢) بعد وفات عسکری علیہ السلام تا وقت ظہور سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبد القادر الجیلانی ایں منصب بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بود۔
حضرت عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبد القادر جیلانی کے زمانۂ ظہور تك یہ منصب حضرت حسن عسکری علیہ السلام کی روح سے متعلق رہے گا۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ حیاۃ الموات في بيان سماع الأموات، جلد:9، ص: 813، ناشر: رضا فاؤنڈیشن، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور، پاکستان)
أئمۂ اہلِ بیتِ اطہار کو چھوڑیں اعلی حضرت نے تو عام اولیا کو بھی علیہم السلام لکھا ہے۔ مثلاً فتاوی رضویہ ہی سے ملاحظہ فرمائیں:
جب قبورِ مومنین، بلکہ اولیاء علیہم السلام اجمعین کا توڑنا اور منہدم کرنا شعارِ نجدیہ وہابیہ ہوا تو کسی کو جائز نہیں ہے کہ وہ صورت مسئولہ میں قبور مومنین اہلسنت کوتوڑ کر، بلکہ ان کو کھود کر ان پر اپنی رہائش وآسائش کے مکان بناکر ان میں لذاتِ دنیا میں مشغول ومنہمك ہو، جو قطعًا ویقینا اصحاب قبور کو ایذا دینا اور ان کی اہانت اور توہین کرنا ہے جو کسی طرح جائز نہیں۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ إهلاك الوهابيين على توهين قبور المسلمين، جلد:9، ص: 432، ناشر: رضا فاؤنڈیشن، جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور، پاکستان)
اس کے علاوہ اعلی حضرت کے دیوان "حدائقِ بخشش" میں بہ کثرت اشعار ایسے ہیں جن میں اہلِ بیتِ اطہار و دیگر بزرگانِ دین پر اعلی حضرت نے بالاستقلال سلام بھیجا ہے۔ نمونے کے طور پر صرف گیارہ اشعار ہدیۂ ناظرین ہیں:
اس بتولِ جگر، پارۂ مصطفےٰ
حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام
جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اس ردائے نزہت پہ لاکھوں سلام
سیدہ، زاہرہ، طیبہ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
حسنِ مجتبٰی، سید الاسخیاء
راکبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام
اس شہیدِ بلا، شاہِ گلگوں قبا
بیکسِ دشتِ غربت پہ لاکھوں سلام
بنتِ صدیق، آرامِ جانِ نبی
اس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام
پارہائے صحف، غنچہائے قدس
اہل بیتِ نبوت پہ لاکھوں سلام
ان کے مولی کی ان پر کروڑوں درود
ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام
شافعی، مالک، احمد، امام حنیف
چار باغِ امامت پہ لاکھوں سلام
جس کی منبر ہوئی گردنِ اولیا
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
شاہِ برکات و برکات پیشینیاں
نو بہارِ طریقت پہ لاکھوں سلام
یہاں پر ایک اعتراض وارد ہو سکتا ہے۔ آپ وہ اعتراض مع جواب غزالیِ زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی علیہ الرحمۃ کی زبانی ملاحظہ کریں:
اس مقام پر یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہوگا کہ یہ سلام بالتبع ہے، بالاستقلال نہیں، کیوں کہ بالتبع سلام وہ ہوتا ہے جو تابعین کے لیے مستقلا نہ لایا جائے، بلکہ مُسلَم علیہ متبوع پر تابعین کا عطف کردیا جائے جیسے: "سلام الله على نبينا و آله أجمعين" کہ یہاں حضور کی آل پر بالتبع سلام ہے اور اگر تابع کے لیے بھی لفظ سلام ذکر کردیا جائے تو وہ سلام بالتبع نہ رہے گا، اگرچہ ماقبل پر مابعد کا عطف بھی کردیا جائے جیسے: "سلام الله على نبينا وسلام الله على آله" کہ یہاں مابعد کا عطف ماقبل پر ہے، لیکن چونکہ آل کے لیے لفظ سلام علاحدہ ذکر کردیا گیا۔ اس لیے اس سلام کو بالتبع نہیں کہ سکتے، بلکہ یہ سلام بالاستقلال ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے تمام اشعار منقولہ بالا میں اہلِ بیت و دیگر بزرگانِ دین کے لیے مستقلاً لفظ سلام بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ لہذا یہ سلام قطعاً بالاستقلال ہے۔ اس کو بالتبع کہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ (اہلِ بیت پر مستقلاً سلام کا جواز، سید احمد سعید شاہ کاظمی، ص: 21، مکتبہ اہلِ بیتِ اطہار، داتا دربار مارکیٹ، لاہور)
مانعین کے دلائل اور ان کے جوابات:
اب ذیل میں وہ دلائل ذکر کیے جاتے ہیں جو عام طور پر اس حوالے سے مانعين کی جانب سے اہل بیت کے لیے مستقلاً سلام (یعنی علیہ السلام، علیہما السلام، علیہم السلام، علیہا السلام کہنے) کے ممنوع ہونے پر دیے جاتے ہیں۔ وہ دلائل اور ان کے علمی جوابات غزالیِ زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی کی شاہ کار کتاب "اہل بیت اطہار پر مستقلاً سلام کا جواز" سے ملاحظہ کریں:
مانعين حضرات کے دلائل کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
(1) علمائے اہل سنت نے غیرِ انبیا و ملائکہ کے لیے "علیہ السلام" لکھنے کو بالاتفاق ممنوع قرار دیا ہے۔
(2) لفظ "سلام"، "صلوۃ" کے معنی میں ہے۔ لہذا صلوۃ کی طرح تنہا سلام بھی ناجائز اور مکروہ ہوگا۔
(3) رسل و انبیا علیہم السلام کے لیے صلٰوۃ و سلام کے الفاظ تعظیما استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ان کے غیر کے لیے بھی مستقلاً استعمال کیے جائیں تو غیرِ نبی کی تعظیم، تعظیمِ نبی کی مثل ہوجائے گی۔
(4) غیرِ انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے لیے صلٰوۃ و سلام یا تنہا سلام کے الفاظ استعمال کرنا روافض اور اہل بدعت کا شعار ہے۔ اس لیے یہ استعمال ناجائز ہوگا۔
علی الترتیب چاروں کا جواب حسب ذیل ہے:
(1) بالاتفاق اور علی الاطلاق غیرِ انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے لیے بالاستقلال تنہا سلام کو آج تک کسی نے ممنوع نہیں کہا اور اگر کسی نے ایسا دعویٰ کیا ہے تو اس کا تعاقب کیا گیا ہے۔
اس سلام کو ممنوع، ناجائز یا خلاف اولی کہنے والے بعض علما ہیں۔ جس کو ان کی تحقیق پر اعتماد ہو وہ اس پر عمل کرے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن مجوزین بلا کراہت سے الجھنا ان کے لیے درست نہیں، کیونکہ بالمقابل محققین اہل سنت کا ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو غیرِ انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے لیے بالاستقلال لفظ سلام استعمال کرتا ہے، پھر یہ کہ مانعین کی مراد سلام علی الاطلاق نہیں، بلکہ سلام مقید ہے جس کا ما نحن فيه سے کوئی تعلق نہیں۔ كما سنبينه إن شاء الله تعالى۔ لہذا بعض علماے اہل سنت کی وہ عبارات مانعین حضرات کے لیے مفید نہیں۔
(2) لفظ "سلام" کا "صلٰوۃ" کے معنی میں ہونا بداہۃ باطل ہے۔ اس لیے کہ دونوں کا مادۂ ترکیب، اشتقاق، وضع و ہیئت اور استعمال بالکل الگ ہے، پھر ایک معنی میں ہونا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔
البتہ امام حلیمی رحمۃ اللہ علیہ نے صلوٰۃ کو بہ معنی سلام کہا اور اسی قول کے پیش نظر امام الحرمین جوینی نے سلام کو بہ معنی صلٰوۃ قرار دیا، لیکن مخفی نہ رہے کہ یہ دونوں بزرگ شافعی ہیں۔ لہذا یہ قول شوافع کا ہوا جسے بعض احناف نے بھی ذکر کردیا۔ نیز یہ کہ امام حلیمی رحمۃ اللہ علیہ اور امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ نے صلوٰۃ کو بہ معنی سلام اور بالعکس مطلقاً نہیں کہا، بلکہ اس امر میں کہ صلٰوۃ و سلام دونوں ہماری دعا اور منزل من اللہ ہونے میں ایک دوسرے کے ہم معنی اور مشعرِ تعظیم ہیں۔
اگرچہ اس معنی کو امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ نے غیرِ انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے حق میں مستقلاً لفظ سلام بولنے کے لیے علتِ منع قرار دیا ہے، لیکن اہل سنت و فقہائے احناف کے دیگر محققین نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
اس بیان سے اہل علم حضرات پر یہ امر بھی بہ خوبی واضح ہوگیا ہوگا کہ امام حلیمی اور امام جوینی نے جس سلام کو بہ معنی صلوٰۃ قرار دے کر اس کا استعمال غیرِ انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے لیے ممنوع قرار دیا ہے وہ "سلام من اللہ" ہے اور جو سلام تحیۃً من العباد ہو وہ ان کے نزدیک بہ معنی صلوٰۃ نہیں۔ نہ وہ اسے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ امام جوینی کے قول "فلا يقال علي عليه السلام" جسے روح البیان، روح المعانی، جوہر التوحید اور شامی وغیرہ نے نقل کیا ہے، سے مراد مطلقاً سلام من اللہ ہے، سلام تحیت نہیں۔ دیکھیے: روح المعانی، پارہ 22، صفحہ 86۔ لہذا اگر بہ طور تحیت علی علیہ السلام یا حسین علیہ السلام کہا جائے تو امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین کے قول پر بھی ممنوع نہ ہوگا۔
یہ صحیح ہے کہ بعض متاخرین کی تصانیف میں سلام مذکور کا ترک متعارف ہے، لیکن تفحص کے بعد متقدمین کا مسلک یہی ثابت ہوا کہ وہ بالخصوص اہل بیت اطہار کے حق میں بالاستقلال تنہا لفظ سلام بولتے اور لکھتے رہے۔ چنانچہ اشعۃ اللمعات میں حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ارقام فرماتے ہیں:
(1) و متعارف در متقدمین تسلیم بود بر اہل بیت رسول از ذریت و ازواج مطہرات و در کتب قدیمہ از مشائخ اہل سنت و جماعت کتابت آں یافتہ می شود۔ و در متأخرين ترک آں متعارف شدہ است۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 405)۔
باوجودیکہ شیخ محقق قدس سرہ العزيز تصانیفِ متأخرين میں سلام مذکور کا ترک متعارف فرماتے ہیں، مگر بذات خود اپنی تصانیف میں آل پاک مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء پر بالاستقلال "علیہ السلام" لکھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
(2) جذب القلوب صفحہ 78
"در سنہ سابعہ غزوۂ خیبر بود کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام چوں سپر از دست مبارک او افتاد دروازۂ او را………. برکند و سپر ساخت۔"
نیز اسی صفحے پر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں:
(3) و طلوع کردن آفتاب بعد از غروب بجہت فوتِ نماز عصر از امیر المؤمنین علی سلام اللہ علیہ۔
اسی جذب القلوب کے صفحہ 94 پر ہے:
(4) و او را استوان علی ابن طالب سلام اللہ علیہ نیز گویند۔
اسی صفحہ پر اس کے بعد فرماتے ہیں:
(5) در خانۂ فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا۔
پھر اسی صفحہ پر فرماتے ہیں:
(6) بعلی و فاطمہ و حسن و حسین سلام اللہ علیہم خطاب می کرد۔
علاوہ ازیں تفسیر عرائس البیان صفحہ 510 پر ہے:
(7) وعن على ابن موسى الرضا عن أبيه عن جعفر الصادق عليهم السلام.
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر، جلد دوم، صفحہ 700 پر فرماتے ہیں:
(8) هذه الآية دالة على أن الحسن والحسين عليهما السلام كانا إبني رسول الله صلى الله عليه وسلم.
پھر تفسیر کبیر کی تیسری جلد، 722 پر لکھتے ہیں:
(9) لا يجوز إسناده إلى علي عليه السلام.
اسی صفحہ پر تیسری سطر میں ہے:
(10) وهو أن اللائق بعلي عليه السلام.
یہی امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر کی جلد ہشتم، صفحہ 322 پر فرماتے ہیں:
(11) هذه الآيات نزلت في حق علي ابن أبي طالب عليه السلام.
(12) ایضاً سطر سوم فی کتاب البسیط: إنها نزلت في حق علي عليه السلام.
(13) ایضاً سطر چہارم: إن الحسن والحسين عليهما السلام مرضا.
(14) ایضاً سطر 22: أخذ على عليه السلام بيد الحسن والحسين.
(15) ایضاً سطر 24: ولا ينكر دخول علي بن أبي طالب عليه السلام فيه.
(16) ایضاً سطر 28، 29: الذين يقولون هذه الآية مختصة بعلي عليه السلام.
(17) تفسیر مظہری، جلد ہفتم، صفحہ 412، سطر 6 پر حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رواه أحمد عن الحسين ابن علي عليهما السلام.
(18) ایضاً سطر 7: وروى الطبراني بسند حسن عن الحسين ابن علي عليهما السلام.
(19) تحفۂ اثنا عشری
(20) فتاوی عزیزی
(21) تفسیر فتح العزيز-تینوں کتابوں میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل بیت اطہار کے لیے بہ کثرت "علیہ السلام" استعمال فرمایا ہے۔
(22) اصول الشاشی، صفحہ 2: والسلام على أبي حنيفة وأحبابه.
مشتے نمونہ از خروارے چند حوالے نقل کیے گئے جنھیں پڑھ کر ناظرین کرام بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جلیل القدر علماے متقدمین و متاخرین اور اکابر اہل سنت و فقہاے احناف میں ایسے محققین بہ کثرت ہوئے جن کے نزدیک اہل بیت اطہار و ائمہ کبار کے لیے مستقلاً "علیہ السلام" بولنا بلا کراہت جائز ہے۔ بالخصوص اصول الشاشی کی عبارت "والسلام على أبي حنيفة واحبابه" جو چھے سو سال سے دنیاےے اسلام کے حنفی مدارس میں پڑھائی جا رہی ہے، مسلک مجوزین کی حقانیت کی ایسی روشن دلیل ہے جس سے انصاف پسند حضرات کے لیے تردد کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ایک شبہ کا ازالہ:
عبارات منقولہ کو کتابت کی غلطی یا تحریف پر محمول کرنا بالکل ایسا ہوگا جیسے فی زمانہ بعض علماے اہل سنت کی عبارات میں اعلی حضرت قدس سرہ العزيز کے اسم گرامی کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" کے جملے کو غلطی یا تحریف پر محمول کردیا جائے۔
یاد رکھیے! کتابت کی غلطی یہی ہو سکتی ہے کہ کوئی لفظ بدل جائے {جیسے علیہ السلام، علیہ الکلام ہوجائے} یا کہیں تقدیم و تاخیر ہوجائے {جیسے علیہ السلام، السلام علیہ ہوجائے} یا کتابت میں اختصار سے کام لیا جائے جیسے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بجائے آج کل علامت "صـ” یا صلعم لکھ دیتے ہیں۔ یہ بات کسی طرح قابل تسلیم نہیں ہو سکتی کہ ایک صحیح اور درست عبارت کو بلا وجہ کتابت کی غلطی یا تحریف قرار دے دیا جائے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ کتب معتبرہ کی عبارات سے اعتماد بالکل اٹھ جائے گا۔ ہر شخص اپنے مدعا کے خلاف جو عبارت پائے گا اسی کو غلطی یا تحریف کہہ دے گا۔
الحمد للہ! ہم نے وضاحت کے ساتھ علماے معتبرین کے کلام میں اہل بیت اطہار و ائمۂ کبار کے لیے مستقلاً علیہ السلام کہنے کا ثبوت پیش کر دیا۔ ولله الحجة السامية.
(3) مانعین حضرات کا یہ فرمانا کہ صلوٰۃ و سلام کے الفاظ مستقلاً انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کے لیے تعظیما استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ان ہی کے ساتھ خاص رہیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو لفظ بھی تعظیمِ انبیا علیہم السلام کے لیے استعمال کیا جائے وہ ان کے ساتھ خاص ہو۔ دیکھیے "سیدنا" و "مولانا" انبیا علیہم السلام کے لیے تعظیما استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن انبیا علیہم السلام کے ساتھ خاص نہیں۔ صحابہ کرام، تابعین و دیگر بزرگانِ دین کے لیے بھی سیدنا و مولانا بہ کثرت بولا جاتا ہے۔
ہاں! یہ صحیح ہے کہ عام استعمالات میں بعض الفاظ ایسے بھی ہونے ضروری ہیں جو صرف انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے لیے استعمال کیے جائیں تاکہ ان کی خصوصی عظمت ظاہر ہو تو لفظ "صلوٰۃ" اور مجموعۂ "صلٰوۃ و سلام" کے الفاظ موجود ہیں جو حضرات انبیا و ملائکہ علیہم السلام کے ساتھ خاص ہیں، جن کا خاص ہونا ان کی خصوصیتِ شان کا مظہر ہے۔
(4) روافض کا شعار صرف "علیہ السلام" نہیں، بلکہ "علیہ الصلوٰۃ والسلام" ہے، کیوں کہ علیہ السلام کے ثبوت میں جلیل القدر علماے اہل سنت کی عبارات کثیرہ ہم ابھی نقل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کہ اہلِ بدعت کا شعار اہل سنت کے لیے اسی وقت مکروہ و ممنوع قرار پائے گا جب کہ وہ کسی امر مذموم میں ہو جیسے نوحہ گری اور سینہ کوبی وغیرہ۔ یا ان کے ساتھ تشبہ کا قصد کیا جائے۔ الحمد للہ! یہاں دونوں میں سے ایک بات بھی نہیں پائی جاتی۔ علیہ السلام کہنا نہ مذموم ہے، نہ کہنے والا تشبہ کا قصد کرتا ہے۔ لہذا علتِ منع نہ پائی گئی۔ جب علت ہی نہیں تو حکمِ کراہت و منع کا مدار کس چیز پر ہوگا؟ دیکھیے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اسی مبحث میں قاضی عیاض و دیگر علما سے یہی اعتراض یعنی علتِ منع نقل کرکے اس کا جواب بعینہ وہی دیتے ہیں جو ہم نے دیا ہے۔ علامہ شامی فرماتے ہیں: وَإِنَّمَا أَحْدَثَهُ الرَّافِضَةُ فِي بَعْضِ الْأَئِمَّةِ وَالتَّشَبُّهُ بِأَهْلِ الْبِدَعِ مَنْهِيٌّ عَنْهُ فَتَجِبُ مُخَالَفَتُهُمْ اهـ. أقُولُ: وَكَرَاهَةُ التَّشَبُّهِ بِأَهْلِ الْبِدَعِ مُقَرَّرَةٌ عِنْدَنَا أَيْضًا لَكِنْ لَا مُطْلَقًا بَلْ فِي الْمَذْمُومِ وَفِيمَا قُصِدَ بِهِ التَّشَبُّهُ بِهِمْ. (شامی، جلد:5، صفحہ 658).
بالکل یہی عبارت تفسیر روح المعانی، پارہ 22، صفحہ 79 پر بھی مرقوم ہے۔ دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مانعین حضرات حکمِ کراہت و منع کی دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ بعض ائمہ کے لیے (مستقلاً) صلوٰۃ و سلام کہنے کی بدعت روافض نے جاری کی ہے اور اہل بدعت کے ساتھ تشبہ ممنوع ہے۔ لہذا ان کی مخالفت واجب ہے! میں کہوں گا کہ تشبہ باھل البدعۃ کا مکروہ ہونا ہمارے نزدیک بھی ثابت ہے، لیکن مطلقاً نہیں، بلکہ امر مذموم میں یا اس وقت جب کہ تشبہ کا قصد کیا جائے۔
شامی اور روح المعانی کی اسی عبارت کا خلاصہ ہم نے اپنے جواب میں عرض کیا تھا جس کی تصدیق ناظرین کرام نے ملاحظہ فرمائی۔
اگر یہاں یہ شبہ پیدا کیا جائے کہ بلا قصدِ تشبہ مجموعۂ صلوٰۃ و سلام کا بھی جواز بلا کراہت ثابت ہوگیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک غیرِ انبیا علیہم السلام کے لیے مجموعۂ صلوٰۃ و سلام کا مستقلاً استعمال مسلک جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص بغیر قصدِ تشبہ بھی استعمال کرے گا تب بھی ناجائز و مکروہ قرار پائے گا، بہ خلاف تنہا "سلام" کے کہ اسے کثیر محققین اہل سنت نے استعمال کیا ہے جیسا کہ عبارات سابقہ سے معلوم ہوا۔ فافھم و تدبر!
پھر یہ حضرات مانعین کرام کو چاہیے کہ اسی تشبہ کی وجہ سے عشرۂ محرم میں ذکرِ شہادت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما، ان کے لیے ایصالِ ثواب وغیرہ امور مستحسنہ کو بھی ناجائز و ممنوع قرار دیں۔ اس لیے کہ یہ سب کام بقولِ مانعین روافض کا شعار ہیں اور ان کا تشبہ ممنوع ہے۔ نیز حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کے مبارک ناموں کے ساتھ لفظ امام لکھنے کو بھی ناجائز کہیں، کیوں کہ روافض کے مذہب میں امامت کا عقیدہ بھی ضروریات دین سے ہے۔ جب وہ اہلِ بیت اطہار میں سے کسی کے لیے لفظ امام بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد امامت کے وہی معنی ہوتے ہیں جو اہلِ سنت کے نزدیک نبوت کے معنی ہیں اور غالباً اسی لیے اسلاف متقدمین کی تصانیف میں حسنین رضی اللہ عنہما یا اہلِ بیت اطہار میں سے کسی کے لیے امام کا لفظ نہیں پایا جاتا۔ لہذا مانعین کرام کو چاہیے کہ وہ علتِ تشبہ کی بنا پر جس طرح حسنین علیہما السلام کہنے کو مکروہ جانتے ہیں اسی طرح لفظ امام حسن اور امام حسین بولنے کو بھی ناجائز اور مکروہ سمجھیں۔
حرفِ آخر:
اہلِ بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں علیہ السلام کو خلافِ اولی قرار دینے والے حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ گذارش ہے کہ اگر آپ حضرات بعض علما کے قول پر اعتماد کرنے کی وجہ سے اہلِ بیت اطہار کے لیے مستقلاً "علیہ السلام" کہہ کر خلافِ اولی کا ارتکاب اپنی پرہیزگاری اور پاک دامنی کے منافی سمجھتے ہیں تو از راہ کرم غیرِ صحابہ علیہم الرضوان کے لیے "رضی اللہ تعالٰی عنہ" کہہ کر بھی ترکِ مستحب کے دھبہ سے اپنے دامنِ اتقا کو داغ دار نہ کیجیے۔ اس لیے کہ فقہاے احناف کے نزدیک استحبابِ ترضی (رضی اللہ تعالٰی عنہ بولنے کا مستحب ہونا) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص ہے۔ در مختار میں ہے:
(وَيُسْتَحَبُّ التَّرَضِّي لِلصَّحَابَةِ) اس کے بعد فرمایا: (وَالتَّرَحُّمُ لِلتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَالْعُبَّادِ وَسَائِرِ الْأَخْيَارِ وَكَذَا يَجُوزُ عَكْسُهُ) وهو التَّرَحُّمُ لِلصَّحَابَةِ وَالتَّرَضِّي لِلتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ (عَلَى الرَّاجِحِ) ذَكَرَهُ الْقَرْمَانِيُّ وَقَالَ الزَّيْلَعِيُّ الْأَوْلَى أَنْ يَدْعُوَ لِلصَّحَابَةِ بِالتَّرَضِّي وَلِلتَّابِعِينَ بِالرَّحْمَةِ وَلِمَنْ بَعْدَهُمْ بِالْمَغْفِرَةِ وَالتَّجَاوُزِ۔ انتہی (در مختار حاشیہ شامی، جلد 5، صفحہ 659)
"رضی اللہ عنہ" صحابہ کے لیے کہنا مستحب ہے۔ آگے چل کر فرمایا کہ تابعین اور ان کے بعد والے علما و بزرگانِ دین کے لیے "رحمۃ اللہ علیہ" کہنا مستحب ہے۔ ایسے ہی بہ قولِ راجح اس کا عکس بھی جائز ہے. یعنی صحابہ کے لیے ترحم اور بعد والوں کے لیے ترضی، یہ قرمانی نے ذکر کیا اور زیلعی نے فرمایا کہ اولی یہ ہے کہ صحابہ کے حق میں دعا کے لیے "رضی اللہ تعالٰی عنہ" اور تابعین کے لیے "رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ" اور ان کے بعد والوں کے لیے مغفرت اور تجاوز کے الفاظ بولے۔
ممکن ہے کہ اس مقام پر جملہ "وَكَذَا يَجُوزُ عَكْسُهُ" کسی خوش فہمی کا موجب ہوجائے۔ لہذا یہ گزارش بے محل نہ ہوگی کہ یہاں "يَجُوزُ" ہے،” يُسْتَحَبُّ" نہیں جس سے غیرِ صحابی کے لیے” استحبابِ ترضی" ثابت ہوجائے اور اگر "يَجُوزُ" ہی کا سہارا لے کر غیرِ صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کہا جائے تو اسی سہارے کو تھام کر کبھی "ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ" اور "عمر علیہ الرحمۃ" و "عثمان و علی علیہما الرحمۃ" بھی کہا ہوتا۔ جب اس کی ہمت نہ ہوئی تو اس کی جرأت کیسے ہوگئی؟ فلا تعقل.
اس کے بعد علامہ شامی کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔ در مختار کی منقولہ عبارت کے تحت فرماتے ہیں:
(وَيُسْتَحَبُّ التَّرَضِّي لِلصَّحَابَةِ) لِأَنَّهُمْ كَانُوا يُبَالِغُونَ فِي طَلَبِ الرِّضَا مِنْ اللَّهِ تَعَالَى وَيَجْتَهِدُونَ فِي فِعْلِ مَا يُرْضِيهِ، وَيَرْضَوْنَ بِمَا يَلْحَقُهُمْ مِنْ الِابْتِداءِ مِنْ جِهَتِهِ أَشَدّ الرِّضَا، فَهَؤُلَاءِ أَحَقُّ بِالرِّضَا وَغَيْرُهُمْ لَا يَلْحَقُ أَدْنَاهُمْ وَلَوْ أَنْفَقَ مِلْءَ الْأَرْضِ ذَهَبًا زَيْلَعِيٌّ. (شامی، جلد 5، صفحہ 659)
"صحابہ کے لیے رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنا مستحب ہے"۔ اس لیے کہ وہ رضاے الہی طلب کرنے میں بہت کوشش کرتے ہیں اور وہ ایسے کاموں سے راضی تھے جن کے باعث انھیں ابتدا ہی سے بہترین رضا حاصل ہوجائے۔ لہذا "رضی اللہ تعالٰی عنہ" کہنے کے وہی زیادہ حق دار ہیں۔ ان کا غیر اگر پہاڑ بھر سونا بھی خرچ کردے پھر بھی ان کے ادنی ترین فرد سے نہیں مل سکتا۔ (انتہی)
فقہاء احناف کی ان روشن تصریحات کے باوجود بھی اگر غیر صحابہ کے لیے "رضی اللہ تعالٰی عنہ" کہنے سے آپ کا دامنِ اتقا ترکِ مستحب اور خلافِ اولی کے ارتکاب سے پاک ہے تو یقین رکھیے کہ اہلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں "علیہم السلام" کہنے سے بھی آپ کا پاکیزہ دامن معصیت سے داغ دار نہ ہوگا۔ ((اہلِ بیت پر مستقلاً سلام کا جواز، سید احمد سعید شاہ کاظمی، ص: 23-14، مکتبہ اہلِ بیتِ اطہار، داتا دربار مارکیٹ، لاہور)
دل چسپ بات یہ ہے کہ "صلوٰۃ" کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ چنانچہ سید محمود آلوسی بغدادی (ف: 1270ھ) تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
وأما الصلاة على غير الأنبياء والملائكة عليهم السّلام فقد اضطربت فيها أقوال العلماء فقيل تجوز مطلقا قال القاضي عياض وعليه عامة أهل العلم واستدل له بقوله تعالى: هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ وبما صح من قوله صلّى الله عليه وسلم: «اللهم صلّ على آل أبي أوفى» وقوله عليه الصلاة والسلام وقد رفع يديه: «اللهم اجعل صلواتك ورحمتك على آل سعد بن عبادة» وصحح ابن حبان خبر «إن امرأة قالت للنبي صلّى الله عليه وسلم: صلّ عليّ وعلى زوجي ففعل» وفي خبر مسلم «أن الملائكة تقول لروح المؤمن: صلى الله عليك وعلى جسدك» (روح المعاني، جلد 22، ص: 85، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان)
ترجمہ: انبیاء اور ملائکہ علیہم السلام کے غیر پر صلاۃ بھیجنے میں اقوالِ علما مختلف ہیں۔ تو کہا گیا ہے کہ مطلقاً جائز ہے۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ یہی عام اہل علم کا مذہب ہے۔ دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: دردو بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے، اور یہ صحیح حدیث: اے اللہ! آل أبی أوفی پر درود بھیج، اور یہ حدیث جس میں آپ نے اپنے دست مبارک اٹھاکر فرمایا: اے اللہ! اپنے درود اور اپنی رحمت سعد بن عبادہ کی آل پر فرما، اور یہ حدیث جس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے کہ ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ مجھ پر اور میرے شوہر پر صلاۃ بھیجیے تو آپ نے ایسا کیا اور مسلم شریف کی یہ حدیث کہ فرشتے مؤمن کی روح سے کہتے ہیں کہ اللہ تجھ پر اور تیرے جسم پر درود بھیجے۔
مگر ہم اس اختلاف کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ ہمارا مسلک جمہور کے موافق ہی ہے کہ مجموعۂ "صلوٰۃ و سلام" {یعنی صلی اللہ علیہ و سلم یا الصلاۃ والسلام علیک} یا محض "صلوٰۃ" جیسے {اللهم صل على} مستقلاً صرف رسول اللہ کے لیے روا ہے اور بالتبع آل و أصحاب کے لیے اور رہا "صلٰوۃ" کے بغیر تنہا "سلام" {یعنی علیہ السلام/سلام اللہ علیہ/سلام علیک} تو یہ بالاستقلال اور بالتبع دونوں طرح ائمہ اہل بیت اطہار کے لیے بولنا روا ہے کہ یہی مسلکِ محققینِ متقدمین و متاخرین ہے۔(ختم شد ببركة الإمام السيد الحسين عليه السلام والحمد علی ذلک۔)
* اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی
سیتل کوچی کالج
کوچ بہار، مغربی بنگال
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: اردو صحافت کا ارتقا: ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

One thought on “اہل بیت کے لیے علیہ السلام کہنے کا جواز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے