شاعری کی اصلاح

شاعری کی اصلاح

دلشاد دل سکندر پوری
سکندر پور، ضلع امبیڈکر نگر، اتر پردیش، ہند
رابطہ: 9628507617

ابھی اچانک نیند کے فرشتوں نے آنکھوں کی پلکوں پر پہلی کی دستک دی تھی کہ آنکھوں میں ایک خماری سی چھانے لگی، پلکیں بھاری ہونے لگیں تھیں. جاۓ آرام تلاش کرنے کی جد و جہد سے ذہن میں ایک قیامت خیز منظر رقص کرنے لگا تھا، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا. دور دور تک کسی آدم زاد کا نام و نشان نہیں دکھ رہا تھا. سڑکیں خاموش ہو چکی تھیں، گاڈیاں
بھی دھوپ کا سامنا کرنے سے گریز کر رہی تھیں. میں نے اپنے چاروں طرف ایک بار نظریں گھما کر دیکھا تو بغل کے مکانوں کے شریر بچے ماؤں کی آغوش میں ایسے دپک کر سوۓ ہوۓ تھے گویا مائیں اپنے بچوں سے کہہ رہی ہوں کہ سو جا بیٹا ورنہ گبر آجاۓ گا. 
ہر طرف اک سکون کا ماحول پا کر میں بھی اپنے آرام کی جگہ تلاش کرنے میں آخر کامیاب ہو ہی گیا.
اتنی سلگتی دھوپ گویا سورج کے دہانے سے شعائیں نہیں بلکہ توپوں سے نکلنے والی لپٹیں زمین کے وجود کو تار تار کر رہی ہوں. بڑی مشکل سے برآمدے سے نکل کر سامنے 100 میٹر کا فاصلہ طے کر کے آم کے درخت کے نیچے پڑی ہوئی چار پائی پر جا گرا. اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ 100 میٹر کی دوری گویا زمین سے آسمان تک کے سفر کے مترادف تھی. بڑی مشکل سے چارپائی تک پہنچا. دل مسرت سے جھوم رہا تھا. آرام کی جگہ کو دیکھ کر دل کے دریا کی امنگیں، اس کی لہریں گویا شکر کے سجدے کر رہی تھیں. پھر اچانک لیٹے ہوئے یہ احساس پیدا ہوا کہ شاید چارپائی کے پیروں سے چر مر کی آواز کچھ کہنا چاہ رہی ہو. میں نے محسوس کرنا چاہا مگر نیند کی تڑپ نے اس کی اجازت دینا شاید گوارہ نہیں کیا.
میں نے اپنی آنکھیں بند کی تو محسوس ہوا کہ چارپائی مجھ سے کہہ رہی ہے واہ رے آدم زاد کتنا مطلب پرست ہے تو. میں نے تجھے آرام کرنے کی جگہ کیا دے دی اپنے آداب کو بھول بیٹھا. یہ محسوس کرتے ہوئے مجھے اپنے آپ سے بڑی نفرت سی اک بار محسوس ہوئی اور خیال آیا کاش اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتا تو میں بھی چارپائی کے چاروں پیروں کا بوسہ لیے بغیر نہیں سوتا، خیر جو ہوا سو ہوا ..
اب پچھتائے کیا ہوتا ہے.
میں نے اس خیال کو وہیں دفن کر دیا اور درخت کے بارے میں کچھ سوچنے لگا. سچ کہوں تو آم کے درخت کے نیچے سونے کا مزا ہی الگ ہوتا ہے، مگر شرط ہے کہ آم کے درخت کی شاخیں اپنے شباب پر ہوں اور اللہ کا شکر موسم پت جھڑ آکے جا چکا تھا. نئی نئی رنگ برنگی پتیاں اور اس کی خوشبو نیند میں چار چاند لگانے کی منتظر تھیں. 
ابھی مبارک چارپائی پر جسم کا بوجھ رکھا ہی تھا کہ نیند کے فرشتے پلکوں پر تھپکیاں دے دے کر سلانے کی کوشش کر رہے تھے. اور دھیرے دھیرے آنکھوں سے سارے مناظر دھندھلے ہوتے چلے گئے اور میں نے آنکھیں موند لی..
پوری طرح سے نیند عالم طفلی سے اپنے شباب کی منزل پر پہنچ گئی تھی اور میں ایک گہری نیند کی دنیا میں سفر کر رہا تھا، اچانک بدن میں کسی چیز کی چوٹ نے نیند میں زخم دینے کی کوشش کی، مگر میں نے کروٹ بدل کر اس زخم کو کروٹوں کے مرحم سے بھرنا چاہا..مگر ایک بار پھر کسی چوٹ کا احساس پیدا ہوا مگر اس بار اس چوٹ نے میرے سر پر دستک دے دی، میں درد سے کراہتے ہوئے نیند سے بیزار ہو گیا اور آنکھوں کو مسلتے ہوئے اپنے چاروں طرف دیکھنا شروع کر دیا. تو کیا دیکھتا ہوں ایک شخص ہاتھ میں لاٹھی لیے ہوئے میری چارپائی کے سرہانے کھڑا ہوا ہے. آنکھیں نیند سے بھری ہوئی تھیں، میں نے گھبرا کر پہلے ان کو سلام کیا. اور دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ موت کا فرشتہ تو نہیں، جو میری روح کو قبض کرنے کے لیے آیا ہے. پھر خیال آیا کہ کہیں یہ نکیرین تو نہیں. پھر خیال آیا کہ میں تو چارپائی پر لیٹا تھا کوئی قبر میں تھوڑی… نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، میں ابھی نہیں مر سکتا، مجھے تو ابھی بہت کچھ کرنا ہے، ابھی میری عمر ہی کیا ہے، جو اللہ کو اتنی جلدی میری یاد آگئی ہے. پھر میں اچانک چلانے لگا نہیں نہیں نہیں. ابھی پوری طرح سے میں بیدار نہیں ہوا تھا. نیند میں ہی کہنے لگا. حضور آپ غلطی سے کسی اور شخص کے پاس آگئے ہیں آپ جس کی تلاش کر رہے ہیں وہ میں نہیں ہوں… 
پھر وہ شخص ایک کڑک آواز میں بولا، بد تمیز اپنی آنکھیں کھول اور ہوش میں آ کیا اناپ شناپ بولے جا رہا، تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ہے. الو کے پٹھے… اس آواز میں ایک جھنجھلاہٹ اور ڈراؤنا پن بھرا ہوا تھا… جس کو سن کر میں پوری طرح بیدار ہوگیا..
نیند سے بیدار ہوتے ہی پہلے میں نے ہاتھوں کو جوڑ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے نیند میں کیا کیا گمان کر لیا تھا..
پھر بڑے احترام کے ساتھ نیند سے جھلسی ہوئی آنکھیں ان کے چہرۂ بے نور پر ڈالی تو کیا دیکھا خود کو استاد شاعر بتانے والے اردو کا جنازہ نکالنے والے غزل کی غ کو گاف سے لکھنے والے شاعر جناب میاں آغا میرے سامنے 56 انچ کا سینہ لیے ہوئے چارپائی کے قریب پہاڑ کی طرح کھڑے تھے. پھر میں نے انھیں بیٹھنے کی اجازت دینی چاہی کہ وہ خود میرے پیروں کو ہٹا کر بیٹھ گئے. نام میاں آغا، شکل ایسی کی اگر شیر خوار بچہ انھیں دیکھ لے تو پاجامے گیلے ہو جائیں. آنکھیں اتنی بڑی بڑی اور لال تھیں گویا سورج کی لپٹیں میاں آغا کی آنکھوں سے نکلتی ہوں، اور چہرے پر ایک بڑا بھدے قسم کا آلہ؛ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے اللہ نے دنیا میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے انھیں پیدا کیا ہو. اور بدن پر ایک میلا کچیلا لباس جو گرمی کے پسینوں سے اتنا بدبو دار تھا کہ اگر مرگی کے مریض کو جوتے کے بجائے ان کے کپڑوں کو سونگھا دیا جائے تو فورا وہ ہوش میں آجائے.
میاں آغا پورے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک تفریح کا ذریعہ بھی ہیں. بستی سے چند نوجوان خالی وقتوں میں تفریح کے لیے اکٿر ان کو فون کر کے شعر و شاعری سنا کرتے تھے. جب میاں آغا ان سے ان کی شہریت دریافت کرتے تھے تو کوئی سعودی کوئی بحرین اور امریکا جیسے بیرون ممالک کا رہنے والا اپنے آپ کو بتاتا تھا. جس پر میاں کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا. اور اسی فخر سے لوگوں کو اپنی قابلیت کا ٿبوت پیش کرتے تھے..
اور اب ایسا شخص مجھ سے ملنے آیا ہے. خیریت تو معلوم کرنا میرا فرض تھا..
میں نے میاں آغا سے اتنی کڑک دھوپ میں آنے کی اور مجھ سے ملنے کی وجہ معلوم کی ..
میاں آغا کہنے لگے…بیٹا تمھیں تو معلوم ہی ہے کہ میری شریک حیات جس کی نرالی تھی ہر اک بات یعنی میری کل کائنات. جب سے اس دنیا کو الوداع کہہ کے گئیں ہیں مجھے رات رات بھر نیند نہیں آتی…اور میں ہجر کی راتوں کا قصہ کاغذوں پر رقم کرتا چلا جاتا ہوں. اور اپنے درد کے احساسات اور جذبات کو شاعری کی شکل دے کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں. اور آج اسی سلسلے میں میں اپنے کلام کی اصلاح لینے تمھارے پاس آیا ہوں. 
کل رات لگ بھگ بارہ بجے کے قریب ایک مصرع ذہن میں ہاتھ پیر مار رہا تھا. میں نے اس کو کورے [کاغذ] پر لا کر پٹخ دیا اور مکمل غزل کہہ ڈالی. ذرا اس کو دیکھ لو. 
یہ سن کر مجھے اتنا غصہ آیا کہ دل کہہ رہا تھا کہ پہلے ہزاروں گالیاں دوں اور ڈانٹ کر بھگا دوں یا پورے کلام کو نذر آتش کر دوں، مگر میں ٹھہرا شریف النفس آدمی کسی کے جذبات سے کھیلنا اس فقیر کو گوارا نہ گزرا اور ان کی عمر کا خیال رکھتے ہوئے بڑی محبت سے فرمایا: میاں آغا یہ وقت میرے سونے کا ہے اور آپ نے مجھے زبردستی بیدار کیا ہے. اب اس نیند کا کفارہ کون ادا کرے گا.
فورا وہ اٹھے اور میرے غصے کو محبت کے پانی سے ٹھنڈا کرنے کے لیے بنا کچھ بولے اٹھ کر جدھر سے آئے تھے اسی سمت جانے لگے. میں نے مارے خوشی کے ایک بار پھر شکر ادا کیا کہ چلو ایک بلا تو سر سے ٹلی.
تھوڑی دیر کے بعد پھر انھیں آتا دیکھ میں نے اپنے آپ کو گوشہ نشیں کرنے یا چھپا لینے کا منصوبہ تیار کرنے لگا مگر وہ مجھے ہی دیکھتے دیکھتے اپنے قدموں کو جنبش دے رہے تھے. اور اتنی سخت دھوپ مین اتنے بے خوف اور بے باک چلے آرہے تھے جیسے پھولوں کے بدن سے ان کا خون پینے تتلیاں چلی آ رہی ہوں.
میاں آغا کے مزاج سے شایدجتنا میں واقف ہوں کوئی نہیں ہوگا..
میاں کے مزاج میں جذبات کی گرماہٹ، بد اخلاقی، خود پرستی، جھنجھلاہٹ، ذرا ذرا سی بات پر آسمان کو سر پر اٹھا لینا؛ ان کا شیوا ہے. 
شاعری کا کیڑا ہر وقت ان کے ذہن کو گد گداتا رہتا ہے.  بے مقصد بے مطلب بے ترتیبی بے قوافی بے عروض بے پیمانہ ان کی شاعری کی خصوصیت ہے. دل بر عاشق مجنوں پاگل جانم دیوانہ جیسے الفاظ کا انبار ہے. اور ان کی شاعری کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مد مست پاگل دیوانہ شاعری کے میدان میں بد فعلیاں کر رہا ہو..
اب ایسے شخص سے جان بچانا بڑا مشکل کا م تھا خیر! اس مصیبت کو اللہ کے سپرد کر تا ہوں وہی کوئی راستہ نکالے گا. 
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
جیسے جیسے وہ قریب آتے گئے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں. قریب پہنچتے ہی پہلے انھوں نے میری پیٹھ پر اتنی زور سے اپنے ہاتھ کو مارا جس کی آواز سے ایسا محسوس ہوا کہ کسی دیش نے کسی دیش کی پشت پر پرمانو بم پھینک دیا ہو. میں، کراہتے ہوئے اور ان کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک بار پھر خاموش رہا. 
میاں آغا اس بار سر کے قریب آ کر بیٹھ گئے. بولے لو میرے لال تمھاری نیند کا کفارہ تو میں نہیں ادا کر سکتا ہاں مگر تمھاری نیند کو غائب ضرور کر سکتا ہوں. اپنی جیب سے ماچس کو نکال کر کسی فلمی اداکار کی طرح سگریٹ کے منھ کو جلانے لگے. میں سارا منظر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا. اور ایک سگریٹ میری طرف بڑھانے لگے.
میں نے کہا میاں آپ یہ اچھا نہیں کر رہے ہیں، پہلے تو آپ نے میری نیند کو جلایا اور اب بےچاری معصوم سگریٹ کو جلا رہے ہیں. اور اس کو پلا کر میرے کلیجے کو جلانا چاہ رہے ہیں.
میں نے سگریٹ پیتے پیتے ایک سر سری نگاہ ان کے کلام پر ڈالی تو میری نگاہ ایک ایسے شعر پر جا کر ٹھہر گئی جو ان کے حالات سے بالکل مختلف تھی. میں نے عرض کیا میاں آغا آپ نے یہ شعر کیوں کہا ..
نہ جانے کون سی خوبی اسے نظر آئی
امیر شہر کی دختر میری تلاش میں ہے
میاں آغا کہنے لگے…
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
بر خوردار شاید آپ کو معلوم نہیں جس شعر کے بارے میں آپ مجھ سے سوال کر رہے ہیں اس شعر کو میں آپ سے اصلاح لینے سے پہلے دو مشاعروں میں پڑھ چکا ہوں اور یہ اب تک کا سب سے سپر اور ڈوپر ہٹ شعر ہے. آپ اس کو چھوڑ کر باقی اشعار پر نظر کرم کریں. اگر کسی شعر کو ذہنی خون پلانے میں کچھ کنجوسی مجھ سے ہو گئی ہو تو آپ اپنا خون خیرات کر کے اس شعر کو صحت مند اور جان دار بنانے کی زحمت گوارہ کریں.
اتنا سنتے ہی میں غصہ سے آگ بگولہ ہو گیا. یعنی:
دل میں وہ آگ ہے لفظوں میں سمو بھی نہ سکوں
میں نے کہا جب آپ مشاعرے میں پڑ ھ چکے ہیں اور وہ بھی پورے کلام کو تو پھر اصلاح کی حاجت کیوں کر پیش آئی…اور میں ناحق کسی کی اولاد کو اپنا خون کیوں خیرات کروں.
کہنے لگے میاں ایک مشاعرہ میں شرکت کرنی ہے. وہاں شاعر کم اور شاعرات زیادہ تشریف لا رہی ہیں. اور صدر مشاعرہ نے اس ناچیز کو بطور مہمان شاعر کے مدعو کیا ہے. آپ اگر کچھ اشعار اس کلام میں اضافہ کردیں تو اپنی بھی آبرو رہ جائے. 
اور آپ تو جانتے ہی ہیں اس وقت مشاعروں کی حالت، جب تک شاعر محبوب کے وصل کے احوال کو مبالغہ کا لباس پہنا کر نہیں پیش کرتا تب تک شاعر کو مشاعرے میں مقبولیت نہیں ملتی. 
میں نے کہا میاں آپ تو مجھے جانتے ہی ہیں، میں معیاری شاعری کا عادی ہوں، مبالغہ میری ذات کے خلاف ہے، حسن و عشق کی مدح میرے نزدیک کسی گناہ سے کم نہیں. اور زمانہ اب چاند پر جانے کی بات کر رہا ہے اور آپ ابھی تک محبوب کی زلفیں اور اس کی جھیل سی آنکھوں میں چھلانگ لگانے کی بات کر رہے ہیں. چاند پر کمند ڈالنا کب سیکھو گے. شاید آپ اپنی عمر کا لحاظ نہیں کرتے، ایک پیر آپ کا قبر میں ہے اور دوسرا محبوب کی سیج پر رکھنے کے خواہش مند ہیں. کچھ تو خدا کا خوف کرو. شاعری دل بہلانے کی چیز کا نام نہیں ہے. شاعری کا جنازہ کیوں نکالنا چاہ رہے ہیں. آپ شاعری سے کس جنم کا بدلا لے رہے ہیں. شعر کو فحشی اور خود وحشی بنانا چھوڑ دیجیے اور فکر کو محبوب کی زلفوں سے آزاد کر کے آسمان کی سیر کرانا سیکھیے. 
اتنا سنتے ہی میاں آغا آگ بگولہ ہو گئے اور کہنے لگے نالائق کس دنیا میں تو جی رہا ہے. بنا عشق کے دنیا ایک بیوہ کے مانند ہے. اللہ کا شکر ادا کرو کہ مجھ جیسا معروف شاعر آپ کی عدالت میں حاضر ہوا ہے مگر آپ کیوں کر میرے مقام کو سمجھیں گے. اس وقت آپ کو کون جانتا ہے. آپ کی شاعری آپ کے اشعار کو کون پڑھتا ہے. سچ پوچھو تو کوئی نہیں.
اور الحمد للہ اس ناچیز کے اشعار ہر خاص و عام کے ذہن میں مقید ہیں. بچے شوق سے میرے شعر پڑھتے ہیں اور نوجوان اپنے عشق کا اظہار میرے شعر سے کرتے ہیں. میرے اشعار لوگ مجھے فون کر کر کے سنتے ہیں… 
آپ بتائیے آپ اتنے دن سے شعر گوئی کر رہے ہیں کون آپ کے شعر کو یاد رکھتا ہے… 
میں نے کہا میاں مجھے سب معلوم ہے آپ کی پہنچ، آپ کی شہرت کے ڈنکے سمندر پار تک ہیں مگر ہر بار آپ یہی جملہ کیوں استعمال کرتے ہیں. سچ کہوں تو یہ شہرت کا غرور زندگی کو نکما بنا دیتی ہے اور یہ دنیا بڑے بڑے تیس مار خاں کو ایسے فراموش کر دیتی ہے جیسے سلگتی آگ کو پانی خاموش کر دیتا ہے. اور سنیے لکھنؤ کے استاد شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
میاں آغا کا غصہ اس بار زمین کی سطح سے اٹھ کر ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا اور لہجے میں تیزاب کی روانی میرے نصیحت بھرے جملوں کی لاشوں پر گرانے کے لیے میاں آغا تیار ہو چکے تھے. 
کہنے لگے سنو مسٹر میں کیا اور کس بلا کا شاعر ہوں شاید یہ تم تا قیامت نہیں سمجھ سکتے اور میری شاعری تم کیا سمجھو گے مجھے جو کہنے کا ہنر و شعور ہے میں نے کہہ دیا اور وہ الحمد للہ کامیاب شعر ہو گیا اور میری پہچان بھی اسی شعر کی وجہ سے ہے. بس اب تم اپنی خیر مناؤ. 
تمھارا معیار اور تمھاری شاعری کسی دن کسی بنیے کی دکان کے پھٹے ہوئے کاغذ پر چینی دینے کے کام آئے گی. یا تمھارے دیوان کسی دن کباڑی والے کے یہاں ردی کے بھاؤ خریدے جائیں گے…
میں نے کہا میاں آغا آپ خواہ مخواہ ناراض ہوگئے… میری بات کو آپ نے دل پر لے لیا،  میرا مقصد دل شکنی نہیں بلکہ دل کو بیدار کرنا تھا..
میاں آغا: چپ رہو اور اب ایک بھی لفظ مت بولنا…تم جیسے شاعر مجھے خود استاد تسلیم کرتے ہیں، یہ الگ بات کہ میں تعلیم میں درجہ سوم تک پڑھا ہوں مگر میری آواز کے آگے محمد رفیع اور سونو نگم جیسے موسیقی کار اپنے ماتھے کو ٹیک دیتے ہیں…
آپ شاید مجھ سے جلن رکھتے ہیں اور اس لیے یہ سب بول رہے ہیں. تو مسٹر سن لو آپ کی استادی آپ کو مبارک میری شاعری مجھے مبارک. 
یہ کہہ کر میاں آغا غصے سے چارپائی سے اٹھے اور جاتے جاتے ایک بار پھر بد تمیز کا تمغہ بطور تحفہ عطا کر گیے..
***
صاحب انشائیہ کی گذشتہ تخلیق :میں نہیں بہکوں گا، گر بہکاۓ گی رمضان میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے