کتاب: آئینۂ روح

کتاب: آئینۂ روح

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

ماسٹر محمد سعید نقشبندی دامت برکاتہم صادق پور اسراہا دربھنگہ کا شمار شمالی بہار کے بزرگوں میں ہوتا ہے، انھوں نے اپنے وقت کے کئی پیروں اور مرشدوں سے کسب فیض کیا ہے، وہ اثبات و نفی اور جذب وکیف کے مراحل سے گذرے، ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ میں ہوئی، اس لیے اردو فارسی زبانوں میں ان کو خاصہ درک ہے، حالاں کہ وہ اصلا انگریزی زبان و ادب کے آدمی ہیں، اور زندگی کے بیش تر حصوں میں ان کی معاش کا مدار انگریزی ٹیوشن پر رہاہے، انھوں نے انگریزی زبان و ادب کے ٹیوٹر کی حیثیت سے اپنی ایک شناخت بنائی۔
ماسٹر محمد سعید صاحب نے تزکیہ نفس اور معرفت رب کے لیے اپنے کو اہل اللہ کے حوالے کر دیا، اور نقشبندیہ سلسلہ کے بزرگوں سے عقیدت و محبت کے طفیل پہلے وہ حاجی منظور احمد مصرولیا ضلع مظفر پور کی بار گاہ میں پہنچے، ۱۹۸۶ء میں حضرت کے وصال کے بعد مخدوم محترم حضرت مولانا حافظ محمد شمس الہدیٰ راجوی دامت برکاتہم کے با فیض دامن سے وابستہ ہوئے اور بہ قدر ظرف و پیمانہ سلوک کے مراحل طے کیے، اور ان سے خلافت پائی، حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب دامت برکاتہم کا فیض شمالی بہار میں جاری ہے اور علما، مفتیان کرام اور اہل اللہ کی بڑی تعداد ان کے دامن سے وابستہ ہیں، وہ پیر ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہیں، شعر و ادب کا بڑا سُتھرا ذوق رکھتے ہیں، ان کی نگرانی میں ماسٹر محمد سعید نقشبندی نے ادب و شاعری کے کا کل و گیسو سنوارنے کا کام کیا، ان کا پہلا مجموعۂ کلام آئینہ دل ہے اور دوسرا مجموعہ آئینہ روح کے نام سے منظر عام پر آیا ہے، ان دونوں مجموعوں میں بڑا باریک ربط و تعلق ہے، دل وہ چیز ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، جب وہ درست رہتا ہے تو سارے اعضا و جوارح درست کام کرتے ہیں، اور اگر وہ بگاڑ کا شکار ہو گیا تو سارے اعضا فساد و بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب کے مجلیٰ مصفیٰ آئینہ دل سے جو کلام وارد ہوئے وہ انسانون کے قلب و نگاہ کو صاف کرنے والے ہیں اور دل و دماغ کی اصلاح کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں۔
آئینہ روح کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ روح تو امر ربی ہے اور خصوصی طور سے جب صوفیا کے کالبد خاکی میں ہو تو وہ میلی اور گدلی نہیں ہو سکتی، چنانچہ ماسٹر محمد سعید نقشبندی نے روح کا آئینہ دکھا کر عوام سے اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر در پردہ اصلاح کا پیغام دیا ہے۔
ماسٹر محمد سعید صاحب کے دو سو اٹھاسی صفحات (۲۸۸) کے اس مجموعہ آئینہ دل میں ایک حمد، دو نعت اور ایک سو چون غزلیں ہیں، ہر غزل میں نو اشعار بلکہ بعضوں میں اس سے زائد بھی ہیں، ابتدا میں تین نثری تحریروں کو جگہ دی گئی ہے. ایک خود ماسٹر صاحب کی اپنی تحریر ’’کچھ اپنے بارے میں‘‘ کے عنوان سے ہے، ’’سعید صاحب کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ان کے پیر و مرشد حضرت حافظ مولانا الحاج شمس الہدیٰ صاحب دامت برکاتہم کی ایک وقیع تحریر شامل کتاب ہے، جس سے ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کے در و بست اور ابعاد کا پتہ چلتا ہے۔ تیسرا مضمون محمد شاہد عالم کا ہے، جن کے بارے میں نہ مجھے واقفیت ہے اور نہ ہی کتاب سے ان کا کچھ اتا پتا معلوم ہوتا ہے، البتہ تحریر اچھی ہے اور مختصر ہے۔
ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کے تخیلات دل کی دنیا سے وابستہ ہیں، حمد و نعت میں ادھر اُدھر بھٹکنے کا عموما کوئی موقع نہیں ہوتا، گو نعت کو مناجات بنانے کی روایت قدیم ہے اور حمد و نعت کے فرق کو کم شعرا ہیں جو ملحوظ رکھتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب کی نعت میں یہ پورے طور پر ملحوظ ہے جو بڑی اچھی بات ہے، البتہ غزلوں میں ہمارے شعرا نے ہجر و وصال، زلف و رخسار اور ترقی پسندوں کے دور میں کاروبار حیات، جدیدیوں کی علامتی شاعری اور ما بعد جدیدیت میں زندگی کے مسائل کا ذکر شعرا کو مختلف وادیوں میں بھٹکاتے رہے ہیں، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کا فارمولہ تو عام ہے، لیکن ماسٹر محمد سعید صاحب کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ ادب برائے بندگی پر زور دیتے ہیں، ان کے یہاں عشق مجازی کا گذر نہیں ہے، انھی الفاظ سے جن سے دوسرے عشق مجازی کا دربار سجاتے ہیں، ماسٹر محمد سعید صاحب عشق حقیقی کی جلوہ سامانیاں دکھاتے ہیں، غالب کے یہاں مسائل تصوف کا بیان بھی بادہ و ساغر کہے بغیر بات نہیں بنتی تھی، ماسٹر محمد سعید صاحب بادہ و ساغر سے دامن کشاں کشاں عشق حقیقی کی سیر کرا دیتے ہیں؛ البتہ تصوف ایک راز حیات ہے، عدم و وجود، کن فیکون اور لا مکاں کا رمز ہے، اس لیے اگر قاری اس کو بغیر تدبر کے پڑھے گا تو اس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا؛ کیوں کہ مغز تو خول اور چھلکوں کے اندر ہوتا ہے، الفاظ مسائل تصوف کے بیان میں خول اور چھلکوں کی طرح ہیں، آپ ان کے سہارے حقیقت تک پہنچنے کی کو شش کریں گے تو روح کے رموز ونکات نیز عدم و وجود کی کارستانیاں آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو پائیں گی، کتاب خوب صورت اور دیدہ زیب ہے، بائنڈنگ اور سرورق میں بھی کشش ہے، دو سو پچاس روپے دے کر بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بک ڈپو دربھنگہ، اور خود شاعر کے پتہ صادق پور، اسراہا دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے