کون کہتا ہے کہ بکھرتے ہیں

کون کہتا ہے کہ بکھرتے ہیں

اشہر اشرف

کون کہتا ہے کہ بکھرتے ہیں
باخدا عشق میں سنورتے ہیں

وقت کے ساتھ ہم نکھرتے ہیں
ڈوبتے ہیں مگر ابھرتے ہیں

روز وعدے سے یہ مُکرتے ہیں
حسن والے کہاں سدھرتے ہیں

لاشوں کا کب حساب کرتے ہیں
لوگ اب بے حساب مرتے ہیں

پہلے ڈر ڈر کے جیتے تھے لیکن
اب نہیں ہم جناب ڈرتے ہیں

سن کے غیروں سے نام تیرا ہم
جانے کیوں جانِ جاں بپھرتے ہیں

ہجر کے دن عذاب ہیں اشؔہر
جانے یہ کیوں نہیں گزرتے ہیں
***
اشؔہر اشرف کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ فرمائیں :محؔمد سے زیادہ کوئی سچا ہو نہیں سکتا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے