رابندر ناتھ ٹیگور فنون لطیفہ کے شہنشاہ تھے: امان ذخیروی

رابندر ناتھ ٹیگور فنون لطیفہ کے شہنشاہ تھے: امان ذخیروی

فنون لطیفہ کے شہنشاہ تھے” گیتانجلی" کے خالق، نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور: امان ذخیروی

جموئی 7 اگست ( محمد سلطان اختر) عالمی شہرت یافتہ شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، مصور، موسیقار، فلسفی، ڈراما نگار اور ادا کار رابندر ناتھ ٹیگور کے یوم وفات 7 اگست کے موقعے پر بزم تعمیر ادب، ذخیرہ، جموئی میں ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے رابندر ناتھ ٹیگور کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں فنون لطیفہ کا بادشاہ قرار دیا. اپنے اس دعوے کی دلیل پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یوں تو اس ملک میں بہت سارے شاعر و ادیب ہوئے ہیں اور اپنی کارکردگی سے ایک زمانہ کو قائل کیا ہے، لیکن رابندر ناتھ ان سب میں اس لیے ممتاز ہیں کہ بہ یک وقت بہت سارے فنون پر ان کی گرفت تھی. عموماً لوگ کسی ایک یا دو میدان کے مرد ہوتے ہیں، لیکن رابندر ناتھ ٹیگور کی ہی ایسی شخصیت تھی کہ جہاں وہ ایک بلند خیال شاعر تھے وہیں ایک نادر روزگار ناول نگار بھی تھے. جہاں ایک طرف وہ موسیقار تھے وہیں وہ ایک بے مثال مصور بھی تھے. انھوں نے بہت سارے ڈرامے بھی لکھے اور ان ڈراموں میں کردار نبھا کر اپنی ادا کاری کا لوہا بھی منوایا. ان کی فلسفیانہ شاعری نے عالمی ادب کو متاثر کیا، جس کے انعام کے طور پر 1913ء میں انھیں ادب کا نوبل انعام حاصل ہوا. اس انعام کو پانے والے وہ پہلے ہندستانی ہی نہیں بلکہ پہلے مشرقی شاعر و ادیب تھے. یہ ہمارے ملک کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی. سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جس گیتانجلی پر انھیں نوبل انعام ملا وہ بنگلہ زبان میں 1910ء میں شائع ہوئی تھی. 1912ء میں رابندر ناتھ نے ان گیتوں کا خود انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا، جو ان کی انگریزی دانی پر دلالت کرتی ہے.
رابندر ناتھ ٹیگور کی پیدائش 7 مئی 1861ء کو کولکاتا کے ایک معزز تعلیم یافتہ ٹیگور خاندان میں ہوئی. اور وفات بھی 7 اگست 1941ء کو کولکاتا ہی میں ہوئی. ان کا اصل نام روبندرو ناتھ ٹھاکر اور قلمی نام رابندر ناتھ ٹیگور تھا. ان کے والد کا نام مہرشی دیویندر ناتھ ٹیگور اور والدہ کا نام شاردا دیوی تھا. ٹیگور کی والدہ ایک پڑھی لکھی مذہبی خاتون تھیں، جب کہ ان کے والد کئی زبانوں کے جان کار تھے، جس میں عربی، فارسی اور اردو بھی شامل ہے. ٹیگور کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ٹھاکروں کے رواج کے مطابق ہوئی. انھوں اعلا تعلیم کے لیے انگلستان کا سفر کیا جہاں ان کے بڑے بھائی بھی زیر تعلیم تھے. مگر انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کیے بغیر ہی وطن واپسی کا ارادہ کیا اور ہندستان لوٹ آئے. یہاں انھوں نے اپنا پورا وقت فنون لطیفہ کی آبیاری میں صرف کر دیا. 1901ء میں ٹیگور نے شانتی نیکیتن نامی اسکول کی بنیاد رکھی جو 1921ء کو یونی ورسٹی میں تبدیل ہو گئی. ان کا فلسفۂ تعلیم اور نظریۂ تعلیم آج بھی قابل تقلید ہے.
ان کی تخلیقات کی فہرست بہت طویل ہے اور مختلف اصناف سے تعلق رکھتی ہیں. ہم یہاں ان کے سب اصناف کی کچھ خاص کتابوں کا ذکر کرتے ہیں.
(شاعری)
ٹھاکر پدولی- 1884ء، مانسی- 1884ء، سونار تاری- 1890ء، گیتانجلی- 1910ء،
(ڈرامے)
والمیکی پرتیبھا- 1881ء، وسرجن-1890ء،راجا- 1910ء، ڈاک گھر- 1912ء، مکتار دھارا- 1922ء وغیرہ
( ناول)
نسترنرتھ- 1901ء، گورا- 1910ء، گھر ویار- 1916ء، یوگایوگ- 1929ء وغیرہ
جیون سمرتی اور چھلیلا ان کی خود نوشت ہیں.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :خدا بخش خاں کی خدمات سر سید سے کم نہیں : امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے