قدیم اُردو شاعری کا نیا استعارہ__ انور ایرج 

قدیم اُردو شاعری کا نیا استعارہ__ انور ایرج 

ڈاکٹرقسیم اختر
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو، ماڑواری کالج، کشن گنج، بہار ، ہند
موبائل:9470120116
qaseemakhtar786@gmail.com

اردو شاعری اور اردو شاعروں کے بالعموم دو طبقے ہیں. اول: وہ طبقہ جو مشاعروں، سطحی رسائل و جرائد، اخبارات اور سوشل میڈیا پر نظرآتا ہے۔ دوم: وہ طبقہ ہے جو خاص نشستوں، مہتم بالشان مواقع اور نامور رسائل و جرائد میں کسی یادگار اور زندہ باد تحریر/تخلیق کے ساتھ نظر آتے ہیں. پروفیسر انور ایرج، اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے شاعر ہیں جنھیں ہم مابعد جدید دور میں اردو شاعری کا نیا استعارہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا. اس دعوے کی دلیل ان کی شاعری ہے۔ اس کا اہم سبب یہ ہے کہ موصوف پروفیسر نے تحقیقی مقالہ ترقی پسند شاعری کے اہم آئیکن، اچھے اور بڑے فن کار کیفی اعظمی کی شاعری پر لکھا ہے تو پھر کیوں نہ ان کی اپنی شاعری میں وہ اثرات درآتے کہ وہ نئے دور میں یعنی مابعد جدیدیت کے عہد میں بھی ترقی پسند اور قدیم شاعری کا نیا استعارہ بن جاتے۔ ان کی اس شاعری کی بنت اور ہیئت میں ان کے وہ چھے سال بہت کار فرما رہے ہیں، جن کے بارے میں وہ خود اس طرح لکھتے ہیں:
”1993سے 1999 کے درمیان مجھ پر قیامتیں ٹوٹیں، میں بری طرح سے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔ ان چھے سالوں کے درمیان میرا سب کچھ لٹ گیا تھا۔ کیوں کہ والد اور پھر والدہ کا سایہ ہی سرسے اٹھ چکا تھا، میں نے ان چھے سالوں کو اس طرح گزارا ہے، جیسے کسی بیمار کی رات گزرتی ہے۔ میں ادب کی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا، ایک ادبی رسالہ ’حصار‘ کے نام سے نکالا کرتا تھا، وہ بھی بند ہوگیا ——– ایک جون، 1999 کو میری نوکری بہار ودھان پریشد کے اردو شعبہ میں ہوگئی۔ اس طرح میں خود کو حصار ذات سے کچھ باہر نکال لایا۔“ (دارورسن (کیفی اعظمی کی شاعری) ص:8)
ان حالات کے بیان اور ان کے اندرون میں موجود کیفیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پروفیسر انور ایرج ان برسوں میں کن حالات سے گزرے۔ کسی انسان کی زندگی میں رونما ہونے والے ایسے واقعات اس کی زندگی کا رُخ اور اس کی فکر کا زاویہ تبدیل کردیتے ہیں۔ اگر وہ شخص حساس اور ذمے دار ہے تو اس کے تمام امور، مطمحات نظر، اہداف، مقاصد، منزلیں اور نتیجہ خیز ارادے اسی سمت میں مڑجاتے ہیں اور اگر وہ شخص اب تک لااُبالی، غیر مقصدی، بے فکری، غیر مستقل اور الہڑپنے سے زندگی جی رہا ہے تو اس کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اول الذکر شخص کی ایک اور قسم ہوتی ہے؛ اگر وہ فن کار، قلم کار، تخلیق کار یا فنون لطیفہ کا دل دادہ ہے تو اس کے عرض ہنر میں ان حالات و واقعات کا اثر صاف نظر آنے لگتا ہے۔ پروفیسر انور ایرج کی شاعری بلاشبہ ان اثرات کی غماز ہے۔ یہ رنگ کہیں کہیں تو گھنا ہوگیا ہے اور کہیں کہیں یہ رنگ بکھر سے گئے ہیں۔ جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں یہ تمام رنگ، ان کی گہرائی اور اجلا پن اور عکس نظر آتے ہیں۔
اس طرح کے حالات سے گزرنے کے بعد بر سرِ روزگار ہوجانے اور خوش حالی کے دن آجانے کے بعد کی زندگی کے متعلق کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جب زندگی کے سارے دکھ درد دور ہوگئے اور مسئلے حل ہوگئے تو اب کا ہے کا رونا اور کیسی قنوطیت؟ تو اس معترض کی خدمت میں عرض ہے کہ خواہ انسان تنگ حالات کے بعد کیسا ہی خوش حال ہوجائے، خواہ اس کی کایا ہی پلٹ جائے مگر یہ فطری بات ہے کہ پرانے دنوں کے زخم نہیں بھرتے اور پرانی کسک کسی نامعلوم خلش کی مانند آخری سانس تک مضطرب رکھتی ہے —— بالخصوص فن کار کے لیے انھیں بھول پانا دشوار تر امر ہوتا ہے۔ وہ ایام رہ رہ کر اس کی زندگی کا چین و سکون سلب کرتے رہتے ہیں اور کسی پرانی چوٹ کی مانند وقت بے وقت اسے پریشاں کیے رہتے ہیں۔ مگر فن کار ان کا اظہار عام انداز کے بجائے فن کارانہ اور خلاقانہ انداز میں کرتا ہے، اس کا درد و کرب اور زندگی کے المیے، ماضی کی محرومیاں اور جدوجہد سب فن پاروں کا پیکر بن جاتاہے اور خود بھی ان کا بیان ادبی پیرائے اور اسلوب میں کرتا ہے۔ وہی اس کا کلام، وہی اس کی گفتگو اور بات چیت بن جاتی ہے —– انور ایرج اسی کیفیت کا مظہر ہیں اور ان کی شاعری ان ہی حالات کا پیکر ہے:
عجیب شہر ہے یہ سائباں کہیں بھی نہیں
درخت چاروں طرف آشیاں کہیں بھی نہیں
الاؤ جسم کے اندر دہک رہا ہے مگر
حصار ذات سے باہر دھواں کہیں بھی نہیں
ان اشعار کو اگر تجسیم عطا کی جائے تو جو اِن کا ہیولہ بنے گا، وہ انور ایرج ہوگا۔
انور ایرج نے شعر اول کے مصرع ثانی میں کلاسیکی جدید شاعر محسن نقوی کے انداز میں ایک شکوہ کیا ہے۔محسن نقوی کا شعر ہے:
یہ اونچے پیڑ کیسے ہیں
کبھی سایہ نہیں کرتے
یعنی کرّوبیاں بھی اپنے فرض سے غافل ہیں؟ اب یہ حقیقت ہے یا محض شاعر کا تخیل! یہ بات اس کے مشاہدے اور اس کی اندرونی کیفیات پر منحصر ہے۔ کیوں کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کیا دیکھا اور کس زاویے سے دیکھا۔ اگر اس نے ان جمادات/مخلوقات کو منحرف دیکھا ہے تو اس میں قصور ان نامساعد اور غیر فطری حالات کا ہے جو اُس کے اوپر سے کسی موج خوں کی مانند گزرے ہیں یا اس کی ہنستی کھیلتی خوش حال زندگی میں در آئے، چنانچہ ان ہی حالات نے شاعر کو اس جرأت انکار و اعتراض تک پہنچادیا کہ وہ کہہ اٹھا:

میں حقیقتوں کی دلیل ہوں، نہ خیال ہوں نہ گمان ہوں
میں علامتوں کی صدا نہیں،میں شکستہ دل کا بیان ہوں
جو عبارتیں تھیں نشان زد،وہ اسی طرح سے ہیں آج بھی
میں اسی سیاق وسباق میں، کسی حاشیے کا نشان ہوں

انسان جب حصار ذات میں رہ کر کئی ایسے تجربے کرلیتا ہے جو عمومی نہیں ہوتے، بس ناگفتہ بہ حالات کی دَین ہوتے ہیں، تو پھر اس کا عالم بے زاری، حقیقت پر فریب کا گماں، دن پر اندھیرے کا دھوکہ، ہنسی میں غم کا ادراک، ہنر اور عرض میں غرض کا شائبہ، باتوں میں ملمع سازی کی بو، خموشی میں شور، سوچ و فکر پر پابندی و اطاعت کا شک، خوشی میں رنج کا احساس وغیرہ یہ متضاد چیزیں اور عناصر کسی کارواں کی مانند اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگتے ہیں، بعد ازاں وہ اس قدر چوکنا ہو جاتا ہے کہ کوئی پتہ بھی کھڑکے، معمولی سی ہوا چلے، آہٹ سی کوئی آئے، چاپوں کی آواز آئے یا خود اس کی ہی تیز سانسیں چلنے لگیں، وہ کسی مشین کی مانند فعال اور ہوشیار ہوجاتا ہے۔ یہ عمل گناہ بھی نہیں بلکہ عین ثواب ہے؛ کیوں کہ اس کے بعد انسان کسی انہونی یا کم سے کم آفت سے بچ جاتا ہے اور اگر وہ کیفیت اس کے لیے مفید ہے تو وہ اس سے بہرہ ور ہوتاہے:
اب اپنے گھر کی خموشی عجیب لگتی ہے
چلو یہاں سے چلیں، خود کو دربدر کرلیں
ہمیں تو ٹوٹ کے آخر یوں ہی بکھرنا تھا
یہ مرحلہ بھی چلو آج چل کے سرکرلیں
بس اک دھند ہے جائیں تو کس طرف جائیں
کہاں پہ شام کریں، کس جگہ سحر کرلیں
٭٭
سبز لمحوں کے مقدر میں اندھیرا اللہ
اندھی آنکھوں میں کہاں شام سویرا اللہ
چل کہیں اور چلیں دھند کی سرحد سے پرے
ہر طرف اب یہاں آسیب کا گھیرا اللہ
یعنی بہ قول غالب:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
ہستی، جو کہ ازلی حقیقت ہے وہ بھی فریب دہ ہے، امروز اس کا مظاہرہ بہ کثرت، جا بہ جا، کبھی بھی اور کہیں بھی ممکن ہے۔ غالب کے عہد میں یہ صرف ایک تخیل اور تصور تھی، ہمارے عہد میں وہ یعنی ہستی حقیقت بن گئی۔ ہستی نیستی بن گئی اور نیستی ہستی بننے کا دعوا کرتی ہے۔
یہی وجہ کہ اس دام خیال سے کیا انسان، کیا قمری، کیا چوپائے اور کیا کوئی اور، سب کو ہی گلو خلاصی حاصل کرنی چاہیے۔ اگر نہیں تو پھر اس رمزسے آگاہی ہونی چاہیے جس حلقۂ دام خیال کے دائروں میں مخفی ہے۔پہلی صورت میں انسان سابقہ صدیوں کی مانند آئندہ صدیوں تک بھی یوں ہی سرگرداں رہے گا اور دوسری صورت میں وہ خدا کا رازداں بن کر قدرت کی صنعتوں میں عکس خدا دیکھے گا۔
مذکورہ بالا مثالوں میں دو طرح کی کیفیات پائی جاتی ہیں. اول: عمومی بیان۔ دوم: عالم اضطرار یا بے خودی میں اللہ سے شکوہ یا التجا۔ شاعر کی اللہ سے التجا یا شکوہ، سالک و عابد کی دعا کے مساوی ہوتا ہے۔ یہ ذات خداوندی اور اس کی علویت پر حرف کنی نہیں ہے بلکہ بندے کا اپنے مالک اور خالق سے اسی تعلق کی بنیاد پر مطالبہ یا مدعا ہوتا ہے۔
انور ایرج کی حالات حاضرہ، سیاست کی کج روی، فرقہ واریت، بین المذاہب، مسالک، ہمہ اقسام کے فسادات، اسی طرح ان کے اسباب اور ان کے پس پردہ محرک طاقتوں کی کارستانیوں پربھی نظر ہے اس طرح وہ ادب اور سماج، ادب اور حالات حاضرہ، شاعری اور اس کا انسانوں سے علاقہ، حقیقی صورت حال اور فسانہ نما شاعری کے ذریعے آگاہ ہیں۔ نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان پر حالات کا مناسب حل تلاش کرنے اور ان کے اصل مجرمین تک پہنچنے کی راہ بھی وہ سوجھاتے ہیں:
خون خرابا کون کراتا، ہم بھی سوچیں، تم بھی سوچو!
شہر میں دنگا کون کراتا، ہم بھی سوچیں،تم بھی سوچو!
گندی سیاست کرنے والے آگ لگاکر چل دیتے ہیں
گاؤں،شہر یہ کون جلاتا،ہم بھی سوچیں، تم بھی سوچو!
یا
ملک دشمن سے مجھے پیار نہیں ہو سکتا
کوئی غدار مرا یار نہیں ہو سکتا
جنگ آزادی میں انگریز کے تلوے چاٹے
وہ تو گاندھی کا طرف دار نہیں ہو سکتا

چڑھے تھے گر بلندی پر اترنا سیکھ لینا تھا
ہمیں گرنے سے پہلے ہی سنبھلنا سیکھ لینا تھا
بہت منھ زور طوفاں سے تمھارا سامنا ہوگا
ہوا کی زد میں رہنا ہے تو چلنا سیکھ لینا تھا

یہ نظم نما غزل ہندستان کی موجودہ سیاست اور حکومت ہر دو کی نفرت خیز کارکردگی اور پالیسی پر قدغن ہے۔ اس میں کچھ الفاظ بھی ایسے مستعمل ہیں جن کی حقیقت آج کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گذشتہ اور حالیہ دنوں جس طرح کی صورت حال ملک بھر میں برپا کی گئی اور ملک عزیز کے کم زور طبقے کے خلاف جس طرح کی محاذ آرائی ہوئی ہے، اس کا عکس اس غزل میں صاف نظر آتا ہے۔
میر تقی میر کے متعلق ہم سنتے آئے ہیں، بارہا پڑھا ہے اور بزرگوں سے سناہے؛ ان کی زندگی میں غموں کا ایک نامختتم سلسلہ تھا جو لکھنؤ پہنچ کر بھی باقی رہا، ہاں!اتنا ضرور ہوا کہ وہاں کی خوش حال اور پرسکون زندگی میں اس کے نالے اور نوحے پست آواز تو ہوگئے، مگر ختم نہ ہوسکے۔ جب ان باتو ں پر غورکیا تو فکری تار یہاں آکر پہنچے کہ اگر یہ غم میر کی زندگی میں نہ ہوتے تو شاید وہ اتنے بڑے شاعر یا خدائے سخن نہ ہوتے، اگر ان کے شعر شورانگیز نہ ہوتے تو اردو شاعری میں ان کا کوئی مقام نہ ہوتا جیسا کہ ان کے کتنے ہی معاصرین، لکھنوی پر تعیش زندگی میں ڈوبے ہوئے شاعر آج گم نام ہیں، جن کا ذکر تک اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں، جن کی نسبتیں ان ہی کی مانند ناپید ہیں۔ میر تقی میر کی یہی ادا پروفیسر انور ایرج نے اپنائی. چنانچہ ان کے اشعار میں شور انگیزی مابعد جدید دور میں میرکی یاد دلادیتی ہے:
مری آنکھوں میں غم کا گوشوارہ کون دیکھے گا
منافع چھوڑکر اپنا خسارہ کون دیکھے گا
زمانہ دیکھتا ہے بس چمکتے چاند سورج کو
فلک سے ٹوٹ کے گرتا ستارہ کون دیکھے گا
چلو اب دور شہروں سے کہیں جنگل میں رہ لیں گے
یہاں بچوں کے جلنے کا نظارہ کون دیکھے گا
آخری شعر، گجرات کی بیسٹ بیکری میں زندہ بچوں کو جھونک دینے کے روح سوز منظر کے پس منظر میں ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ دوتین برسوں میں بچوں کی آتش سوزی یا منظم طور پر انھیں کسی گھر میں قید کرکے جلا دینے کے واقعات کا عکاس بھی ہے۔ یقینا ایسے نظارے کون دیکھ سکتا ہے، صرف وہی جو بے ضمیر ہو اور اس نے اپنی انسانیت ختم کرلی ہو، باضمیر کے اور انسانی ہمدردی کے خوگر سے تو ایسے مناظر کسی طور نہ دیکھے جائیں گے، چہ جائیکہ وہ شاعر بھی ہو اور حساس شاعر! پروفیسر انور ایرج کے ان اشعار میں موجود احتجاج، شور خیزی، ولولہ اور حوصلۂ اظہار دیدنی ہے۔
جب پروفیسر انور ایرج نئی صدی اور مابعد جدیدیت کے ماحول میں جھانکتے ہیں تو انھیں کئی طرح کے الجھاوے، موشگافیاں، کج رویاں، حقیقت سے زیادہ مجاز یا مجاز پر حقیقت کی ملمع سازی، عجیب طرح کے رویے، فکشن اور ادبیات کے غیر منطقی، غیر معقول اور ناقابل فہم عنوانات، مشمولات، کردار، پلاٹ، پس منظر وغیرہ پریشان کردیتے ہیں. مگر چوں کہ وہ جینوئن ادیب ہیں تو اس ماحول میں بھی اپنی شناخت گم نہیں کرنا چاہتے، انھیں بے چہرگی کا ڈرہے اور مین اسٹریم سے کٹ جانے کا خدشہ۔ چنانچہ ہر ہنر مند اور صاحب بصیرت و دانش ور کی مانند وہ ایسی صورت حال میں وہ نئی راہیں اور طریقے تلاش کرلینے اور پرانے طریقوں کو راہی ملک عدم کردینے کی تلقین کرتے ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ نئے دور میں نئے اسباب اور طریقوں کے ذریعے ہی ادب اور اپنا وجود محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔اس کے لیے وہ اس طرح کی شعوری کوشش کرتے ہیں:
اب فسانے کے ہی کردار بدلنے ہوں گے
وقت بدلا ہے تو اظہار بدلنے ہوں گے
یہ محض ایک شعر نہیں بلکہ مابعد جدیدیت کا نظریہ ہے۔ نیا زمانہ، نیا فسانہ، نئے کردار، نیا وقت نیا طریقۂ اظہار۔ اگر ادب پاروں کی تخلیق کے وقت ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا تو وہ نئے عہد کے ادب کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترے گا اور اپنے مقصد تحریر میں کامیاب بھی نہ ہوگا۔ اسی طرح وہ کسی کہنہ سال کھنڈر کی بوسیدہ سی کہانی بن کر رہ جائے گا، جس پر آج کی نسلیں اعتبار بھی نہ کریں گی۔
پروفیسر انور ایرج کی شاعری کا قصر اس طرح کے لعل و جواہر سے معمور ہے جس کا گنبد نئی فکر کے ایسے کنگوروں سے مزین ہے جن کی چمک، خورشید جہاں تاب کی کرنوں سے مقابل ہوتی ہے اور ذرات کو تابانی بخشتی ہے۔
===
قسیم اختر کی گذشتہ نگارش: ترنم ریاض کی افسانوی ریاضت وانفرادیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے