فیض احمد شعلہ کی نعت گوئی ” سوئے حِرا ” کی روشنی میں

فیض احمد شعلہ کی نعت گوئی ” سوئے حِرا ” کی روشنی میں

عظیم انصاری 
رابطہ:  9163194776

نعت گوئی کی ابتدا حضورِ اکرم کے زمانے میں ہی ہوگئی تھی۔ ہوا یوں کہ جب کفارِ قریش نے ان کی شان اطہر میں گستاخی کرنے کی جرأت کی تو اس وقت یہ ضروری سمجھا گیا کہ انھیں اس کا مناسب جواب دیا جائے کہ وہ ہجو سے باز آجائیں۔ یہ طے پایا کہ ان کی ہّرزہ سرائی کے جواب میں حضور کی مدحت بہ صورتِ اشعار ان کو گوش گزار کیا جائے۔ حضرت حسان بن ثابت نے ہجو کا جواب لکھنے کی اجازت طلب کی تو حضورِ اکرم کی منظوری مل گئی اور اس طرح نعت گوئی کی ابتدا ہوگئی۔
عرب کی سرزمین سے ہوتے ہوئے نعتیہ شاعری کی خوش بو جب ایران پہنچی تو صوفی شعرا نے خصوصی طور پر اس میں اپنی دل چسپی دکھائی اور اسے اعتبار کا درجہ عطا کیا اور جب نعتیہ شاعری ایران کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے ہندستان پہنچی تو اس کا والہانہ استقبال کیا گیا اور اس کا دائرہ مزید وسیع ہوتا گیا۔
اردو میں نعت گوئی کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا جب اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ (1617-1565) نے نعت کی مستقل حیثیت قائم کی۔ اردو میں نعت گوئی کے نئے دور کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی کے سر جاتا ہے۔ اردو نعت گو شعرا کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان میں غیر مسلم شعرا بھی شامل ہیں۔
مغربی بنگال میں بھی ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح نعتیہ شاعری کی روایت آگے بڑھی۔ 1857 سے پہلے حمد، نعت اور منقبت مجموعۂ غزلیات میں روایتی انداز میں ہوتے تھے۔ جوں جوں نعت گوئی کا چلن اردو ادب میں بڑھتا گیا، شعرا کے اندر یہ شعور پیدا ہوا کہ باضابطہ نعت پاک کے مجموعے لائے جائیں۔ انیسویں صدی تک اس کی رفتار سست تھی لیکن بیسویں صدی آتے آتے اس کی رفتار بڑھنے لگی اور آج تو نعتیہ مجموعے تیزی سے شائع ہورہے ہیں۔ لگتا ہے لوگ ان ناقدوں کو خاطر میں نہیں لاتے جو یہ کہا کرتے ہیں کہ نعت گوئی باضابطہ صنفِ سخن نہیں ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، مغربی بنگال میں اب تک 71 نعتیہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور فیض احمد شعلہ کا نعتیہ مجموعہ ”سوئے حِرا" کی اشاعت کے بعد اس کی تعداد بڑھ کر 72 ہوگئی ہے۔
فیض احمد شعلہ کا نعتیہ مجموعہ ” سوئے حِرا" ایک دل کش علامتی عنوان ہے۔ اس مجموعے کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی مذہبی فکر اور دینی معلومات قابلِ رشک ہے۔ اسلوبِ بیان صاف ستھرا ہے اور سرورِ کائنات سے عشق ان کی وارفتگی کا مظہر ہے۔ نعت گوئی ایک مشکل فن ہے۔ بہ قول ڈاکٹر شہپر رسول: 
” شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس نے نعت رسول مقبول نہ کہی ہو لیکن ایسے شاعر کم ہیں جنھوں نے نعت گوئی کے حوالے سے اپنا کوئی منفرد اسلوب بنالیا ہو یا کوئی مخصوص شناخت قائم کرلی ہو. یوں بھی نعت گوئی کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ تلوار کی دھار پہ چلنے کے مترادف ہے۔ یہاں کسی لغزش کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔"(حرف حرف خوشبو۔ شمیم انجم وارثی. صفحہ نمبر 11)
فیض احمد شعلہ کو ان مشکل راہوں کا ادراک ہے اور یہی سبب ہے کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور مرتبے کا خیال رکھ کر اپنے جذبات و احساسات کو بہت سنبھل کر قلم بند کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
نبی سے عشق کا دعویٰ تو سہل ہے شعلہ
مگر کٹھن ہے بہت اِس کی آبرو رکھنا
آپ کے نور سے معمور ہے سارا عالم
کْرۂ ارض کی توقیر بڑھانے والے
نبی کے قول کو فرمانِ لم یزل سمجھیں
وجود ان کا سراپا ہی نورِ وحدت ہے
صدق و صفا قرار کی تصویر آپ ہیں
میرے سنہرے خواب کی تعبیر آپ ہیں
موجودہ دور میں نعت گوئی ایک مستقل فن کا درجہ رکھتی ہے بلکہ اب یہ زیادہ تر شعرا کے یہاں فکر و فن کا ایک اہم حصہ بن گئی ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ فیض احمد شعلہ غزل کے بھی ایک اچھے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ”صدائے دل" 2009 میں شائع ہوکر قبولِ عام کی سند حاصل کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عروض کی بھی اچھی جان کاری رکھتے ہیں۔ 2018 میں ” مبادیات عروض" کے نام سے جو کتاب شائع ہوئی اسے ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا اور اس کتاب پر مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے ”ماسٹر رام چندر ایوارڈ" سے نوازا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کا باشعور فن کار جب نعتیہ کلام کہے گا تو اس میں نعت گوئی کے تمام لوازمات ملیں گے۔ چونکہ فیض احمد شعلہ صاحب صالح اقدار و کردار کے مالک ہیں لہذا نعت گوئی سے ان کی وابستگی فطری ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں حمد و مناجات بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی اس کتاب میں اردو حروف تہجی کے اعتبار سے الف سے یا تک نعتیہ اشعار کہے ہیں جو ان کی فن کاری کی دلیل ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
صبح دم مکے میں جب سرکار کا آنا ہوا
منہ کے بل سب بت گرے آتش کدہ بھی بجھ گیا
جب عرب میں ہوگیا جلوہ نما وہ آفتاب
رفتہ رفتہ چھٹ گئے باطل عقائد کے سحاب
شعلۂ بے تاب کو جلوہ ذرا دکھلائیے
خواب میں بھی تو کبھی سرکار میرے آئیے
فیض صاحب بالغ نظر اور باشعور شاعر ہیں۔ وہ روایت کے ساتھ جدید فنی تقاضوں سے بھی بہرہ ور ہیں۔ میری اس بات کی توثیق مندرجہ ذیل اشعار کریں گے:
وفورِ شوق میں بڑھتا گیا میں سوئے حرم
تھکن نہ روک سکی مجھ کو میرے پاؤں کی
چراغ حق کا جو روشن تھا کوہِ فاراں پر
ضیا اچھال رہا ہے وہ کو بہ کو اب تک
کافی ہے مجھے اتنی کمائی ترے در کی
کرتا رہوں پلکوں سے صفائی ترے در کی
محشر میں جب بھی پیش ہوں داور کے سامنے
سر پر حضورِ پاک کی کملی تنی رہے
کشتی بھنور کو چیر کے ساحل پہ آگئی
جب دل نبی کی شان میں محوِ ثنا ہوا
نعتیہ شاعری میں طیبہ مدینہ کا ذکر تقریباً ہر شاعر کے یہاں موجود ہے۔ نعت لکھنے کے لیے طیبہ کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ مومن کے لیے جان و ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک عاشقِ رسول کے لیے جو عظمت و رفعت مدینہ کے لیے ہے اس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ فیض احمد شعلہ کے مذکورہ مجموعے میں بھی والہانہ تذکرہ موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
کبھی میں جاؤں مدینہ تو کاش ایسا ہو
قریبِ روضہ ہی میرا کہیں قیام رہے
تمام کرکے میں لوٹا سفر مدینے کا
مگر ہے اب بھی نظر میں وہ در مدینے کا
جی چاہتا ہے اڑ کے جالی سے لپٹ جاؤں
روکے نہیں رکتے ہیں جذبات مدینے میں
فکر کی موج کو موڑا جو مدینے کی طرف
باب انوار کے کھلنے لگے سینے کی طرف
جسم خاکی مرا کہیں بھی ہو
دل مرا ہے مگر مدینے میں
فیض احمد شعلہ نے جس طرح مدینے کا ذکر کیا ہے، قاری بھی مدینہ کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ انھوں نے شوق و تڑپ اور حسرت و تمنا کو بڑی خوب صورتی سے نظم کیا ہے۔
اچھی شاعری کے لیے ذہنی موزونیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر شاعری میں وہ حسن پیدا نہیں ہوگا جو ہونا چاہیے۔ ذہنی موزونیت کے ساتھ اگر عروض پر گرفت ہو تو سونے پہ سہاگہ کے مترادف ہے۔ یہ دونوں خوبیاں فیض صاحب کے یہاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے نعتیہ اشعار ہمیں کیف و سرور کی کیفیت سے دوچار کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
مصلحت کوشی نہیں ہے، یہ ہے حکمت کا ظہور
اہلِ مکہ سے نبی نے صلح و پیماں کرلیا
ہے مستحق عنایتِ رب کی وہ بالیقیں
جو روح وقفِ مدحتِ خیر الانام ہے
لائے حضور دہر میں اک روشنی نئی
رخصت جہاں سے تیرگی کا قافلہ ہوا
ہر نبی کی عزت و تکریم لازم ہے مگر
مرتبہ اعلیٰ ہے سب میں سید الابرار کا
زیرِ نظر مجموعہ میں کچھ نعتیہ قطعات بھی ہیں جن سے فیض صاحب کی قوتِ تخلیق اور اپنے موضوع سے مخلصانہ تعلق کا اظہار ہوتا ہے اور عقیدت کا عالم کیا کہنا۔ مثال کے طور پر یہ نعتیہ قطعہ ملاحظہ فرمائیں:
آسماں جھوم اٹھا ارض چمن زار ہوئی
ہر طرف شور مچا آمدِ سرکار ہوئی
ظلمتِ شب کا تصور ہوا غائب یکسر
آپ آئے تو نئی صبح نمودار ہوئی
مجموعی طور سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ”سوئے حِرا" میں عشق رسول کے مختلف رنگ ہیں جو فیض صاحب کی عقیدت و محبت کے ساتھ ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کے مظہر بھی ہیں۔ میں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مولا ان کے گلدستۂ نعتِ رسول کو عوام و خواص میں مقبولیت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:اورنگ آباد کے اہم طبی نباتات:  ایک اہم تحقیقی کاوش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے