معذور

معذور

مستحسن عزم

شام کا وقت تھا۔ لوگ دفتر سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ میں بھی جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ سڑک پر آیا تو دیکھا ٹریفک رکی پڑی ہے اور کافی بھیڑ جمع ہو چکی ہے۔
"یااللّٰہ! کوئی حادثہ تو نہیں ہوگیا؟۔۔۔۔"
یہ سوچتے ہوئے مجمع کی طرف لپکا۔
تھوڑی زورآزمائی کے بعد بھیڑ کو چیرتا ہوا سا اندر گھسا تو دیکھا کہ پیروں سے معذور ایک آدمی اپنے پولیو زدہ ہاتھوں کے سہارے رینگتا ہوا سا سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
” آہ! کیا زندگی ہے ۔" ایک آواز ابھری۔
” کتنی تکلیف ہے بےچارے کو" ایک اور آواز آئی۔ اسی اثنا میں ایک بوڑھے اور ناتواں شخص نے چلّا کر کہا ۔۔۔۔۔”کوئی اس کی مدد کرو بھائی!"
بھیڑ میں چاروں طرف بھنبھناہٹ سی ہونے لگی۔
بوڑھے نے دوبارہ پوری قوت سے چیخ کر کہا۔۔۔۔ "کوئی تو آ گے آؤ!۔۔۔۔ اٹھا کر اسے سڑک کے دوسرے کنارے تک پہنچا دو. "
بوڑھے کی للکار سن کر بھیڑ پر ایک گہرا سنّاٹا چھا گیا۔
تبھی بھیڑ سے ایک آدمی نکلا اور دھیرے دھیرے اس ادھورے پیکر کی طرف بڑھنے لگا۔
معذور شخص کے پاس پہنچ کر اسے اٹھانے کے لیے جھکتے ہی دفعتاً وہ خود دوسری طرف لڑھک گیا۔
اس کی بیساکھی دو ٹکڑوں میں بٹی پڑی اس کا منہ چڑا رہی تھی!
***
مستحسن عزم کے دوسرے افسانچے : زندہ لاش اور دیگر افسانچے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے