افکار اکبر

افکار اکبر

مکاتیب اکبر الہ آبادی کی روشنی میں 

ڈاکٹر محمد ذاکر حسین 

حرف آغاز
دنیائے ادب کا یہ معاملہ بھی عجیب ہے کہ جب کسی شاعر یا ادیب کا کوئی خاص مقام متعین ہوجاتا ہے تو اُس کے اِسی پہلو پر تحریروں کا انبار لگ جاتا ہے اور اُس کے دوسرے پہلو اور اس کے ادبی محاسن پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی (١٦/نومبر١٨٤٦ء۔۹/ستمبر ١٩٢١ء) کے ساتھ بھی کم و بیش یہی معاملہ روا رکھا گیا ہے۔ بلا شبہ وہ ظریفانہ شاعری کے امام ہیں۔ انھوں نے ظریفانہ شاعری کو جو وقار بخشا، وہ جگ ظاہر ہے۔ ہمارے ناقدین نے بھی اُن کی اِس خصوصیت کو مختلف زاویوں سے اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی تاریخِ ادبِ اردو کے جزو لا ینفک بن گئے، کیونکہ اُن کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ ناقص ہی رہے گی۔ لیکن اُن کے دوسرے ادبی کام جیسے سنجیدہ شاعری، رباعیات و قطعات و منظومات اور بالخصوص نثر نگاری پر ویسی توجہ نہیں دی گئی، جس کے وہ متقاضی تھے۔ نثر نگاری کے باب میں اُن کے دو کام نمایاں ہیں؛ ایک ترجمہ اور دوسرا خطوط۔ اِس کے علاوہ اُن کے وہ مضامین ہیں جو اُس وقت کے رسائل میں شائع ہوئے، جس کی طرف خود اکبر الہ آبادی نے اپنے مکاتیب میں جگہ جگہ اشارہ کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
”مدتیں گزریں میں نے جسمانی آرام اور تکلیف اور دلی خوشی اور رنج کا مضمون پیش نظر رکھ کر یہ خیال کیا تھا کہ آرام اور رنج کا ساتھ ہو سکتا ہے اور تکلیف اور خوشی کا ساتھ ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی نازک خیالی نہ تھی، لیکن اس بنیاد پر ایک سلسلۂ مضمون چل نکلا تھا، پورا نہ ہوا، اور میں اور کاموں میں الجھ گیا“ ( مکتوب مرقومہ ٢٦/ اگست ١٩١٣ء؛ مکاتیب اکبر: حصہ دوم خطوط اکبر (بنام عبد الماجد دریابادی)، ص ۱)۔
مکتوب مرقومہ۱۱/جون ١٩١٨ء میں لکھتے ہیں:
”اردو پر آپ نے خوب لکھا۔ محسن الملک کے ایما سے میں نے بھی ایک بڑا مضمون لکھا تھا، ایک واقف کار مسلمان کی رائے سے چھپا تھا“ (مکاتیب اکبر: حصہ دوم خطوط اکبر (بنام عبد الماجد دریابادی)، ص ۶۶)
اِن مضامین کی تلاش بھی ضروری ہے تاکہ اِن کی روشنی میں اکبر الہ آبادی کی نثر نگاری کا جائزہ لیا جا سکے۔ سید شبیہ الحسن نے ’نوادر اکبر الہ آبادی‘ میں ان کے ۳۳/ مضامین کو شامل کیا ہے۔ اس کے بعد اس پر کوئی کام نہیں ہوسکا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے بلنٹ کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ’فیوچر آف اسلام‘ کے نام سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی بار ١٨٨٤ء میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٥١ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ ترجمہ ٢٢٤/ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ترجمے کا ابھی تک مکمل جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے سینکڑوں خطوط ہیں۔ اِن پر بھی کما حقہ کام نہیں ہو سکا ہے۔ اکبر شناسی کا تقاضا یہی ہے کہ ظریفانہ شاعری کے علاوہ اُن کے دیگر ادبی اصناف کے حوالے سے جو سرمایۂ ادب محفوظ ہے، ان کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔
اکبر الہ آبادی جب اپنی زندگی کے آخری پڑاؤ پر تھے اور اپنی حیات کے قیمتی ۶۶/ برس گزار چکے تھے۔ اس وقت ایک ٢٠/ سال کا نوجوان ان کے ربط میں آیا۔ ١٩١٢ء میں وہ بی اے کے امتحان کے لیے الہ آباد گیا تھا اور اسی سفر میں وہ اکبر الہ آبادی کی زیارت سے بھی مشرف ہوا۔ اس ہونہار نوجوان کی علمیت اور قابلیت سے اکبر الہ آبادی اتنے متأثر ہوئے کہ اُسے اُنھوں نے اپنے رفیق خاص میں شامل کر لیا۔ یہ ہونہار نوجوان کوئی اور نہیں، عبد الماجد دریابادی تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ الحاد و تشکیک کے دور سے گزر رہے تھے۔ ایسے میں اکبر الہ آبادی کی شفقت نے دبے پاؤں اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ ١٩١٣ء سے دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا جو اکبر الہ آبادی کی وفات سے محض ١٣/ دن قبل تک جاری رہا۔ انھی خطوط کو عبد الماجد دریابادی نے مکاتیب اکبر کے نام سے ١٩٢٣ء میں شائع کرادیا۔ یہ مجموعۂ مکاتیب ١٢٠/ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کُل ١٧٩/ خطوط ہیں۔ پہلا خط ٢٦/ اگست ١٩١٣ء کا ہے اور آخری خط ۲۲/ جولائی ١٩٢١ء کا ہے۔ ’خطوط مشاہیر‘ میں عبد الماجد دریابادی نے اکبر الہ آبادی کے ١٩٧/ خطوط کو شامل کیا ہے جس کاپہلا خط ٢٦/ اگست ١٩١٣ء کا اور آخری خط ١٣/ اگست ١٩٢١ء کا ہے یعنی اکبر الہ آبادی کی وفات ۹/ستمبر ١٩٢١ء سے ٢٦/ دن قبل کا ہے۔ ان خطوط کی روشنی میں اکبر الہ آبادی کی زندگی کے آخری ایام، اُس دور کے علمی و ادبی مسائل، ملکی حالات وغیرہ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اکبر الہ آبادی کے خطوط کے ۹/ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔خطوط اکبر بنام خواجہ حسن نظامی، دہلی: شاہجہانی پریس، ١٩٢٦، ص١٧٦۔۲۔خطوط اکبر/ مرتبہ مختار الدین احمد آرزو علی گڑھ: مرتب، ١٩٥٠ء، ص ۴۴۔۳۔رقعات اکبر/ مرتبہ محمد نصیر ہمایوں، لاہور: قومی کتب خانہ، ١٩٢٧، ص ۱۳۱۔ ۴۔ رقعات اکبر/ مرتبہ ساحل احمد، الہ آباد: اردو رائٹرس گلڈ، ١٩٩٧، ص ٢٥٦۔ ۵۔ مکاتیب اکبر: لسان العصر اکبر الہ آبادی مرحوم کے ادب پرور خطوط ١٩٠٩ء سے ١٩٢١ء تک/ مرتبہ محبوب علی، لکھنؤ: دائرہ ادبیہ، ١٩٢٢ء، ص ٢١٦۔ ۶۔ مکاتیب اکبر(بنام عبد الماجد دریابادی): حصہ دوم خطوط اکبر، دہلی: اقبال پرنٹنگ پریس، ١٣٤٢ھ (١٩٢٣ء)، ص ١٢٠۔ ۷۔مکاتیب اکبربنام عزیز لکھنوی، لکھنؤ: دائرہ ادبیہ، ١٩٢٢ء، ص ٢١٦۔ ۸۔ مکتوبات اکبر بنام مرزا سلطان احمد، لاہور: مرغوب ایجنسی، سنہ ندارد، ص ١٢٠۔ ۹۔ نظامی، خواجہ حسن: حضرت اکبر حسین اور مہاراجہ کشن پرشاد کی خط و کتابت، ١٩٥١ء۔
گیارہ اردو رسائل میں بھی متعدد خطوط شائع ہوئے ہیں۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ اکبر الہ آبادی کے خطوط نیاز فتحپوری کے نام، نگار، پاکستان، نومبر۔دسمبر ١٩٦٩ء (اکبر نمبر)۔۲۔خطوط اکبر بنام سید عشرت حسین، اکبر، الہ آباد، فروری ١٩٢٦ء۔۳۔مکتوب اکبر بنام سید عشرت حسین، اکبر، الہ آباد، اپریل ١٩٢٦ء۔ ۴۔ مکتوب اکبر، اکبر، الہ آباد، جون ١٩٢٦ء۔ ۵۔خط، نقوش، لاہور، ١٠٩، مئی ١٩٦٨ء (خطوط نمبر)۔ ۶۔ اکبر الہ آبادی کے خطوط سر کشن پرشاد کے نام، نگار، پاکستان، نومبر۔دسمبر ١٩٦٩ء (اکبر نمبر)۔ ۷۔ اکبر الہ آبادی کا ایک غیر مطبوعہ خط، معاصر، پٹنہ، جلد ۷، شمارہ ۷۔۸۔ اکبر الہ آبادی اپنے خطوط کی روشنی میں، آجکل، دہلی، ١٥/ اگست ١٩٤٩ء۔ ۹۔ خطوط اکبر، علی گڑھ میگزین، علی گڑھ، ٢٤/۳، ١٩٥٠ء (اکبر نمبر)۔ ١٠۔ اکبر الہ آبادی کے اکتیس نادر غیر مطبوعہ خطوط پنڈت پدم سنگھ شرما کے نام، آجکل، دہلی، فروری ١٩٩٢ء۔ ۱۱۔ نقوش، مکاتیب نمبر۔
خطوط کی اشاعت:
جہاں تک اکبر الہ آبادی کے خطوط کا تعلق ہے تو اب تک اس کے ۹/ مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور گیارہ اردو رسائل میں ان کے خطوط چھپ چکے ہیں۔ اگر ان سارے خطوط کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو اکبر الہ آبادی، علمی و ادبی مسائل اور اس وقت کے ملکی حالات کے بارے میں مفید معلومات فراہم ہو سکتے ہیں، جو اکبر شناسی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان خطوط کی اشاعت کا خیال تو اکبر الہ آبادی کے زمانے میں ہی کیا جانے لگا تھا۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے خطوط میں جابجا اشارہ بھی کیا ہے۔ شرف الدین احمد رامپوری نے عبد الماجد دریابادی سے اکبر الہ آبادی کے خطوط طلب کیے تھے۔ جب اس کے متعلق انھوں نے اکبر الہ آبادی سے دریافت کیا تو انھوں نے لکھا کہ:
”میں نے کوئی اجازت ان کو نہیں دی۔ اپنے نام کے خطوط وہ البتہ چھاپنے والے تھے۔ مجھ سے دیباچہ لکھنے کی خواہش کی تھی۔ میں نے انکار کیا۔ یہ جعلسازی کیوں“۔ (۸/ اگست ١٩١٨ء)
١٣/ دسمبر ١٩١٨ء کو اس سلسلے میں عبد الماجد دریابادی کو لکھتے ہیں:
”شرف الدین صاحب رامپوری نے مرزا سلطان احمد، مہاراجہ کشن پرشاد اور اکثر احباب سے خطوط مانگے۔ ان سب نے مجھ کو لکھا۔ دقّت یہ ہے کہ میں نے پرائیوٹ خطوط لکھے ہیں۔ معلوم نہیں کس میں کیا پہلو ہے۔ شرف الدین صاحب اپنے ہی نام کے خطوں کو چھاپ دیں۔ وہ میری قدر دانی فرماتے ہیں۔ ممنوں ہوں۔ لیکن یہ معاملہ ذرا دقّت طلب ہے“۔
عبد الماجد دریابادی نے جب بہ غرض اشاعت خطوط شرف الدین رامپوری کو دے دیے تو اکبر الہ آبادی نے اپنی ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے لکھا:
”شرف الدین صاحب کو آپ نے کیوں خطوط دے دئے۔ غالباً سابق میں ایسا اشارہ میں کر چکا تھا۔ ان کی گشتی چٹھی اِس سے پہلے مختلف امصار و دیار میں پہنچی تھی۔ ازانجملہ مرزا سلطان احمد صاحب پنجاب، مہاراجہ کشن پرشاد دکن وغیرہ احباب نے مجھ سے پوچھا، میں نے اپنا تامّل ظاہر کیا۔ قیاس ہے کہ اُن حضرات نے خطوط نہیں دئے۔ بہر کیف میں شرف الدین صاحب کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اِس وقت پھر لکھ رہا ہوں کہ قبل اشاعت وہ خطوط مجھ کو دکھالیں۔ زمانہ نہایت بدگمان اور پُر آشوب ہو رہا ہے۔ بالخصوص میری حالت نہایت نازک ہے۔ خدا جانے کس بات کے کیا معنی لیے جائیں“۔ (۸۲/ جون ۹۱۹۱ء)
واضح ہو کہ وہ زمانہ حصولِ آزادی کے تگ و دو کا تھا۔ ایسے میں اکبر الہ آبادی کا یہ خدشہ کہ”زمانہ نہایت بدگمان اور پُر آشوب ہو رہا ہے۔ بالخصوص میری حالت نہایت نازک ہے۔ خدا جانے کس بات کے کیا معنی لیے جائیں“ بے معنی نہیں تھا۔ کیونکہ ان خطوط میں حالات حاضرہ پر بھی انھوں نے اپنی باتیں رکھی تھیں۔ پھر اگلے خط میں نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”شرف الدین صاحب پر زیادہ سختی کی ضرورت نہیں۔صرف بلحاظ حالتِ زمانہ احتیاط ملحوظ ہے۔ آپ نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھ لیا ہے لیکن آپ بھی دیکھ لیجئے۔ اس لئے خدشہ رہ گیا۔ آپ بھی میرے خیر طلب ہیں مسٹر شرف الدین بھی، میں نہیں جانتا اِن خطوں کی کیا قیمت و وقعت ہوگی“۔ (۲/ جولائی ۹۱۹۱ء)
طبیعت کی ناسازی:
جس زمانے میں اکبر الہ آبادی اور عبد الماجد دریابادی کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا، وہ اکبر الہ آبادی کی زندگی کے آخری ایام تھے۔ اِن آخری ایام میں اکبر الہ آبادی کن حالات سے گھرے ہوئے تھے اور کیسی کیسی پریشانیوں کو جھیل رہے تھے، اس سلسلے میں انھوں نے تقریباً ہر خط میں اظہار خیال کیا ہے۔ خاص طور سے وہ اپنی بیماری و آزاری سے کافی پریشان تھے۔چنانچہ ٢٦/ اگست ١٩١٣ء کو وہ لکھتے ہیں:
”اگرچہ علالت اور مصائب نے تعلقاتِ دنیا کو بار اور زندگی کو ناگوار کردیا ہے۔ لیکن جب تک سانس ہے، حواس کے دام سے بالکل رہائی پانا کیوں کر ہو سکتا ہے“۔(۳)
طبیعت کی ناسازی کے اظہار میں بھی اُن کا ظریفانہ انداز صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے یہ جملے ملاحظہ فرمائیں: مئی، جون، جولائی کی گرمی نے اگر جان چھوڑی تو انشاء اللہ ملاقات ہوگی (ص ١٠٤)، ناتندرستی زندگی تلخ کردیتی ہے۔ میں تو اس کی نذر ہو گیا ہوں (ص ٩٠)، شکایتیں روز افزوں ہیں۔ مئی جون میں زندہ رہ گیا تو شاید کچھ اور جیوں (ص ۷۷)، حالت یہ ہے کہ تصور کرنا پڑتا ہے کہ زندہ ہوں (ص ٧٢)، جون نے جان چھوڑی تو جولائی میں شاید ملنا ہو (ص ۵۵)۔ جن خطوں میں انھوں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر کیا ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭٢٦/ اگست ١٩١٣ء: ”اگرچہ علالت اور مصائب نے تعلقاتِ دنیا کو بار اور زندگی کو ناگوار کردیا ہے۔ لیکن جب تک سانس ہے، حواس کے دام سے بالکل رہائی پانا کیوں کر ہو سکتا ہے“۔٭یکم ستمبر١٩١٣ء:”افسوس ہے کہ مجھ کو حوادث نے بہت ہی دل شکستہ اور بے تعلق کردیا۔ ورنہ آپ کا ایک اچھا اسسٹنٹ ہوتا“۔٭ ١٤/ ستمبر ١٩١٣ء:”میں تو اولاً خود بے بضاعت، دوسرے بے حد معذور ہو رہا ہوں۔ چار دن سے اعضا شکنی ہے۔ داہنے کان میں درد ہے۔ دیکھئے کب سفر کے قابل ہوں۔۔۔ دردِ سر سے پریشان ہوں“۔٭ ١٧/ ستمبر ١٩١٣ء: ”میں سخت تکلیف میں ہوں۔ اس وقت کان پر پُلٹس باندھی گئی ہے۔ نجات ملے تو قصدِ سفر کروں“۔ ٭ ٢٦/ ستمبر ١٩١٣ء:”دن بھر دردِ سر میں مبتلا رہا۔ صحت کی خرابی نے مجھ کو بیکار کر دیا ہے“۔ ٭یکم اکتوبر ١٩١٣ء: ”دو ایک دن کے بعد ارادہ لکھنؤ کا تھا، لیکن طبیعت صحیح نہ رہی۔ جرأت سفر نہ کر سکا“۔٭ ۱۱/ ستمبر ١٩١٤ء۔”کیا کہوں ایسے آلام اور مصائب روز افزوں میں مبتلا ہوں کہ طبیعت بجھی ہوئی ہے۔ پھر وہاں قیام میں بھی بہت تکلف ہوتا ہے۔ میں صرف سادہ غذا کھا سکتا ہوں۔“ ٭۲۲/ ستمبر ١٩١٤ء۔”خیالات اور حوادث نے میرے دل کو ایسا کردیا ہے کہ موجودہ سوسائٹی کا مدیون بننا نہیں چاہتا، کِبر سے نہیں بلکہ اپنی ناتوانی کے سبب سے، افسردگی بھی مانع ہے“۔٭۵/ اکتوبر ١٩١٤ء۔”ایک بات یہ بھی تھی کہ ہفتے عشرے طبیعت بہت نادرست رہی۔ اب تک مطمئن نہیں ہوں“۔٭۱۱/ نومبر ١٩١٤ء۔”ایک ہفتہ سے نزلہ اور دردِ سر وغیرہ میں مبتلا تھا۔ اب کچھ افاقہ ہے“۔ ٭۸/ دسمبر ١٩١٤ء۔”دو دن سے طبیعت اچھی نہیں، نزلے میں مبتلا ہوں“۔٭ ٢١/ دسمبر ١٩١٤ء۔” میں اِس وقت سخت نزلہ میں مبتلا ہوں۔ بات کرنا دشوار ہے“۔٭ ۶/ اپریل ١٩١٥ء۔” نہایت اضمحلال تھا رات بھر بے چین رہا۔ چار بجے صبح کو آنکھ لگی۔ ساڑھے چھ بجے اٹھ سکا۔ اب زُکام کے جاری ہونے کے کچھ آثار پیدا ہوئے“۔ ٭۶/ اگست ١٩١٥ء۔”میری تندرستی بہت خراب ہے۔ دنیا کے حالات سے کوئی دل خوش کن اور مطمئن کرنے والا نتیجہ نہیں نکلتا بجز اِس کے کہ فلسفۂ قدیم سے کچھ مدد لی جائے“۔ ٭ ١٨/ ستمبر ١٩١٥ء۔”اِس زمانے میں مَیں زیادہ علیل رہا، اور ہوں، زندگی کا کسی کو اعتبار نہیں، اور میں تو اِس عمر، اِن آلام، اِن ترددات کے ساتھ ہر نفس کو نفس واپسیں سمجھتا ہوں۔ عشرت کے اصرار سے یہاں (جونپور) چلا آیا ہوں۔ آج صبح طبیعت ایسی بگڑی کہ میں وقت آخر سمجھا“۔ ٭ ٢٣/ اکتوبر ١٩١٥ء۔” مجھ کو امراض لاحقہ کی تکلیف کم و بیش ہوتی رہتی ہے، رہائی کے دن قریب ہیں“۔٭ ١٨/مارچ ١٩١٦ء۔”دفعۃً طبیعت میں سخت انتشار محسوس ہوا، اور میں چل دیا۔ احباب کو بہت حسرت و مایوسی ہوئی ہوگی، دوسرے نسخے میں کچھ مرکب دوائیں جو بازار سے آئی تھیں، اُن کے اثر نے شدید نزلہ پیدا کردیا۔ تیسرا نسخہ غالباً مفید تھا۔ یہاں پہنچ کر دست تو موقوف ہو گئے ہیں، یعنی اِس وقت تک دست نہیں آیا لیکن سارے بدن میں درد ہے۔ پیٹ میں اکثر دردِ ریاحی رہتا ہے، اور چھینکوں کی کثرت نے کمزور دماغ کو اور بھی تباہ کردیا ہے۔ ۹/بجے بستر سے اٹھ سکا، امید ہے کہ دو چار دن میں بہ شرط زندگی افاقہ ہو“۔ ٭ ۸/ اپریل ١٩١٦ء۔”لیکن ہنوز اچھا نہیں ہوں۔ سخت مجبوری ہے، دل و دماغ قابو میں نہیں، معدے کی حالت خراب“۔ ٭ قبل ۳ نومبر ١٩١٦ء۔”کل نسخہ مجھ کو موافق نہ آیا۔ طبیعت زیادہ نادرست ہوگئی، دن بھر، رات بھر بے چین رہا۔ اس وقت حکیم نے مزاج پہچانا اور نسخہ بدل دیا“۔ ٭ ۳/ نومبر ١٩١٦ء۔”عجب اتفاق کہ کانپور پہنچ کر ایسا دوران سر اور قبض اور احتباس ریاح کے سبب سے خفقان ہوا، کہ میں اتر پڑنے پر مجبور ہوا۔ ویٹنگ روم میں شب بسر کی، صبح تک طبیعت چاق نے [؟] تھی، الہ آباد واپس آیا“۔٭ ۳/ نومبر ١٩١٦ء۔”کیا کہوں کہ طبیعت کی نادرستی سے کیسا معذور ہوں“۔ ٭ ۱۱/ جنوری ١٩١٧ء۔”دس پندرہ دن سے مسلسل دورے تبخیر اور دردِ سر کے ہوتے ہیں۔ رات تین بجے تک سخت بے چین رہا“۔٭٢٥/ جنوری١٩١٧ء۔”ضعف روز افزوں ہے، اور اس کے ساتھ انتشار طبع، کسی بات میں دل نہیں لگتا“۔٭۲/ فروری ١٩١٧ء۔”میں صفراوی دستوں میں مبتلا ہو گیا تھا۔ یعنی وہی حالت جو پارسال لکھنؤ میں پیش آئی تھی۔ تین دن بہت بے چین رہا۔ آج سکون ہے لیکن ہنوز اطمینان نہیں ہوا“۔٭١٦/ فروری١٩١٧ء۔”میں ٢٩/ جنوری سے اب تک غیر معمولی شکایتوں سے تکلیف اٹھا رہا ہوں، اِس موسم میں اخلاط غیر طبعی کا کچھ ہیجان ہوگیا ہے۔ ناتواں بہت ہوں۔ ایک سلسلہ نادرستی مزاج ہے کہ قائم ہے۔ اِس وقت ایک دانت میں درد۔ کھانے میں تکلیف ہے“۔ ٭۲/مئی١٩١٧ء۔ ”شکایتیں روز افزوں ہیں۔ اکثر حصہ وقت کا درد آگیں احساس میں گزرتا ہے۔ دل کسی کام میں نہیں لگتا۔ کیونکہ طول امل کی لذت جاتی رہی، اور جس بات میں کچھ دلچسپی ہے اُس کے مواقع نہیں ملتے“۔٭۶/ اگست ١٩١٧ء۔”میں کل سے صفراوی دستوں میں مبتلا ہو گیا ہوں“۔٭١٩/ اگست ١٩١٧ء۔”اِس سال دردِ سر نے مجھے سخت تکلیف دے رکھی ہے۔ دن دن بھر اور رات رات بھر بے چین رہا۔ سقوطِ اشتہا اُس کے ساتھ، طبیب کی ضرورت ہوئی، اب تو کچھ تخفیف ہے لیکن اعتبار نہیں“۔٭۳/ اکتوبر ١٩١٧ء۔”اس سال کی برسات میں میری صحت نہایت ہی خراب رہی، دنیا سے تعلق پر تو شاید دم آخر تک مجبوری ہے، لیکن دل کو نہایت یکسوئی ہوتی جاتی ہے“۔٭۶/جولائی ١٩١٧ء۔”طبیعت اکثر زیادہ نادرست ہوجاتی ہے، زندہ رہا تو آپ سے مل کر مسرت حاصل کروں گا“۔ ٭٢٥/ اپریل ١٩١٩ء۔” شکایتیں روز افزوں ہیں۔ مئی جون میں زندہ رہ گیا تو شاید کچھ اور جیوں“۔٭۹/ اگست ١٩١٩ء۔”چار پہر اچھا تو بارہ پہر بیمار، اِس معذوری نے تباہ کر رکھا ہے۔ قلم اور زبان کو مایوسی ہوتی جاتی ہے“۔٭٢٧/ اگست ١٩١٩ء۔”میں اِس وقت سخت بیمار ہوں۔ دانت کا درد دو دن کے بعد رخصت ہوگیا۔ زکام شروع ہوا۔ تین دن جاری رہا۔ لیکن اُس کے بعد شدید اعضا شکنی بخار کے ساتھ رہی۔ اب تین دن سے نہ بھوک ہے نہ پیاس ہے۔ دورانِ سر اس قدر کہ دو قدم چلنا دشوار ہے۔ ایک خفقان کی سی صورت ہے ناتوانی کی حد نہیں۔ اگر زندگی ہے تو شاید پانچ چار روز میں افاقہ ہو“۔٭۱۱/ستمبر ١٩١٩ء۔”لیکن ہنوز بہت تکلیف میں ہوں۔ ۲۲ دن ہوئے رغبت سے غذا نہیں ہوئی۔ زبان کا مزا خراب ہے۔ تولوں کا حساب ہے۔ سینے پر ایک التہاب ہے جس سے ہر وقت تکلیف رہتی ہے اور کسی وقت سانس رُکنے لگتی ہے۔ میں ایسا ضعیف، یہ عمر، یہ شد و مد مرض، پھر زندہ۔ خدا کی قدرت ہے“۔٭٢٥/ستمبر ١٩١٩ء۔”میں ہنوز معذور اور قریباً صاحبِ فراش ہوں۔ ٢٦ دن سے معمولی غذا ترک ہے۔ ساگو، حریرہ وغیرہ بے رغبتی سے پی لیتا ہوں۔ کسی خلطِ فاسد کا ہیجان ہے اور ضعف کے سبب سے تنقیۂ کامل نہیں ہوسکتا۔ شدید دورانِ سر کی تکلیف میں مبتلارہتا“۔٭٢٧/ستمبر ١٩١٩ء۔”امید زیست نہ تھی، اب معلوم ہوا ہے کہ شاید کچھ دنوں اور زندہ رہوں، یہ خط لکھ رہا ہوں، لیکن بمشکل۔ حواس بالکل بجا نہیں ہیں“۔٭۴/اکتوبر ١٩١٩ء۔”ایسا سخت ہیجان خلط فاسد کا ہوا تھا کہ اس وقت تک منہہ کا مزار [؟] بھی خراب ہے اور مقدار غذا بھی معمول پر نہیں پہنچی۔ اور روٹی کھا نہیں سکتا۔ دورانِ سر کی وجہ سے اکثر دو چار قدم بھی چلنا دشوار ہوتا ہے“۔٭۵/اکتوبر١٩١٩ء۔”ناتندرستی زندگی تلخ کردیتی ہے۔ میں تو اس کی نذر ہوگیا ہوں“۔٭١٣/اکتوبر ١٩١٩ء۔”دردِ سر، تبخیر سوداوی اور ضعف مثانہ، شدت اوہام سے بہت تکلیف اٹھا رہا ہوں۔ اگرچہ بہ نسبت پہلے کے اب غذا کچھ ہونے لگی ہے۔ آپ سے مراسلت باعثِ انبساطِ خاطر ہے“۔٭٢٦/دسمبر ١٩١٩ء۔”شکایتِ مثانہ نے نہایت معذور کر دیا ہے“۔٭٢٣/فروری ١٩٢٠ء۔”ہوائے سرد نے اعضا کو بہت مضمحل کر دیا تھا، احساسِ فنا اور یہ نوبتِ عمر، اس خیال سے عملی زندگی میں بہت حرج ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کس وقت شمعِ حیات گُل ہو جائے“۔٭١٩/مارچ ١٩٢٠ء۔”زندگی و توانائی شرط ہے، ناتندرستی و ناتوانی نے معذور کردیا ہے۔ دل و دماغ میں انتشار رہا کرتا ہے“۔٭۹/مئی ١٩٢٠ء۔”مئی، جون، جولائی کی گرمی نے اگر جان چھوڑی تو انشاء اللہ ملاقات ہوگی“۔٭١٦/ستمبر ١٩٢٠ء۔”ہر روز دردِ سر کا دورہ ہوتا ہے۔ گھنٹوں رہتا ہے۔ تبدیلِ موسم سے کچھ اصلاح کی امید ہے“۔٭۴/جنوری ١٩٢٠ء۔”اِس سال ضعف مثانہ و ضعف قوت ماسکہ کی شکایت اس قدر زیادہ ہے کہ بے چین اور مغموم رہتا ہوں۔ نہیں سمجھتا کہ اس حالت کے ساتھ زندگی زیادہ دنوں تک چل سکے گی“۔٭۱/اپریل ١٩٢١ء۔ ”امراض و آلام اور حوادث نے اتنا پریشان کیا ہے کہ فیصلہ نہیں کر سکتا، کل کیا کروں گا، کہاں رہوں گا۔ رہوں گا بھی یا نہیں اور حواس میں رہوں گا یا نہیں“۔ ٭٢٧/اپریل ١٩٢١ء۔”میں بیمار ہوں۔ بہت تکلیف ہے۔ ہر دوسرے تیسرے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ نزع قریب ہے۔ پھر افاقہ ہوجاتا ہے“۔ ٭۱۱/مئی ١٩٢١ء۔”بہت علیل ہوں۔ ہیجان۔۔سوداوی نے دماغ کو پریشان کر رکھا ہے۔ کبھی معلوم ہوتا ہے کہ حالت نزاع قریب ہے، کبھی پھر امیدِ زیست بندھ جاتی ہے“۔
لڑکے کا انتقال:
اکبر الہ آبادی کو اپنے لڑکے ہاشم سے ایک خاص لگاؤ تھا۔ اہلیہ کی وفات کے بعد یہی اُن کی دنیاوی زندگی کا سہارا تھا۔ لیکن جب یہ سہارا بھی چھن گیا تو اکبر الہ آبادی بے چین ہو اٹھے۔ اِس کی موت کا کتنا اثر اُن پر ہوا۔ اس کا اظہار انھوں نے دردناک انداز میں کیا ہے:
”آپ جب یہاں مجھے ملے تھے اس کے بعد میں شدید مصائب میں مبتلا ہو گیا۔ میرا لڑکا سید ہاشم جو نہایت ذہین، ہونہار، توانا، بالا بلند، موزوں طبع، عاقل، خدا پرست، شعر فہم، میرا خادم، مشیر و مطیع تھا، اور جس نے چودھویں سال میں قدم رکھا تھا۔ یکایک سرسام میں مبتلا ہو کر مجھ سے ہمیشہ کو جدا ہوگیا۔ بی بی پہلے مر چکی تھیں، وہی لڑکا دنیاوی زندگی کا سہارا تھا۔ مذہب اور فلسفۂ تصوف نے دیوانگی سے محفوظ رکھا۔ لیکن بے حد افسردہ اور دنیا سے بے تعلق ہو گیا ہوں۔ ہوش و حواس سے مجبوری ہے“۔ (١٤/ ستمبر ١٩١٣ء)
مخالفین و حاسدین:
اُس زمانے میں اکبر الہ آبادی کے مخالفین اور حاسدین کی ریشہ دوانیاں زوروں پر تھیں۔ اِس سے وہ کافی پریشان رہتے تھے۔ بعض خطوں میں انھوں نے اشارہ و کنایہ میں اِس کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن معاملہ کیا تھا اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، اِس کے بارے میں نہ تو اکبر الہ آبادی نے اور نہ عبد الماجد دریابادی نے کچھ اشارہ کیا ہے:
”میں عجیب ترددات میں رہا، اور ہوں۔ کبھی ملا تو کچھ کہوں گا“ (۲/ جنوری ١٩١٥ء)۔ ”میں اس وقت نہایت غیر معمولی ترددات میں مبتلا ہوں۔ خدا اطمینان نصیب کرے“ (۹/ فروری ١٩١٥ء)۔ ”میں اُن غیر معمولی ترددات کے سبب سے جو بعض حاسدوں نے پیدا کر دئے ہیں، نہ صرف کسی قدر اندیشہ ناک بلکہ مغموم و افسردہ بھی ہوں کہ کیسا پوزیشن لے کر عالمِ ہستی میں آیا ہوں۔ خیر جو کچھ ہو: (۱۱/فروری ١٩١٥ء)
جو ہنس رہا ہے وہ ہنس چُکے گا، جو رو رہا ہے وہ رو چُکے گا سکونِ دل سے خدا خدا کر، جو ہو رہا ہے وہ ہو چُکے گا
ایک خط میں لکھتے ہیں: ”زمانے کی نزاکت اور غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے طوفان نے اطمینان کو درہم برہم کر دیا ہے۔ اِس زمانے میں میں زیادہ علیل رہا، اور علیل ہوں، زندگی کا کسی کو اعتبار نہیں، اور میں اِس عمر، اِن آلام، اِن ترددات کے ساتھ ہر نفس کو نفس واپسیں سمجھتا ہوں (١٨/ستمبر ١٩١٥ء)“۔
تربیت احفاد:
اکبر الہ آبادی نے جس طرح اپنے لڑکوں کی تعلیم و تربیت کا خاص دھیان رکھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اُن کے لڑکے اعلی عہدے پر فائز ہوئے۔ اِسی طرح اپنے پوتوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھ رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک خط میں لکھتے ہیں:
”عقیل ابن عشرت کے لئے ایک معلم کی ضرورت ہے۔ عربی شروع کردی گئی ہے۔ میزان منشعب پڑھ چکے ہیں۔ یہ بھی چاہتا ہوں کہ مذہبی واقفیت ہو جائے۔ نماز کا خوگر ہو جائے۔ کیا آپ اور سید سلیمان صاحب کسی کو تجویز کر سکتے ہیں۔ ذرا ہوشیار شخص ہو، کھانا ملے گا، اچھی جگہ اچھی طرح رہیں گے۔ سرِ دست ٢٠/ روپے ماہوار یا حسبِ لیاقت جو تجویز ہو، دیا جائے گا“ (٢١/ نومبر ١٩١٦ء)
ملک و قوم کے حالات:
مکاتیب اکبر کے یہ خطوط ٢٦/ اگست ١٩١٣ء اور ۲۲/ جولائی ١٩٢١ء کے دوران لکھے گئے ہیں۔ یہ ہندستانی سیاست کے لیے ایک نازک دور تھا۔ جہاں ایک طرف تحریک آزادی کے علم بردار اور متوالے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے اپنی تحریکیں تیز کیے ہوئے تھے اور اپنے مال و جان کی پروا کیے بغیر قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ تحریک آزادی کی لَو جتنی تیز ہوتی تھی، انگریزوں کی زیادتی اور ریشہ دوانی اسی مناسبت سے بڑھتی ہی جارہی تھی۔ اکبر الہ آبادی اِن حالات کے عینی شاہد تھے۔ خود اکبر الہ آبادی قوم اور حکومت کی بدگمانی سے خاصا پریشان تھے اور اِس سے پہلو تہی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اس کا ذکر انھوں نے ۱۱/ اکتوبر ١٩١٣ء کے خط میں کیا ہے:
”میں ۷/ اکتوبر کو بخیریت الہ آباد پہنچ گیا۔ لیکن طبیعت کو سکون و اطمینان نہیں ہے۔ نہیں معلوم اِس وقت کیا پہلو اختیار کرنا چاہئے کہ قوم و گورنمنٹ دونوں کی بدگمانی سے حفاظت ہو۔ خدا ملک پر رحم کرے۔ (ص ١٤)“
اس زمانے میں اردو یونی ورسٹی، ہندی زبان اور ہندستانی کا فوج میں داخل ہونا، ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے خط مرقومہ ۴/ جون ١٩١٧ء میں اِن مسائل کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ہندوستان کا پالیٹکس بہت پیچیدہ اور مشکل اور خطرناک ہوتا جاتا ہے۔ اردو یونیورسٹی بھی اِسی میں داخل ہے۔ ہندو کا ہوم رول اور ذوقِ ہندی بھی اِسی میں داخل ہے، انڈین کا فوج میں داخل ہونا بھی اِس میں داخل ہے۔ بہر حال زندگی بسر کرنا ہے (ص ۵۵)“
اُسی زمانے میں الہ آباد کی فرقہ وارانہ فضا مسموم ہو گئی تھی۔ اس کی اطلاع دیتے ہوئے اکبر الہ آبادی اپنے خط مرقومہ ٢٠/ نومبر ١٩١٧ء میں لکھتے ہیں:
”اب الہ آباد میں سکون ہے، باہم کشیدگی تو چندے رہے گی (ص ٦٢)“
١٩١٨ء میں جنگ، نئے سپاہی کی بھرتی اور سخت نگرانی لوگوں کا یہی موضوعِ سخن تھا۔ اِسی ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی اپنے خط مرقومہ ۱۱/ جون ١٩١٨ء میں لکھتے ہیں:
”جنگ اور رنگروٹ اور چندے اور سخت نگرانی کے سوا یہاں آج کل کچھ ذکر نہیں۔ اللہ فضل کرے (ص ۶۶)“۔
اردو اور ہندی رسم الخط کا مسئلہ بھی اُس وقت زوروں پر تھا۔ اکبر الہ آبادی کی اِس سے متعلق کیا رائے تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے کیا عملی اقدام کیا تھا۔ خط مرقومہ ۱۱/ جون ١٩١٨ء سے اس پر روشنی پڑتی ہے:
”اردو پر آپ نے خوب لکھا۔ محسن الملک صاحب کے ایما سے میں نے بھی ایک بڑا مضمون لکھا تھا۔ ایک واقف کار مسلمان کی رائے سے چھپا تھا۔ چونکہ میں اس وقت مرزا پور میں سیشن جج تھا اور سر ابنٹنی میڈانل کی گورنمنٹ حامی ہندی تھی۔ اِس سبب سے میرا نام نہیں ظاہر کیا۔ وہ مضمون قابلِ دید ہے۔ علی گڑھ میں کہیں ہوگا۔ لیکن اِن مضامین سے کیا ہوتا ہے، پالیسی اور ہے اور زمانے کی رفتار اور ہے۔ ہندوؤں کی یہ بے امتیازی دیکھ کر ایک بات تسکین دہ ضرور دل میں آتی ہے، وہ یہ کہ ایسی قوم کو غلبہ نہیں ہو سکتا، پولیٹکل غلبہ مقصود ہے (ص ۶۶)“
اُس زمانے کی مسلمانوں کی سیاست سے اکبر الہ آبادی مطمئن نہیں نظر آتے ہیں۔ انھیں مسلمانوں کا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ خط مرقومہ ۶/ جولائی ١٩١٨ء میں لکھتے ہیں:
”ہم لوگوں کی پولیٹکل حالت بالفعل بہت تاریکی میں ہے۔ خدا رحم فرمائے (ص ٦٩)“۔
١٩١٩ء میں ملک بالخصوص مسلمانوں کی حالت بہت نازک بن گئی تھی۔ اکبر الہ آبادی  اِس تشویشناک حالت کا ذکر اپنے خط مرقومہ ۹/ اپریل ١٩١٩ء میں لکھتے ہیں:
”آپ دیکھتے ہیں ملک میں کیسی شورش ہے۔ اللہ مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ بے حد نازک حالت ہے۔ (ص ۶۷)“۔ َْٰ
١٩١٩ء کے دہلی سانحہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اکبر الہ آبادی اپنے خط مرقومہ یکم اپریل ١٩١٩ء میں لکھتے ہیں:
”دہلی کی خبر سن کر افسوس ہوا۔ دیکھئے یہ طوفانِ بے تمیزی کب فرو ہوتا ہے۔ یا کون رخ اختیار کرتا ہے۔(ص ۷۷)“
علی برادران کی قید و بند کی زندگی سے رہائی ملنے پر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اسے غربی کرشمہ کہا۔ ١٤/ جنوری ١٩٢٠ء کے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
”علی برادر کا معاملہ تو غربی کرشمہ ہے۔۔۔ علی برادر کی رہائی پر خوشی کا ایک پہلو تو یہ بھی ہے کہ انگریز اپنی فتح پر مطمئن ہو گئے اور ان کی ضرورت نہ رہی کہ اپنے نامہربانوں کو محبوس رکھیں۔ لیکن میں تو صرف اس امید سے خوش ہو سکتا ہوں کہ برادرانِ ممدوح مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی ترقی میں بہ دل توجہ فرمائیں گے (ص ٩٧۔٩٨)“۔
الناظر کے ایڈیٹر مولوی ظفر الملک کو جرم حب الوطنی میں جب دو سال قید کی سزا ہوئی تو اکبر الہ آبادی نے افسوس کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
”ظفر الملک صاحب کے مصائب کا افسوس ہوا۔ عزیزی صبغۃ اللہ صاحب ملیں تو میری دعا کہہ دیجئے گا (ص ۱۱۱)“۔
اس زمانے میں مسلمانوں کی جو حالت تھی، اُس سے وہ کافی فکر مند رہتے تھے۔ خاص طور سے اخلاقی و روحانی پہلوؤں کی طرف ان کا دھیان بہت ہی کم تھا۔ اِسی کا ذکر وہ اپنے خط مرقومہ ١٦/ اگست ١٩٢٠ء میں کرتے ہیں:
”مسلمانوں پر جو باخبر اور صاحب دل ہیں، اس وقت بڑی مصیبت ہے۔ اُن کو عظیم خطرات کا سامنا ہے۔ پولیٹکل پہلو پر تو بہت شور و شغب ہے۔ لیکن اخلاقی و روحانی پہلوؤں کی طرف کم دھیان ہے (ص ١٠٦)“۔
سید سلیمان ندوی:
رقعات اکبر مرتبہ محمد نصیر ہمایوں؛ پیش کش ساحل احمد میں سید سلیمان ندوی کے نام اکبر الہ آبادی کا پہلا خط ٢٥/فروری ١٩١٥ء کا اور آخری خط ٢٥/ جون ١٩١٩ء کا ہے۔
”آپ کے اشعار نے جن کے معنی بحر حقیقت میں ڈوبے ہیں، مجھ کو آپ کا زیادہ مشتاق کر دیا۔ زندگی ہے جس کا میں شایق نہیں ہوں تو کبھی ملنا ہوگا (٢٥/ فروری ١٩١٥ء)۔
عبد الماجد دریابادی:
عبد الماجد دریابادی جس وقت اکبر الہ آبادی کے تعلق میں آئے، اُس وقت دونوں کی عمر میں کافی فرق تھا۔ عبد الماجد دریابادی جوانی کی دِہلیز پر قدم رکھ رہے تھے اور عمر کی بیسویں منزل میں تھے۔ جب کہ اکبر الہ آبادی اپنی زندگی کی ۶۶/ویں بہاریں دیکھ چکے تھے اور آخری منزل کی طرف اپنا قدم بڑھا چکے تھے۔ دونوں کے مذہبی خیالات میں بھی کافی بُعد تھا۔ ایک جامِ شریعت سے شرابور تھا جب کہ دوسرا الحاد و تشکیک کے سمندر میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ایک نوجوان طالب علم اور مذہب و تصوف کے لبادہ میں ملبوس ایک سن رسیدہ بزرگ کی معیت اور رفاقت کی ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملیں گی۔ البتہ دونوں میں باہمی جذب و کشش کی بنیاد مشرقی علوم سے دونوں کی غیر معمولی دل چسپی اور فلسفہ سے لگاؤ تھا۔ ایک کا فلسفہ اسلام کی حقانیت میں مددگار ثابت ہو رہا تھا، جب کہ یہی فلسفہ دوسرے کو صراط مستقیم سے دُور لے جا رہا تھا۔ اس کے باوجود پہلی ہی ملاقات میں دونوں میں اُنس و محبت کا ایسا رشتہ قائم ہو گیا جو آخری وقت تک بر قرار رہا۔ دونوں میں خط و کتابت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے خطوط میں عبد الماجد دریابادی کو حبیبی و مکرمی، عزیزی و حبیبی، عنایت فرمائے من، ڈیر فرینڈ، زیب انجمن علم و دانش، الطاف فرمائے اکبر، برادرم، محب اکبر جیسے مشفقانہ و محبوبانہ الفاظ سے مخاطب کیا ہے۔ تخاطب کے انداز سے کہیں بھی اس کا احساس نہیں ہوتا کہ اُن کا مخاطب ایک نوجوان طالب علم ہے۔ اکثر خط میں وہ عبد الماجد سے ملاقات کے خواہاں رہے ہیں۔ ١٨/ ستمبر١٩١٥ء کے خط میں لکھتے ہیں:
”آپ کا مشتاق رہتا ہوں، کیوں نہ دو چار دن کو الہ آباد آئیے، آپ کا دماغ سائنٹفک ہے اور آپ کا دل ملائم اور لطیف، اِس سبب سے میں آپ کو بہت زیادہ وقعت کا مستحق سمجھتا ہوں۔ (ص٢٨)“۔ آپ سے ملنا میرے لئے غذائے روح ہے (یکم اپریل ١٩١٩ء)۔
اِن دونوں حضرات کا تعلق بے لوث تھا، اِس کا اظہار خود اکبر الہ آبادی نے اپنے خط مرقومہ ۲/ مئی ١٩١٧ء میں کیا ہے:
”نہ غرض، نہ تعلق، نہ معاملہ، نہ مقدمہ لیکن کوئی بات تو مشترک ہے کہ مجھ کو آپ کا اور آپ کو میرا خیال ہے۔ جب تک یہ اشتراک باقی ہے (خدا کرے باقی رہے اور روز افزوں ہو بشرطیکہ مضر نہ ہو) لُطف باقی ہے (٥١۔٥٢)“۔
اکبر الہ آبادی نے عبد الماجد دریابادی کے ساتھ اخلاق و اخلاص کا ایک عمدہ نمونہ پیش کیا۔ در اصل اِسی راستے سے وہ عبد الماجد دریابادی کے دل میں جگہ بنانا چاہتے تھے تاکہ اُن کے دل میں الحاد و تشکیک کی جو گانٹھ پڑگئی ہے، اُسے زائل کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے خطوں میں کہیں بھی انھوں نے نہ اسلام کی دعوت دی ہے اور نہ اُن کے الحاد و تشکیک کا ذکر کیا ہے۔ البتہ فلسفہ کی بحث میں ہی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو اُن کی اصلاح کی راہ ہموار کرنے والی ہوتی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
”فلسفہ نے اگرچہ آپ کے اجزائے طبیعت کو مستحکم و مضبوط کر دیا ہے۔ لیکن آپ موتی ہیں، پتھر نہیں ہیں۔ خدا موتی کی [طرح] آب کو برقرار رکھے (١٤/ جون ١٩١٦ء)“۔
اکبر الہ آبادی قرآن شریف کی تلاوت کی طرف عبد الماجد دریابادی کو راغب کرنا چاہتے تھے۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ ثواب کی نیت سے یا مذہبی کتاب سمجھ کر پڑھیں بلکہ ادبی لُطف و ذوق کے خیال سے اُس کی تلاوت بار بار کیجئے۔ وہ لکھتے ہیں:
”برادرم۔ قرآن شوق سے دیکھئے، خوب دیکھئے، بہت دیکھئے، یہاں تک کہ بلا مدد ترجمہ اُس کے ظاہری معنی سمجھنے لگئے۔ تفسیروں کی حد نہیں۔ مذاق مفسرین کی بوقلمونی حیرت انگیز ہے۔ قرآن مجید کو بطور تلاوت پڑھا کیجئے۔ ایک سرے سے پڑھ جائیے، اور پڑھئے، اور پھر پڑھئے، زیادہ نہ رُکئے، پڑھتے چلے جائیے، ثواب کا عقیدہ نہ سہی، لٹریری لُطف و ذوق کا خیال کیجئے۔ ہر وقت طبیعت یکساں نہیں رہتی، کسی وقت کوئی آیت دل کو متوجہ کرے گی، مزا آئے گا، یا کوئی مسئلہ منکشف ہوگا جو اُس وقت یا اُن روزوں ذہن میں ہے، کسی وقت اسی طرح کوئی اور آیت دل کو کھینچے گی۔ غور اور اسٹڈی اور کریٹی سزم اور مضمون نگاری کے لئے قرآن مجید کو خاص طور پر جا بجا حسبِ مرضی دیکھنے کا کوئی اور وقت نکالئے۔
پیغمبر صاحب کو اِس کا یقین تھا یا نہیں، ایک بحث۔ وہ یقین صحیح تھا یا نہیں، دوسری بحث۔ پہلی بات کا فیصلہ کرنے کے لئے بہت غور ضروری نہ ہوگا۔ لیکن کُل پڑھنا چاہئے، اور بار بار۔
خدا قرآن کی رُو سے قادرِ مطلق اور خالقِ کائنات ہے۔ ارسطو کے خدا سے کیا واسطہ۔ ارسطو میں Classification اور Generalisation کی بے حد قوت تھی۔ لیکن میں نے کسی فلاسوفر کو نہ دیکھا کہ اُس کے معاصرین نے یا پیچھے آنے والوں نے اُس کی تردید نہ کی ہو:
صدیوں فلاسوفی کی چُناں اور چنیں رہی لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی
میں خدا کا نام تو جانتا ہوں، خدا کا خیال نا ممکن پاتا ہوں، ماسوا پیش نظر ہے، جہاں اُس کا خیال آیا خیالِ خدا غائب ہو گیا۔(۱۱/ فروری ١٩١٦ء)۔
مذکورہ خط میں انھوں نے اپنے مزاج کے بر خلاف کچھ زیادہ ہی وضاحتی انداز اختیار کر لیا تھا۔ جب انھیں اِس کا احساس ہوا تو فوراً ہی معافی کے طلب گار ہوئے اور غیر متعلق باتوں کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ البتہ قرآن سے متعلق اپنی باتوں پر قائم رہے اور ثواب کا ایک نیا معنی پیش کیا۔ ان کے نزدیک ثواب انبساطِ قلب کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
”کل میں نے بہت بے تکلفانہ آپ کو ایک خط لکھا۔ لیکن معافی چاہتا ہوں۔ بہت کچھ اررلیونٹ (غیر متعلق) ہے آپ اپنا کورس خود خوب سمجھتے ہیں۔ جو لکھا وہ سب واپس لیتا ہوں۔ بجز اس کے کہ قرآن مجید میں صرف پرائم مُودَر(محرک اول) نہیں بلکہ خدا قادر مطلق ہے۔ سورہ رحمان میں کل یوم ھو فی شان ملاحظہ فرمائیے۔ اس کے سوا صدہا آیتیں ہیں۔ ثواب کے یہ معنی بھی سمجھئے کہ دل کو انبساط ہوا۔ کسی مسئلہ کا انکشاف ہوا۔ مجھے تو روزے کا ثواب افطار کے وقت مل جاتا تھا (٢١/فروری ١٩١٦ء)
اکبر الہ آبادی، عبد الماجد دریابادی کی اصلاح و تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ بہ غرض اصلاح جو اشعار اکبر الہ آبادی کو بھیجتے تھے۔ اُن میں بھی اُن کی مذہبی اصلاح کا کوئی پہلو ہاتھ لگتا تو اِس معاملے میں چوکتے نہیں تھے۔ مثلاً یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”آپ کے یہ دو شعر بلحاظ معنی بہت خوب ہیں:
وہ مدت ہوئی مل چکے ہیں عدو سے مری آہ اب تک اثر ڈھونڈتی ہے
نگاہِ کرم اس ستمگر کی ناظر فقط آپ کی چشمِ تر ڈھونڈتی ہے
اِس مقطع کو آپ خود بھی یاد رکھئے (۳/ جنوری ١٩١٧ء)“
اُس زمانے میں عبد الماجد دریابادی برکلے کی کتاب کا ترجمہ کر رہے تھے۔ اکبر الہ آبادی نے خوشی کے اظہار کے ساتھ اِس میں اصلاح کا پہلو بھی نکال لیا۔ لکھتے ہیں:
”میں خوش ہوا کہ آپ برکلے کا ترجمہ کر رہے ہیں، آپ کو خود انشاء اللہ بہت فائدہ پہنچے گا بشرطیکہ آپ کو اِس کی پروا ہو۔ میرا مطلب باطنی فائدے سے ہے (۴/ جون ١٩١٧ء)“۔
اِن چھوٹے چھوٹے جملوں سے ہی اکبر الہ آبادی اصلاح کا کام لیتے تھے اور جب ان کی اصلاحی تدبیریں دبے پاؤں اپنا اثر دکھانے لگیں تو بہ حیثیت مسلمان عبد الماجد دریابادی کی باتیں ہونے لگیں۔ اکبر الہ آبادی نے یہاں بھی اصلاح کا پہلو ڈھونڈ لیا۔ ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”دوستوں نے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کو قلم اٹھایا۔ میں نے عاشقانِ الہی میں داخل کردیا۔ نباہ اللہ کے ہاتھ ہے (٢٦/ ستمبر ١٩١٨ء)۔“
عبد الماجد دریابادی میں جب اسلام سے رغبت اور الحاد و تشکیک سے بے زاری کے آثار ظاہر ہونے لگے تو اکبر الہ آبادی کو قرار نصیب ہوا۔ اِس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
”میں نے بے ساختہ آپ کی نسبت لکھ دیا تھا: آہوئے دشت ہویم از ما سوا رمیدہ۔ میں خوش ہوں کہ اُس کی صداقت کے آثار آپ کی صاف اور بلند طبیعت سے نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ ہمارے ڈپٹی صاحب مرحوم (عبد الماجد دریابادی کے والد) کو شاید شبہ و افسوس تھا کہ لڑکا دین سے بیگانہ ہوتا جاتا ہے۔ اب فرشتوں سے یہ سُن کر اُن کی روح خوش ہوگی کہ وہ لڑکا حقیقت آشنا ہوتا جاتا ہے اور انشاء اللہ بہت جلد کہہ دے گا ”بمقامے رسیدہ ام کہ مپُرس“۔ (ص ۹۷)“
دوسرے خط میں لکھتے ہیں:
”مولوی محمد کریم صاحب نے مجھ کو خط لکھا تھا کہ ماجد میاں کو تصوف اور عبادت الہی کا شوق ہو گیا ہے، میری روح کو بالیدگی ہوئی (۱۱/ مئی ١٩٢٠ء)“۔
عبد الماجد دریابادی برابر باطنی ترقی کے درجات طے کرتے جارہے تھے۔ اکبر الہ آبادی اُن کی اِس باطنی ترقی سے کافی خوش نظر آتے ہیں۔ اپنے خط مرقومہ ٢٣/جنوری ١٩٢٠ء میں انھوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے:
”ماشاء اللہ چشم بد دور۔ میں ہرگز گمان نہ کر سکتا تھا کہ آپ اِس بلندی پر پہنچ گئے ہیں۔ آیۂ علوا فی الارض مدت سے میرے پیش نظر ہے۔ خاموشی کے ساتھ باطنی ترقی میں مصروف رہئے۔ لقد جئتمونا فرادی کما خلقکم اول مرۃ یاد رکھئے۔۔۔آئیے ہم لوگ اللہ کے واسطے، حق کے واسطے، روحانیت کے واسطے، عقل سلیم کے واسطے، متانت و وقار کے واسطے، صبر کے واسطے ایک جماعت ہوں، ایسے لوگ کم ہیں (ص ٩٨۔۹۹)“۔
اکبر الہ آبادی اصلاح و تربیت کے ساتھ ساتھ اُن کی ضروریات کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ عبد الماجد دریابادی اُس وقت طالب علم تھے اور والد کے انتقال کے بعد معاشی پریشانی سے دوچار تھے۔ جب اُن کی کتاب ’فلسفۂ جذبات‘ شائع ہوئی تو انھوں نے ایک نسخہ ہدیۃً اکبر الہ آبادی کو ارسال کیا۔ اُنھوں نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی قیمت انھیں بھیج دی۔ اس کے بارے میں وہ اپنے خط مرقومہ ٢٨/ مئی ١٩١٤ء میں لکھتے ہیں:
”کتاب جو آپ نے سعادت اور محنت اور قدردانی سے بھیجی ہے، پہنچی اور مجھ کو اپنا یہ شعر یاد آیا:
کُھلا دیوان مرا تو شور تحسین بزم میں اٹھا مگر سب ہو گئے خاموش جب مطبع کا بِل آیا
لہذا بے تکلفانہ۔۔۔ کا منی آرڈر بھیجتا ہوں۔ قیمت سے کچھ تعلق نہیں۔ امید کہ بلا عذر قبول فرمائیں گے اور مجھ کو ممنون کریں گے(١٦۔١٧)“۔
اس سلسلے میں عبد الماجد دریابادی نے اکبر الہ آبادی سے دریافت کیا کہ:
”آپ کی ناخوشی کے خوف سے رقم فوراً واپس نہیں کیا، امانت رکھی ہوئی ہے، اجازت ہو تو اب واپس کردوں (ص ١٧)“۔
اس کے جواب میں اکبر الہ آبادی نے لکھا:
”میں نے قیمت نہیں دی۔ صرف طبع میں گویا شرکت کی، کوئی بات نہیں۔ آپ نے کیوں ایسا خیال کیا۔ آپ کو معلوم نہیں آپ کے والد ماجد صاحب مرحوم میرے کیسے فیاض عنایت فرما تھے۔ مجھ کو تو آپ کا خادم اور دعا گو رہنا چاہئے۔ قطع نظر اس کے فی الواقع آپ کی محنت و توجہ اِس کتاب کی تالیف بلکہ تصنیف میں مستحق اِس بات کی ہے کہ اُس کی قدر کی جائے۔ امانت رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ اُس رقم کی بساط ہی کیا ہے اپنے دلی خلوص اور ہمدردی کو میرے لئے امانت رہنے دیجئے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ واپس نہ کیا۔ میں ضرور سمجھتا کہ آپ نے ادب ملحوظ نہ رکھا۔ الحمد للہ کہ آپ صرف تحریر میں خطِ اقلیدس ہیں۔ برتاؤ میں شاخِ گل ہیں۔ خدا روز افزوں ترقی نصیب کرے (٣١/ مئی ١٩١٤ء)“۔
ایک دفعہ جب عبد الماجد دریابادی کی صحت خراب ہوئی تو اکبر الہ آبادی نے ان کو کچھ روپے بھیجے تھے۔ عبد الماجد دریابادی کو اِس میں تردد تھا۔ جب اکبر الہ آبادی کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے اپنے خط مرقومہ ١٥/ اکتوبر ١٩١٩ء میں لکھا:
”مجھ کو آپ کی اس قدر نا درستیِ مزاج کا خیال نہ تھا۔ اللہ تعالی جلد صحت و قوت عطا فرمائے۔ آپ نے نوٹ واپس کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اِس میں شک نہیں کہ جب آپ کے علم اور متانت پر نظر کرتا ہوں تو اپنا آنر سمجھتا ہوں کہ آپ اس محبت سے پیش آتے ہیں اور ایسا دلی تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن میں اِس بات پر رضا مند نہیں ہوں کہ آپ کے والد صاحب مرحوم کی نیازمندی کی وجہ سے جو بزرگانہ درجہ مجھ کو حاصل ہے، اُس میں خلل پڑے۔۔۔آپ اُس ناچیز نوٹ کو جہاں تھا رہنے دیجئے۔ جو چاہے کیجئے۔۔۔بہر حال یہ مطلب نہ تھا کہ آپ اُس رقم کے ذمہ دار اور امانت دار ہیں۔ آپ کی صحت کے لئے بقدر اپنی بساط کے ایسی بہت رقمیں نثار کرنے کو موجود ہوں۔ آپ پر شاید بار ہو، لیکن واپسی مجھ پر شدید بار ہے اور نہایت بدنما اور مکروہ بات معلوم ہوتی ہے (ص ٩١۔٩٢)“۔
تصوف اور علامہ اقبال:
جدید اردو شاعری کے معماروں میں اکبر اور اقبال کا شمار ہوتا ہے۔ دونوں گرچہ ہم عصر تھے تاہم اقبال، اکبر الہ آبادی سے عمر [میں] ٣١/ سال چھوٹے تھے۔ اس کے باوجود دونوں میں گہری رفاقت تھی۔ دونوں میں آپسی تعلقات کب قائم ہوئے حتمی طور پر اس کا تعین مشکل ہے۔ البتہ ۶/ اکتوبر ١٩١١ء سے دونوں کے مابین خط و کتابت کے ثبوت ملتے ہیں۔ مذکورہ مکاتیب اکبر میں اقبال کا ذکر پہلی بار ۹/فروری ١٩١٥ء کے خط آیا ہے۔ ابتدا میں دونوں کے باہمی تعلقات بہت خوشگوار تھے، لیکن جب علامہ اقبال نے تصوف کے خلاف لکھنا شروع کیا تو اکبر الہ آبادی کو یہ ناگوار گزرا کیونکہ وہ تصوف کو عین شریعت سمجھتے تھے اور اِس کے خلاف باتوں کو کم علمی اور ضعیف و مبہم روایتوں پر محمول کرتے تھے۔ جب علامہ اقبال کا مضمون تصوف پر شائع ہوا تو اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خط مرقومہ ۶/ اگست ١٩١٧ء میں انھوں نے لکھا:
”حضرتِ اقبال معلوم نہیں کیوں تصوف کے پیچھے پڑے ہیں۔ نیو ایرا میں اِن کا مضمون چھپا ہے۔ میں فارمل صوفی کبھی نہیں ہوا، نہ قوت، نہ ضرورت لیکن منٹل فلاسوفی تو عالمگیر مذاق ہے۔ اسلامیہ تصوف خود کہتا ہے کہ خلافِ شریعت کچھ نہ ہو۔ خیر دنیا کے رنگ ہیں (٥٦۔٥٧)“۔
اُسی زمانے میں رسالہ خطیب میں تصوف پر مضامین شائع ہوئے۔ علامہ اقبال کے علاوہ عبد الماجد دریابادی نے بھی تصوف کی معنویت پر سوال کھڑا کیا۔ اکبر الہ آبادی نے عبد الماجد دریابادی کی موجودہ حالت یعنی الحاد و تشکیک کی بناء پر اُن کو قابلِ برأت سمجھا لیکن علامہ اقبال کی سخت گرفت کی۔ وہ ١٩/ اگست ١٩١٧ء کے خط میں لکھتے ہیں:
”پچھلے خطیب میں ایک آرنکل چھپا ہے، آپ کا نام بھی ہے، چونکہ مجھ کو آپ سے ذاتی محبت ہے اور آپ کے میلانِ طبع سے جو اِس وقت تک ظاہر ہوا ہے کسی قدر آگاہ ہوں۔ لہذا آپ کی برأت تو دل میں آتی ہے، لیکن عموماً یہ اعتراض صحیح ہے، اگرچہ اِس کا کچھ علاج نہیں، زمانے کی رفتار ہے۔ جو شخص صرف فلسفے میں پناہ لیتا ہے، اُس پر میں زیادہ تعجب نہیں کر سکتا۔ حیرت تو اُن پر زیادہ ہے، جو جانشین رسول بن کر اکابر کو گالیاں دینے میں، اپنی نمود سمجھتے ہیں، اُن میں ہمارے حضرت۔۔۔داخل ہیں۔ تماشا یہ کہ دادِ طلب ہوتے ہیں، آدمی اپنا پوزیشن بھی تو دیکھے، ایک یا چند اشخاص کے کسی ضعیف و مبہم قول کی گرفت کرکے کل سلسلۂ تصوف پر جو ایک زبردست اور عالمگیر اور قدیم فلاسوفی، اعتراض کرنا محض رکاکت ہے۔ اکابر صوفیہ قرآن ہی کے مفسر ہیں (ص ٥٨)“۔
٢٥/ اگست ١٩١٧ء کے خط میں علامہ اقبال کی تنگ نظری کا شکوہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”نیو ایرا [میں] ایک آرٹکل خواجہ صاحب کے خلاف چھپا تھا اور اقبال صاحب کا ایک مضمون تصوف کے خلاف۔ اقبال صاحب کی طبیعت نے عجیب تنگ اور بے سواد راہ اختیار کی ہے۔ دیدنی ہے جہاں رنگارنگ ہے (ص ٥٩)“۔
یکم ستمبر ١٩١٧ء کے خط میں لکھتے ہیں:
”اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے۔ کہتے ہیں کہ عجم کی فلاسوفی نے عالَم کو خدا قرار دے رکھا ہے۔ یہ غلط بات ہے، خلاف اسلام ہے۔ میں نہیں جانتا یہ کیا ترنگ ہے، اسلام نے تو لیس کمثلہ شی کہہ دیا ہے (ص ٦٠)“
علامہ اقبال یہیں پر نہیں رُکے۔ فارسی کے مشہور [شاعر] خواجہ حافظ شیرازی پر بہت سخت ریمارک دیا۔ اُ ن کی اِس جسارت پر اکبر الہ آبادی نے سخت ناگواری کا اظہار کیا اور اُن کے بارے میں یہاں تک لکھ گئے کہ اقبال اب کھٹک رہے ہیں۔ اپنی خفگی کا اظہار انھوں نے اپنے خط مرقومہ ۱۱/جون ١٩١٨ء میں کیا ہے:
”اقبال صاحب نے جب سے حافظ شیراز کو اعلانیہ بُرا بھلا کہا ہے، میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ اُن کی مثنوی اسرار خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب مثنوی رموز بے خودی شائع ہوئی ہے، میں نے نہیں دیکھی، دل نہیں چاہا، خط و کتابت ہے، لیکن میں اُن کے انقلاب طبیعت سے خوش نہیں ہوں، ہوتا اچھا، بنتا بُرا۔ بہر کیف کوئی سیریس معاملہ نہیں ہے۔ دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے۔ اور اِن روزوں تو طوفان اختلاف بر پا ہے:
میں سمجھا تھا براق راہ خدا چوں دُم برداشتم لیڈر بر آمد
خط مرقومہ ۳/اگست ١٩١٨ء میں اِسی شکایت کا اعادہ کرتے ہیں:
”شکایت۔۔۔صاحب سے تھی جنھوں نے پرائیوٹ مراسلت میں کلیۃً طریقت باطنی کی توہین کی تھی۔ لیکن وہ مضمون در حقیقت ایک مشورہ تھا، تصوف کی کوئی حمایت نہ تھی، بلکہ اُن کے خلاف تھا (ص ٦٨)“۔
علمی و فکری اختلافات اور اکبر الہ آبادی کے سخت رویہ کے باوجود علامہ اقبال نے اُن سے رشتہ نہیں توڑا۔ دونوں میں خط و کتابت بھی ہوتی رہی اور علامہ اقبال الہ آباد اُن سے ملنے آتے رہے۔ علامہ اقبال کی الہ آباد تشریف آوری کی اطلاع دیتے ہوئے ١٩/ مارچ ١٩٢٠ء کے خط میں عبدالماجد دریابادی کو لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر اقبال ملنے آئے تھے۔ تین دن رہ کر گئے۔ کہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ رہتا تو ایک مجموعہ مرتب کرتا (ص ١٠٠)“۔
مکاتیب اکبر بنام عبد الماجد دریابادی میں اکبر الہ آبادی نے علامہ اقبال کے تئیں جو سخت رویہ اختیار کیا ہے اور جس لہجے میں ان کے متعلق لکھا ہے، وہ کسی اعتبار سے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ علمی و فکری اختلاف کی بنیاد پر کسی کو لعن طعن کرنا بزرگوں کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ تصوف اکبر کے نزدیک بڑی چیز ہو سکتی ہے لیکن جسے اس کی معنویت متأثر نہیں کرتی، اُس کے نزدیک بڑی چیز کیسے ہو سکتی ہے۔ سب کے اپنے اپنے دلائل ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کے تئیں اکبر الہ آبادی کے اِس رویے سے عبد الماجد دریابادی بھی اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دیباچہ میں بطور خاص اِس کا ذکر کیا ہے اور اِسے درست نہیں ٹھہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”حضرت اکبر نے بعض اشخاص (مثلاً ڈاکٹر اقبال) کے متعلق اِن اوراق میں جن الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے، میں انھیں ایک لمحہ کے لئے درست نہیں سمجھتا، لیکن بڑے شخص کی غلطیاں اور کمزوریاں بھی بجائے خود قابلِ تحفظ ہوتی ہیں، اس لئے اکثر مقامات پر میں نے اُن الفاظ کو بجنسہ قائم رہنے دیا ہے۔ اکبر مرحوم بہت سے کمالات و خصائل کے جامع تھے۔ جس خدائے رحمن و غفار نے ان الحسنات یذھبن السیئات کا قانون مقرر کر رکھا ہے، یقین ہے کہ وہ ضرور اُن کی بشری کمزوریوں سے چشم پوشی فرمائے گا“۔
اشعار کی اصلاح:
شعر و شاعری تو اکبر الہ آبادی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اُس وقت کا ہر مبتدی شاعر اکبر الہ آبادی کی اصلاح کا متمنی رہتا تھا۔ عبد الماجد دریابادی نے بھی اُسی زمانے میں شاعری کی ابتدا کی تھی۔ وہ اپنے اشعار بہ غرض اصلاح اُن کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ جو اشعار عیوب سے پاک ہوتے، اُس کی دل سے تعریف کرتے اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہوتی، اُس کی بھی نشان دہی کرتے تھے۔ عبد الماجد دریابادی کی ایک غزل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خط مرقومہ ۸/ دسمبر ١٩١٤ء میں لکھتے ہیں:
”مجھ کو حیرت ہوئی کہ آپ ایسے شعر کہہ سکتے ہیں۔ جو رنگِ سخن ظاہر ہوتا ہے، وہ بہت پختہ ہے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیوں کر کہنا چاہئے۔ اول میں کوئی جگہ اعتراض کی نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی تقلید مناسب ہے۔ دوم میں البتہ کہیں کہیں کچھ اصلاح کی ضرورت ہے۔ بہر کیف میں آپ کی غزل دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ یہ شعر تو ہر اعتبار سے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے:
رہی ہرچند عقل صبر آموز نہ گئیں بیقراریاں نہ گئیں
کیا خوب کہا ہے۔ آپ انشاء اللہ بڑی باطنی ترقیاں حاصل کریں گے (ص ٢١)“۔
عبد الماجد دریابادی کی دوسری غزل پر قدرے تفصیل سے انھوں نے لکھا ہے اور اِس غزل کے پانچ اشعار کی انھوں نے خوب داد دی ہے۔ اِس غزل کی زبان اور طرزِ بیان کے بارے میں بتایا ہے کہ اِس میں کوئی کمی نہیں، البتہ افزائش حُسن کی گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں اُن کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
”آپ کی غزل دیکھ کر کم تعجب ہوا اور زیادہ خوشی ہوئی۔ تعجب اس بات کا کہ ابتدا ہی میں ایسے کھرے شعر آپ کہنے لگے۔ تعجب میں کمی اس لئے کہ اچھی فطرتی سمجھ اور علم نے آپ کی طبیعت کو معنی کا عمدہ سانچا بنا دیا ہے۔ نقص و زیادت کو دخل نہیں، خوشی اِس بات کی کہ اِن خیالات کو میں نے پسند کیا۔ طریقۂ اظہار بھی خوب ہے۔ شاعری پالیٹکس، اخلاق، عملی فلسفہ سب کی جھلک ہے اور رکاکت سے خالی۔ اہل وفا بھی۔ الخ؛ خوب ہے، نہایت صحیح و بامعنی ہے۔ غالب زبان شوق۔ الخ؛ بہت ہی بلیغ ہے۔ یہ کیا ہوا۔الخ؛ اِس میں بھی معلوم سے نا معلوم کی طرف کیا صعود ہے۔ حیران ہوں۔ الخ؛ وجد آفریں شعر ہے۔ میرے دل کو بھی؛ اِس میں بھی کیا بلاغت ہے۔ ماشاء اللہ چشم بد دور۔ الغرض سب شعر کم وبیش اچھے ہیں۔ اب رہی زبان و طرز بیان، اِس میں کوئی نقص نہیں۔ البتہ افزائش حُسن کی گنجائش ہے۔ طبیعت کا نشوونما خود اس کو پیدا کر لے گا۔جب عالمِ معنی کے استغراق سے طبیعت آسودہ و بے فکر ہوکر حُسن و صورت کا مذاق پیدا کرے گی۔ تحریر میں ان اشارات سے زیادہ اِس وقت میری قوت سے باہر ہے (۲/ جنوری ١٩١٥ء، ص ۲۲۔٢٣)“۔
عبد الماجد دریابادی کی بعد کی شاعری پر اکبر الہ آبادی نے ویسی داد نہیں دی جو سابقہ غزلوں پر انھوں نے دی تھی۔ ۹/ فروری ١٩١٦ء کے خط میں وہ لکھتے ہیں:
”البتہ آپ کے اشعار کی نسبت لکھنا بھول گیا کہ نہایت معنی خیز و با مزہ ہیں، لیکن آپ کو غزل کہنا چاہئے۔ جیسی غزلیں آپ نے پہلے کہی تھیں (ص ٣١)“۔
دوسرے خط مرقومہ ٣٠/ نومبر ١٩١٦ء میں لکھتے ہیں:
”اِن غزلوں میں وسعتِ خیال زیادہ ہے لیکن بلحاظ قواعد زبان سابق کی غزلیں زیادہ کھری تھیں۔(ص ٤٢)“۔
لیکن جب عبد الماجد دریابادی نے سابقہ معیار کو برقرار رکھا تو اکبر الہ آبادی نے تعریف کرنے میں کنجوسی نہیں کی اور عبد الماجد دریابادی نے داغ کی مشہور زمین ”لطفِ مئے تجھ سے کیا کہوں زاہد؛ ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں، میں قافیہ پیمائی کی تو اکبر الہ آبادی نے برملا کہا کہ یہاں داغ پھیکے پڑگئے۔ لیجئے دونوں عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
”آپ کی غزل خوب ہے۔ ترکیب الفاظ بہت صاف و صحیح ہے۔ اگرچہ آپ نرے تقلیدی فلاسوفر نہیں، لیکن شاعری آپ کو زیادہ تر اورنچیلٹی کی طرف لے جائے گی۔ ابتداءً کچھ عاشقانہ طرز کا مضائقہ نہیں۔ بلکہ مناسب یہی ہے۔۔۔ دو ایک شعر اِس غزل میں داد کے مستحق ہیں (۹/مئی ١٩١٧ء، ص ٥٢)“۔
”آپ کی غزل داغ کی غزل سے ہر اعتبار سے بہتر ہے۔۔۔داغ کے رنگ میں اگر داغ سے آپ بڑھیں تو آپ کی عالمانہ اور اخلاقی متانت پر داغ آجائے۔ لیکن اِس غزل میں تو میری نگاہ میں داغ پھیکے رہے (۴/ جنوری ١٩١٩ء، ص ٧٤)“۔
کتابوں پر اظہار خیال:
اکبر الہ آبادی مطالعہ کے شوقین تھے۔ ہر طرح کی کتابیں اُن کے مطالعہ میں رہتی تھیں۔ مذہب، تصوف، ادب کے علاوہ فلسفہ کی کتابوں کا بھی اُسی ذوق و شوق سے مطالعہ فرماتے تھے۔ جب بھی کوئی نئی تصنیف کا اشتہار دیکھتے یا اُس کے بارے میں جانکاری ملتی، اُس کے حصول میں لگ جاتے۔ ”دین دنیا“ میں تفسیر مواہب الرحمن کا اشتہار دیا گیا تھا۔ اِس کے بارے میں عبد الماجد دریابادی کو لکھتے ہیں: ”کیا آپ اس کتاب سے واقف ہیں یا واقف ہو سکتے ہیں۔ کیسی کتاب ہے؟ کیا میں منگالوں؟ (ص ١١٩)۔ اس کے علاوہ مصنفین اپنی کتابیں اُن کو بھیجتے رہتے تھے۔ انھی میں سے بعض کتابوں اور اُن پر کئے گئے تبصرہ کا ذکر انھوں نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔ اِن کتابوں سے متعلق ان کی تحریر کو ذیل میں نقل کیا جارہا ہے:
معارج الدین اور اسرار خودی: دو تصنیفیں نظر سے گزریں؛ ایک معارج الدین مصنفۂ مولوی نواب علی صاحب، ایم اے بڑودہ کالج جس میں سائنس و فلسفہ پر ریویو کرکے مصنف نے مذہب کی حمایت کی ہے۔ دوسری مثنوی اسرار خودی مصنفۂ ڈاکٹر اقبال صاحب جس میں مصنف نے کہا ہے کہ اپنی خودی کو مٹانے والا فلسفہ جس کا مشرق پر بہت اثر ہوا، صحیح نہیں ہے۔ خودی کو بڑھانا چاہئے۔ دونوں کتابیں آپ کے ملاحظہ کے قابل ہیں۔ مثنوی کی نسبت تو کچھ زیادہ نہ کہنا چاہئے، کیونکہ وہ مذہبی اور قومی جوش پر مبنی ہے، اشعار نہایت اچھے ہیں:
ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص
یہ خودی مستی اور تصوف ہے۔ دیباچے میں پولیٹکل دانشمندی بھی ہے۔ البتہ معارج الدین بہت غور کے لائق ہے، اگر آپ ریویو کریں تو بہت کچھ اضافہ ہو جائے (١٨/ ستمبر ١٩١٥ء، ص ٢٨)“۔
فلسفۂ بنیاد یقین: سوء اتفاق یا حُسن اتفاق سے ایک صاحب نے دقیق مباحث فلسفۂ بنیاد یقین کی ایک کتاب دے دی ہے، اور مجھ کو اُس سے واقف ہونا ضرور ہو گیا ہے، اِس کو دیکھ رہا ہوں۔ نصف سے زیادہ نہیں سمجھتا، دماغ کمزور ہوگیا، اور مصنف کا طرز بیان بہت پیچیدہ ہے۔ یا یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس نے جید علما ہی کو اپنا مخاطب سمجھا ہے (۹/ فروری ١٩١٦ء، ص ٣٢)“۔
محرّم نامہ (از خواجہ حسن نظامی): محرّم نامہ آپ نے دیکھا یا نہیں۔ سید سلیمان صاحب کی تحریر ہمدم میں چھپی ہے۔ سچ ہے دونوں کے لٹریری پوزیشن میں بڑا فرق ہے (١٣/ فروری ١٩١٧ء، ص ٥٠)“۔ ”آپ نے پہلے خط میں محرّم نامے پر سید سلیمان کے ریویو کا ذکر لکھا تھا۔ مجھ کو اپنے دوست خواجہ صاحب کے ساتھ ہمدردی ہے۔ اِس روک ٹوک نے جس کے وجوہ آپ کو معلوم ہوں گے، اُن کو بہت نقصان پہنچایا اور پبلک بھی فوائد سے محروم رہی۔ بہ مجبوری اُنھوں نے اِس طرف توجہ کی، ورنہ اُن کا تصوف کافی سے زیادہ تھا اور ہونا چاہئے۔ سید سلیمان صاحب درباریانِ ہارون رشید میں ہیں۔ اُن کے مذاق کا کیا پوچھنا۔ خواجہ صاحب کا اور رنگ ہے، لیکن ہسٹری اُن کو مفید نہیں ہو سکتی (١٦/فروری ١٩١٧ء، ص ٥١)“۔
انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ:
عبد الماجد دریابادی اور اکبر الہ آبادی میں شاعری کے علاوہ ایک قدرِمشترک شے فلسفہ سے دونوں کا لگاؤ تھا۔ عبد الماجد دریابادی اُن دنوں بی اے کے طالب علم تھے اور فلسفہ ان کے کورس کا حصہ تھا۔ لیکن مطالعہ کے ساتھ ساتھ فلسفہ کی تالیف و ترجمہ میں بھی منہمک تھے۔ فلسفہ کی یہ کتابیں انگریزی زبان میں تھیں۔ چنانچہ ترجمہ کے دوران انگریزی اصطلاحات کو اردو جامہ پہنانے میں جب بھی اُنھیں صلاح و مشورہ کی ضرورت محسوس ہوتی تو سب سے پہلے وہ اکبر الہ آبادی سے رجوع کرتے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فلسفہ اور انگریزی زبان پر اکبر الہ آبادی کی گہری نظر تھی اور فلسفہ کے اصطلاحات کے مزاج سے کما حقہ وہ واقف بھی تھے۔ مکاتیب اکبر بنام عبد الماجد دریابادی کے ابتدائی خطوط میں اکبر الہ آبادی نے اِنھی مباحث پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو دل چسپی سے خالی نہیں ہیں۔ ذیل میں اِنھی مباحث کو انگریزی اصطلاحات کے عنوان کے تحت پیش کیا جا رہا ہے:
Pleasure & Pain:
عبد الماجد دریابادی نے اِس کے لیے حظّ و کَرب کی اصطلاح تجویز کی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اِس کے بجائے لذّت و الم کی ترکیب پیش کی۔ الہلال میں اِس پر ایک سرگرم مباحثے کا سلسلہ چل پڑا۔ اکبر الہ آبادی کی بھی تحریر لذت و الم کی تائید میں شائع ہوئی۔ عبد الماجد دریابادی نے جب اِس سلسلے میں دریافت کیا تو اکبر الہ آبادی نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے اپنی تحریر کو واپس لینے کا اعلان کیا:
”مدتیں گزریں میں نے جسمانی آرام اور تکلیف اور دلی خوشی اور رنج کا مضمون پیش نظر رکھ کر یہ خیال کیا تھا کہ آرام اور رنج کا ساتھ ہوسکتا ہے اور تکلیف اور خوشی کا ساتھ ہوسکتا ہے۔ لیکن اِس بنیاد پر ایک سلسلۂ مضمون چل نکلا تھا، پورا نہ ہوا اور میں اور کاموں میں اُلجھ گیا۔ اِسی ضمن میں پین(Pain)، پلیژر (Pleasure) اور چند دیگر الفاظ کے متعلق کچھ نوٹ کیے تھے۔ الہلال میں یہ بحث دیکھ کر میں نے بغیر زیادہ غور کے ایک خط ایڈیٹر صاحب کو لکھ دیا جس کو اُنھوں نے چھاپ دیا ہے۔ جہاں کانکرٹ آئڈیاز (Concrete Ideas) نہیں ہیں وہاں ایک زبان کے ایک لفظ کے مقابلے میں دوسری زبان میں کوئی لفظ پانا جو بلحاظ تمام شیڈس آف میننگ (Shades of Meaning) کے بالکل مطابق ہو، بہت مشکل ہے۔ اِس کے وجوہ آپ پر ظاہر ہیں۔ مجھ کو خیال آتا ہے کہ ہملٹن نے جو بلحاظ صفائی بیان بہت ممتاز سُنا جاتا ہے۔۔۔افسوس ظاہر کیا ہے کہ انگریزی میں یونانی فلسفۂ الفاظ کا پورا مفہوم ادا کرنے کو الفاظ نہیں ملتے۔ جب یہ صورت ہے تو غیر ذمہ دار لوگوں کے مشورے پر عمل کرنے میں آپ کا تامل حق بجانب ہے۔ بعد غور کے میں اپنے خط کو واپس لیتا ہوں (٢٦/ اگست ١٩١٣ء، ص ۱)“۔
اکبر الہ آبادی نے اگرچہ عبد الماجد دریابادی کو اختیار دیا تھا کہ اِس سلسلے میں جو اصطلاح وہ قائم کریں گے، اُس کی پابندی ہم طالبان علم پر لازم ہوگی۔ البتہ ’یہ خیال ضروری ہے کہ حتی الامکان ثَقالت و طوالت سے احتراز کیا جائے اور تعریفات واضح طور پر لکھ دی جائیں‘۔ تاہم اُنھوں نے حظّ و کرب کے لفظی مزاج پر بھی اپنی باتیں رکھ دیں۔ اُن کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حظّ و کرب کی اصطلاح سے متفق نہیں تھے۔ اِس سلسلے میں اُن کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”راحت و الم، راحت و اذیت، لذت و اذیت، حظّ و کرب وغیرہ میں سے جو چاہے لے لیجئے۔ میں آپ کے شعر سُن کر بہت محظوظ ہوا۔ اُن سے ملنے میں کچھ حظّ نہ آیا۔ حظ نفسانی سے احتراز کرنا چاہئے۔ اردو فارسی میں بلا شبہ یہ الفاظ پلیژر کے مفہوم میں مستعمل ہیں۔ کرب تو عربی میں بھی تکلیف و مصیبت کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں پڑھتا ہوں ولقد مننا علی موسی و ھارون و نجیناھما و قومھا من الکرب العظیم۔ البتہ شاید کرب پین کا بڑھا ہوا درجہ ہے (٢٦/ اگست ١٩١٣ء، ص ۱)“۔ ”حظ کا اپوزٹ ٹرم مجھ کو سوائے حرمان کے کوئی نہیں ملتا۔ لیکن حرمان میں پین کا آئڈیا صریحی نہیں ہے۔ اردو میں مایوسی کے معنوں میں شعرا کی زبان پر ہے۔ یاس و حرمان غالباً کہہ سکتے ہیں۔ وہ محظوظ ہوئے، میں محروم رہا (٢٤/ ستمبر ١٩١٣ء، ص ١٠)“۔ ”آپ نے محاورہ اردو سے استدلال کرکے لفظ حظ و محظوظ کو میری نظر میں پلیژر سے ایسا موافق و قریب کر دکھایا ہے کہ میں لذت کی سفارش اسی بنا پر کرسکتا ہوں کہ وہ بھی کام دیتا ہے اور شاید پاپُلر ہے (٢٦/ستمبر ١٩١٣ء، ص ۱۱)“۔
Happiness & Misery:
”آپ کی کل تحریر سے مجھے اتفاق ہے بجز اِس کے کہ ہیپینس(Happiness) کا ترجمہ لذت میں ابھی نہیں سمجھا۔ لیکن تھوڑی سی گفتگو کے بعد سمجھ لینے کو تیار ہوں گا۔ الفاظ کو ہمارے مفہومات کا تابع ہونا چاہئے (یکم ستمبر ١٩١٣ء، ص ۴)“۔ ”کا ترجمہ دُکھ سُکھ بہت اچھا ہے۔ لیکن یہ الفاظ اِس انجمن میں بے وقعت ہیں (١٧/ ستمبر ١٩١٣ء، ص ۹)“۔
Prestige:
”وہ (مولوی حمید الدین صاحب) فرماتے تھے کہ Prestige کا ترجمہ دھاک صحیح ہے۔ میں نے کچھ کہا نہیں، لیکن خیال آیا کہ شاید رعب میں بھی مطلب پورا ہوجاتا ہے۔ میں نے تو اردو میں مفہوم کے اعتبار سے سطوت کو پاکیزہ لفظ سمجھا تھا۔ البتہ خود تاثری کی ترکیب صحیح نہ معلوم ہوئی۔ یائے توصیفی اسمِ صفت میں بڑھاتے ہیں۔ خود متاثری البتہ ہو سکتا ہے۔ بعد استعمال غیر مانوس نہیں رہے گا (١٧/ ستمبر ١٩١٣ء، ص ۹۔١٠)“۔ ”پرسٹج کے لئے ایک لفظ وقار رات میرے ذہن میں آیا۔ لیکن صرف اردو بول چال میں یہ لفظ اس آئڈیا کے قریب ہے۔ تمہارا وقار جاتا رہا۔ تمہارا بڑا وقار ہے (٢٤/ ستمبر ١٩١٣ء، ص ١٠)“۔ ”میں سمجھتا ہوں کہ لفظ وقار پرسٹج کے لئے نہایت اچھا بلکہ ٹھیک اُسی سینس میں ہے جس میں انگریز پرسٹج کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دھاک اور رعب اسٹرانگ ٹرمس ہیں۔ وقعت بہت ڈھیلا لفظ ہے۔ وقار، سطوت کی طرح سجل، سِڈول اور آپ کی پسند کے لائق ہے اور روز مرہ میں داخل ہے (٢٦/ستمبر ١٩١٣ء، ص ۱۱)“۔
Abstract Ideas:
Abstract Ideas کا ترجمہ لوگوں نے خیالات منتزعہ کر رکھا ہے۔ انتزاع سے جس کے معنی کھینچنے اور نکالنے کے ہیں۔ آپ نے شاید کوئی اور لفظ رکھا ہے۔ وہ بھی ٹھیک ہوگا۔ ورنہ شاید میں نظر کرتا۔ لیکن آپ نے نہ خیال کیا ہو تو اب خیال کر لیجئے۔ اگر لفظ موضوع موجود ہو تو عدول کی کیا ضرورت (٢٤/ ستمبر ١٩١٣ء، ص ١٠)“۔
مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اکبر الہ آبادی کے خطوط میں ایک جہان آباد ہے جس کی پرتیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ اگر اِسی نہج پر اُن کے سارے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو اکبر الہ آبادی کی زندگی کے بہت سارے گوشے اور علم و ادب اور فکر وفن کے بہت سارے جہات سے پردہ اٹھ سکتا ہے اور اُن کے افکار و خیالات کا ایک مجموعہ تیار ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اِن خطوط کی زبان و بیان اور طرز ادا کا تعلق ہے تو یہ کہنے میں کوئی تردد نہ ہونا چاہئے کہ اِن خطوط کی زبان سلیس اور شگفتہ ہے۔ مافی الضمیرکو بہت سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
***
[ ] میں دیے گئے الفاظ مدیر اشتراک کے ہیں. 
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش: ١٨٥٧ء میں بہار کی اردو صحافت (’اخبار بہار‘ کی روشنی میں)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے