نقوشِ فرید  :  محمد رضوان آزاد کا ایک تاریخی کارنامہ

نقوشِ فرید : محمد رضوان آزاد کا ایک تاریخی کارنامہ

احسان قاسمی

اپنے آبا و اجداد کی تاریخ قلم بند کرنا، اپنے بزرگوں کے کارہائے نمایاں کو یاد کرنا باعثِ سعادت بھی ہے اور باعثِ افتخار بھی۔ جب ہم تاریخی عمارات مثلاً قطب مینار یا تاج محل کو دیکھتے ہیں تو ہندستان میں مسلم سلاطین کی عظیم الشان تاریخ کی یاد ہمارے ذہنوں میں تازہ ہو جاتی ہے۔ ان کی جواں مردی، عزم، حوصلہ، شان و شوکت، جاہ و جلال، انصاف پسندی، رعایا پروری، فنِ تعمیر، راگ راگنیوں، شعر و سخن اور دیگر فنونِ لطیفہ سے ان کا لگاؤ اور سرپرستی وغیرہ جیسی بےشمار چیزیں ذہن و دل کو محصور کرلیتی ہیں اور ہمیں حال سے اٹھا کر ماضی کے ان خواب زاروں میں پہنچا دیتی ہیں جہاں ہم سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہوتے ہیں.
تاریخ ہمیں سبق بھی دیتی ہے اور تحریک بھی. ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے تو ہمیں بھی کچھ ایسا ضرور کرنا چاہئے کہ ان کے ساتھ ہمارا نام بھی دنیا میں باقی رہے.
مجھے اس بات کی بےحد خوشی ہے کہ عزیزی محمد رضوان آزاد نے اپنے آبا و اجداد کی تاریخ رقم کرنے کی ضرورت محسوس کی اور اس کام کو نہایت تندہی اور جاں فشانی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ ان کے والد مرحوم جناب محمد سلیمان سلیماں اس سے قبل اپنے والد گرامی اور خاندانی پس منظر پر "حیاتِ فرید" نامی کتابچہ شائع کر چکے ہیں۔ رضوان آزاد نے اب مکمل کتاب کی صورت میں اپنے خاندانی پس منظر کو منظرعام پر لانے کا ارادہ کیا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پلاس منی صوبۂ بہار کے ضلع کشن گنج میں قصبہ بہادرگنج کے قریب واقع ایک مردم خیز گاؤں ہے. یہ اہلِ علم و دانش اور اہلِ سخن کا مسکن رہا ہے.
سیمانچل کی سب سے قدیم تصنیف "بدیا دھر" ہے جو ایک صوفی شاہ کفایت اللہ کے ذریعہ سنہ 1728ء میں مکمل کی گئی۔ اس کی زبان مثل برج بھاشا جس میں مقامی بولی کی بھی آمیزش ہے اور رسم الخط مثل کیتھی ہے. یہ زبان اب متروک ہے. وہ دمکا ( نزد گلاب باغ، پورنیہ) کے باشندہ تھے۔ اس کتاب کا جزوی ترجمہ اردو رسم الخط میں محبوب الرحمن محبوب مرحوم نے اپنے پریس سے شائع کیا تھا۔ کلی ترجمہ دیوناگری رسم الخط میں قمر شاداں صاحب نے پیش کیا۔
سیمانچل کی سب سے پہلی مطبوعہ کتاب "کلیات عزیزی" ہے جو 1314ھ بہ مطابق 1896ء میں شائع ہوئی۔ مولوی عبد العزیز پلاسمنوی ولد منصف فرید بخش نے اسے بنارس سے چھپوا کر شائع کیا تھا۔
سیمانچل کے پہلے افسانہ نگار محمد سلیمان سلیماں مرحوم تھے، جو پلاسمنی منصف فرید بخش کے پوتے تھے۔ انھوں نے جب کہ وہ ابھی محض چوتھی جماعت کے طالب علم تھے پلاسمنی کے شعرا کی غزلوں کا ایک گلدستہ بہ عنوان "گلبنِ فصاحت" 1915ء میں گائے گھاٹ، بنارس سے چھپوا کر شائع کیا تھا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سیمانچل میں فارسی اور اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں پلاسمنی گاؤں خصوصاً منصف فرید بخش مرحوم کے خانوادے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے.
کشن گنج اور اس کی تاریخ :
صوبۂ بہار کا انتہائی شمال مشرقی علاقہ جس کی سرحد شمال میں نیپال، مشرق اور جنوب میں صوبۂ بنگال اور مغرب میں ضلع پورنیہ اور ارریہ سے متصل ہے. 1990ء سے قبل کشن گنج ضلع پورنیہ کا ایک سب ڈویژن ہوا کرتا تھا۔ 1956ء میں اس کا ایک بڑا حصہ مغربی بنگال میں شامل کر دیا گیا جو اب ضلع اتر دیناج پور کا اسلام پور سب ڈویژن ہے۔
کشن گنج میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً 70 فی صد ہے۔ یہاں اردو کے علاوہ ہندی، بنگلہ اور مقامی سُرجاپوری زبان بولی جاتی ہے۔
کشن گنج ضلع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آرین جب ہندستان میں داخل ہوئے تو ان کی دو شاخیں انگا اور پنڈاری اس خطۂ ارض پر آباد ہوئیں۔ انگا قوم کا سب سے مشہور اور طاقتور حکمران راجا کرن تھا جس کا ذکر مہابھارت میں موجود ہے۔ اتر دیناج پور میں "کرن دیگھی" نامی قصبہ میں راجا کرن کے نام سے منسوب دیگھی (بہ معنی تالاب) موجود ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر قدیم محلات کے کھنڈرات ٹیلوں کی شکل میں آج بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قیاس ہے کہ یہ انگا قوم کی تعمیرات کی باقیات ہیں۔
مہابھارت کال میں پانڈؤں نے اپنی شناخت مخفی رکھ کر راجا بیراٹھ کے دربار میں ملازمت کی تھی۔ راجا بیراٹھ کی راجدھانی موجودہ ٹھاکر گنج کے قریب واقع تھی۔ بھیم تکیہ، بڑی جان، بینو گڑھ، ننھا کنہا گڑھ اور کیچک ودھ وغیرہ یہاں کے تاریخی مقامات ہیں۔
فوج داروں کے عہدِ حکومت میں صولت جنگ اور شوکت جنگ کے دربار میں علما، فضلا، ادبا و شعرا، مصنفین اور مؤلفین کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ صولت جنگ کے دربار سے منسلک رہنے والوں میں مشہور مورخ سید غلام حسین کا نام کافی اہم ہے۔ "سیرالمتاخرین" ان کی اہم تصنیف ہے۔
کھگڑا کے نوابوں کی تاریخ بھی کافی طویل ہے. تفصیل میں نہ جاکر حضرت محمد یوسف رشیدی ہری پوری کی کتاب "احسن التواریخ" مطبوعہ 1936ء سے ایک مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں۔
"کھگڑہ ریاست کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قلعہ (جلال گڑھ) کا بانی راجہ سید محمد جلال الدین ہیں۔ راجہ سید محمد جلال الدین نے جہانگیر بادشاہ کی سلطنت کے زمانہ میں نواب اسفند یار خاں فوج دار پورنیہ کے حکم اور اعانت سے نیپالیوں کے حملے کو روکنے کے لیے بنایا تھا۔ راجہ سید محمد جلال الدین کے مورث اعلى کا نام سید خاں دستور تھا۔ راجگان کھگڑہ کو پرگنہ سُرجا پور ملنے کا یہ سبب ہوا تھا کہ جب شیر شاہ اور ہمایوں بادشاہ سے لکھنوتی کے قلعہ کے آس پاس میں جنگ ہوئی تھی تو اس موقع پر سید خاں دستور شہنشاہ ہمایوں کی اعانت کےلیے پورنیہ سے بہت بڑی فوج لےکر گیا تھا۔ اس جنگی خدمت کے صلہ میں ہمایوں بادشاہ نے 962 ھ میں پرگنہ سرجا پور کی زمینداری اور قانون گوئی کا عہدہ اس کو عطا کیا تھا۔ اس زمانہ میں پرگنہ سرجا پور سرکار تاج پور کے متعلقات میں سے تھا۔"
مزید ایک اقتباس:
"سید عنایت حسین کے بعد اس کا لڑکا سید عطا حسین ریاست کا مالک ہوا اور 1887ء میں نواب مرشد آباد کی لڑکی سے شادی کی اور سید عطا حسین کو گورنمنٹ عالیہ کی جانب سے نواب کا خطاب مرحمت ہوا۔ 1896ء میں نواب سید عطا حسین کے انتقال کرنے پر ان کے دونوں لڑکے سید مرزا محی الدین حسین اور سید مرزا معین الدین حسین اس وقت نابالغ تھے، اس لیے نواب مرحوم کی بیگم شہر بانو عرف سفری بیگم ریاست کا مالک ہوئی۔ جب یہ دونوں بھائی بالغ ہوئے تو یکے بعد دیگرے کھگڑہ ریاست کے مالک ہوتے رہے اور آج کل 1935ء کا زمانہ ہے، نواب سید مرزا معین الدین حسین مرحوم کے بڑے صاحبزادے نواب سید مرزا زین الدین حسین ریاست کے مالک ہیں۔"
کھگڑہ میلہ کی شروعات نواب عطا حسین نے ہی 1883ء میں حضرت کملی شاہ کی ایما پر رفاہِ عام کی خاطر کی تھی۔
درج بالا اقتباسات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین اس بات سے واقف ہو جائیں کہ کشن گنج (قدیم پورنیہ) میں تصنیف و تالیف کا کام فوج داروں اور کھگڑہ اسٹیٹ کے نوابوں کے زمانے میں احسن طریقے سے انجام پا رہا تھا۔ چونکہ سرکاری زبان فارسی تھی لہذا اس دور میں تصنیف و تالیف کا کام بھی بیش تر فارسی زبان میں ہی منظرِ عام پر آیا۔ بعد کے دور میں رفتہ رفتہ اردو زبان و ادب کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔
میلہ مشاعرہ کی روایت:
راجگان کھگڑہ کے ذریعہ ہر سال منعقد کیا جانے والا کھگڑہ میلہ ہری ہر کشیتر سون پور میلہ کے بعد شمالی بہار کا سب سے بڑا میلہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں عام ضروریات کی اشیا کے علاوہ گھوڑے، ہاتھی، اونٹ وغیرہ جانوروں کی بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کا سلسلہ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک چلتا رہتا تھا۔ نواب صاحبان کی دیکھ ریکھ میں میلے میں "میلہ مشاعرہ" کی روایت قائم کی گئی تھی۔ میلہ مشاعرہ کے انعقاد میں مولانا حکیم رکن الدین دانا ندوی سہسرامی اور جناب میاں محمد احسان صاحب علیگ رئیس پدم پور ( تھانہ: دیگھل بینک، کشن گنج) کی محنت کا بڑا ہاتھ تھا۔ انجمن ترقی اردو کشن گنج شاخ جس کا قیام 1927ء میں عمل میں آ چکا تھا، کی جانب سے 1940ء میں ایک مجلہ "تحفۂ احسان" یعنی شعرائے کشن گنج کی مختصر تاریخ اور کھگڑہ اسٹیٹ کے اس میلہ مشاعرہ کی تمام غزلوں کا مجموعہ جو بابت 1940ء اسٹیٹ کے تھیئٹر ہال میں نہایت شان و شوکت سے منعقد ہوا، مع تذکرۂ شعرائے مشاعرہ جو اس زمانہ میں دادِ سخن لے رہے تھے چوراسی صفحات پر مشتمل مولانا حکیم رکن الدین دانا ندوی سہسرامی کی ادارت میں شائع ہوا تھا۔
اس مجلہ میں کشن گنج سے تعلق رکھنے والے بارہ شعراے کرام کا مختصر تعارفی خاکہ اور طرحی / غیر طرحی کلام شامل ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔
۱ ۔ مولانا حکیم رکن الدین دانا ندوی سہسرامی: کشن گنج
۲ ۔ مولوی محمد سلیمان سلیماں: پلاسمنی، تھانہ: بہادر گنج
۳ ۔ مولوی عبدالواجد بسمل بی اے، بی ایل: پلاسمنی، بہادر گنج
۴ ۔ مولانا محمد اسمعیل ناصح: ایڈیٹر "آئینہ" کشن گنج
۵ ۔ ڈاکٹر سید عبدالرشید اختر منعمی ابوالعلائی گیاوی، ویٹنری ڈاکٹر کشن گنج
۶ ۔ مولوی محمد رفیق زاہدی عابد بلیاوی
۷ ۔ حکیم سید مظہر علی مظہر بلگرامی: کشن گنج
۸ ۔ مولانا سید شاہ محبوب احمد احمد
۹ ۔ منشی عبدالحق
۱۰ ۔ مولوی محمد بہاءالدین اثر : ہیڈ مولوی، ہائی انگلش اسکول، کشن گنج
۱۱ ۔ مولوی جنت حسین قمر مظفرپوری: سیکنڈ مولوی، ہائی انگلش اسکول، کشن گنج
۱۲ ۔ منشی محمد ابراہیم وفا: التاباڑی، تھانہ- بہادر گنج
مجلہ کا دوسرا باب جو "تاریخ شعرائے پورنیہ" پر مشتمل ہے، اس میں بھی کشن گنج سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مندرجہ ذیل شعراے کرام کی تفصیل درج ہے۔
۱ ۔ مولوی نورالحسین خاک مرحوم: ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ سب رجسٹرار، ہلدی کھورا
۲ ۔ مولوی عبدالعزیز عزیز مرحوم: پلاسمنی
۳ ۔ منشی مہتر علی صبا مرحوم: پلاسمنی
۴ ۔ حاجی شمس الدین مرحوم: پلاسمنی
۵ ۔ مولوی سید ابوالقاسم اختر بلگرامی: کشن گنج
۶ ۔ حکیم سید آغا علی احقر بلگرامی: کشن گنج
۷ ۔ احمد حسین شمس بمن گرامی: کشن گنج
۸ ۔ محبوب الرحمن کامل پناسی: پُناس
۹ ۔ محمد حسین باصر ( ان کے والد دربھنگہ سے آکر کشن گنج میں بس گئے تھے۔ کشن گنج کچہری میں باصر صاحب کی ملازمت تھی)
۱۰ ۔ مولوی محبوب الرحمن محبوب: مالک جہانگیر پریس / محبوب پریس۔ ( مجگواں، تھانہ قصبہ، پورنیہ آبائی وطن تھا لیکن کشن گنج میں مستقل طور پر بس گئے تھے)
۱۱ ۔ سید انور حسین انور: ٹھاکر گنج
۱۲ ۔ خلیل الرحمان اشک گوپال پوری
۱۳ ۔ منشی محمد ابراہیم وفا: التا باڑی، بہادر گنج
مندرجہ بالا شعراے کرام میں سے بعض کا کلام مکمل اور بعض کا کچھ حصہ دستیاب ہے۔

تحفۂ احسان مطبوعہ 1940ء اور اخبار "انسان" کا پورنیہ نمبر مطبوعہ 1955ء سیمانچل کے ادب، ثقافت اور صحافت کے تعلق سے دو اہم تاریخی دستاویزات ہیں۔ لیکن اس سے قبل 1934ء میں بھی مولوی نظیر الاسلام وکیل اور سکریٹری” بزمِ احباب" کشن گنج نے ایک گلدستۂ مشاعرہ کشن گنج "ارمغان اتفاق" کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا تھا۔
پلاس منی گاؤں کی ادبی خدمات:
کشن گنج ضلع کے مشہور قصبہ و تھانہ بہادر گنج میں واقع پلاسمنی گاؤں نے فارسی و اردو کے کئی شعرا و ادبا کو پروان چڑھایا ہے۔ اس مشہور زمانہ گاؤں کا ایک پرانا اور ذی وقار خاندان شہاب الدین مرحوم کا تھا۔ ان کے تین بیٹے باب الدین، عین الدین اور خیرالدین تھے۔ باب الدین کی اولادِ نرینہ میں فرید بخش، گل محمد اور عمر علی تھے۔
فرید بخش 1856ء میں منصف بحال ہوئے اور انھوں نے صوبہ بہار کے مختلف شہروں میں فرائض منصبی انجام دیا۔ فرید بخش مرحوم کی نو اولاد میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں عبدالحلیم، عبدالرحیم، عبدالحکیم، عبدالرشید، عبدالعزیز اور عبدالحمید تھے۔ ان میں سے منشی عبدالرحیم اور منشی عبدالعزیز شاعر تھے. بڑے بیٹے عبدالحلیم کے صاحب زادے مولوی محمد سلیمان سلیماں بھی اچھے شاعر اور ادیب تھے۔ سلیمان صاحب کے صاحب زادے حازم حسان زمانۂ حال میں اچھے شاعر ہیں اور "دہقان شاعر" کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے دوسرے صاحب زادے محمد رضوان آزاد بھی شاعری کا شوق رکھتے ہیں اور اچھے مصور بھی ہیں۔
3 – مولوی عبدالعزیز عزیز: آپ منصف فرید بخش مرحوم کے صاحب زادے تھے۔ آپ کی سنہ پیدائش کہیں درج نہیں ہے لیکن بہ قول اکمل یزدانی 1888ء میں پورنیہ ضلع اسکول سے انٹرنس پاس کیا۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ سولہ سال کی عمر میں انٹرنس پاس کیا تو سال پیدائش 1872ء آتا ہے۔ محقق شاداں فاروقی نے لکھا ہے کہ تیس سال کی عمر میں 1902ء میں انتقال ہوا۔ اس حساب سے بھی سال پیدائش 1872ء ہی صحیح جان پڑتا ہے۔
آپ کی کتاب "کلیاتِ عزیزی" 1896ء میں بنارس سے چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق سیمانچل میں یہ اردو کی پہلی مطبوعہ تصنیف ہے۔ اس میں دو سو سے زائد صفحات ہیں۔ بیش تر کلام فارسی زبان میں ہے لیکن آخر میں چند اردو غزلیات بھی شامل ہیں۔
4 – منشی عبدالرحیم: منصف فرید بخش مرحوم کے صاحب زادے اور مولوی عبدالعزیز مرحوم کے حقیقی برادر تھے۔ ان کے بھتیجے مولوی محمد سلیمان سلیماں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں "گلبنِ فصاحت" کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی جس میں منشی عبدالرحیم کی بھی کئی غزلیں شامل ہیں۔ یہ کتاب بنارس سے 1915ء میں چھپوا کر شائع کی گئی تھی۔
5 – محمد سلیمان سلیماں: آپ منصف فرید بخش مرحوم کے بڑے بیٹے عبدالحلیم مرحوم کے صاحب زادے تھے ۔ تاریخ پیدائش 1901 عیسوی اور تاریخ وفات 18 ستمبر 1975ء ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی۔ کشن گنج ہائی اسکول سے 1917ء میں میٹرک کیا۔ انٹر اور بی اے کی ڈگری بھاگل پور سے 1923ء میں حاصل کی۔ بی ایل کی سند پٹنہ یونی ورسٹی سے حاصل کر 1926ء سے کشن گنج کورٹ میں وکالت کرنے لگے۔
سلیمان صاحب نے شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے کافی شہرت حاصل کی۔ تصانیف:
گلبنِ فصاحت
سترہ صفحات پر مشتمل ایک مختصر رسالہ جس میں محمد سلیمان صاحب کے گاؤں پلاسمنی کے چند شعرا کے فارسی کلام کا انتخاب ہے۔ اس میں سلیمان صاحب کا فارسی کلام بھی شامل ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس وقت سلیمان صاحب محض درجۂ چہارم کے طالب علم تھے۔ اس کم سنی میں انتخابِ کلام کا شعور اور خود فارسی زبان میں شعر گوئی کی صلاحیت اور انھیں رسالے کی صورت میں شائع کروانے کا ذوق اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ انھیں شعر و شاعری کا ذوق قدرت کی جانب سے ودیعت ہوا تھا.
اس رسالے میں جن شعراے کرام کا کلام شامل کیا گیا تھا ان کے اسماے گرامی درج ذیل ہیں.
منشی عبدالمجیب مجیب، منشی عبدالطیف لطیف، منشی عبد الرحیم، منشی عزیز احمد اور مولوی محمد سلیمان سلیماں۔
یہ رسالہ سلیمانی پریس، گائے گھاٹ، بنارس سے 1915ء میں شائع ہوا۔
مثنوی حسنیٰ سیاہ فام
یہ مثنوی دسمبر 1921ء میں حکیم رام کشن جنرل بک مرچنٹ کٹرہ بازار کشاں، لوہاری گیٹ، لاہور نے جارج اسٹیم پریس، لاہور سے بہ اہتمام لالہ ایشر داس پرنٹر چھپوائی۔ اس میں کل 16 صفحات اور 208 اشعار ہیں۔
عام طور پر مثنویاں تفنن طبع کی خاطر لکھی جاتی ہیں، جن میں مافوق الفطرت ہستیوں مثلاً جن، پری، بھوت وغیرہ کا ذکر ہوا کرتا ہے۔ مگر اس مثنوی کا مقصد اصلاحِ معاشرہ ہے۔ اس میں ایک ایسی بے جوڑ شادی کی حقیقی کہانی بیان کی گئی ہے جس کی وجہ سے مثنوی کی مرکزی نسائی کردار خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہے۔
مثنوی اس بات کا صاف اشاریہ ہے کہ مولوی محمد سلیمان شاعری کو صرف وقت گذاری کا وسیلہ نہیں تصور کرتے تھے بلکہ اس کے تعمیری پہلوؤں پر ان کی نظر رہتی تھی۔
نوائے نے
‘ نوائے نے" مولوی محمد سلیمان سلیماں کا تیسرا شعری کارنامہ ہے جسے ان کے شاگرد عزیز اکمل یزدانی جامعی نے ترتیب دے کر 1952ء میں جہانگیر پریس، کشن گنج سے چھپوا کر شائع کیا۔ اس میں سلیمان صاحب کی 53 غزلوں اور 24 نظموں کا انتخاب ہے۔ ان میں سے چار نظمیں انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ تفصیلی پیشِ لفظ اکمل یزدانی جامعی نے لکھا ہے جو نہایت فاضلانہ ہے۔ مجموعہ کتابی سائز میں 86 صفحات پر مشتمل ہے۔
نوائے نے کی غزلیں روایتی اور قدیم طرز کی ہیں۔ انھوں نے نظم کی طرح غزل میں بھی روایت کا احترام کیا ہے۔ نظموں کی طرح غزلوں میں بھی سلاست اور سادگی کو روا رکھا ہے۔ ان کی غزلوں میں رومانیت کا فقدان ہے۔ چونکہ ان کی زندگی بڑی سادہ اور تکلف سے پاک تھی، اس لیے ان کا رومان بھی سادہ اور بے تکلف ہے۔ تاہم ان کی شاعری میں جہاں تہاں رومانی فضا ملتی ہے اور دشتِ سادہ میں تغزل کی دھوپ چھاؤں بھی نظر آجاتی ہے۔
نوائے نے کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلیمان صاحب دراصل نظم گو شاعر تھے۔ لہٰذا غزلوں سے زیادہ وہ اپنی نظموں میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی مشہور اور قابلِ ذکر نظموں میں ڈوبتا ہوا سورج، پی کہاں، دردِ فراق، مرزا غالب، زندگی، قطرۂ اشک وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند سیاسی نظموں میں ہٹلر اور مسولینی کی ہلاکت، جاپان کی شکست، فتح ٹیونیشیا، اٹلی کی شکست وغیرہ قابلِ ذکر ہیں.
حیاتِ فرید
” حیاتِ فرید" محمد سلیمان کی پہلی باضابطہ نثری تصنیف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے دادا فرید بخش کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب 1933ء میں عصرِ جدید پریس، کلکتہ سے چھپی ہے اور کتابی سائز کے سولہ صفحات پر مشتمل ہے.
اقبال اور وطن کی محبت
دوسری نثری تصنیف جو 32 صفحات پر مشتمل ہے 1938ء میں محبوب عالم پریس، کشن گنج میں چھپی۔ تمہید میں سلیمان صاحب کتاب کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں "بزمِ ادب" کشن گنج میں اقبال مرحوم کی وفات پر 5 مئی 1938ء کو تعزیتی جلسہ تھا. مجھے خیال ہوا کہ اقبال پر ایک مضمون پڑھوں۔ وطن کی محبت کا موضوع مجھے مناسب معلوم ہوا۔"
یہ مضمون مقامی اخبار "آئینہ" میں قسط وار شائع بھی ہوا تھا۔
مقالاتِ نیومین
انگریزی کے نامور مقالہ نگار کارڈینل نیومین کے پانچ مقالات کا اردو ترجمہ جولائی 1941ء میں جہانگیر پریس، کشن گنج سے چھپوا کر شائع کیا۔ سرِ ورق پر نیومین کا ایک مقولہ” ادبیات سے تغافل برتنا زیبا نہیں دیتا" درج ہے۔
اس کے مشمولات حسب ذیل ہیں:
دیباچہ، علم اپنی غایت آپ، یونیورسٹی، شریف النفس، یونیورسٹی کے فیضانات، لٹریچر.
یہ مقالے پہلے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوئے مثلاً زمانہ کانپور، ندیم گیا، خیام لاہور اور آئینہ کشن گنج، پھر انھیں کتابی شکل دی گئی.
ان کتابوں کے علاوہ مختلف رسائل و جرائد میں مقالے، مقدمے اور دیباچے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ چند رسائل کے اداریے بھی ان کی یادگار میں شامل ہیں۔ زیادہ تر مضامین تنقیدی و تحقیقی ہیں۔ انسان کے پورنیہ نمبر میں بھی ان کے کئی مضامین شامل ہیں. مثلاََ بدیادھر: پورنیہ کی قدیم تصنیف، پورنیہ کے فوجدار، جنت آباد گور، پورنیہ میں علم و ادب کا چرچا، سری پوریا یا کشنگنجیا زبان وغیرہ ۔
انجمن ترقی اردو کشن گنج پر ایک اجمالی نظر. ارمغان اتفاق ۔ انگریزی افسانے کا ترجمہ بعنوان "جانباز انگریز" مطبوعہ طلبا پورنیہ 1934ء، بد صورت دولہن (بنگلہ کہانی کا ترجمہ) مطبوعہ طلبا، پھولکا پور مطبوعہ آئینہ کشن گنج، ٹیلس آف بنگال کا ترجمہ، وفاداری کا ترجمہ، لباسِ عروسی، آفت ایام کہانی 1923ء۔
ابھی بھی بہت سارا مواد غیر اشاعت شدہ ان کی ڈائری وغیرہ میں محفوظ ہے جن کی اشاعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حازم حسان (پیدائش: 28 اگست 1957ء)
محمد سلیمان سلیماں مرحوم کے صاحب زادے ہیں۔ پروفیسر عنوان چشتی اور پروفیسر اویس احمد دوراں سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ "دہقان شاعر" کے لقب سے موسوم ہیں۔ درس و تدریس مشغلہ ہے۔ شاعری کی تین کتابیں اب تک منظرعام پر آ چکی ہیں۔
الف – نغمۂ سروش (نظموں کا مجموعہ) مطبوعہ 2014ء
ب – سبز پیڑوں کے سائے (غزلوں کا مجموعہ) مطبوعہ 2014 ء
ت – شعاعِ آیاتِ کریمہ۔ مطبوعہ 2020 ء
7 – رضوان آزاد ۔ ( پیدائش : 15 اگست 1962ء ) آپ بھی محمد سلیمان سلیماں مرحوم کے صاحب زادے ہیں. پٹنہ یونی ورسٹی سے ایم اے ( اردو ) اور بی ایڈ کی سند حاصل کی ہے۔ پلاس منی گاؤں کے سرکاری مڈل اسکول میں معلم ہیں۔ شاعری اور مصوری کا شوق رکھتے ہیں۔ ابتدائی دور میں چند افسانے بھی لکھے۔ مجموعہ کلام زیر ترتیب ہے۔
شاہنواز بابل صاحب کی مرتب کردہ کتاب "تذکرۂ شعرائے کشن گنج" میں آپ کا تعارفی خاکہ مع تخلیقات شامل ہے۔
8 – عبدالواجد بسمل – منصف فرید بخش مرحوم کے پوتے اور محمد سلیمان سلیماں مرحوم کے چچا زاد بھائی ایک شہرت یافتہ وکیل تھے۔”تحفۂ احسان"، "بزمِ شمال" اور”انسان پورنیہ نمبر" تینوں کتابوں میں عبد الواجد بسمل کا تذکرہ موجود ہے۔ آپ سید محی الدین تمنا پھلواری سے اصلاح لیتے تھے۔ "ساحل" کشن گنج ، شبابِ اردو لاہور اور ندیم گیا میں آپ کی نظمیں شائع ہوتی تھیں. انگریزی نظموں کے ترجمے کا کام بھی ان کے ذریعہ انجام دیا گیا۔ تحفۂ احسان مطبوعہ 1940ء میں ان کی عمر اس وقت 32 سال درج ہے۔
9 – مہتر علی صبا – پلاس منی گاؤں کے باشندہ اور پیشے سے کاشت کار تھے۔ بہ قول صاحب "تحفۂ احسان" علم کا کافی ذوق تھا۔ جیٹھ بیساکھ کی دھوپ میں کھیت پر جاکر رکھوالی کرتے اور وہیں بیٹھے ہوئے لکھتے پڑھتے بھی رہتے۔ راتوں کو اگر چراغ میں تیل نہیں رہتا تو چاند کی روشنی میں مطالعہ کرتے۔ فارسی زبان میں”بوئے صبا" کے نام سے مجموعۂ کلام تھا جو آتش زدگی کی نذر ہو گیا۔ اردو میں بھی شاعری کیا کرتے تھے۔ ایک طویل مسدس 126 بند پر مشتمل ہے۔ 1925ء میں انتقال ہوا۔
10 – عبدالمجید شیدا – ان کا ایک شعری مجموعہ "کلیاتِ شیدا" کے نام سے یادگار ہے۔ اس میں چار فارسی غزلیں اور اکیانوے اردو غزلیں شامل ہیں۔
( بہ حوالہ”سیمانچل میں اردو شاعری"۔ ڈاکٹر احمد حسن دانش)
11 – شمس الدین شمس ۔ آپ منشی مہتر علی صبا مرحوم کے ہم مکتب پلاسمنی گاؤں کے ہی باشندہ تھے۔ 1930ء میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد مکہ مکرمہ میں ہی انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے ۔ انھوں نے بڑی محنت و مشقت سے فارسی تعلیم کی تکمیل کی اور معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ آپ ایک صوفی بزرگ اور باعمل عالم تھے۔ نوافل نماز تک قضا نہ ہوتے تھے۔ بہ قول اکمل یزدانی "آپ ایک فطری شاعر تھے۔ مرحوم کی نیچرل شاعری اردو شاعری کی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے یقیناً لائقِ توجہ ہے"۔
تذکرہ بزمِ شمال میں بھی تذکرہ نگار شاداں فاروقی نے ان کا مختصر احوال لکھا ہے۔
درج بالا امثال سے ظاہر ہے کہ پلاسمنی گاؤں کی علمی و ادبی خدمات کو کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
محمد رضوان آزاد صاحب کا یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے جس کی پذیرائی کی جانی چاہئے ۔
(مورخہ – 15 جولائی 2022ء)

احسان قاسمی کی گذشتہ نگارش: حسن راہی : شعر و سخن کی راہوں کا نیا مسافر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے