اردو میں سرگرم ویب سائٹس اور پورٹل : ایک تجزیاتی مطالعہ

اردو میں سرگرم ویب سائٹس اور پورٹل : ایک تجزیاتی مطالعہ

✍️ قمر اعظم صدیقی
بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا
9167679924

٢٧ مارچ ٢٠٢٢ کو اردو صحافت کے ٢٠٠ سال مکمل ہو گئے۔ ان دو سو سالوں میں اردو صحافت نے وقت کی مناسبت سے بہت کچھ دیکھا، سمجھا اور سیکھا ہوگا۔ ایک وہ دور بھی تھا جب اردو صحافت کو کافی مشکلوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا۔ پچھلے زمانے میں نہ آج کے ترقی یافتہ دور کی طرح اتنے وسائل موجود تھے اور نہ ہی رقم کی اتنی فراہمی موجود تھی۔ آج لوگ بس ایک خواہش پر ایک کلک اور ایک کال کرکے اپنی ضروریات اور خواہش کی تکمیل گھر بیٹھے انجام دے لیتے ہیں۔ آنے والی نسلیں اور آنے والا وقت ممکن ہے اس سے بھی کہیں زیادہ سہولت کا ہوگا. شروع زمانے میں لوگ ہاتھ سے لکھے ہوئے اخبار کا مطالعہ کرتے تھے۔ ہاتھ سے لکھ کر اخبار تیار کرنا کتنا مشکل کام رہا ہوگا اور پھر عوام تک اس کو پہنچانے میں کتنی دشواری رہی ہوگی اس کے متعلق ہر شخص اپنے گھر خاندان اور محلے، بستی کے بڑے بزرگوں سے جانکاری حاصل کر سکتا ہے۔ پھر پریس پرنٹنگ کا دور آیا اس کے بعد کمپیوٹرائز پرنٹنگ اور موجودہ وقت میں ہم لوگ ڈیجیٹل ورلڈ کی جانب گامزن ہیں۔ ڈیجیٹل ورلڈ میں تکنیک کی اتنی فراوانی ہوگئی کہ ہم لوگ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہوں کسی بھی وقت ایک موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ کے ذریعہ کسی بھی اخبار، رسائل کتاب کو ایک کلک پر پڑھ سکتے ہیں. اور اسی طرح کسی بھی چینل کے نیوز کو براہ راست دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ اسی ضمن میں پچھلے پانچ سالوں میں اردو صحافت میں ویبسائٹ اور پورٹل نے اپنی کافی مضبوط پکڑ بنائی ہے جس کے ذریعے ہم اور آپ بآسانی اس کے ویب سائٹ اور لنک پر جا کر ملی، فلاحی، سیاسی، سماجی، دینی مضامین و مقالات اور خبروں کو پڑھ سکتے ہیں۔
ویب سائٹ اور پورٹل کی دنیا میں تقریباً ٣ درجن سے زائد ناموں کو میں جانتا ہوں جو ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں. کم و بیش زیادہ تر ویب سائٹ، پورٹل، بلاگ، پیج ادبی دنیا میں اپنے معیار کے مطابق سرگرم ہیں اور اپنی اردو دوستی کا حق بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
جن جن لوگوں تک میری رسائی ممکن ہو سکی میں نے سبھی لوگوں کو فون اور میسیج کے ذریعہ ان کے ویب سائٹ کی تفصیل مانگی اور اپنے اس تحریر میں اس کا ذکر کر رہا ہوں تاکہ ان کی خدمات کو پکی روشنائی میں قلم بند کیا جا سکے۔ زیادہ تر لوگوں نے اپنی تفصیل بھیجی ہے جن کا میں شکر گزار ہوں۔ جن لوگوں نے نہیں بھیجی ان کو کئی بار اصرار کیا باوجود اس کے تفصیل نہیں آئی ممکن ہے ان کی کوئی مجبوری رہی ہوگی۔ میں ان کا بھی شکر گزار ہوں کہ وہ اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ جن لوگوں کی تفصیل آئی ہے میں اسے شامل کر رہا ہوں۔ اور جن کی تفصیل نہیں آئی ان کے ویب سائٹ کا نام بھی اس میں درج کیا جائے گا۔

 ایس آر میڈیا:
میں خود بھی فیس بک پر "ایس آر میڈیا پیج" چلاتا ہوں جس کی شروعات یکم اگست ٢٠٢١ سے کی گئی ہے۔ الحمداللہ اتنے کم وقتوں (صرف چھ ماہ) کی مدت میں مجھے آپ لوگوں کی جو محبتیں اور حوصلہ افزائی ملی ہیں اس کے لیے میں آپ تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں۔ ایس آر میڈیا پیج بنانے کا مقصد صرف اور صرف اردو کی خدمت کرنا  ہے۔ یہاں جہاں نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے وہیں اس پیج پر کہنہ مشق اور معروف قلم کار وں جیسے خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، انوار الحسن وسطوی، ڈاکٹر ریحان غنی، ڈاکٹر امام اعظم، حقانی القاسمی، پروفیسر صفدر امام قادری، پروفیسر ڈاکٹر محمد توقیر عالم، ڈاکٹر مظفر نازنین، محمد ولی اللہ ولی، انور آفاقی، ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، جاوید اختر بھارتی، سید نوید جعفری، کامران غنی صبا، پریم ناتھ بسمل، شیبا کوثر، مظہر وسطوی وغیرہم کے مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے مضامین سے میرے پیج کے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے وہیں مجھے بھی ان لوگوں کی تحریر سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ وہیں روز اول سے ہی ایس آر میڈیا پیج نے نئے قلم کاروں کی مستقل حوصلہ افزائی کی ہے اور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پیج چلانے سے قبل میری رسائی بڑے ادیبوں اور قلم کاروں تک نہیں تھی لیکن الحمداللہ جب مجھے بڑے ادیبوں جیسے پروفیسر صفدر امام قادری، حقانی القاسمی، ڈاکٹر امام اعظم، مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی، ڈاکٹر ریحان غنی، انوار الحسن وسطوی، کامران غنی صبا اور ان جیسے میرے بہت سارے مخلصوں کی حوصلہ افزائی ملی تو مجھے لکھنے پڑھنے کا حوصلہ بھی ملا اور مزید کچھ بہتر کرنے کا خواہاں بھی ہوں۔ ایس آر میڈیا پیج کے قارئین تقریباً ہندستان کے تمام جگہوں میں موجود ہیں۔ ہندستان کے علاوہ بیرونی ممالک پاکستان، سعودی، بحرین، قطر سے بھی میرے پاس فون آئے ہیں کہ میں آپ کے پیج کے مضامین کو پابندی سے پڑھتا ہوں. 
ایس آر میڈیا پیج کے تعلق سے ڈاکٹر مظفر نازنین صاحبہ کی لکھی گئی تحریر کے چند اقتباسات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ جس کا عنوان ہے:
” قمر اعظم صدیقی اور ایس آر میڈیا آج کے ڈیجیٹل ورلڈ میں"
"اب اخبارات زیادہ تر ڈیجیٹل ہیں۔ اور نیوز ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں شیریں زبان اردو کے فروغ کے لیے ویب سائٹ، ویب پیج، نیوز پورٹل کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں "ایس آر میڈیا پیج" اردو کی ترقی اور ترویج و فروغ اور بقا میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جس کے روح رواں قمر اعظم صدیقی صاحب ہیں۔ ان کا اصل نام قمر اعظم اور قلمی نام قمر اعظم صدیقی ہے۔ ان کے والد کا اسم گرامی شہاب الرحمن صدیقی ہے۔ قمر اعظم صاحب کے والد گرامی بھی اردو کے کامیاب ترین استاد رہے ہیں۔ وہ سرکاری ملازمت میں درس و تدریس کے فرائض کو انجام دے کر چند سال قبل سبک دوش ہو چکے ہیں۔ قمر اعظم کا تعلق بہار کے ضلع ویشالی میں شہر حاجی پور کے قریب بھیرو پور سے ہے۔ قمر اعظم نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے فاصلاتی کورس سے ایم اے اردو تک کی تعلیم حاصل کی۔ ان کا مشغلہ تجارت ہے لیکن اردو ادب سے انھیں گہری دل چسپی ہے بلکہ دوران طالب علمی سے ہی اردو ادب، شاعری سے گہرا شغف رہا ہے۔ علاوہ ازیں شخصیات اور حالات حاضرہ پر مضامین، افسانے قلم بند کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریریں ہندستان کے مختلف اخبارات، ویب سائٹ اور پورٹل پر گاہے بگاہے شایع ہوتی رہتی ہیں۔
قمر اعظم صاحب کو اپنی مادری شیریں زبان اردو سے خاصی رغبت، انسیت اور محبت ہے اور اسی محبت و اردو کی خدمت کے جذبے میں انھوں نے ” ایس آر میڈیا" ویب پیج کی تخلیق کی ہے۔ ویب پیج کافی دل کش، معیاری اور معلوماتی ہے۔ ان کے اس ویب پیج پر نہ صرف نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، بلکہ مشاہیر اہل قلم کے نگارشات بھی شائع ہوتے ہیں۔ جن میں کہنہ مشق اور مقبول قلم کار مضمون نگار شامل ہیں ان تمام اسکالر کے ساتھ راقم الحروف مظفر نازنین کے بھی مضامین ’’ ایس آر میڈیا پیج ‘‘ پر شایع ہوتے رہتے ہیں۔ جس کے لیے میں قمر اعظم صاحب کی بےحد شکر گزار ہوں۔
ایس آر میڈیا مضمون نگار کے لیے کافی دل کش اور خوب صورت ٹایٹل پیج بنا کر جہاں مضمون نگار کو محبت کا تحفہ پیش کرتی ہے وہیں قارئین کو تحریر پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ الحمداللہ اب تک ’’ایس آر میڈیا پیج‘‘ کی نیوز اور مضامین کو سولہ ہزار لوگوں تک رسائی کا شرف حاصل ہے۔ دیگر سائٹ یا اخبار کے قارئین اس پیج کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے فیس بک میں جا کر سرچ بار میں ٹائپ کریں ’’ایس آر میڈیا ‘‘ ۔ قمر اعظم صاحب کی اردو سے اتنی گہری رغبت ہے کہ اس ویب پیج کے نام بھی صرف اردو زبان میں ہی بنائے گیے ہیں۔ اگر آپ انگریزی میں سرچ کریں گے تو دستیاب نہیں ہے۔ میں قمر اعظم صاحب کی اردو کی بے لوث خدمت کے لیے تہ دل سے پر خلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ ان کا مقصد صرف سوشل میڈیا کے ذریعے اردو کی تحریک کو فروغ دینا ہے۔ قمر اعظم صاحب کی یہ کاوش قابل ستائش ہے۔ بارگاہ خداوندی میں سر بہ سجود ہو کر دعا کرتی ہوں کہ خدا اردو کے اس شیدائی قمر اعظم صاحب کو صحت کے ساتھ حیات بخشے۔ استقامت عطا کرے تاکہ پورے جوش و خروش کے ساتھ ادب کی خدمت میں مصروف رہیں۔ اور ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب ’’ایس آر میڈیا پیج ‘‘پر پوری اردو دنیا کے مشاہیر قلم اور سخنوران ادب اپنی نگارشات ارسال کریں گے۔
 بصیرت آن لائن:
بصیرت آن لائن نیوز پورٹل کا آغاز اپریل ٢٠١٢ ء میں عمل میں آیا۔ اس کے بانی و چیف ایڈیٹر جناب غفران ساجد قاسمی صاحب ہیں۔ سعودی عرب میں رہتے ہوئے غفران صاحب کو اس وقت پورٹل بنانے کا خیال آیا جب کہ عمومی طور پر اخبار والے نئے قلم کاروں کے مضامین کو اپنے یہاں جگہ دینے سے قاصر تھے۔ بصیرت آن لائن نے سب سے پہلے تربیتی طور پر نئے قلم کاروں کی تخلیق کو اپنے پورٹل میں خصوصیت کے ساتھ جگہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کا کام کیا تب اس کے نتیجے میں اخبار والوں نے بھی ان لوگوں کے مضامین کو اپنے یہاں جگہ دینا شروع کیا۔ بصیرت آن لائن نے سنہ ٢٠١٥ء میں ہندی اور انگریزی زبانوں میں بھی اپنی خدمات کا آغاز کیا لیکن بدقسمتی سے چند مہینوں میں پے در پے تین بار سائبر حملوں کا شکار ہوا، آخر کار ہیکروں کی جانب سے اسے بند کر دیا گیا اور اس پر شائع تمام مضامین کو ڈیلیٹ کر دیا گیا جو کہ بصیرت آن لائن کے لیے کسی بڑے حادثے سے کم نہ تھا۔ اس کے بعد اب تک ہندی زبان میں دوبارہ آغاز نہیں ہوسکا لیکن یہ ویب سائٹ اردو اور انگریزی میں مسلسل تسلسل کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ بصیرت آن لائن پر مضمون کی اشاعت کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مضامین کی بہت بڑی تعداد بصیرت آن لائن پر موجود ہے۔ پاکستان کی مردان یونی ورسٹی نے بصیرت آن لائن سے اجازت لے کر ان کے مضامین کو اپنے ریسرچ کا حصہ بنایا ہے جس میں وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اردو کی خدمات کے تعلق سے تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح دھنباد کی کول مائن یو نی ورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر نے بھی بصیرت آن لائن کے خدمات کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ اس وقت بصیرت آن لائن عالمی سطح پر اردو کے ایک مقبول ترین نیوز پورٹل میں شامل ہے اور تقریباً ١٠٠ سے زائد ممالک میں پڑھا جاتا ہے۔ بصیرت آن لائن کا آغاز ہندستان میں ایسے وقت میں ہوا تھا جب کہ ایک یا دو کی تعداد میں اردو ویب سائٹ موجود تھے۔‌
اس ویب سائٹ کا مقصد ماہر، ایمان دار صحافی و مضمون نگار تیار کرنا، میڈیا کے درست استعمال پر زور دینا، زرد صحافت اور خبروں کو بے نقاب کرنا، اہم موضوعات پر کانفرنس سمینار اور پروگرام کا انعقاد کرنا، مختلف مقامات پر وقتاً فوقتاً صحافت کے تربیتی کیمپ لگانا اور باضابطہ صحافت کے کلاسوں کا نظم کرنا، یو ٹیوب چینل، فیس بک لائیو کے ذریعہ مختلف تعمیری و اصلاحی پروگرام پیش کرنا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا پردہ فاش کرکے دین کی اشاعت کا فریضہ ادا کرنا، ان کے ایک اہم مقاصد میں خود کا میڈیا ہاؤس قائم کرکے ٹیلی ویزن چینل کا قیام کرنا بھی شامل ہے. اس کے علاوہ اور بھی اہم موضوعات شامل ہیں۔
الحمداللہ بصیرت آن لائن اب "بصیرت میڈیا ہاؤس" کے نام سے رجسٹرڈ بھی ہو چکا ہے. اسی کمپنی کے تحت ایک ہفت روزہ رجسٹرڈ اخبار "ملی بصیرت" بھی پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔
اس کے بانی غفران ساجد صاحب نے فضیلت تک کی تعلیم الحمداللہ دارالعوم دیوبند سے سنہ ٢٠٠٠ ء میں مکمل کیا۔ اختصاص المعہد العالی اسلامی حیدرآباد سے مکمل کرنے کے بعد انگریزی ڈپلوما مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر دہلی سے مکمل کیا ہے اور ابھی باضابطہ طور پر اپنے ہی قائم کردہ پورٹل بصیرت آن لائن میں بحسن و خوبی اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

ملت ٹائمز:
١٨ جنوری ٢٠١٦میں ممبئی کی سرزمین پر ہندستان کے معروف عالم دین مولانا رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم ندوة العلماء لکھنو کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آیا تھا۔ اپریل ٢٠١٦ میں ملت ٹائمز نے انگریزی نیوز پورٹل کا آغاز کیا جس کے بانی ممبر اور ایڈیٹر محمد ارشاد ایوب ہیں. ایک سال مکمل ہونے کے بعد دہلی کے سینیر صحافیوں کے ہاتھوں ١٩ جنوری ٢٠١٧ کو ملت ٹائمز نے ایپ لانچ کیا۔ جولائی ٢٠١٧ میں بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ایک انٹرویو کے ذریعہ شمس تبریز قاسمی نے ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کا بھی آغاز کیا۔ ٢٠١٨ میں ملت ٹائمز نے ہندی نیوز پورٹل کی شروعات کی جس کے بانی ایڈیٹر مرحوم محمد قیصر صدیقی تھے۔ ٢٤ اکتوبر ٢٠٢٠ کو محمد قیصرصدیقی کی وفات کے بعد یہ ایڈیٹر کی ذمہ داری اسرار احمد سنبھال رہے ہیں۔ ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر ظفر صدیقی ہیں۔
ملت ٹائمز کے دوسرے چینلز اور پورٹلز: ملت ٹائمز نے علاقائی خبروں کے لیے متعدد نیوز پورٹل بھی شروع کر رکھا ہے جس میں ”میوات ٹائمز“ تین زبانوں میں آن لائن اخبار اور یوٹیوب چینل ہے جس کے ایڈیٹر محمد سفیان سیف ہیں ۔ ایک اور علاقائی نیوز پورٹل”سیتامڑھی ٹائمز“ ہے جسے مرحوم قیصر صدیقی نے شروع کیا تھا۔ ٢٤ اکتوبر ٢٠٢٠ ء میں ان کی وفات کے بعد سیتامڑھی ٹائمز کی ذمہ داری مظفر عالم اور ثاقب رضا کو سونپی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملت ٹائمز کا ایک مستقبل ہندی نیوز پورٹل ”جے جے پی نیوز“ ہے جس کے چیف ایڈیٹر محمد شہنواز ناظمی ہیں۔ ملت ٹائمز کے تحت تاریخی اور معلوماتی ویڈیوز کے لیے مستقل ایک یوٹیوب چینل ہے”ہسٹری آف اسلام“ ۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ”اردو ٹاک“ کے نام سے باضابطہ ایک پلیٹ فارم کی شروعات کی گئی ہے، اسی نام سے یوٹیوب چینل بھی ہے جہاں اردو ادب سے متعلق ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں اور زمرین فاروق اس کی انچارج ہیں۔ مذہبی امور کی اشاعت کے لیے ”مدینہ ٹی وی اردو“ کے نام سے ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل لانچ کیا گیا ہے۔ یہ سبھی آن لائن اخبارات اور نیوز پورٹل ملت نیوز نیٹ ورک پرائیوٹ لمٹیڈ کے ماتحت ہیں۔ ملت ٹائمز کے بانی اور سی ای او شمس تبریز قاسمی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے فارغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویٹ اور ایم اے ہیں۔ شمس تبریز قاسمی ہندستان میں صحافیوں کی سب سے قدیم تنظیم پریس کلب آف انڈیا کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے بھی ممبر ہیں۔ اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی حقوق سے منظور شدہ بھارت کے معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز میں میڈیا کو آڈینٹر کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔ اس سے قبل سال ٢٠١٤ سے ٢٠١٦ تک وہ مشہور نیوز ایجنسی آئی این انڈیا میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اردو اخبارات میں ان کا ہفت روزہ کالم ”پس آئینہ“ بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے. صحافتی خدمات کی بنیاد پر وہ متعدد ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔

پس منظر :
بے باک صحافت، سرکاری دباؤ سے آزاد اور اقلیتوں کے ایشوز کو نمایاں کرنے کے لیے ملت ٹائمز کو خصوصیت کے ساتھ جانا جاتا ہے۔ ملت ٹائمز کا بنیادی ایجنڈا ان ایشوز کو اٹھانا ہے جسے مین اسٹریم میڈیا اور ٹی وی چینلوں کے ذریعہ نہیں دکھایا جاتا ہے یا سچ کو چھپا دیا جاتا ہے۔ آن لائن اخبارات کے ساتھ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے ناظرین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ یوٹیوب پر خبر در خبر، خاص ملاقات، انٹریوز، گراؤنڈ رپوٹ، پبلک اوپینن، صدائے نوجوان، اسپیشل رپوٹ جیسے پروگرام بے حد مقبول ہیں۔ ملت ٹائمز نے کئی ایسی اسٹوریز کی ہے جو ہندستان کی حکومت، انتظامیہ، سماج، ملی تنظیموں، اہم شخصیات اور مین اسٹریم میڈیا [پر] اثر انداز ہوئی ہے۔ ہندستان کے بیشتر اردو اخبارات ملت ٹائمز کی خبریں اور مضامین اپنے یہاں شائع کرتے ہیں۔ بیرون ممالک میں شائع ہونے والے اردو ویب پورٹل اور اخبارات اپنے بین الاقوامی صفحات کے لیے ہندستان کی خبریں ملت ٹائمز کے حوالے سے شایع کرتے ہیں۔
دہلی کے علاوہ، ممبئی، پٹنہ، کولکاتا، چنئی، لکھنؤ سمیت کئی شہروں اور صوبوں میں ملت ٹائمز کے بیورو چیف موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بہار، مہاراشٹرا، بنگال، اتر پردیش اور دہلی میں ملت ٹائمز کے علاقائی اور ضلعی نمائندے بھی ہیں۔
ملت ٹائمز کے یومیہ قارئین کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ کئی مرتبہ ملت ٹائمز کے قارئین کئی لاکھ تک پہنچ جاتے ہیں۔ سال ٢٠٢٠ء میں صرف پانچ دنوں میں ملت ٹائمز کے قارئین کی تعداد چھ ملین تک پہنچ گئی تھی۔ ٢٦ جولائی ٢٠١٧ء کو ملت ٹائمز اردو کے قارئین کی تعداد تقریباً دو ملین تک پہنچ گئی تھی۔ یوٹیوب پر بھی ملت ٹائمز کے سبسکرائبر آٹھ لاکھ سے زیادہ ہیں اور دسیوں ویڈیوز کے ناظرین کی تعداد ایک ملین سے زیادہ۔ فیس بک پر پانچ لاکھ سے زیادہ فالووز ہیں اور لاکھوں میں یہاں ملت ٹائمزکو دیکھا جاتا ہے۔ ملت ٹائمز کو ہندستان کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، برطانیہ اور امریکہ میں بھی بہت زیادہ اہتمام اور دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاتاہے۔
ملت ٹائمز رجسٹرڈ کمپنی ملت نیوز نیٹ روک پرائیوٹ لمٹیڈ کے ماتحت ہے۔ اس سے وابستہ زیادہ تر صحافی نوجوان ہیں اور وہ لوگ ہیں جو صحافت کے ذریعہ ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں. 

مضامین ڈاٹ کام:
مضامین ڈاٹ کام کی ابتدا اپریل ۲۰۱۵ میں عرفان وحید اور خالد سیف اللہ اثری کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ بہت ہی قلیل مدت میں یہ ویب سائٹ اردو کی مقبول ترین ویب سائٹس میں شمار ہونے لگی۔ اس کے بانی و مدیر خالد سیف اللہ اثری و عرفان وحید صاحب ہیں۔ ادارتی و انتظامی امور کی ذمہ داری جناب محمد اسعد فلاحی صاحب اور تکنیکی امور کی ذمہ داری راشد اثری صاحب بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت ہندستان اور دیگر ممالک سے ایک ہزار سے زیادہ قلم کار مضامین ڈاٹ کام سے وابستہ ہیں اور اہم موضوعات پر ان کے مضامین اور مقالات مسلسل شائع بھی ہورہے ہیں اور اس کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔
مضامین ڈاٹ کام آن لائن پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ ایک اشاعتی ادارہ اور ایک فعال تنظیم بھی ہے جس کے تحت سماجی، سیاسی و دینی موضوعات پر مفید کتابیں منظر عام پر لائی جاتی ہیں اور زمینی سطح پر ادبی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔
اس ویب سائٹ کا مقصد اردو داں طبقہ کو جوڑنا اور قاری و قلم کار کے رشتے کو مضبوط کرنا ہے. یہاں تمام طرح کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے. یہاں ایسا مواد شایع نہیں کیا جاتا ہے جو مسلکی، گروہی یا فرقہ ورانہ تعصب یا منافرت کا سبب بنے۔ یہ ویب سائٹ قلم کاروں اور تمام قارئین کی آزادی رائے کا احترام کرتی ہے اور انھیں موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ہر موضوع پر اپنے مثبت اور تعمیری خیالات کا اظہار کریں۔ مضامین ڈاٹ کام پر اسلام، اسلامی علوم، تہذیب و تمدن کے علمی موضوعات کے علاوہ بر صغیر کی سیاست، ثقافت، معاشرت، معیشت نیز حالات حاضرہ اور تازہ واقعات پر متوازن اور بھرپور تبصرے، جائزے اور مضامین پیش کیے جاتے ہیں تاکہ وطن عزیز، بر صغیر اور عالم اسلام کے بارے میں مثبت اور صحیح تصویر پیش کی جاسکے۔ ‘مضامین ڈاٹ کام` اپنے قارئین اور قلم کاروں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی موضوع پر آزادانہ اپنی رائے پیش کرسکیں؛ دنیا کے ہر گوشے میں آباد اردو داں طبقہ ایک دوسرے کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرسکے نیز ایک دوسرے کے مسائل سے باخبر ہوسکے۔ ‘مضامین ڈاٹ کام` کا مقصد مثبت رویوں کے لیے تحریک دیتا ہے۔ مضامین ڈاٹ کام اپنے تمام قارئین کو اس بات کی دعوت بھی دیتا ہے کہ وہ خود بھی مختلف مسائل پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ‘مضامین ڈاٹ کام` پر شایع ہونے والے تجزیوں، مقالات اور تحریروں پر تبصروں کی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہر شخص جو ویب سائٹ پر لکھنے کا متمنی ہے، اس کا رکن بن سکتا ہے اور اپنی نگارشات بھی شامل کرسکتا ہے۔ اس کی میل آئی ڈی ہے:
desk@mazameen.com

قندیل آن لائن
اس ویب سائٹ کا نام قندیل آن لائن ڈاٹ کام qindeelonline.com ہے۔ اس کے مدیر اعلیٰ نایاب حسن اور مدیر عبدالباری قاسمی صاحب ہیں. شاہین باغ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا نئ دہلی میں اس کا دفتر موجود ہے۔
انھوں نے اپنے ویب سائٹ کی شروعات نومبر٢٠١٧ میں کی تھی. پہلے اس کا ڈومین قندیل ڈاٹ ان تھا، پھر ٢٠١٩ سے قندیل آن لائن ڈاٹ کام ہوا۔ اس ویب سائٹ پر ادبی مضامین، حمد، نعت، غزل، نظم، قومی خبریں، بین الاقوامی خبریں، سائنس اور ٹیکنالوجی، نقد و تبصرے اور اس طرح کی تمام مضامین شایع کیے جاتے ہیں۔ ویب سائٹ سے ابھی تک کسی بھی طرح کی آمدنی نہیں ہے، ذاتی خرچ سے ہی چلایا جا رہا ہے۔ مواد کے معیار پر ان کے یہاں خاص توجہ دی جاتی ہے۔ تیس سے زاید ممالک میں ان کے قارئین موجود ہیں۔ مدیر شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

 ادبی میراث:
ادبی میراث بھی ویب سائٹ کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے جس کا مختصر تعارف آپ کے سامنے نوشاد منظر کے حوالے سے پیش کر رہا ہوں۔
ویب سائٹ کا نام "ادبی میراث" ہے۔ جس کے بانیان ڈاکٹر نوشاد منظر اور محترمہ سمیّہ محمدی ہیں۔ جس کے ایڈیٹر ڈاکٹر نوشاد منظر خود ہی ہیں۔ اس ویب سائٹ کا قیام ١٢ اگست ٢٠٢٠ ء کو ہوا ۔ اس ویب سائٹ کو بنانے کا مقصد ادب کی اعلیٰ قدروں کی ترویج کے ساتھ یونی ورسٹی میں رائج اردو نصاب اور اس سے متعلق مواد کی فراہمی ہے۔ اردو ادب کی اس ویب سائٹ پر مختلف موضوعات پر مضامین، کہانیاں، شاعری اور دیگر اصناف کے ساتھ اسلام اور سماجی موضوعات کے ساتھ سیاسی مضامین بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ادبی خبروں کے لیے بھی ایک گوشہ قائم ہے۔ مگر بنیادی طور پر اس ویب سائٹ کا مقصد ادب کی ترویج ہے۔ اس ویب سائٹ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ نئے قلم کاروں کے لیے "ادب کا مستقبل" نام سے ایک گوشہ قائم کیا گیا ہے جو نووارد قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کو پلیٹ فارم فراہم کرنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ ویب سائٹ قائم کرنے کا واحد مقصد طلبا کو بہترین مواد فراہم کرنا ہے۔ ادبی میراث کے حوالے سے بڑے قلم کاروں اور ادیبوں کے مضامین بھی اس ویب سائٹ پر شایع ہوتے ہیں جن میں  جناب حقانی القاسمی، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن، نسیم اشک، ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹر انوار الحق وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں۔ جنھیں ویب سائٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر نوشاد منظر کا تعلق سمستی پور بہار سے ہے. آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ شاہ پور بگھونی میں ہوئی، بعد ازاں بی اے تا پی ایچ ڈی کی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے حاصل کی۔ یہی نہیں جامعہ سے ہی آپ نے بی ایڈ بھی کیا ہے۔ آپ نے اردو سے جے آر ایف کیا ہے۔ اب تک درجنوں مضامین اور تبصروں کے علاوہ ان کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
1۔ رسالہ شاہراہ کا تجزیاتی مطالعہ اور اشاریہ 2013 ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی
2۔ افسانہ اور افسانہ نگار(ترتیب) 2014، کتابی دنیا، دہلی
3۔ غالب ہندی ادیبوں کے درمیان(غالب پر ہندی میں لکھے گئے مضامین کا ترجمہ) (2021)، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی
4۔ پؤرن آہوتی اور دیگر کہانیاں (ترجمہ)(2021)۔ ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی
ان کتابوں کے علاوہ ایک راجستھانی ناول ” گواڑ" کا ہندی سے اردو ترجمہ کیا ہے جو طباعت کے مرحلے میں ہے۔
آپ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی میں پروجیکٹ اسسٹنٹ "کانٹریکٹ" کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس ویب سائٹ میں بانیان کی حیثیت سے تعلق رکھنے والی محترمہ سمیہ محمدی کا تعلق دربھنگہ کے جالے سے ہے، آپ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی  کی نسبتی پوتی ہیں۔ آپ کی مکمل تعلیم (نرسری تا پی ایچ ڈی) جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہوئی ہے۔ سمیہ محمدی شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد پروفیسر کوثر مظہری کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ آپ کے کئی مضامین اور تبصرے شائع ہوچکے ہیں۔

دی سورس بھارت:
دی سورس بھارت اُردو کے فروغ اور ترقی کے ارادے و نیت سے وجود میں آیا ہے، اور اپنے اسی جذبے کے ساتھ سفر پر رواں دواں ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف اُردو سے محبت ہے۔ اس محبت کا پیغام ہر اس دل تک پہنچانا ہے جن کی دھڑکنوں میں اردو بستی ہے اور ہر اس قلم کی نوک پر لے جانا ہے جو اس رسم الخط کو صفحہ قرطاس پر اُتارنے سے کترانے لگے ہیں۔ اردو کی آبیاری اور ان مقاصد کی تکمیل میں ہر ممکنہ اقدام اٹھائے جائیں گے۔ دی سورس نئے لکھنے والوں کا پرتپاک خیر مقدم کرتی ہے، اُن کی حوصلہ افزائی کے واسطے ان کی تحریروں کو فوقیت دیتی ہے، کیوں کہ اُردو ادب کی نئی نسل ہی اُردو کی بقا کی ضامن ہے۔ اُستاد ادبا اور شعرا نے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔ اب یہ ذمہ داری نئے لکھنے والوں کو اٹھانی ہوگی۔ ساتھ ہی دی سورس بھارت ادب کے نام ور ادیب اور شعرا حضرات سے دستِ ادب جوڑ کے استدعا کرتا ہے کہ آپ بھی دی سورس بھارت مشن کا حصہ بنیں، اپنی راہ نمائی اور تحریروں سے حوصلہ بڑھائیں۔
دی سورس کی تشکیل کی کہانی بڑی دل چسپ ہے. اکتوبر ٢٠٢٠ ء میں محترمہ عرشیہ انجم صاحبہ جو کہ اس وقت دی سورس بھارت کی مدیر ہیں اور ان کا تعلق اتر پردیش سے ہے، جو کہ درس و تدریس کے فرائض کو بخوبی انجام دے رہی ہیں؛ ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو اُردو کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کرے۔ اس ڈیجیٹل دور میں اُردو کو عوام کے دلوں تک پہنچانے کے لیے کیوں نہ اس کی مُٹھی اُس کی انگلی کا ساتھ لیا جائے یعنی کچھ ایسا کیا جائے کہ اُردو ادب ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ساتھ چلے۔ اُن کے پاس رہے اور یہ قرب اور رفاقت توصرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے جب وہ موبائل میں اپنی جگہ بنا لے۔ اسی کو مدّنظر رکھتے ہوئے اور عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے آن لائن اُردو ادب کی ویب سائٹ [کی] تشکیل کا خاکہ تیار کیا گیا۔ خاکہ تو بن گیا لیکن مشکل یہ تھی کہ ویب سائٹ سازی سے محترمہ عرشیہ انجم بالکل نابلد تھیں جیسے ایک بچہ جسے حروف سے شناسائی نہ ہو اور وہ کتاب لے کر اسے پڑھنے کی ضد کر لے۔ کُچھ یہی حال ان کا بھی تھا، مگر عزم باندھ لیا ارادہ مضبوط کر لیا یہ سوچ کر
آسانیوں سے پوچھ نہ منزل کا راستہ
اپنے سفر میں راہ کے پتھر تلاش کر
ذرے سے کائنات کی تفسیر پوچھ لے
قطرے کی وسعتوں میں سمندر تلاش کر
اس کے بعد انھوں نے سب سے پہلے مرحوم ذوقی سر سے فون پر مشورہ کیا. انھوں نے ان کے ارادے کو نیک بتایا، دعائیں دیں اور ایک جملہ کہا
"سیکھنے میں خود کو جھونک دو عرشیہ"
چھ مہینے کی مشقت، ریاضت کے بعد دی سورس قارئین کی خدمت میں حاضر ہو سکا۔ عرشیہ انجم صاحبہ نے تنہا اس سفر کی مشقت اٹھائی۔ نیندیں قربان کیں، آرام و سکون کو حرام کیا، رشتے اور احباب سے کچھ وقت تک صرف نظر کیا، روزمرہ کے بہت سے کام ملتوی کیے، بہت سی خواہشوں کو درکنار کیا یہاں تک مطالعے سے بھی اجتناب کیا۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند رکھے، تب کہیں جا کر اس آگ کے دریا کو عبور کر سکیں. اس کوہِ پیما کو ناپ سکیں۔ اس بحر بیکراں میں ڈوب سکیں۔
یہ مرحلہ آسان نہ تھا۔ راستے اجنبی، منزل کے نشان کا سراغ نہیں ظاہر سی بات ہے ایسے حالات میں تھک کر قدم واپس کر لینے کے خیال بھی ان کے دل میں آئے۔ مایوسی کا غلبہ بھی ہوا اور شکستہ آمیز آوازیں بھی باز گشت کرتی رہیں کہ
“تمھاری اس کوشش سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟"
لیکن انھوں نے خود کو کم زور نہیں ہونے دیا. طرح طرح سے ڈھارس بندھائی اور خود کو بچوں کی ان کہانیوں سے مضبوط کرتی رہیں جو اپنی دادی، نانی سے سنتی تھیں اور اب خود وہ اپنے بچوں کو سناتی ہیں۔
دی سورس کے کالم، مضامین، تراجم، افسانوی اور غیر افسانوی تخلیقی نثر نیز غزل اور نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے دی سورس بھارت کے ویب سائٹ کو ملاحظہ فرمائیں۔
اس ویب سائٹ پر تزئین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جس سے قارئین تحریر پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ منفرد کرنے کے ارادے سے انھوں نے "نیا سویرا" کالم شروع کیا اس میں تحریکی مضامین شائع ہوتے ہیں جس کے کالم نگار "محمد ریحان" ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ یہ کالم صرف "دی سورس بھارت" پر ہی شائع ہوتے ہیں، اس کے مضامین کہیں اور شائع نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا خاص کالم "ادب کے درخشاں ستارے" ہے جس میں جدید اور کلاسیکی شعرا کے تعارف شائع ہوتے ہیں۔ کالم نگار مشہور افسانہ نگار "سلمیٰ صنم صاحبہ" ہیں. ابھی چند دنوں قبل ایک اور کالم کی شروعات کی گئی ہے جس کا نام "کامیابی کے راستے" ہے۔ جس میں یہ کوشش کی گئ ہے کہ اس کالم کے تحت اس ڈیجیٹل عہد کی ٹاپ اسکل پر مضامین شایع کیے جائیں جو نوجوانوں کو اسکل فل بنا سکیں اور ان کی زندگی میں بہتری آ سکے۔ اس ویب سائٹ کی میل آئ ڈی نیچے درج ہے:
thesourcebharat23@gmail.com

بسمل جی اردو میں:
"بسمل جی اردو میں" یہ نام آپ کو کچھ اٹ پٹا سا لگے گا لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ یہ ایک ویب سائٹ کا نام ہے اور اس کے بانی غیر مسلم ہیں جن کا نام پریم ناتھ بسمل ہے اور انھوں نے اپنے ہی نام کی مناسبت سے ویب سائٹ کا انعقاد کیا ہے اور اس کے ذریعہ اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں. آپ اس کے علاوہ دوسرے ناموں سے بھی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ آپ کا پورا نام پریم ناتھ بسمل ہے۔ اور آبائی مقام مرادپور، مہوا، ویشالی، بہار ہے۔
آپ نے ایم اے اردو پٹنہ یونی ورسٹی سے ۲۰۱۰ء میں مکمل کیا ہے اس سے قبل ٢٠١٩ء میں نیٹ کی ڈگری حاصل کی۔
زریعہ معاش کے لیے آپ اس وقت اردو ٹیچر، گورنمنٹ مڈل سکول مہوا سنگھ راۓ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
شعر و شاعری بالخصوص غزل گوئی سے آپ کو گہری دل چسپی ہے اس لیے آپ نے پہلے "ہندی اردو ساہتیہ سنسار" نام سے ویب سائٹ کا ایجاد کیا جس کا پورٹل ایڈریس نیچے درج ہے۔
www.premnathbismil.com
ویب سائٹ کی شروعات ستمبر ٢٠٢٠ء میں کی گئی۔ پھر انھوں نے دوسری ویب سائٹ "بسمل جی اردو میں" کی شروعات اکتوبر ٢٠٢١ ء میں کی ہے۔ جسے آپ www.bismilji.com پر جا کر پڑھ سکتے ہیں۔
ان دونوں ویب سائٹ کے بانی و اڈیٹر "پریم ناتھ بسمل [اور] وینا کماری ہیں۔ ان کے ویب سائٹ بنانے کا مقصد شروع شروع میں صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے شعر و شاعری کو اپنے ویب سائٹ پر ڈال سکیں. کیونکہ وہ  اکثر اخباروں اور ویب سائٹ کے لیے اپنی غزلیں بھیجتے رہتے تھے جن کی اشاعت میں کافی تاخیر ہوتی تھی اور کچھ لوگ تو موقع دینا بھی بےکار سمجھتے تھے۔ پھر انھیں محسوس ہوا کہ ان کی طرح سے اور بھی بہت سے نئے لکھنے والوں کے لیے ایسی ہی دشواریاں ہوں گی لہذا اس کا کچھ راستہ نکالا جائے۔ اسی فکر کا نتیجہ اتر پردیش کے بارہ بنکی سے نکلنے والا ہفت روزہ اخبار صدائے بسمل بھی ہے۔ جس کے ایڈیٹر ذکی طارق بارہ بنکوی ہیں۔ اس اخبار کو جاری کرنے میں انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اخباروں کا معاملہ تو انھوں نے حل کر لیا تھا لیکن ویب سائٹ کا مسئلہ ابھی باقی تھا۔ آخر کار انھوں نے یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ میں اپنی ویب سائٹ خود بناؤں گا اور اس پر ویسے تمام لوگوں کی تخلیقات شائع کروں گا جن كو کہیں موقع نہیں ملتا ہے پھر انھوں نے ٩ ستمبر ۲۰۲۰ء کو پہلا ویب سائٹ ’’ہندی اردو ساہتیہ سنسار‘‘ بنایا اور اس پر تیزی سے پوسٹ کرنا شروع کر دیا لیکن اس ویب سائٹ میں بہت سی تکنیکی خامیاں تھیں اور اس کو ٹھیک کرنا بسمل صاحب کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ اس لیے نبلی صاحب نے موبائل فون کے ذریعے بسمل صاحب کی مدد کی اور انھوں نے اس ویب سائٹ میں کافی تبدیلی کی۔ تقریبا سال بھر تک دن رات محنت کرنے کے بعد ویب سائٹ پر ٹریفک آنا شروع ہو گیا۔ ابھی اس ویب سائٹ پر ڈیڑھ لاکھ کا ماہانہ ٹریفک ہے۔ اس ویب سائٹ پر زیادہ تر لوگ ہندستان سے ہی آتے ہیں. اس لیے اس پر آمدنی اتنی اچھی نہیں ہے پھر بھی ہر مہینے چالیس سے پچاس ڈالر کے بیچ آمدنی رہتی ہے. اس لیے کہ انڈیا کا سی پی سی کم رہتا ہے۔ ہندی اردو ساہتیہ سنسار اپنے آپ میں مکمل ویب سائٹ ہے پھر بھی الگ سے اردو کے لیے بسمل جی اردو میں بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اردو پڑھنے والے کو صرف اردو میں چیزیں دستیاب کرائی جاسکیں اور ہندی والے کو صرف ہندی میں. ویب سائٹ کے تعلق سے بسمل جی کا تجربہ یہ ہے کہ اسے مشغولیت کا ایک بہترین ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے. اس لیے کہ اس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو بھی لوگوں تک پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے اردو کی خدمت بہت زیادہ ہو رہی ہے مگر حاصل بہت کم ہے اس لیے اسے اکیلے نہیں ایک مکمل ٹیم بنا کر اس کام کو آگے بڑھایا جائے تو کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔

العزیز میڈیا سروس
العزیز میڈیا سروس کی شروعات چھ مارچ ٢٠٢١ کو ہوئی۔ اس کے بانی و ایڈمن عبدالرحیم صاحب ہیں۔ ان کے پیج بنانے کا مقصد اپنی تمام تحریروں کو یکجا اور محفوظ کرنا تھا۔ اور نئے قلم کاروں جن کی تحریریں اخبارات میں شائع نہیں ہوپاتی تھیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی مقصود تھا۔ دوسری خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ویسا نوجوان طبقہ جو شوشل میڈیا پر لا حاصل اپنا وقت ضایع کر دیتے ہیں اور آخرت کی فکر کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں ان کو اپنے پیج سے جوڑنا اور اردو ادب کی جانب ان کو رغبت حاصل کرانا بھی مقصود تھا۔ عبدالرحیم صاحب نے حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ کے مشورے کے بعد اپنے پیج کا نام اپنے پردادا حافظ عبدالعزیز صاحب مرحوم کی طرف منسوب کرکے العزیز میڈیا سروس رکھا ہے۔ ان کا ارادہ ویب سائٹ بنانے کا ہی تھا مگر اس پر خرچ ہونے والے اخراجات اور وسائل کی فراہمی نہیں ہونے پر انھوں نے اپنے ارادے کو ترک کردیا اور اسی نام سے فیس بک پر ہی”العزیز میڈیا سروس" پیج بنا ڈالا جو بہت کم ہی وقتوں میں مقبول بھی ہو گیا. انھوں نے بتایا کہ ابھی ٨١٥ مستقل فالورز موجود ہیں۔ ان کے پیج کے مضامین کو ہزاروں کی تعداد میں پڑھا جاتا ہے۔ ان کے پیج کے قارئین ملک کے ہر صوبے میں موجود ہیں حتیٰ کہ بیرونی ممالک پاکستان، سعودی عرب و برطانیہ میں بھی اس پیج کے قارئین موجود ہیں۔ اب الحمداللہ اسی نام سے انھوں نے ویب سائٹ بھی بنا لیا ہے لیکن وقت کی کمی اور یکسوئی نہیں ہونے کی وجہ کر ویب سائٹ پر وقت نہیں دے پارہے ہیں۔ ویسے عبدالرحیم صاحب میرے بہت ہی مخلص دوستوں میں سے ایک ہیں. میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ اپنے ویب سائٹ پر توجہ دیں. کم از کم دو گھنٹہ وقت ضرور دیں۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان شاءاللہ وقت نکالوں گا۔ عبدالرحیم صاحب کا میں بے حد مشکور و ممنون بھی ہوں کہ انھوں نے ہی زیادہ تر ویب سائٹ اور پورٹل تک میری رسائی کروائی ہے۔ جن جن لوگوں کا نمبر میرے پاس محفوظ نہیں تھا ان کا نمبر بھی دستیاب کرایا. اللہ انھیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
بقول ان کے یہ بھی واضح کر دوں کہ اس پیج سے اب تک تو اردو کی خدمت ہی ہوئی ہے حاصل تو کچھ نہیں ہوا ہے لیکن اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بڑے ادیبوں تک رسائی ممکن ہو سکی اور ان سے استفادہ بھی ہوا ہے. 
اب چند باتیں ایڈمن کے حوالے سے:
ان کا اصل نام عبدالرحیم اور قلمی نام عبدالرحیم برہولیاوی ہے۔ ان کے والد کا نام ڈاکٹڑ مولوی انور حسین ہے۔ موضع و پوسٹ برہولیا، وایا کنسی سمری، ضلع دربھنگہ، بہار ہے۔ بنیادی تعلیم ان کے والد ماجد کے قایم کردہ مدرسہ اسلامیہ برہولیا سے ہی ہوئی اس کے بعد میٹریکولیشن ہائی اسکول سمری سے کیا پھر انٹر میڈیٹ ملت کالج دربھنگہ شعبہ سائنس سے کرنے کے بعد "بی اے، ایم اے اردو" کورس للت ناراین متھلا یونی ورسٹی دربھنگہ سے کیا۔ ابھی نیٹ جے آر ایف کی تیاری جاری ہے۔

ذریعہ معاش کے لیے معھدالعلوم الاسلامیہ، چک چمیلی سراۓ، ویشالی میں مدرس ہیں. ساتھ ہی پرانی بازار سراۓ کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ادبی اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرنا آپ کو پسند ہے۔ آپ کے مضامین اور تبصرے بھی گاہے بہ گاہے ہندستان کے مشہور و معروف اردو روزنامہ، ویب سائٹ اور پورٹل پر آتے رہتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہمارے قارئین ہی ہماری دولت ہیں. سوشل میڈیا سروس کے ذریعہ اردو کے تحفظ اور اس کی بقا اور اس کی نشر اشاعت کا بڑا کام ہورہا ہے. 
اردو ویب سائٹ کو یقیناً ذریعۂ معاش بنایا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے مستقل محنت لگن جستجو اور ایمان دار دوست کی ایک ٹیم کا ہونا ضروری ہے۔

جہازی میڈیا
اس ویب سائٹ کا نام ہے جہازی میڈیا.کام اس کے ایڈیٹر ہیں محمد یاسین جہازی۔ ٢٦ چھبیس نومبر ٢٠١٨ کو اس ویب سائٹ کی شروعات کی گئی تھی جو مسلسل جاری ہے۔ اس سے کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہے توکل علی اللہ اصل سرمایہ ہے۔ بقول ایڈیٹر اس ویب سائٹ کو بنانے کے کئی مقاصد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
 ١ ۔ حق کی نمائندگی:
بالخصوص اردو میں اسلامیات کے حوالے سے کچھ سرچ کریں گے تو عام طور پر فرقہ ضالہ کی تحریریں سامنے آتی ہیں، کیوں کہ اس حوالے سے اہل حق ابھی تک بہت پیچھے ہیں، اس لیے جہازی میڈیا نے اس کمی پر غور کرتے ہوئے، اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی کوشش کی ہے، تاکہ اسلام کے بارے میں جاننے والوں کو صحیح، مستند اور معتبر رہ نمائی مل سکے۔
٢. تھنک ٹینک:
نیوز کے اخبارات اور پورٹل تو ان گنت ہیں، لیکن نظریاتی حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ اس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اور آپ بہ خوبی واقف ہیں کہ
قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پر زوال آتا ہے
اور اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ جس ملک، تنظیم، تحریک اور قیادت کے پاس جتنا تھنک ٹینک ہوتا ہے، وہ اتنی ہی تعمیر و ترقی میں آگے ہوتی ہے۔ تھنک ٹینک فکری و نظریاتی پالیسیاں طے کرتا ہے اور ادارے انھیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ آج امت مسلمہ کی زوال پذیری کی اہم وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے پاس عالمی تو دور، ملکی؛ بلکہ محلہ کی سطح پر بھی کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے، جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ ہر کوشش لاحاصل نظر آتی ہے۔ جہازی میڈیا کی کوشش یہ ہے کہ ایسے اہل بصیرت اور نبض شناس افراد کو تیار یا تلاش کیا جائے جو امت مسلمہ کے لیے تھنک ٹینک کا فریضہ انجام دیں۔
٣. چوں کہ اردو زبان اس کی بنیاد ہے، اس لیے اردو کی خدمت ہی اس کا اصل اثاثہ ہے۔
اس وقت سات ریاستوں میں جہازی میڈیا کے سب ایڈیٹرس کام کر رہے ہیں۔
چیف ایڈیٹر دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی سند حاصل چکے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد دہلی یونی ورسیٹی دہلی سے ماس میڈیا کورس بھی مکمل کیا ۔ ان کا پیشہ ہے جرنلزم اور ٹرانسلیشن۔
جمعیت علمائے ہند سے عملی وابستگی بھی ہے۔
جہازی میڈیا کے اہم اہم صفحات اور ان کے مخصوص مقاصد:
جہازی میڈیا کئی اہم صفحات کے توسط سے کام کر رہا ہے۔ ہر صفحہ کا مخصوص مقصد ہے، تفصیلات پیش ہیں:
(۱) اہم خبریں
گرچہ جہازی میڈیا فکری و نظریاتی مضامین پر بنیادی توجہ دیتا ہے، لیکن حالات پر نگاہ رکھنا بھی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے، اس لیے ضروری، بالخصوص ملی خبروں کی اشاعت کے لیے یہ پیج بنایا گیا ہے۔
(۲) انڈیا
اس پیج پر اپنے ملک عزیز کے مخصوص سیاسی، سماجی، اقتصادی اور دیگر شعبہ زندگی سے متعلق تحریریں اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
(۳) عالمی مسائل
کچھ مسائل ایسے ہیں، جو سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں، جیسے پولرائزیشن، دہشت گردی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی تحریروں کے لیے یہ پیج بنایا گیا ہے۔
(۴) مضامین
کچھ متفرق مضامین ایسے ہوتے ہیں، جن کے مجموعے پر کوئی ایک عنوان فٹ نہیں بیٹھتا، ایسے مختلف مسائل پر لکھی گئی تحریروں کو یہاں شامل کیا جاتا ہے۔
(۵) اسلامیات
خالص اسلامی موضوعات پر مشتمل تحریروں کے لیے یہ پیج مخصوص ہے۔ اس میں ان تحریروں کو اولیت دی جاتی ہے، جو عصری مسائل کے لیے اسلامی فارمولے پیش کرتی ہیں۔
(۶) فقہ و فتاویٰ
اس پیج میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔ اور اس کے لیے مستند مفتیان کرام کی ایک مستقل ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ جلد ازجلد جوابات قارئین تک پہنچائے جائیں، اس لیے جدید ٹکنالوجی کا سہارا لیا جارہا ہے۔
(۷) ننھے قلم کار
بہت سے اخبار و رسائل اپنے معیارات سے سمجھوتہ نہیں کرتے، کیوں کہ ان کے پاس ایسا متبادل آپشن نہیں ہوتا۔ جہازی میڈیا کی کوشش ہے کہ نوآموزوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک الگ پلیٹ فارم دے دیا جائے تاکہ معیار بھی برقرار رہے اور نوآموزوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوسکے۔ اس لیے ننھے قلم کار کے عنوان سے یہ پیج بنایا گیا ہے۔ اور ایسے قلم کاروں سے آگے آنے کی گذارش کرتا ہے۔
(۸) زبان و ادب
یہ پیج زبان و ادب اور ادبی مضامین کے لیے مخصوص ہے۔
(۹) ملٹی میڈیا
اس میں دو ذیلی صفحات ہیں: (۱) تصاویر۔ (۲) ویڈیوز۔
جہازی میڈیا اس پیج پر جو بھی تصاویر اپ لوڈ کرتا ہے وہ گوگل امیج سے لنک ہوجاتا ہے، جہاں اپنی تصاویر تلاش کرسکتے ہیں۔ ویڈیوز کو یوٹیوب چینل سے اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ آپ اپنا ویڈیوز اپ لوڈ کرانے کے لیے جہازی میڈیا کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ غیر شرعی ویڈیوز جہازی میڈیا اپ لوڈ نہیں کرتا.
(۱۰) کتابیں
اہم اہم کتابیں اس پیج پر آپ لوڈ کی جاتی ہیں جنھیں بس ایک کلک پر پڑھ سکتے ہیں، ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی تحفہ میں پیش کرسکتے ہیں۔
(۱۱) جہازی میڈیا آپ کی ریاست میں
جہازی میڈیا باہمی تعاون کے جذبہ کے پیش نظر وسیع پیمانے پر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے، اس لیے کوشش یہ ہے کہ اکثر ریاستوں سے کام شروع کیا جائے۔ الحمد للہ اب تک گیارہ صوبوں میں جہازی میڈیا قائم ہوچکا ہے۔ اور دیگر ریاستوں میں بھی پہنچنے کی کوشش جاری ہے۔

قومی ترجمان:
قومی ترجمان بھی ادب کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے۔
"قومی ترجمان" پورٹل کا آغاز فروری 2020ء میں تب ہوا جب قومی سطح پر ملک کے با شعور شہری ” سی، اے، اے اور این، آر،سی جیسے کالے قوانین کے خلاف ملک بھر میں دھرنا پردرشن، احتجاج و مظاہرہ کر رہے تھے تبھی ” اسجد راہی" صاحب نے ویب سائٹ کھولنے کے بارے میں سوچا اور اپنے احباب میں اس کا تذکرہ کیا۔ کئی افراد نے حد درجہ حوصلہ افزائی کی، شاید کرم فرماؤں کی انہی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں قومی ترجمان پورٹل منظرِ پر عام لایا جا سکا۔
در اصل ٢٠٢٠ء میں حکومتی اداروں کے ذریعے جب مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جانے لگا ” این،آر، سی اور سی، اے، اے" جیسے قوانین نافذ کرنے کی باتیں کی جانے لگیں، جس کے نتیجے میں ملکی سطح پر شہر در شہر احتجاج و مظاہرے ہونے لگے تو اسی وقت اسجد راہی صاحب کے ذہن میں یہ بات آئی کہ، کیوں نہ کوئی ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے قوم کی آواز بہتر طریقے سے اٹھائی جا سکے، جس سے قوم کی ترجمانی بھی ہو اور رہ نمائی بھی۔ ان ہی سب خیالوں کے درمیان انھیں پورٹل کے نام کو لے کر بےچینی تھی کہ نام کیا رکھا جائے جو جامع ہو اور با معنی بھی، کئی نام پر غور و فکر کرنے کے بعد بالآخر "قومی ترجمان" کے نام کو تسلیم کر لیا۔
اسجد راہی صاحب نے شروع میں خود ہی پورٹل بنانے کی جانب پیش قدمی کر دی نتیجتاً تین چار دنوں میں ایک بے ترتیب پورٹل وجود میں آ گیا اور انھوں نے خدمات شروع کر دیں۔ بعد میں چند ایک افراد نے خلوص کے ساتھ دست تعاون دراز کیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب ایک خوب صورت ویب پورٹل "قومی ترجمان" کی شکل میں وجود میں آ گیا۔ شروعات میں انھیں بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم دھیرے دھیرے بہت کچھ سیکھتے گئے اور اب الحمدللہ سب بہتر چل رہا ہے۔
ویب سائٹ یا پورٹل سے خوش کن اور مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ بقول اسجد راہی اب تک انھیں ویب سائٹ سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ بس ویب سائٹ، پورٹل کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔ خدمت سمجھ کر اسے انجام دے رہے ہیں. انھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ قومی ترجمان کی جانب سے اپنے کسی بھی ایڈیٹر کو اب تک کچھ بھی نہیں دے رہا ہوں، پھر بھی تمام ایڈیٹر خلوص کے ساتھ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ قومی ترجمان میں خدمت انجام دے رہے ایڈیٹر کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
اسجد راہی چیف ایڈیٹر کشن گنج مقیم حال مظفرپور
مولانا نظام الدین ندوی، سمستی پور
قاری محمد مصطفی، سمستی پور،
رفیع ساگر دربھنگہ
مولانا عبدالرحیم برہولیاوی سرائے ویشالی،
مولانا عین الحق امینی قاسمی ییگوسرائے
قمر اعظم صدیقی حاجی پور، ویشالی
اسجد راہی کا ماننا ہے کہ
ویب سائٹ یا پورٹل کو پیشہ ورانہ طور پر اپنایا جا سکتا ہے لیکن چیلنجز بے شمار ہو سکتے ہیں۔ پورٹل کی ضرورت و اہمیت کے تعلق سے ان کا نظریہ یہ ہے کہ
دور حاضر میں بیشتر چیزوں کا ڈیجیٹی لائیزیشن ہو رہا ہے، برقی اور آن لائن امور انجام دیے جارہے ہیں۔ ہندی، انگریزی ویب سائٹس اور پورٹل کا ایک جال پھیل چکا ہے۔ اردو کا دائرہ کار صرف پرنٹ میڈیا سے محدود ہوتا نظر آرہا ہے، ایسے میں اردو ویب سائٹس اور پورٹل کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی پیغام رسانی سہل ہو اور زبان کا فروغ و ترقی ممکن ہو سکے۔
اسجد راہی چونکہ قومی ترجمان کے بانی بھی ہیں اور چیف اڈیٹر بھی ہیں اس لیے مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں:
آپ کا پورا نام محمد اسجد عالم،
قلمی نام: اسجد راہی، والد کا نام محمد مصلح الدین اور آبائی وطن کشن گنج ہے۔ تعلیمی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
تکمیل حفظ قرآن و قرات
فارسی تا عربی دوئم (مدرسہ نظامیہ)
مولوی: (درس عالیہ)،
ڈپلومہ ان ایلیمنٹری ایجوکیشن (بی، ایس، ای، بی، پٹنہ)،
ٹی, ای, ٹی کوالی فائیڈ (اردو بنگلہ)،
سی، ٹی،ای،ٹی کوالی فائیڈ (سی،بی،ایس،ای،دہلی)،
گریجویشن: مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد،
ایم اے: للت نارائن متھلا یونی ورسٹی دربھنگہ (جاری)
مشغولیت: پرائمری اسکول میں بحیثیت اردو ٹیچر مامور (٢٠١٠-٢٠٢٢)

اشتراک ڈاٹ کام:
اشتراک ڈاٹ کام صرف اور صرف اردو قارئین تک صالح ادب پہنچانے کا خواہاں ہے۔ اس کا کسی تحریک سے کسی ازم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اتنی ساری ادبی ویب سائٹس کے ہوتے ہوئے بھی اشتراک ڈاٹ کام کی ضرورت کیوں پڑی؟
بقول طیب فرقانی ” اردو زبان و ادب کو بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان کی ضرورت نہیں ہے. اس کی پہچان اور اس کی دھوم سارے جہاں میں ہے. لیکن ہر آواز کی شدت و توانائی ایک جیسی نہیں ہوتی. ہر علاقے کی اور وقت کی ضرورت الگ الگ ہے۔
کتنی ہی آوازیں نامانوس علاقوں کی وجہ سے دم توڑ دیتی ہیں. کتنی ہی آوازوں کو وقت کی دھول دبا گئی. اس لیے جب حرکت میں برکت ہے تو برکت سے کیوں محروم رہا جائے۔
ادب ایک مشغلہ بھی ہے، اظہار ذات کا ذریعہ بھی اور زندگی کی تنقید بھی۔ صحافت ایک مشغلہ تو ہے لیکن اظہار ذات اور زندگی کی روح سے خالی. اس لیے میرے لکھنے کا سفر جو صحافت اخبار سے شروع ہوا اب اشتراک جیسے ادبی پورٹل تک پہنچا۔"
طیب فرقانی نے کئی مہینے صحافت اخبار کے ایک ہندی رپورٹر کے ساتھ کام کیا۔ وہ ہندی رپورٹ کو اردو میں لکھتے تھے۔ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وال میگزین کے ایک ٹرم ایڈیٹر بھی رہے ہیں ۔ (٢٠١٠-٢٠١١ء) میں کئی مہینوں تک انھوں نے بصیرت آن لائن کے لیے خبریں بھی لکھیں ہیں۔ اس دوران وہ اتر دیناج پور سے بحیثیت بیورو چیف کام کرتے تھے۔ کئی سالوں سے انھوں نے بلاگ بنا رکھا تھا لیکن ان سب سے مطمئن نہیں تھے اس لیے اگلی منزل کے طور پر انھوں نے اشتراک ڈاٹ کام کو اپنایا اور اس طرح (١٧ اکتوبر ٢٠٢٠ ء) کو سیمانچل کے ادیبوں اور شاعروں کی موجودگی میں اس ویب سائٹ کا اجرا ہوگیا۔ سیمانچل میں اردو ادب کی ماہر اور چنچل شخصیت احسان قاسمی کے ہاتھوں لیپ ٹاپ پہ ماؤس کلک کرکے پہلی بار عوامی طور پر اس ویب سائٹ کو دیکھا بھی گیا۔
اشتراک کے اجرا کے موقع پر ایک ادبی نشست رکھی گئی جس میں علاقے کے معزز شعراے کرام شامل ہوئے۔
اشتراک مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اشتراک اپنے سبھی قلم کاروں، ادیبوں، افسانہ نگاروں اور شاعروں کا شکریہ ادا کرتا ہے جنھوں نے اپنا دست تعاون دراز کیا اور اشتراک کو اعتبار بخشا، اسے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا. طیب فرقانی کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ ہماری منزل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مزید محنت کرنی ہے. معیار بلند کرنا ہے اور زبان و املا پہ خاص توجہ دینا ہے. فی الوقت جہاں تک وہ پہنچے ہیں اس منزل تک پہنچانے میں جن خاص لوگوں نے ان کی مدد کی وہ ان کے بھی شکر گزار ہیں۔
چند باتیں ویب سائٹ کے بانی کے تعلق سے:
ان کا اصل نام محمد طیب علی اور قلمی نام طیب فرقانی ہے۔ آپ کی تعلیمی لیاقت ایم فل اردو ہے،
پی ایچ ڈی کا سلسلہ جاری ہے۔
درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کا آبائی وطن جین خرد، مظفرپور، بہار ہے۔

بلاغ ١٨ ڈاٹ کام:
بلاغ ١٨ ڈاٹ کام کے بانی و ایڈیٹر جناب عبدالوہاب قاسمی صاحب ہیں۔ اس ویب سائٹ کو اردو کی ترویج و ترقی کے مقصد سے کھولا گیا ہے جس میں تخلیقات و تنقیدات، ادب کی مختلف اصناف کے ساتھ ساتھ معاصر دنیا کی صورت حال کو ترجیحی طور پر شایع کیا جاتا ہے۔ مثبت اور تعمیری فروغ اس کے منشورات میں شامل ہے۔ عبدالوہاب صاحب نہ صرف نئے قلم کاروں کو جگہ دیتے ہیں بلکہ نئے پرانے تمام قلم کاروں کے لیے ایک خوب صورت ٹائٹل پیج بھی بناتے ہیں جس میں قلم کار کے تعلق سے مختصر خاکہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ کم وقتوں میں اس ویب سائٹ نے ادبی دنیا میں اپنی ایک پہچان بنا لی ہے جس پر بڑے ادیبوں اور قلم کاروں کے بھی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے بانی عبدالوہاب قاسمی صاحب نے دیوبند سے فراغت کے بعد خود کو درس و تدریس سے منسلک رکھا ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ابتدا میں انھوں نے کئی دینی اور اصلاحی مضامین لکھے پھر تنقید کی طرف قدم بڑھایا۔ حال ہی میں ” ظفر کمالی کی گیارہ طنزیہ نظمیں: ایک تجزیاتی مطالعہ مع متن" کے نام سے ان کی کتاب منظر عام پر آئی ہے اور ان کی دوسری کتاب بھی زیر ترتیب ہے۔ اس ویب سائٹ کا میل آئی ڈی ہے۔ iinfo@balagh18.com

ہماری آواز:
اس ویب سائٹ کا نام ہماری آواز ہے جس کے چیف ایڈیٹر محمد شعیب رضا ہیں اور سب ایڈیٹر کی حیثیت سے محمد قمر انجم قادری، اعزازی ایڈیٹر نعیم الدین فیضی ہیں جب کہ مینیجنگ ایڈیٹر نثار احمد نظامی ہیں۔ گوشہ خواتین ایڈیٹر کی ذمہ داری ہما اکبر آفرین نبھا رہی ہیں۔ اس کاویب ایڈریس درج ہے۔ www.hamariaawaz.com
ویب سائٹ ہماری آواز کا خاکہ تو شعیب رضا نے زمانہ طالب علمی ٢٠١٧ء سے ہی ذہن میں بنا رکھا تھا مگر اس وقت ایک دینی مدرسہ میں اس فکر کو وسعت دینا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ فراغت کے تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد انھوں نے اس خاکہ کو عملی جامہ پہنانے میں صرف اور صرف اتنا کر پائے کہ گوگل کے زیر اختیار ایک بلاگ بنا کر اس پر نہ چاہتے ہوئے بھی خود کے چند مضامین شایع کر دیے۔ دوسرے لوگ اس سے متعارف بھی نہ تھے اس لیے ان کی تحریریں ان ڈھائی سالوں میں نہیں آپائیں، صرف انہوں نے اپنی فکر کو پروان چڑھایا۔ اسی درمیان انھوں نے اپنی دل چسپی تصنیف و تالیف سے بڑھا لی اور تقریباً درجن بھر کتابیں وجود میں آگئیں جن میں نصف درجن کتابوں کا ایک ساتھ رسم اجرا اپریل ٢٠١٩ء میں ہوا۔ اس دوران شعیب رضا صاحب نے واٹس ایپ پر درس حدیث کے ایک سلسلہ کا آغاز کیا جو کافی مقبول رہا، عربی متن و سند حدیث، تخریج حدیث، اردو انگریزی ترجمہ، تشریح حدیث نے ایسی مقبولیت دلائی کہ بیک وقت ہندوپاک کے ١٠٠ سے زائد گروپ ایڈمنز نے انھیں اپنے گروپ میں شیئر کرنے کی خواہش ظاہر کی اور یوں علمی اور ادبی دنیا میں ان کا تعارف ہوا. تقریباً ٨٣ قسطوں کے بعد یہ سلسلہ بابری مسجد فیصلہ کے وقت یوں متاثر ہوا کہ انھوں نے ان سب سے اپنا ناطہ توڑ لیا۔ ٣٠ مارچ کو دوبارہ انھوں نے ہماری آواز کو لانچ کرنے کا عزم کیا اور اہل قلم سے اپنے گراں قدر مضامین بھیجنے کی اپیل کی۔ چوں کہ درس حدیث کے سلسلہ اور اخبارات میں نئے نئے اور حالات حاضرہ پر بےباک مضامین لکھنے سے علمی اور ادبی دنیا میں انھیں ایک حد تک شہرت مل چکی تھی اس لیے مضامین آنے شروع ہوگئے۔
مضامین کی اشاعت سے شعیب رضا صاحب کے فکر کو وسعت مل رہی تھی، ارباب لوح و قلم کو ایک نیا پلیٹ فارم مل چکا تھا وہیں نئے قلم کاروں کو اپنی تحریریں شائع کرانے اور قلمی مشق کرنے کا خوب صورت موقع مل چکا تھا، اس لیے سب کچھ اچھے سے چل رہا تھا۔مگر اسی دوران ویب سائٹ کمپنی کی جانب سے دغا بازی کی گئی جس سے سب محنت بےکار ہوگئی۔ خیر انھوں نے نئی امنگ اور جوش کے ساتھ اس بار اپنی ہوسٹنگ خریدی اور نیا ڈومین بھی اور ایک مسلم ویب ڈیزائنر کو تلاش کرکے اس کو ڈیزائن کرنے کے لیے دے دیا۔ ان کی فیس تو کافی تھی مگر ایک مسلم ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد تصور کرتے ہوئے انھیں ذمہ داری سونپ دی مگر اس معاملہ میں انھیں اپنی کم علمی کو لے کر یہ فیصلہ لینا پڑا کہ کسی بھی طرح ویب سائٹ ڈیزائننگ کے رموز و اوقاف سے واقفیت حاصل کرنی ہے۔ ان کے ایک مخلص دوست نے انھیں بنیادی باتیں سکھا دی اور جب کبھی ضرورت پڑتی تو ان سے استفادہ کر لیتے الحمدللہ لگن ایسی تھی کہ بہت ہی کم وقت میں ویب ڈیزائننگ میں ماہر تو نہ ہو سکے مگر اچھی جان کاری ہوگئی۔ اور "ہماری آواز" جو اب تک صرف اردو میں تھا اب ہندی زبان میں بھی اپنی خدمات پیش کرنے لگی۔
وقت کے ساتھ لوگ بھی جڑتے گئے اور ایک مختصر سی ٹیم بنا لی۔ ان کے اس کام میں ان کی ہمشیرہ محترمہ ہما آفرین صاحبہ نے کافی وقت دینا شروع کردیا اور اب ہر موڑ پر ان کا ساتھ مسلسل جاری ہے۔ چوں کہ شعیب رضا صاحب ایک دینی(پرائیویٹ)مدرسہ میں ملازم ہیں اس لیے ویب ڈیزائننگ کو خارجی ذریعہ معاش بھی بنانا پڑا. الحمدللہ اب تک ۸ سے ١٠ ویب سائٹ دوسرے لوگوں کے بنا چکے ہیں اور جو دغا بازی ان کے ساتھ ہوئی تھی انھوں نے کسی کے ساتھ ویسا نہیں کیا. اب الحمدللہ ہماری آواز قوم مسلم کی ایک بلند اور مضبوط آواز بنتی جارہی ہے۔
ویب سائٹ کو ذریعہ معاش بنانے کے حوالے سے ان کا تجربہ یہ ہے کہ اس سے آمدنی کا ایک ہی ذریعہ سمجھ میں آتا ہے وہ ہے اشتہار، لیکن اشتہار کے حوالے سے بھی مقامی لوگوں کا رجحان اب اردو میں نہیں رہتا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا سے کاروباری لوگوں کو جوڑنا بڑا مشکل ترین امر ہے۔ البتہ گوگل کے شعبہ اشتہار "گوگل ایڈسنس" سے آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے ہماری آواز جیسی نئی ویب سائٹس ٢٠ سے ٣٠ ڈالرز ماہانہ آمدنی کر پا رہی ہے۔ لیکن مستقبل میں اضافہ کے وسیع امکانات ہیں۔
اب مختصراً ویب سائٹ کے بانی کے تعلق سے بھی جان لیں:
ان کا مکمل نام محمد شعیب رضا نظامی فیضی ہے۔ آپ وارڈ نمبر ۱ گولا بازار، ضلع گورکھ پور، یوپی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ نے فاضل تک کی تعلیم یو پی مدرسہ بورڈ سے کی ہے۔ ابھی دین دیال اپادھیایہ یونی ورسٹی گورکھ پور سے بی۔اے سال اول میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔
ذریعہ معاش کے لیے تدریسی خدمات اور ویب ڈیزائننگ کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔

اڑان نیوز: 
پورٹل کا نام اڑان نیوز ہے جو اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں بنایا گیا ہے۔ اس کے بانی عبید نظام صاحب ہیں۔ اس کے سرپرست جناب فیصل اقبال عبدالماجد صاحب ہیں اور گروپ ایڈیٹر عبید نظام صاحب، معاون گروپ ایڈیٹر کی حیثیت سے نعمت اللہ ثناء اللہ صاحب ہیں۔ بقول عبید نظام صاحب ویب سائٹ کے نتائج امید کے مطابق نہیں ہوئے لیکن امید کے بالکل برعکس بھی نہیں ہوئے۔ اس کی خاص وجہ یہ رہی کہ سوشل میڈیا اور خاص طور پر فیس بک کے بہت محدود وسائل اور فنڈ کی کمی سے بھی انھیں جوجھنا پڑا جس کی وجہ سے انھیں وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ انھوں نے پورٹل کی دنیا میں ایک مقام ضرور حاصل کیا ہے۔ ان کے پورٹل پر ہندوستان کے تمام صوبے سے قارئین کرام موجود ہیں۔
انھوں نے روز اول سے ہی خبروں سے زیادہ خیالات، مضامین، افکار کو اہمیت دی اور نئے لکھنے والوں کو جگہ دی جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلا۔
اردو کی ویب سائٹ کے حوالے سے ان کا ماننا ہے کہ اس کو ذریعہ معاش سے جوڑا جا سکتا ہے اور اس کو جوڑنا بھی چاہیے لیکن یہ کام آسان نہیں ہے کیوں کہ اس میں کافی محنت اور صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ اور اردو والوں کا ایک مجموعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم محنت سے فرار چاہتے ہیں۔ عبید نظام صاحب کہتے ہیں کہ ویب سائٹ ہمارے لیے ایک بہتر قدم ثابت ہوا اور اس کے ذریعہ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا، سمجھا۔ دراصل ویب سائٹ اردو زبان کی خدمت کے لیے بنائی گئی تھی نہ کے ذریعہ معاش کے لیے۔ بلکہ اس کا مقصد تھا صرف اور صرف قوم اور ملت کی خدمت کا ایک جذبہ، جو دینی درس گاہوں میں دلوں میں بیٹھ جاتا ہے۔ زبان کی خدمت اردو زبان کے عام قارئین کرتے ہیں نہ کے ہم جیسے لوگ۔ پھر بھی اگر ہم سے اردو زبان کی کوئی خدمت ہو رہی ہو یا ہماری وجہ سے ایک بھی شخص اردو روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھ رہا ہو تو یہ ہماری کامیابی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔"
عبید نظام صاحب اپنی ویب سائٹ کے حوالے سے بہت ہی پر امید ہیں اور لگاتار اس کوشش میں ہیں کہ اس کو نئی اونچائی تک پہنچا سکیں، اس کے مقاصد کو حاصل کرسکیں اور ایک منظم شکل میں کام کر سکیں۔
اب مختصراً ویب سائٹ کے بانی کے حوالے سے:
ان کا اصل نام محمد عبید اور قلمی نام عبید نظام ہے۔ ان کے والد کا نام محمد نظام الدین ہے۔ آبائی وطن رام پور اوگن، موتی پور، مظفرپور، بہار ہے۔ ان کی بنیادی تعلیم گاؤں کے مدرسہ” تنظیم العلوم رام پور اوگن" میں ہوئی ہے. اس کے بعد انھوں نے ہندستان کی مشہور و معروف دینی درس گاہ جامعہ امام ابن تیمیہ سے سند فراغت حاصل کی ہے۔
دوران تعلیم بہار اسکول ایگزامنیشن بورڈ پٹنہ سے سنہ ٢٠١١ میں میٹرک (دوسری پوزیشن) اور ٢٠١٣ میں آرٹس سے انٹرمیڈیٹ (پہلی پوزیشن) مکمل کی، ساتھ ہی بہار مدرسہ بورڈ سے ٢٠٠٨ سے وسطانیہ کا امتحان دیکر بتدریج سلسلہ جاری رکھا اور الحمد للہ سنہ ٢٠١٥ میں عالم کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی اے اردو میں داخلہ ہونے اور دو سال پڑھنے کے بعد کچھ مشکلات اور صحت کے مسائل کی وجہ سے پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت ایم اے اردو بھی مکمل ہو گیا ہے۔ اب ان کی مشغولیت یہ ہے کہ اپنے آبائی گاؤں میں ہی ایک کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں، یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔

صدائے وقت:
” صدائے وقت" کے بانی ڈاکٹر شرف الدین اعظمی ہیں۔ ان کا آبائی وطن اعظم گڑھ اتر پردیش ہے۔ آپ نے” بی یو ایم ایم ایس" کی تعلیم اے ایم یو علی گڑھ سے حاصل کی۔ آپ کا اپنا نرسنگ ہوم ہے جس میں آپ میڈیکل پریکٹس کرتے ہیں۔ آپ کو صحافت، سیاست اور سماجی خدمت میں بھی کافی دل چسپی ہے۔ کئی ایک سماجی تنظیموں سے منسلک بھی ہیں۔
صحافت کا شوق شروع سے رہا مگر باقاعدہ طور پر صحافت کی شروعات ٢٠٠٣ء میں کی۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا سے منسلک رہ کر ضلع جونپور کی نمائندگی کر رہے تھے، بعد میں اعظم گڑھ یونٹ کے چیف ہیڈ رہے۔ ذمہ داریوں کے بڑھنے اور کمپنی کے ذریعہ اردو والوں کے استحصال کی وجہ سے سہارا کو خیر باد کہہ دیا۔ ٢٠١٩ سے نیوز پورٹل صدائے وقت چلا رہے ہیں۔ انھوں نے روزی روٹی کا ذریعہ اسے نہیں بنایا ہے۔ صرف اردو کی خدمت اور ایسے خیالات جو قوم و ملت کے لیے مفید ہوں اسے عوام تک پہنچانے کی غرض سے یہ ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
"صدائے وقت" کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر شرف الدین اعظمی خود ہی ہیں۔ اس میں مقامی، قومی، بین الاقوامی خبریں، ملکی حالات پر تبصرے، سیاسی تجزیے، کھیل کود، اسلامی معلومات، فن و ادب پر مضامین شائع ہوتے ہیں. الحمد اللہ قارئین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور تقریباً ۲۲ ملکوں میں کم و بیش قارئین موجود ہیں. پورٹل صدائے وقت انڈونیشیا میں بہت پاپولر ہے. ہندستان کے ہر کونے میں اس کے قارئین مو جود ہیں۔ڈاکٹر شرف الدین صاحب کا ماننا ہے کہ نیوز پورٹل کو روزی روٹی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ اور بہت سے صحافی اس کام میں لگے بھی ہیں۔ سوشل میڈیا آج بہت مضبوط و مقبول پلیٹ فارم ہے۔ اس سے منسلک ہوکر یا اپنی ویب سائٹ بنا کر خود کو بھی اور دوسروں کو بھی روزی روٹی سے جوڑا جا سکتا ہے۔

ساحل آن لائن:
بھٹکل سے چلنے والا یہ ویب سائٹ مینگلور سے لے کر گوا تک قریب چھ سو کیلو میٹر کے ساحلی علاقے میں جہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں، ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔ ان علاقوں کے مسلمانوں کی زبان اُردو ہے مگر اُردو صرف بول چال کی حد تک محدود تھی اور اس علاقہ کے مسلمان مقامی کنڑا اخبارات پر ہی منحصر تھے۔ اور کنڑا اخبارات کے ذریعہ مسلمانوں کا استحصال کرنے کا کام کیا جا رہا تھا، تبھی ویسی صورت میں سنہ ٢٠٠٠ء میں ساحل آن لائن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور پھر اس کے ذریعہ مسلمانوں کو جوڑنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔  کچھ عرصہ بعد ساحل آن لائن کا انگریزی و کنڑا نیوز پورٹل بھی شروع کیا گیا۔ الحمداللہ ساحلی علاقوں کے مسلم عوام کے لیے آج ساحل آن لائن تحریک کی مانند ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلمانوں میں بھی یہ ویب سائٹ معروف ہے اور ایک معتبر ویب سائٹ کے زمرے میں جانا جاتا ہے۔
اس کا میل آئی ڈی ہے۔
sahildaily@gmail.com
اور اس کا ویب سائٹ ہے۔
http://sahilonline.net

فکر و خبر:
فکر و خبر صرف ایک پورٹل ہی نہیں بلکہ ایک ایسا ادارہ ہے جو آن لائن خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس پورٹل کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں بھٹکل شہر کے علماے کرام موجود ہیں اور ان ہی علما کی سرپرستی میں اردو انگریزی زبان میں یہ پورٹل اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہاں ملکی، عالمی، خلیجی، ساحلی خبروں کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی تازہ ترین خبریں بھی شائع ہوتی ہیں۔ نیز موجودہ حالات پر تازہ ترین تبصرے اور معلوماتی، فکری، اصلاحی، ادبی، اور تعمیری مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔
"فکرو خبر" کی بنیاد سنہ ٢٠١٢ء میں مولانا سید ہاشم نظام ندوی صاحب نے اپنے رفقا کے ساتھ رکھی تھی جو کہ اس وقت ایڈیٹر ان چیف کے عہدے پر فائز بھی ہیں۔
اس ادارے کے پہلے صدر سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور سابق امام و خطیب جامع مسجد بھٹکل حضرت مولانا عبد الباری ندوی رحمۃ اللہ علیہ تھے اور اس کے موجودہ صدر مولانا محمد الیاس احمد ندوی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد صحافت کے ذریعہ سچا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے اور جدید سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دعوتی فرائض انجام دینا ہے، ساتھ ہی ساتھ علماے کرام کو صحافت کے میدان میں لانے کی کوشش بھی ہے جس سے کہ اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں آ سکے۔ نیز لوگوں کی دینی ضروریات کے پیش نظر فقہی مسائل، آداب و فضائل، درس قرآن اور ہفتہ واری خصوصی پروگرام سچی بات جیسے پروگرام کا انعقاد کر کے ہر فرد کے موبائل اسکرین تک پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس ادارے کا ایک اہم شعبہ فقہ شافعی کا ہے جس کے ذمہ دار مولانا عبد النور ندوی صاحب، مولانا مفتی فیاض احمد برمارے حسینی اور مولانا سید ابراہیم اظہر برماور ندوی ہیں۔
مولانا عبد النور ندوی صاحب جماعت المسلمین بھٹکل کے نائب قاضی دوم کے باوقار عہدے پر فائز ہیں جو وہاں کی مقامی زبان نوائطی میں امچے مسائل (ہمارے مسائل) کے نام سے ایک پروگرام کو کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
اس ادارے کا یوٹیوب چینل”فکر و خبر" کے نام سے چل رہا ہے اور ادارے سے منسلک علماے کرام ہی ویڈیو نیوز کو تیار کرتے ہیں۔
مولانا عتیق الرحمن ندوی صاحب نیوز شعبہ کے ذمہ دار ہیں اور ان کے معاون مولانا رضوان احمد ندوی صاحب ہیں جو کہ "فکر و خبر" کی ابتدا سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس ادارہ کا ایک اور شعبہ "اسلامی افکار" کے نام سے بھی چلایا جاتا ہے جس میں درس قران، درس حدیث، شہر بھٹکل کی جمعہ مساجد کے خطبے اور بیانات، دیگر اہم بیانات، حرمین شریفین کے خطبے اور اس کا اردو ترجمہ، اسلامی افکار، فقہی مسائل، فقہی شافعی مسائل کے سوال و جواب، اہم دینی موضوعات پر مختصر آڈیو، اللہ کی طرف متوجہ کرنے والا رمضان، ایک منٹ کا سبق، مسنون دعائیں اور اوقات الصلاۃ جیسے اہم موضوعات پر مواد موجود ہیں، جو لوگوں کی رہ نمائی کے لیے ہر وقت دستیاب ہے۔ جس کے ذمہ دار جناب فضل الرحمن صاحب ہیں۔

اسٹار نیوز ٹوڈے:
اسٹار نیوز ٹوڈے کی ابتدا سنہ ٢٠١٥ء میں ہوئی۔ اس کے بانی و چیف اڈیٹر محمدنوشاد عثمانی صاحب ہیں، جب کہ نقاش نائطی صاحب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ایڈیٹر خواتین و اطفال [کی ذمہ داری] کو بخوبی محترمہ تبسم منظور ناڈکر صاحبہ نبھا رہی ہیں۔ جناب منور حسین خان صاحب بھی اپنی ذمہ داری بحیثیت نائب ایڈیٹر اطفال بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
محمد نوشاد عثمانی صاحب خود صحافی بھی ہیں، پیشے کے اعتبار سے وہ ایک ٹیچر ہیں۔ صحافت ان کا پیشہ نہیں بلکہ مشن ہے۔ صحافت کے میدان میں قدم رکھنے کا ان کا مقصد صرف اور صرف اردو کے لیے کچھ کر سکنے کا جذبہ اور ان نئی نسلوں کے لیے ایک پلیٹ فارم تیار کرنا تھا۔ بقول نوشاد عثمانی صاحب جو اردو داں طبقہ اس میدان میں اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں مگر اردو والوں کا درد یہ ہے کہ تعاون یا سپورٹ نہیں مل پاتا جس کے باعث یہ پلیٹ فارم دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے اس لیے انہوں نے ٢٠١٥ میں اپنے ویب سائٹ کی شروعات اردو اور ہندی سے کی تھی اور آج بھی رواں دواں ہے. مگر شدت کے ساتھ نہیں. گرچہ ان سات سالہ سفر میں کسی بھی طرح کا تعاون کسی سے نہیں لیا اور نہ ہی کسی نے دیا ہے۔ ان کے ویب سائٹ کے مضامین کو پڑھنے کے لیے آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
www.urdu.starnews.today

آئی این اے نیوز:
آئی این اے نیوز "اتحاد نیوز اعظم گڑھ" کے بانی عاصم طاہر اعظمی قاسمی اور حافظ محمد ثاقب اعظمی ہیں۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے عاصم طاہر صاحب خود ہی موجود ہیں۔ انھوں نے دوران طالب علمی ہی سنہ ٢٠١٧ء میں اپنے ہی مضامین کو اشاعت کی غرض سے اس پورٹل کو کھولنے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ ان کی خود کی تخلیق کو دوسری جگہ شائع کرانے میں دشواری کا سامنا تھا، تبھی انھوں نے اپنے دوست حافظ محمد ثاقب کے مشورے سے اس پورٹل کا آغاز کیا، جس میں حافظ محمد ثاقب صاحب نیوز کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ نیوز کے میڈیا مینیجر کی ذمہ داری علی اشہد اعظمی صاحب کے ہاتھوں میں ہے۔ بہت ہی کم وقت میں ہر عام و خاص میں یہ پورٹل مقبول ہوگیا. اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ تمام قلم کاروں کے مضامین کو شائع کرنا، بریکنگ خبروں پر مستعدی سے نظر رکھنا، ان کی اولین ذمہ داری تھی۔ تقریباً تین سالوں تک پورٹل پر خبر و مضامین شیئر ہوتے رہے اور اس طرح قارئین کی تعداد کم از کم چھ لاکھ تک ہو گئی۔ بعد میں پھر انھوں نے نیوز کے لیے باقاعدہ آئی این اے نیوز ڈاٹ لائیو ڈومین لیا، وہی اب تک رواں دواں ہے۔
عاصم طاہر صاحب کے تجربے کے مطابق ویب سائٹ ان کے لیے بہتر قدم ثابت ہوا کیوں کہ الحمد اللہ وہ اپنے مقصد میں حتی الامکان کامیاب رہے۔ شروع میں وہ بحیثیت ایڈیٹر کالم بھی لکھتے تھے اور ملک و بیرون ملک کی مشہور ویب سائٹس، اخبارات میگزین میں پابندی سے کالم شائع بھی کراتے رہے۔
ویب سائٹ محض اردو کی ترویج و اشاعت کی غرض سے چلاتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ویب سائٹ کو ذریعہ معاش سے جوڑا جاسکتا ہے لیکن انھوں نے اپنے ویب سائٹ کو اس مقصد کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔
عاصم طاہر اعظمی صاحب نے دارالعلوم وقف دیوبند کے شعبہ بحث و تحقیق حجتہ الاسلام اکیڈمی سے مضمون نگاری، مقالہ نویسی کی تعلیم حاصل کی ہے۔

الہلال میڈیا ڈاٹ کام:
الہلال میڈیا ڈاٹ کام کی شروعات ٢٠١٨ء میں کی گئی جس کے بانی و اڈیٹر ہیں جناب مولانا مقصود یمانی صاحب. انھوں نے خود ہی یہ ویب سائٹ ورڈ پریس پر ڈیزائین کیا تھا جس کی خدمت کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ گوگل کے ذریعہ ایڈ ملنے کے باوجود ماہانہ خاطر خواہ آمدنی انھیں نہیں ہو پاتی ہے۔ بقول بانی "مسئلہ یہ ہے کہ دینی و اسلامی موضوع سے شائع ہونے والے مضامین کو پڑھنے والے کی تعداد بہت کم ہے، برعکس اس کے اگر کوئی فلم یا کسی ہیرو ہیروئین سے جڑی خبر ہو تو ہزاروں لوگ اس کو بڑی دل چسپی و دل جمعی سے پڑھتے ہیں. یہ ہمارے اُردو قارئین کی سچی تصویر ہے۔"
ان کی آمدنی کے ذرائع دوسرے ہیں۔ انھوں نے ویب سائٹ کو صرف خدمت اُردو اور مسلمانوں کے دینی و سیاسی شعور کو بیدار کرنے کی غرض سے بنا یا ہے۔
ان کا اصل نام حافظ مولانا مقصود یمانی اور ان کے والد کا نام احمد یمانی ہے۔ ان کا آبائی وطن ملک پیٹ حیدرآباد، تلنگانہ ہے۔
انھوں نے حفظ کی تکمیل کے بعد حیدرآباد ہی میں دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد سے عالمیت اور مظاہر علوم سہارنپور سے فضیلت کی تکمیل کرنے کے بعد مختلف دینی خدمات انجام دینے میں اپنا وقت لگایا۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی سے گریجویشن کی سند بھی حاصل کی۔ دینی مدارس بورڈ تلنگانہ و آندھرا میں تقریباً ١٤ سال خدمت انجام دینے کے بعد چند سال جمعیۃ علماء ہند سے بھی وابستہ رہے. اس دوران پیشہ صحافت سے بھی تعلق رہا۔

نگارشات:
ویب سائٹ کا نام "نگارشات" ہے اور اس کا قیام اکتوبر ٢٠٢١ میں ہی ہوا ہے. اس کے بانی عبدالرحمن قاسمی ہیں۔ اس سے قبل بلاگ پر خود کی اور دوستوں کی تحریریں شایع کرتے تھے۔ چند ماہ دیوبند میں ویب سائٹ کے تعلق سے علم حاصل کیا اور پھر انھیں خیال آیا کہ بہتر نام کی تجویز کی جائے جس کے ذریعہ ہر نوجوان قلم کار اور میدان صحافت میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے، پھر انھوں نے دوستوں کے مشورہ کے بعد”نگارشات" نام تجویز کر لیا. اب الحمداللہ اس پر مضامین شائع بھی ہورہے ہیں۔
ان کا اصل نام عبدالرحمن قاسمی ہے۔ آبائی وطن بشن پوروا مغربی چمپارن بہار ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال دارالعلوم وقف دیوبند سے فراغت حاصل کی ہے۔ جامعۃ العلوم دیوبند میں افتا کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا ذریعہ معاش ابھی کچھ نہیں ہے۔
شروع شروع میں انھیں بہت سارے احباب کے غلط تبصرے کو سننا پڑا۔ ویب سائٹ کے ذریعہ معاش کے تعلق سے ان کا نظریہ ہے کہ گوگل سے اپروول ہونے کے بعد اور اشتہارات کے ذریعہ کچھ معاش کی امید بھی کی جاسکتی ہے۔
اس پر شائع مضامین اس لنک پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
www.negarishat.com

حراء آن لائن:
حراء آن لائن محض ویب سائٹ ہی نہیں بلکہ ایک پلیٹ فارم بھی ہے جس میں مختلف اصناف کی تخلیقات و انتخابات کو پیش کیا جاتا ہے۔ خصوصاً نئے قلم کاروں کی تخلیقات و نگارشات کو شایع کرکے ان کو حوصلہ بخشنا اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔
ویسے مضامین اور تبصروں و تجزیوں سے صَرفِ نظر کیا جاتاہے جن سے اتحادِ ملت کے شیرازہ کے منتشر ہونے کا خطرہ ہو۔ اس کے ایڈیٹر ہیں جناب اسجد حسن بن قاضی محمد حسن ندوی صاحب۔ ابھی یہ دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے اس ویب سائٹ کا آغاز تقریباً ایک سال قبل لاک ڈاؤن کے درمیان اپنی ہی تخلیقات و انتخابات کو شائع کرنے کی غرض سے کیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد اس ویب سائٹ کو عام کردیا. اس کے بعد سے مسلسل کام جاری ہے۔ تقریباً پانچ سو مضامین مختلف موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں۔ اس ویب سائٹ سے فی الحال معاش کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف نئے قلم کاروں کو ایک نیا پلیٹ فارم فراہم کرنا اور اردو صحافت میں خدمت انجام دینا مقصود ہے۔ اس ویب سائٹ کے مضامین آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
www.hiraonline.in

الرضا نیٹ ورک:
الرضا نیٹ ورک کی شروعات ٢٠٢٠ء میں لاک ڈاؤن کے زمانے میں ہوئی ہے۔ اس کے بانی و ایڈیٹر احمد رضا صابری صاحب ہیں۔ اس ویب سائٹ کو انھوں نے خود ہی ڈیزائن کیا ہے، کیونکہ تھوڑی بہت معلومات اس فیلڈ میں رکھتے تھے، مزید تھوڑی بہت دشواریوں کا سامنا ہوا تو اپنے دوست احباب سے استفادہ کیا اور کچھ چیزیں یوٹیوب کے ذریعے ہھ سیکھیں. اس کے بعد اس پر مضامین ڈالنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انھوں نے اسے ذریعۂ معاش کے لیے نہیں بلکہ اردو و دینی علوم کی خدمت کی غرض سے کھولا ہے۔ رفتہ رفتہ ویب سائٹ کی مقبولیت بھی بڑھتی گئی اور گوگل کے ذریعہ کچھ رقم بھی ملنے لگی۔ احمد رضا صابری صاحب کا ماننا ہے کہ اگر بہتر طریقے سے اس کام کو کیا جائے اور پورا پورا وقت اس میں دیا جائے تو اس سے معقول آمدنی بھی کی جاسکتی ہے۔ احمد رضا صابری صاحب نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فضیلت و قرأت تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے بعد ایم اے و ماس کمیونیکیشن جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے مکمل کیا۔ ان کا ذریعہ معاش گرافکس ڈیزائننگ اور کتاب کی اشاعت ہے جو کہ سبزی باغ پٹنہ میں موجود ہے۔ ان کا ویب سائٹ ایڈریس ہے۔
www.alrazanetwork.com
اوپر کے سارے ویب سائٹس، پورٹل کے تعلق سے مجھے جو بھی معلومات دستیاب ہوئیں میں نے ایمان دارانہ طور پر ان سب کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جن لوگوں کی جیسی تفصیل آئی اسی کے مطابق ان کا ذکر کیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے بہت ساری معلومات کو بتانے سے گریز بھی کیا ہے۔ حالانکہ اس کام میں مجھے بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی کئی بار اصرار کے باوجود بہت لوگوں نے تفصیل نہیں بھیجی۔ تو کچھ نے مختصراً بھیجا۔ چند لوگوں کے تلخ سوالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اتنی تفصیل کیوں لے رہے ہیں، ویب سائٹ بند کروانے کا ارادہ ہے کیا؟ کچھ نے یہ بھی کہا کہ آپ کو دوسروں کے ویب سائٹ کی تفصیل کی ضرورت کیا ہے؟ ان تمام اعتراضات کو میں نے نظر انداز کرنا ہی بہتر سمجھا۔ اگر میں تھوڑا بھی ان سب سوالوں اور اعتراضات پر کبیدہ خاطر ہوتا تو میرا یہ مضمون مکمل نہیں ہو پاتا۔ چند ویب سائٹ جس کی کوئی تفصیل میرے پاس نہیں آ سکی یا ان کے بانی و ایڈیٹر نے تفصیل دینے سے گریز کیا ان کے نام کا بھی ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اردو کی خدمت میں ان کا نام بھی شامل ہوجائے۔ ویسے ہی ناموں کا ذکر ملاحظہ فرمائیں: ہندوستان اردو ٹائمز، اردو دنیا، پیغام میڈیا، عصر حاضر، ترجمان ملت، آواز نیوز، جی این کے اردو، مشرقی آواز ، الرشید میڈیا، اسلامک میڈیا، اس کے علاوہ بھی بہت سارے اردو ویب سائٹ ہوں گے جن کا مجھے علم نہیں ہے۔

👈( بشکریہ : صحافت دو صدی کا احتساب ١٨٢٢-٢٠٢٢)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: کتاب : تعلیم اور کرئیر: ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے