١٨٥٧ء میں بہار کی اردو صحافت (’اخبار بہار‘ کی روشنی میں)

١٨٥٧ء میں بہار کی اردو صحافت (’اخبار بہار‘ کی روشنی میں)

ڈاکٹر محمد ذاکر حسین
خدا بخش لائبریری، پٹنہ
Email: zakirkbl@gmail.com
Mobile: 09199702756

بہار کی سر زمین شروع ہی سے غیر ملکی حکمرانوں کی مخالف رہی ہے۔ مغلوں سے لوہا لینے والا شیر شاہ سوری بہار کا ہی بہادر سپوت تھا۔ اس نے دو بار ہمایوں کو جنگ میں ایسا پسپا کیا کہ خود ہمایوں بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوسکا۔ ١٨/ویں صدی کے وسط میں ٹکاری کے راجا سندر سنگھ اور مشہور زمین دار معین خاں نے مغلوں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ اسی طرح مغلوں کے زوال کے بعد جب غیر ملکی حکمراں کی شکل میں انگریزوں نے اس ملک پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہا تو میر قاسم وہ پہلا جانباز تھا، جس نے انگریزوں کو للکارا۔ اسی وقت سے پٹنہ بغاوت کا مرکز رہا۔ ١٧٨١ء میں جب راجا چیت سنگھ نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا بگل بجایا تو سہسرام کے حکمراں رضا قلی خاں، ٹکاری کے راجا پیتامبر سنگھ، کٹمبا اور سریس کے زمین داروں نے راجا چیت سنگھ کا ساتھ دیا تھا۔ سارن میں فتح سنگھ نے انگریزوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ ١٧٩٨ء میں اودھ کے برخاست نواب وزیر علی نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تو اس وقت ٹکاری کے راجا مترجیت سنگھ نے ان کا ساتھ دیا۔ ١٨٣١ء میں چھوٹا ناگپور کے آدی واسی قبیلے کول اور ١٨٥٥ء میں سنتھالوں نے بغاوت کر دیا۔ یہ بغاوت ١٨٥٧ء تک جاری رہی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہار کی سرزمین نے کبھی بھی انگریز سرکار کا وفادار بننا پسند نہیں کیا اور برابر آزادی کی لڑائی لڑتی رہی اور جب ١٨٥٧ء نے اس علاقہ کا رخ کیا تو یہ پہلے سے اس کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ ایک اسّی (٨٠) برس کے بہادر سپوت ویر کنور سنگھ نے انگریزوں کو اتنا چھکایا کہ آج بھی وہ اس کی کڑواہٹ محسوس کرتے ہیں۔ پیر علی کا یہ قول بھی ان کو ہمیشہ پریشان کیے رکھا کہ ”زندگی میں ایسے بھی مواقع آتے ہیں جن میں جان بچا لینا ثواب کا کام ہوتا ہے۔ ایسے بھی مواقع آتے ہیں جن میں پیاری جان دے ہی دینا سب سے بڑا ثواب شمار کیا جاتا ہے۔ تم مجھے پھانسی دے سکتے ہو۔ مجھ جیسے اور لوگوں کی بھی جانیں لے سکتے ہو۔ لیکن اس دھرتی سے ہزاروں آدمی تمھارے خلاف اٹھتے رہیں گے اور اطمینان و سکون سے حکومت کرنے کا جو مقصد تمھارے سامنے ہے، وہ کبھی پورا نہ ہوگا۔“ پیر علی کی یہ بات سو فی صد صحیح ثابت ہوئی اور انگریز ١٨٥٧ء کی بغاوت ناکام ہونے کے بعد بھی چین سے اقتدار نہیں سنبھال سکے۔
صحافت کی اہمیت کو ہر دور میں تسلیم کیا گیا ہے۔ سماجی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی پر جس تیزی کے ساتھ اس کا مثبت اور منفی اثر پڑتا ہے، وہ آج کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صحافت نے بڑی بڑی تحریکوں اور انقلابات کو جنم دیا ہے۔ عالمی سطح پر ایسے واقعات باربار رونما ہوئے جب صحافت کی عظیم قوت، اس کی مقبولیت اور اس کی تنقید سے مرعوب ہوکر اسے پابندی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ صحافت کا یہی روپ ہمیں ١٨٥٧ء کی بغاوت کے وقت بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس وقت ہندستانی صحافیوں نے اپنی صحافت سے انگریزوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ انھوں نے ١٨٥٧ء کا ماحول اتنا گرم کر دیا تھا کہ اسے سنبھالنا انگریزوں کے بس سے باہر ہو گیا تھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے سخت قانون کا سہارا لے کر باغی صحافیوں کو پھانسی دی گئی اور اخبارات پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے مطبوعہ شمارے ضبط کر لیے گئے۔ ہندستان میں صحافت کا جنم ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے اور سچ کے قیام، پریس اور اخبارات کی آزادی کی جنگ کے ساتھ ہوا۔ بلا شبہ اس کا سہرا جیمس آگاسٹ ہکی کے سر جاتا ہے۔ ہکی نے نہ صرف ہندستان میں صحافت کی بنیاد رکھی بلکہ ظلم و ناانصافی، جبر و استحصال کے خلاف بے باک، بے خوف اور بے لاگ صحافت کا آغاز بھی کیا۔ یہی اس کا بنیادی اصول بنا اور بعد کے صحافیوں نے ان اصولوں کا پورا پورا دھیان رکھا اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر ہندستانی صحافت کو وہ بلندی عطا کی کہ اس وقت کے انگریز بھی گھبرا اٹھے اور اس کی طاقت اور اثر کو ختم کرنے کی سازش کرنے لگے۔ ہندستانی صحافت اپنی رفتار تیز کر ہی رہی تھی کہ ١٨٥٧ء کی بغاوت نے دستک دے دی۔ اس کے ساتھ انگریزوں کا ظلم روز بہ روز بڑھتا چلا گیا۔ ہندستانی صحافت کو انگریزوں کا یہ ظلم جھیلنا پڑا۔
اس پس منظر میں جب ہم سنہ ستاون کی ہندستانی صحافت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کی گہرائی میں غیر ملکی حکومت کے خلاف نفرت اور عداوت کے بھڑکتے ہوئے شعلے نظر آتے ہیں۔ جب ١٨٥٧ء کی آگ سلگنے لگی تو ہندستانی اخبارات نے غیر ملکی اقتدار کے خلاف بغاوت کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کی تشہیر میں اپنی پوری طاقت لگا دی۔ لارڈ کیننگ نے بھی واضح الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ: ”اس بات کو لوگ نہ تو جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں کہ بیتے کچھ دنوں سے دیسی اخبارات نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندستانیوں کے دلوں میں بہادری کی حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کر دیا ہے۔ یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عقل مندی کے ساتھ کیا گیا ہے“۔ گارساں دتاسی نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے ”ان منحوس کارتوسوں کی تقسیم کے موقع پر ہندستانی اخبارات نے جو بے دلی اور نفرت پھیلانے میں پہلے ہی سے مستعد دِکھ رہے تھے، اپنی غیر محدود آزادی سے فائدہ اٹھایا اور ہندستانیوں کو کارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کرنے پر آمادہ کیا اور یہ یقین دلایا کہ اس بہانے سے انگریز ہندستانیوں کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں۔“ ان دونوں اقتباسات سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انگریز جس طرح ہندستانیوں کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنائے ہوئے تھے، اسی طرح ان کی ظالمانہ نگاہیں ہندستانی صحافت پر بھی لگی رہتی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ ١٨٥٧ء کی بغاوت پھیلتے ہی شمالی مغربی علاقوں کے بیش تر اردو اخبار بند ہوگئے۔ ١٨٥٣ء میں اردو اخبارات کی تعداد ٣٥/ تھی اور ١٨٥٧ء آتے آتے صرف ١٢/ اخبارات ہی رہ گئے۔ ان میں سے کچھ قبل کے اخبار تھے اور کچھ نئے۔
اسی نازک ماحول میں ہندستانی صحافت کے آغاز کے ٧٣/ برس بعد ١٨٥٣ء میں بہار میں صحافت کی ابتدا ہوئی اور ١٨٥٧ء کی عظیم جنگ سے پہلے ’نور الانوار‘، آرا (جولائی ١٨٥٣ء)، ’پٹنہ ہرکارہ‘ (اپریل ١٨٥٥ء)، ویکلی رپورٹ، گیا (مئی ١٨٥٦ء) اور اخبار بہار، پٹنہ (ستمبر ١٨٥٦ء) اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہیں۔ نور الانوار کے مالک سید محمد ہاشم بلگرامی اور ایڈیٹر سید خورشید احمد تھے۔ اس اخبار کا ایک بھی شمارہ کسی لائبریری یا نجی ذخیرہ میں موجود نہیں ہے۔ ویکلی رپورٹ، گیا کے مالک منشی جے رام مختار تھے۔ اس کا بھی کوئی شمارہ دستیاب نہیں ہے۔ پٹنہ ہرکارہ کے مالک اور ایڈیٹر شاہ ابو تراب تھے اور اخبار بہار، پٹنہ کے ایڈیٹر لالہ بندا پرساد حسرتی اور شاہ ولایت علی منتظم کار تھے۔ ان دونوں اخبارات کے شمارے خدا بخش لائبریری میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار، سابق ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری کے عہد میں یہ دونوں اخبارات کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ بہار کی سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے ساتھ ساتھ یہاں کی اردو صحافت پر بھی ١٨٥٧ء کی بغاوت کا گہرا اثر پڑا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ١٨٥٦ء سے ١٨٥٨ء تک بہار سے اخبار بہار کے علاوہ ایک بھی اخبار نہیں نکل سکا۔ جولائی ١٨٥٩ء میں عبد الجلیل اور سید شمس الدین کی کوششوں [سے] عظیم الاخبار نامی اخبار جاری ہوا۔ اس کے بعد اخبار جاری ہونے کا سلسلہ چل پڑا۔
١٨٥٧ء کی عظیم بغاوت کے وقت بہار کی اردو صحافت کی عمر صرف تین چار برس ہی تھی۔ اس نے نوزائیدہ بچہ کی مانند ابھی کھسکنا ہی شروع کیا تھا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب صحافت پر انگریزوں کے ظلم و استحصال کی تلوار لٹک رہی تھی۔ ایسے حالات میں جو بھی اخبارات بہار سے نکلے، وہ اپنے اندر انگریزوں کے خلاف بغاوت کی ہمت اور حوصلہ نہیں جُٹا سکے بلکہ اس کے برعکس انھیں انگریزوں کاوفادار بننا پڑا۔ حالانکہ جیسے ہی ١٨٥٧ء کی ابتدا میں ہندستان کے افق پر بغاوت کے بادل منڈلانے لگے، ویسے ہی ہندستانی صحافیوں نے تلخی اور بے باکی کے ساتھ حکومت پر طنز کی رفتار تیز کر دی تھی۔ اس معاملے میں دہلی، لکھنؤ اور کولکاتا کے اخبارات خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ حکومت کے وفادار انگریزی صحافیوں کو دیسی اخبارات کا یہ انداز پسند نہیں آیا اور انھوں نے سرکار سے شکایت کرنی شروع کردی۔ اس بارے میں صادق الاخبار، دہلی ٢٠/اپریل ١٨٥٧ء کے شمارے میں لکھتا ہے ”انگریزی اخبارات نے لکھا ہے کہ ہندستانی اخباروں کو پریس کی آزادی نہیں دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ لوگ اس کی اہمیت نہیں جانتے اور کبھی ایسی آگ لگا دیتے ہیں کہ بجھائے نہیں بجھتی۔ اس لیے جس طرح اور باتوں میں انگریز اور ہندستانیوں کے لیے دو قانون ہیں، اسی طرح اس میں بھی چاہیے۔“
١٨٥٧ء کی بغاوت کے وقت صحافیوں کے دو گروپ سرگرم تھے۔ ایک گروپ باغی صحافیوں کا تھا۔ وہ انگریزوں کے کاموں اور ان کے ظلم و جبر اور استحصال کو اجاگر کرنا اور ان کے بُرے مقاصد سے عوام کو باخبر کرنا ایک صحافی کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھتے تھے اور اپنے موقف سے سمجھوتا کرنا ان کے اصول کے خلاف تھا۔ اس کے برعکس دوسرا گروپ سرکار کا وفادار تھا۔ وہ اپنے اخباروں میں وہی خبریں پروستے تھے جو سرکار کے مفاد میں تھیں اور انگریزوں کے ظلم و استحصال پر پردہ ڈالنا ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا۔ ١٨٥٧ء میں بہار سے نکلنے والا اخبار’اخبار بہار‘ اسی زمرہ میں آتا ہے۔ یہ اخبار انگریزوں کا حامی تھا اور ہندستانیوں کا کٹر مخالف۔ اس لیے اس کی تمام خبروں میں انگریز جانب داری کی بو آتی ہے۔ اس اخبار میں شائع کچھ خبروں کو ذیل میں نقل کیا جارہا ہے:
”ایسی بغاوت پلٹنوں میں تو انگریزی سرکار کی ابتدا سے آج تک کبھی نہیں ہوئی۔ پتا نہیں اس بغاوت و فساد کا سبب کیا ہے۔“
”گورنمنٹ انڈیا سدا ہی دیگر مذاہب اور ذاتوں کا احترام کیا ہے اور نواب گورنر جنرل بہادر نے بھی سدا ہی اس کا دھیان رکھا ہے۔ گورنمنٹ آف انڈیا کا قطعی ایسا ارادہ نہیں ہے کہ کسی کے مذہب میں کچھ مداخلت کرے۔ اب تک کوئی بات سرکار کی جانب سے ایسی نہیں ہوئی ہے جس سے کسی کے مذہبی کاموں میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی ہو۔ گورنمنٹ آف انڈیا نے آج تک اپنے کسی شہری کے ساتھ دغا نہیں کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر حکم دیتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس ایسی بے بنیاد اطلاعات پہنچا کرتی ہیں، ان لوگوں پر ضروری ہے کہ پہلے اس پر خوب غور کر لیں، اس کے بعد ہی اس خبر کو صحیح یا غلط سمجھے(١٩/جولائی ١٨٥٧ء)۔“
”اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ بڑے اطمینان سے زندگی بسر کریں اور کسی قسم کے خوف و شبہ کا لحاظ نہ کریں۔ اس وقت جب کہ باغی فساد برپا کرنے کے لیے اپنی تیاری کر رہے ہیں، سبھی شہری سرکار کی بھلائی و تعاون میں کوشاں رہیں۔ کیونکہ جلد ہی یہ بغاوت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے اس شور شرابہ کے ختم ہوتے ہی جن لوگوں کی خیرخواہی سرکار کے تئیں ظاہر ہوگی وہ لوگ سرکار کی جانب سے تعریف کے حق دار ہوں گے اور سرکار میں ان کی عزت بڑھے گی۔“
”قارئین اگر غور سے دیکھیں تو ان پر ظاہر ہوسکتا ہے کہ سرکار کی جانب سے کسی قسم کا ظلم یا کسی کے مذہب میں مداخلت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ میری تحقیق میں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ عیسائی مذہب میں کسی شخص کو جبراً اپنے مذہب میں لانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے علاوہ جب کوئی شخص صدق دل سے اس مذہب کو اپنا لے۔ اس لیے واضح ہے کہ جو کچھ ہنگامہ ہوا وہ سپاہیوں کی نادانی کے سبب ہوا۔ ورنہ حقیقت میں کوئی بات نہیں۔“

”اور حقیقت میں ان بدذاتوں کا فساد و بغاوت لکھنے لائق بھی نہیں تھا۔ مگر اس فساد میں ایک آفیسر کی جان بے کار ضائع ہوگئی۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ واقعہ تفصیل سے لکھا جائے۔“
مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت ١٨٥٧ء میں بہار کی اردو صحافت کا جرأت مندانہ روپ سامنے نہیں آسکا۔ اس کا سبب ولیم ٹیلر کی جارحانہ پالیسی ہے۔ اس نے جہاں بہار کے لوگوں پر طرح طرح کی پابندی لگا رکھی تھی، وہیں اخبار بھی سخت پابندی کے گھیرے میں رکھے گئے تھے۔ اس کی مثال ١٨٥٧ کا قانون ١٥ ہے، جو اخبار بہار کے ۱۱/جولائی ١٨٥٧ء کے شمارہ میں شائع ہوا:
۱۔ کوئی شخص بغیر اجازت نواب گورنر جنرل بہادر یا گورنمنٹ پریسیڈنسی کے چھاپہ خانہ نہیں جاری کرسکتا ہے۔
۲۔ اور اگر بغیر اجازت جاری کرنا ثابت ہوا تو پانچ ہزار جرمانہ یا دو برس کی قید یا دونوں سزاؤں کا حق دار ہوگا اور چھاپہ خانہ کے سامان کو ضبط کر نواب گورنر جنرل کی اجازت سے فروخت کر دیا جائے گا۔
۳۔لہذا جس شخص کی خواہش ہو، وہ صاحب مجسٹریٹ کی خدمت میں حلف نامہ کے ساتھ اپنی درخواست جمع کریں۔
۴۔ مجسٹریٹ صاحب، نواب گورنر جنرل بہادر کے پاس بھیجیں گے اور وہ مناسب سمجھیں گے تو لائسنس عطا کریں گے اور ان کو اختیار ہوگا کہ جب چاہیں اس کو رد کر دیں۔
۵۔اور جو شخص لائسنس کی شرطوں کے خلاف کام کرے گا وہ دفعہ ۲ کے تحت سزا کا حق دار ہوگا۔
۶۔اخبار میں چھاپنے والے، اشتہار دینے والے اور جگہ کا نام، جہاں چھاپا جائے، واضح لفظوں میں درج ہوگا اور ایک اخبار ہمیشہ صاحب مجسٹریٹ بہادر کی خدمت میں بھیجا جائے گا۔ اگر ان شرائط پر عمل نہیں کیا گیا تو ایک ہزار کا جرمانہ ہوگا اور اگر جرمانہ ادا نہ ہوا تو چھ مہینے کی قید ہوگی۔
۷۔اور اگر کوئی شخص منع کرنے کے بعد بھی اخبار جاری رکھے گا تو اس پر ایک ہزار روپیہ جرمانہ ہوگا یا دو برس قید یا دونوں سزا ہوگی۔
لہذا لائسنس کے اس قانون کے مطابق ضروری ہے کہ اخبار میں کوئی بات ایسی نہ لکھی جائے جس سے گورنمنٹ انڈیا یا انگلینڈ پر الزام عاید ہوتا ہو یا جس سے لوگوں کے دلوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہوکہ وہ سرکار سے باغی ہو جائیں اور نہ کوئی بات ایسی لکھنی چاہئے کہ جس سے لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ سرکار ہمارے مذہب میں مداخلت کررہی ہے اور نہ کوئی ایسی تحریر لکھنی چاہئے کہ جس سے سرکار اور ملک کے دوسرے حکمرانوں کے اتحاد میں کچھ فرق آجائے۔ اگر اس کے خلاف ہوگا تو وہ سزا کا حق دار ہوگا۔
مذکورہ بالا شرائط کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی سرکار کے کاموں کی تنقید کیسے ہوتی؟ اگر کوئی ہمت بھی جٹا پاتا تو اخبار کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا، پھر حقیقت بیانی کیسے ہوتی؟ تاہم یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ١٨٥٧ء میں بہار میں ایک بھی جرأت مند صحافی اپنی موجودگی درج نہیں کراسکا۔
***

صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ١٨٥٧ء کی تحریک آزادی سے پیدا شدہ گاؤں: بونسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے