زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا

زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا

پارلیمنٹ میں ممنوعہ الفاظ کی فہرست سازی سے اگر سیاست دانوں اور عوام کو شایستہ زبان کے استعمال کا شعور پیدا ہوجائے تو کیا کہنا!

صفدرا مام قادری
شعبۃ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

گذشتہ دنوں ہندستانی پارلیمنٹ میں غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست منظور کی گئی۔ اب ہر رکنِ پارلیمنٹ پر یہ لازم ہے کہ ان الفاظ کے استعمال سے خود کو بچائیں ورنہ ان کے پیش کردہ الفاظ پارلیمنٹ کی کارکردگی سے القط کردیے جائیں گے۔ بعض مبصروں نے اس کام کی سنجیدگی کے پیش نظر حکومت کے مخفی ایجنڈوں سے پرے جاکر اس بات کے لیے تعریف کی کہ اس سے ہندستانی پارلیمنٹ کا وقار بڑھے گا اور جس مقصد کے لیے نمایندگان منتخب ہوکر آتے ہیں، اس کے لیے لوگوں کی توجہ بڑھے گی۔ مگر حزبِ اختلاف اور ہزاروں صاحبانِ فکر و دانش نے اسے جمہوریت کے منافی قرار دیا اور اسے اظہار کی آزادی پر قدغن لگانے کی جابرانہ سازش بتایا۔
زبان کون سی معقول ہے اور کون سی غیر معقول، اسے ذاتی سطح پر طے کرنا مشکل نہیں۔ ہر آدمی اپنے بولنے چالنے میں اس کا فیصلہ کرتا ہے اور عمل پیرا ہوتا ہے۔ مگر جب بات ایک کے دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہونے کی ہو، جب اس کا تعلق ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں سے ہو تو فیصلہ کرتے ہوئے مزید چوکنّا ہونا پڑتا ہے۔ دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ کا سچ دوسرے کے لیے جھوٹ ہوجائے یا آپ کا بُرا دوسرے کے لیے برا نہ ہو؛ اس وقت بحث و مباحثے کی گنجایش پیدا ہوتی ہے۔ یہ اختلافات جنگ و جدال، عدالت اور پارلیمنٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ ذاتی بات چیت میں کوئی ایک بھی معقول ثابت ہوا تو علاج ہوجاتا ہے مگر ذہن میں کھلاپن نہ ہو اور دلوں میں رواداری نہ پیدا ہو تو اختلافات شدید ہوجاتے ہیں۔ کورٹ کچہری سے لے کر فسادات اور پارلیمنٹ کے ایوان تک باتیں پہنچ جاتی ہیں۔ کبھی کسی لفظ یا جملے کے لیے عدالت فیصلہ کردیتی ہے اور کبھی وزیر اعظم سے آگے بڑھتے ہوئے ایوان کے اسپیکر کا حکم سامنے آجاتا ہے۔
یہ سوال بنیادی نوعیت کا ہے کہ کون سا لفظ شایستہ ہوگا اور کون سا ناشایستہ قرار دیا جائے گا، اس کا فیصلہ کسے کرنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب ماہرینِ زبان سے طلب کرنا چاہیے یا ماہرینِ قانون سے؟ ہندستانی جمہوریہ کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے مختلف اجزا ایک دوسرے کے حقوق کو بہ زور ہتھیانے کے لیے بہت مستعد ہوتے ہیں۔ کبھی قانون سازیہ کو عدلیہ سے شکایت ہوجاتی ہے اور کبھی انتظامیہ قانون سازیہ سے خفا رہتی ہے۔ غور سے دیکھیے تو ہر جگہ ایک دوسرے کے دائرے میں داخل ہوکر اپنے واجب حق سے زیادہ پانے کی تمنا نظر آتی ہے، ویسے ماحول میں یہ کیسے کہا جائے کہ زبان و ادب یا لسانیات کے بنیادی دائرے میں آنے والی چیزیں جب عدالت عالیہ کے فیصلوں یا پارلیمنٹ کے انتظام کاروں کے ذریعہ طے کی جائیں گی تو مسائل مزید سنگین ہوں گے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون بھی بار بار اپنے ناموس کی حفاظت اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے آٹھ آٹھ آنسو بہاتا دکھائی دیتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ قانون کے بنیادی سوالوں کو غیر ماہرینِ قانون کے حلقے سے حل کرانے کی کوشش ہوگی تو کیسا نتیجہ برآمد ہوگا؟
علمِ زبان کے طالب علم کی حیثیت سے ہمیں یہ معلوم ہے کہ زبان میں وہی سکۂ رائج الوقت ہے جو عام عوام نے قبول کرلیا۔ ہزاروں الفاظ جو قواعد نویسوں نے یا بہ الفاظ دیگر زبان کے قانون دانوں نے متروک یا ناقابلِ استعمال کہہ کر ٹھکرا دیا مگر لوگوں کی زبان پر وہی چڑھے ہوئے ہیں۔ اساتذہ کلاس روم میں زبان کے ہزاروں اصول و ضوابط بیان کرتے ہیں مگر سماج، سڑک اور اخبار تک آتے آتے لفظوں کی ایک دوسری دنیا آباد ہوجاتی ہے اور سینکڑوں متروک الفاظ ہماری رگوں میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ یہ اس بات کا بھی اعلانیہ ہے کہ زبان و بیان میں چلن اور عام لوگوں کے بیچ استعمال کو افضلیت حاصل ہے۔ قبولِ عام کا دفتر یہیں کھلتا ہے۔ بنے بنائے قوانین اپنی جگہ ہوتے ہیں اور عوام میں استعمال کرنے کا ہنر یا تخلیق کار اور انشا پرداز کے استعمال کرنے کا طور مختلف ہوتا ہے۔ محمد تقی میر کو تو ہم اسی لیے یاد رکھتے ہیں کہ انھوں نے ہزاروں ایسے الفاظ داخلِ دفتر کیے جنھیں اس زمانے میں وقار و اہتمام میسر نہیں تھا۔ آج وہ سب ہمارے لیے اعلا و افضل ہیں۔
تربیت اولاد کے مرحلے میں یہ پہلو بڑا روشن ہے کہ آپ اپنے بچوں پر اس کی نگرانی رکھیے کہ وہ غیر تہذیبی الفاظ نہ سیکھ لیں۔ ہر ماں باپ اس پہلو سے اپنے بچوں کو سنبھال کر پرورش دیتا ہے۔ بچوں کے کھیلنے کودنے کے دوران اچانک ان کے منہ سے کبھی گالی سن کر یا ناشایستہ الفاظ کی ادائیگی سن کر ان کے سرپرست چونکتے ہیں کہ یہ الفاظ ہماری اولاد نے کہاں سے سیکھ لیے۔ اس وقت انھیں بھی یاد نہیں آتا کہ دوسروں سے بات کرنے یا کسی دوسرے سماجی معاملے میں ویسے سینکڑوں الفاظ وہ خود ہی ادا کرتے رہتے ہیں۔ بچہ سماج میں جاتا ہے، اسکول اور کالج میں ہزاروں دوستوں کے بیچ ہوتا ہے۔ وہ کون سا لفظ کہاں سے سیکھ لے گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ زبان دانی کے لیے ہم جتنے بھی مرتب شدہ اصول نافذ کریں، سامنے والا کچھ اس سے الگ بھی سیکھ لے گا اور اس کا موقع محل کے مطابق استعمال بھی کرلے گا۔ لفظوں کے سب سے بڑے ذخیرے لغات کے دفتر کھول لیجیے، کون سا ایسا ناشایستہ، فحش اور غیر آئینی یا غیر پارلیمانی لفظ اس دفتر میں موجود نہیں۔
قانون ساز کونسل اور اسمبلی سے لے کر پارلیمنٹ کے آٹھ سو ممبران کے لیے زبان و ادب کا کوئی نیا طور آزمایا جاسکتا ہے، ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔ یہ سب ہمارے اسی سماج، اسکول، کالج اور سڑکوں سے برآمد شدہ ہیں۔ سماج میں جو سیکھا، اسے ہی وہ برتیں گے۔ ان کی مختصر میعادی تربیت ممکن ہے کہ وہ اپنی زبان سے فلاں فلاں الفاظ کو ہٹادیں۔ مگر بیان کے مرحلے میں جو فطری بہاو آئے گا، اس ریلے میں جمہوری اور غیر جمہوری لفظوں میں گڈمڈ ہوجانا ناممکن نہیں۔ سب سے مشکل استعمال شدہ لفظوں کی موقع محل کے بدلنے کے ساتھ توجیہات بدل جاتی ہیں۔ غلامی کے دور میں حکومت کی خفیہ فائل ملاحظہ کیجیے تو گاندھی، نہرو سے لے کر ابوالکلام آزاد تک، کم و بیش سب کے سب انگریزوں کی نگاہ میں دہشت پسند اور سماج مخالف تھے۔ کیا ہم اس وقت کی حکومت کے نقطۂ نظر سے اتفاق رکھ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!
مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض الفاظ کی معنوی دنیا بہت وسیع یا مختلف الجہات ہوتی ہے۔ گذشتہ برس لالو پرساد یادو نے ایک سیاسی مخالف کو نشانہ بناتے ہوئے بھوجپوری زبان میں استعمال شدہ ایک اصطلاح ’بھک چونھر‘ کو پیش کیا اور ملک بھر میں ہنگامہ پیدا ہوگیا۔ کوئی اسے گالی کہتا تھا اور کوئی لطفِ بیان کے لیے پیش کیا جانے والا ایک پُرمذاق لفظ۔ پارلیمنٹ میں رام منوہر لوہیا نے اس وقت کے وزیر اعظم کو ’بیک بینچر‘ کہا تھا۔ ہم نے چند برس پہلے ’چوکیدار‘ لفظ کی حرمت اور تعظیم کا جلوہ ملاحظہ کیا تھا ورنہ کام بھی معمولی اور عہدہ بھی معمولی۔ مگر لفظ چل گیا یا چلا دیا گیا۔ ممنوعہ الفاظ کی فہرست جو یوں بھی خاصی طویل ہے اورچھپے ہوئے ١٦۵/صفحات پر مشتمل ہے، اب یہ کس قدر مشکل ہے کہ ایک جملہ بولنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ ان ١٦۵/صفحات میں یہ لفظ ممنوعہ تو نہیں۔ ’کالا دن‘ نہیں بولنا ہے، گوبر، چوری، سازش، ننگا، دھوکا، بے کار، بے شرم، لاچار جیسے الفاظ بھی اب پارلیمنٹ میں نہیں بولے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اور کیا بولا جائے؟ ارکانِ پارلیمنٹ کی زبان کو سادھنے کے نام پر کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ حکومت حزبِ اختلاف کی عام زباں بندی کا کوئی پیمانہ وضع کررہی ہے۔ کسی بھی حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اداروں میں آنا اور جانا یا ادلا بدلی چلتی رہتی ہے۔ آج اپنے مخالفین کی آپ نے زباں بندی کی، کل آ پ کی زباں بندی کے وقت یہ قانون خود آپ کو بھی یاد آئے گا۔
سوال یہ تھا کہ سیاست دانوں کو خود اپنے ارکان کی تربیت کرنی چاہیے تھی۔ جس قوم کو ہمیشہ لوگوں کے بیچ رہنا ہے، خود اسی میں بے علمی، فرض ناشناسی، غرور، حسد، رقابت اور طوفانِ بدتمیزی کے اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہوں، اسے تو ایک خاص نصاب بنا کر پارلیمانی کام کاج کا سلیقہ سکھایا جانا چاہیے تھا مگر یہاں حکومتوں کو ہر کام میں اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے، انھیں جیل میں ڈال دینے یا صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا شوق زیادہ ہے۔ اس لیے بدنیتی سے ایک بنیادی کام کے آغاز کے موقعے سے اتنے شکوک و شبہات شاید ہی سامنے آتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالتوں کے فیصلوں یا پارلیمنٹ کے اسپیکر اور چیرمین کے ذریعہ جو غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست پیش ہوئی ہے، اسے عوام کے بیچ لایا جاتا، زبان و ادب اور لسانیات کے ماہرین بھی اس گفتگو کا حصہ ہوتے اور اس کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا مگر ایسا ممکن نہ ہوا، سیدھا فیصلہ آگیا۔ آنے والے وقت میں اس کا نفاذ آسان نہیں۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصّر کی حیثیت سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے