فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی معتبر آواز تھیں : امان ذخیروی

فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی معتبر آواز تھیں : امان ذخیروی

جموئی ،٢٨ جولائی. بزم تعمیر ادب ذخیرہ جموئی میں معروف شاعرہ، مترجم اور مضمون نگار فہمیدہ ریاض کے یوم پیدائش 28 جولائی کے موقعے پر ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے فہمیدہ ریاض کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں حقوق نسواں کی معتبر آواز قرار دیا. انھوں نے کہا کہ فہمیدہ ریاض کا شمار بر صغیر کی ممتاز ترقی پسند شاعرہ اور مصنفہ میں ہوتا ہے. ان کا مطالعہ عمیق تھا. انھوں نے اپنے تلخ و شیریں مشاہدات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا. فہمیدہ ریاض کی پیدائش 28 جولائی 1946ء کو میرٹھ کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی. اسی علمی و ادبی ماحول نے ان کے فکر و فن کو پروان چڑھایا اور بچپن ہی سے وہ شعر گوئی کی طرف مائل ہو گئیں. ان کی پہلی شاعری احمد ندیم قاسمی کے فنون میں شائع ہوئی. اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی. 22 سال کی عمر میں سنہ 1968ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بہ عنوان "پتھر کی زبان" منظر عام پر آیا. ان کے والد کا نام ریاض الدین احمد تھا، جو خود ایک ماہر تعلیم تھے. ان کی والدہ کا نام حسنہ بیگم تھا. فہمیدہ ریاض نے دو شادیاں کیں. ان کے دوسرے شوہر کا نام ظفر علی اجن تھا, جن سے انھیں دو بچے ہوئے. محض 4 سال کی عمر میں ان کے سر سے باپ کا سایا اٹھ گیا. ان کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کے فرائض ان کی والدہ نے بحسن و انجام دیے. انھوں نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور فلم سازی و اداکاری کی سند بھی حاصل کی. دوران قیام انگلستان انھوں نے بی بی سی اردو سروس میں بھی اپنی خدمات انجام دیں. تکمیل تعلیم کے بعد ریڈیو پاکستان سے نیوز کاسٹر کی حیثیت سے اپنے عملی زندگی کا آغاز کیا. اپنے قلم کی بے باکی، جرات اظہار، انقلابی شاعری، ترقی پسندانہ سوچ اور حریت فکر کے باعت وہ ہمیشہ تنازعات میں گھری رہیں. جنرل ضیاالحق کے دور اقتدار میں ہندستان میں انھیں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی. فہمیدہ ریاض ایک ہشت پہل شخصیت کی مالک تھیں. انھوں نے شاعری بھی کی، سیاسی مضامین بھی لکھے، ترجمے بھی کیے جن میں مولانا روم کی مشہور فارسی مثنوی کا اردو منظوم ترجمہ بہ عنواں "خانۂ آب و گل" بھی شامل ہے. ان کی دیگر تصانیف میں…. پتھر کی زبان 1968، گلابی کبوتر 1973ء، کھلے دریچے سے وڈا کتاب گھر 1898ء، بدن دریدہ دھوپ 1999ء، سب لعل و گوہر 2011ء، تم کبیرا 2017ء وغیرہم قابل ذکر ہیں.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے "مونالیزہ" کے خالق قتیل شفائی: امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے