کتاب: عکس ثانی

کتاب: عکس ثانی

انظار احمد صادقؔ
الحرا پبلک اسکول، شریف کالونی، پٹنہ
رابطہ:7091816277

7 رمضان المبارک 1443ھ مطابق 9 اپریل 2022 ء بروز سنیچر بذریعہ ڈاک ایک کتاب موصول ہوئی جو غازی آباد یوپی سے ارسال کی گئی ہے۔ کتاب بڑے سلیقے سے پیک کی گئی تھی، اسی سلیقے سے میں نے اس کا لفافہ بھی چاک کیا۔ کتاب پر نظر پڑی تو نگاہوں میں اس کا عکس نقش ہوا اور تیزی سے آنکھوں کے رستے سیدھے دل میں اتر گیا، یہ تھا اس کے سرورق کا کمال۔ کتاب کھولنے کی بجائے پس ورق کی طرف بڑھا تو اس کے کونے میں ایک تصویر پر نظر پڑی۔ سانولا رنگ، کتری ہوئی مونچھیں، گھنے ابرو، چمکتی پیشانی، کشادہ آنکھیں، گھنیری داڑھی اور سر پر ٹوپی کسی متشرع آدمی کی شہادت پیش کررہی تھی۔ اس تصویر سے متصل چند سطور بھی لکھے ہوئے تھے۔ یہ یقین ہو چلا تھا کہ ضرور اسی صاحب کے متعلق کچھ لکھا ہوا ہے۔ لکھنے والے ڈاکٹر انور ایرج (صدر شعبہ اردو ڈی، ایس کالج، کٹیہار) ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ”نورالدین ثانیؔ ایک ایسا شاعر ہے جو پیٹ کی بھوک اور ضروریات زندگی کے لیے دن میں مزدوری کرتا ہے اور تھکے ماندے جسم و جاں کے ساتھ، قلب و ذہن کی آسودگی اور روح کی تسکین کے لیے رات کا ایک بڑا حصہ’عکس ثانی‘ کی تلاش و جستجو میں گزار دیتا ہے۔ روح و تن کے اس مزدور کش شاعر کے لیے میں سفارش کرتا ہوں کہ احوال و کوائف کے حوالے سے مجموعہ میں شامل ان کی تحریر ’کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل‘ ضرور پڑھیں تاکہ آپ بھی اس احساس سے دوچار ہوسکیں کہ کس خونِ جگر سے ’عکسِ ثانی‘ کی کشید ہوئی ہے اور تخلیق کی رگوں میں کس درجہ حرارت باقی ہے۔“
موصوف کا دعویٰ دل چسپی کی حدوں کو عبور کررہا تھا، اقتباس مذکور کو پڑھنے کے بعد سیدھے وہیں پہنچا جہاں ڈاکٹر انور ایرج نے بتایا ہے۔جس انداز میں انھوں نے صاحبِ کتاب کے حوالے سے رقم کیا ہے، پڑھنے سے قبل خود کو مکمل ادب کے دائرے میں لیا اور پڑھنا شروع کیا۔ چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ رقت سی طاری ہونے لگی، ذرا ٹھہرا۔روزے سے ہوں اس لیے پانی لینے سے رہا۔ البتہ سرد آہیں لیتا رہا کہ اس عمل سے روزہ متاثر نہیں ہوتا۔قدرے وقفے کے بعد پھر قرأت شروع کی، دل کی کیفیت پھر بدلی، پھر ذرا ٹھہرا۔ اسی طرح سات صفحات پر مشتمل نورالدین ثانی کے احوال و کوائف پڑھ ڈالے اور اخیر میں آنسوؤں نے خراج تحسین پیش کیا۔ تب کہیں جاکر یہ سمجھ میں آیا کہ مڈل اسکول سے محض پانچویں کلاس تک پڑھا لکھا نورالدین ثانیؔ ایک شاعر کیسے بنا اور ان کا شعری مجموعہ ”عکسِ ثانی“ وجود میں کیسے آیا۔ بقول نورالدین ثانی خلاصہ یہ کہ:
خوش رہ کے اپنی زندگی غربت میں کاٹ لی
تابع کسی کے میری ضرورت نہیں ہوئی
اس کے بعد تنویر پھول (نیویارک، امریکہ) کے تاثرات کو پڑھا۔ اندازہ ہوا کہ انھوں نے نورالدین ثانی کے شعری مجموعہ کا بالترتیب مطالعہ کیا ہے، پھر اپنے تاثرات و تبصرے ثبت کیے ہیں، وہ رقم طراز ہیں کہ”نورالدین ثانیؔ زاہدِ خشک نہیں، وہ اخلاقی اور روحانی قدروں کے ساتھ ساتھ حسن و عشق کے تعلق کو بھی انسانیت کے وقار اور احترام کے تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں کہیں بھی تہذیب و ثقافت کی سنجیدہ قدروں سے انحراف نہیں ملتا۔“
ان کے بعد ڈاکٹر مسعود جعفری (نیویارک) کا بھی تبصرہ پڑھا، ان کا ایک جملہ پوری کتاب پڑھنے پر ابھار دیتا ہے: ”میری نظر میں نورالدین ثانیؔ آج کے عہد کے ’شاعرِ مزدورِ ثانی‘ ہیں۔“ اسی طرح احسان قاسمی (نوری نگر، پورنیہ) کی اس گفتگو نے نورالدین ثانی کے احوال و کوائف کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ طبیعت بھر آتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ”وہ بھینس کی پیٹھ پر سوار ایک خستہ حال چرواہا ہے جو قدرت کے ساتھ اور قدرت میں جیتا ہے اور جب ذرا ترنگ میں آجائے تو گدڑی سے بانسری نکال کر طرح طرح کے سر چھیڑنے لگتا ہے۔ ثانیؔ کی بانسری سے بھی مختلف لَے اور راگ برآمد ہوتے ہیں۔“
اسی طرح نورالدین ثانیؔ کے ایک خیر اندیش جمیل مظہری سیانوی بھی ہیں جنھوں نے ان کو ”اپنی لگن کا سچا شاعر“ کہا ہے۔ ان صاحبان علم و فضل کے تاثرات و تبصرے پڑھنے کے بعد ”عکسِ ثانی“ کا مطالعہ شروع کیا تو ان میں سے کسی کی بھی گفتگو مبالغہ سی آلودہ نظر نہیں آئی۔ پھر یہ بھی بخوبی سمجھ میں آیا کہ غزل کب ہوتی ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ کس طرح ہوتی ہے اور کیوں کر ہوتی ہے؟
جی ہاں! جب سورج ڈھلتا ہے، جب خون جلتا ہے، جب آنکھیں نم ہوتی ہیں، جب دل میں صحرا کی پیاس اُترتی ہے، جب مسلسل شامِ غربت، شامِ فرقت اورشامِ تنہائی سے دل کانپ اٹھتا ہے، جب رات خوف کے ماحول میں صبح کا سفر کرتی ہے، جب کوئی نازک لمحہ دل کے تار کو چھیڑتا ہے، جب درد و کسک کی لہریں لپٹیں کھاتیں ہیں، جب صبا سے ہر سحر لہو کی باس آنے لگتی ہے، جب چودھویں کے چاند سے خوب صورت روشنی کی بجائے درد کی لہریں تیرتی دکھائی دینے لگتی ہیں، جب بیساکھیاں طعنے دینے لگتی ہیں اور جب درد کی ساری جڑی بوٹیاں بے اثر ہوکر تکلیف خود ہی شفا بن جاتی ہے، تب غزل ہوتی ہے اور ” عکسِ ثانی" جیسا شعری مجموعہ مرتب ہوکر منصہ شہود پر وجود میں آتا ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
درندوں کی حمایت ہورہی ہے
یہ کیسی اب سیاست ہورہی ہے
بھلا انصاف اب کیسے ملے گا
بکاؤ جب عدالت ہورہی ہے
٭٭٭
وہی حق ہے، جو حق پر بولتا ہے
مجاہد کا کٹا سر بولتا ہے
وہ جب اللہ اکبر بولتا ہے
عدو کے چہرے پر ڈر بولتا ہے
٭٭٭
صلہ تجھ کو ملا ہے پرورش کا
یہ بیٹا جو پلٹ کر بولتا ہے
٭٭٭
میں کہتا تھا، کبوتر مت اڑانا
بچارا زخم کھاکر آگیا نا!
ہمارے قتل پر کل تم ہی چپ تھے
تمھارا بھی تو نمبر آگیا نا!
٭٭٭
امیر شہر سے تیرا ہے خون کا رشتہ
غریب خانے میں میرے ٹھہر سکوگے کیا
ہمیں ستاؤگے تڑپاؤگے رلاؤگے
امیر شہر ہو تم اور کرسکوگے کیا
٭٭٭
ہم کریں فریاد کیوں؟ جب ہونے والا کچھ نہیں
جو ہمارا حکمراں ہے، گونگا ہے، بہرا بھی ہے
٭٭
میرے آگے ہی وہ گلشن کو جلائے میرے
اور مجبور کرے ہے کہ دھواں تک دیکھوں
مجھ کو بخشی ہے محبت نے کرامت ایسی
کوئی دیکھے نہ جہاں تک میں وہاں تک دیکھوں
اس طرح کے سینکڑوں خوب صورت اشعار ہیں جن سے مشاہدے کی ترجمانی اور حق گوئی کے پختہ شعور کا پتا چلتا ہے۔
”عکس ثانی“ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، اردو ڈائریکٹوریٹ، پٹنہ بہار کے مالی تعاون سے خوب صورت گٹ اپ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ حمد، نعت، مناجات اور نظم کے علاوہ 134 غزلیں اور دو قطعات ہیں۔ یہ مجموعہ 192 صفحات پر مشتمل ہے۔ عاشقانِ اردو ادب کے لیے دو سو روپے قیمت بہت زیادہ نہیں۔ صالح پور، پھلکا، کٹیہار، بہار اور E44/A103، نیر جامع نئی سلیما پوری، دہلی110095 سے حاصل کرسکتے ہیں۔ اس تعلق سے مزید معلومات کے لیے عکسِ ثانی کے مصنف نورالدین ثانی ؔکے موبائل نمبر9717311363 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
نورالدین ثانی یہ تخلیق بھی پڑھیں: ماہِ رمضان

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب: عکس ثانی

  1. جناب نورالدین ثانی ایک کامیاب شاعر ہیں ۔۔۔ ان کے شعری مجموعے ” عکس ثانی ” کے لئے انہیں دلی مبارکباد ۔
    جناب انظار احمد صادق کا خوبصورت، عمدہ اور جامع تبصرہ نظر نواز ہوا۔ کتاب کی اشاعت کے بعد ایسے تبصروں کی بہت اہمیت ہے جس سے نہ صرف اوصاف سخن کی تشہیر ہوتی ہے بلکہ صاحب فن کے جذبے کی قدر افزائی بھی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ فنکار کی حوصلہ افزائی میں ہی فن کی نشو نما مضمر ہے ۔ صادق صاحب کو ان کی اس کاوش کے لئے داد و مبارکباد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے