ایک غیر مشہور بحر میں غزل اور عروضی بحث

ایک غیر مشہور بحر میں غزل اور عروضی بحث

اشہر اشرف

میرے نزدیک شاعری میں عروض کی وہی اہمیت ہے جو جسم میں روح کی ہے۔ جس طرح بنا روح کے جسم محض ایک ڈھانچہ کہلاتا ہے اسی طرح بنا عروض کی شاعری مردہ اور بے جان خیال رہ جاتا یے جو کسی طرح سے بھی موزون نہیں ہوسکتی ہے۔ وہ شاعری کی کسی ہیئتی ساخت پر دال ہوسکتی ہے لیکن شاعری کی اصطلاح پر نہیں اتر سکتی۔ یعنی عروض اور شاعری جز و لاینفک ہے۔ تو بات واضح ہوئی ہے کہ عروض سے مراد افاعیل کی ایک مخصوص تکرار لی جاتی ہے جو ایک ہی آہنگ اور وزن پر قائم ہوتے ہیں، جس سے شاعری مترنم ہوتی ہے اور انسانی روح پر اپنا ایک خاص اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوتی یے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم افاعیل یا اوزان کی کوئی بھی تکرار پیدا کر کے کلام لکھیں تو شاعری کہلائے گی، بلکہ اوازن کی تکرار کے لیے ضروری ہے کہ یہ تکرار اس انداز و صورت میں ہو کہ آسانی سے گنگنائی جائے اور موسیقت سے مزین ہو۔ کسی بھی غیر مانوس الفاظ یا تفاعیل کی تکرار سے انسانی قلب و ذہن پر وہ اثر کبھی نہ پڑے گا جو شاعرانہ کلام سن کر پڑتا ہے۔ جیسا کہ لفظ شاعری سنتے ہی ہمارے ذہن میں گانا اور گنگنانا جیسی اصطلاحات گردش کرنے لگتی ہیں، کیونکہ شاعری سے مراد کلامِ موزوں یا مترنم کلام ہی لیا جاتا ہے۔ تو معاملہ صاف ہوا ہے کہ عروض سے مراد شاعری میں وزن کا التزام کرنا تاکہ اس میں آہنگ اور ترنم پیدا ہو جائے۔ مختصر یہ کہ علم عروض شاعری کا ایسا سائنسی علم ہے جس میں بحر کے ذریعے کسی شعر کا وزن مانپا جاتا یے. اسی وزن کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے اردو شعرا بھی اہلِ عرب سے مستعار لی گئی ایرانیوں کے ذریعے اردو شاعری میں بحور کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ان بحور میں جو جوں کی توں اردو شاعری میں رائج ہوئیں انھیں سالم بحور کہتے ہیں اور جو اردو شاعری کو سالم حالت میں راس نہیں آئیں انھیں ان کے ارکان میں کمی پیشی کر کے محذوف حالت میں اردو شعرا نے اپنایا۔ کسی غیر مانوس بحر یا اوزان میں شاعری تو کی جاسکتی ہے اور موزوں بھی کہلائے گی لیکن ترنم مجروح ہوجائے گا. اس لیے شعرا نے ابتدا سے ہی وہی تجربے اوزان کے حوالے سے کیے جو ایک مخصوص اور مترنم آہنگ پر پورے اترے۔ یہاں میں اردو شاعری میں ان بحور کی فہرست بھی درج کرتا ہوں جن کو کلاسکی شعرا سے لے کر آج تک کم و بیش تمام استاد شعرا نے سالم حالت میں اپنایا ہے۔
بحر رمل مثمن سالم: اس میں افاعیل کی تعدا دو مصرعوں میں آٹھ ہوجاتی ہے جیسے:
۱۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اردو شعرا نے پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کے آخری رکن میں ایک خفیف حذف کر کے محذوف کردیا ہے اور آج یہ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن رمل مثمن محذوف حالت میں ہی رائج ہے۔
۲۔ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن( ہزج مثمن سالم) یاد رہے اس بحر کو ہزج مسدس سالم باندھنا رائج نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس میں لکھے تو عیب نہیں ہے۔ بلکہ اس کو محذوف کر کے مفاعیلن مفاعیلن فعولن کی ترتیب میں مستعمل کر دیا گیا ہے۔
۳۔ اردو والوں نے اور ایک بحر کو خوب استعمال کیا ہے. وہ ہے بحر متقرب مثمن سالم
۴۔فعولن فعولن فعولن فعولن یہ اکثر سالم حالت میں مستعمل ہے لیکن میر نے تجربہ کر کے آخری رکن میں ایک خفیف کم کر کے محذوف کر دیا ہے، جو فعولن فعولن فعولن فعل کی تکرار اختیار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر استاد و نو مشق شاعر کے کلام میں بحر متدارک مثمن سالم کا وافر استعمال ملتا ہے جس میں چار فاعلن آتے ہیں.
۵۔ فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کی تکرار آتی ہے اس کو کچھ شعرا نے تین فاعلن کے ساتھ مسدس حالت میں بھی استعمال کیا لیکن مقبول نہیں ہوئی اس حالت میں۔ اس کے علاوہ بحرِ ہزج مثمن سالم بھی ایک خوب صورت اور مترنم بحر یے جس میں کلاسیکی و جدید شعرا نے خوب کلام کہے ہیں. اس میں افاعیل کی تکرار اس طرح ہے۔
۶ مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن ۔ یاد رہے! اس میں کلاسیکی شعرا کے یہاں صرف سالم حالت میں کلام ملتے ہیں لیکن جدید غزل کے سرخیل ناصر کاظمی کے یہاں اس بحر کا مسدس حالت میں بھی استعمال ہوا لیکن میرے خیال میں اس کا رواج بہت کم ملتا ہے۔ اسی بحر یعنی ہزج مسدس مقبوض سالم میں راقم نے بھی کئی ایک کلام کہے تاکہ دورِ حاضر میں اسے فروغ دیا جاسکے۔ جن میں ایک اس مضمون کے اخیر میں شامل ہے. اس کے علاوہ بحر ۸۔جمیل مثمن سالم
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
۹۔ بحر وافر مثمن سالم
مفاعِلَتن مفاعِلَتن مفاعِلَتن مفاعِلَتن
۱۰۔بحر کامل مثمن سالم: متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
میرے علم کے مطابق مذکورہ بحور کو کلاسیکی شعرا نے زیادہ تر مثمن سالم حالت میں ہی اپنا یا ہے لیکن جدید شعرا میں چند ایک نے مسدس سالم کر کے بھی ان میں کلام کہے ہیں۔ میں یہاں مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے مذکورہ بحور میں نمونہ کلام پیش کرنے سے معذور ہوں۔ یہاں میں اس امر کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ کسی بحر کو رائج یا مستعمل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کوئی استاد شاعر اس میں کلام کہے بلکہ افاعیل کی تکرار مترنم اور متوازن آہنگ پر پوری اترنی چاہیے تاکہ شعرا کے مزاج کو راس آئے اور مقبول ہو جائے.
غزل :
اشہر اشرف

بہت کٹھن ہے یہ سفر تو کیا ہوا
یہ راستے ہیں پُر خطر تو کیا ہوا

ابھر کے پھر دکھائیں گے زمانے کو
ڈبو گیا ہمیں بھنور تو کیا ہوا

کبھی تو آشنائے موج ہوگے تم
کنارے پر ابھی ہو گر تو کیا ہوا

ابھی ہمارے حوصلے بلند ہیں
کٹے ہیں گر ہمارے پر تو کیا ہوا

ملیں گے پھر نصیب سے یقین رکھ
جدا ہوئے ہیں ہم سفر تو کیا ہوا

امیدِ صبح لے چلو دلوں میں تم
اندھیروں میں ہے رہ گزر تو کیا ہوا

بنائیں گے کہیں اور اشؔہر آشیاں
کہ کاٹ ڈالے ہیں شجر تو کیا ہوا
***
اشؔہر اشرف کی یہ غزل بھی ملاحظہ فرمائیں :کون کہتا ہے کہ بکھرتے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے