مرغے کا بدلا

مرغے کا بدلا

امان ذخیروی، ذخیرہ، جموئی، بہار الہند
رابطہ : 8002260577

تب میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا. پڑھتا کیا تھا بس پڑھائی کے نام پر صرف خانہ پری ہی ہوتی تھی. گاوں کے دو کمروں کا کھپریل مکتب ہی ہماری پہلی درسگاہ تھا، جہاں ہمارے مولوی شمیم الدین ہمیں پڑھایا کرتے تھے. مگر ہمارا من پڑھنے میں کہاں لگتا تھا. ہم تو بس گھومنے پھرنے، مٹکور سے مٹیاں لا کر کھلونے بنانے میں ہی مگن رہتے تھے. کتابوں سے واسطہ اس حد تک تھا کہ ہم انھیں بڑی حفاظت سے اپنے بدرنگ تھیلے میں رکھتے تھے، جس پر روشنائی کے بےشمار دھبے پڑے رہتے تھے. بہت زیادہ ہوا تو گھر پر ابا کے ڈر سے کتابیں نکال کر بیٹھ جاتے اور یاد شدہ سبق کو خوب زور زور سے پڑھتے کہ وہ بھی سمجھیں کہ واہ لڑکے نے پڑھائی میں بہت جی لگایا ہے. صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے ابا اسکول چلے جاتے پھر دن بھر ہماری مٹرگشتیاں چلتی رہتیں. اس کام میں ویسے تو میرے بہت سارے ہم جماعت ہوتے تھے مگر ان میں خصوصیت کے ساتھ رضوان ہمارے ساتھ ہوتے تھے، وہ میری ںڑی پھوپھی کے چھوٹے بیٹے اور میرے ہم جماعت تھے. ان دنوں وہ ایک کالج میں صدر شعبۂ اردو ہیں. ہم صرف سونے کے وقت ہی الگ ہوتے تھے. وہ بھی کچھ برسوں پہلے ہوا تھا ورنہ اس سے پہلے تو بڑی پھوپھی اپنے تمام اہل و عیال کے ساتھ ہمارے گھر میں ہی رہتی تھیں جو ایک دروازے سے جڑا دو گھروں پر مشتمل تھا. جہاں میرے دادا، دادی اپنے تین بیٹوں، دو بیٹیوں اور ان کی اولاد کے ساتھ رہتے تھے. مگر وہ وقت مجھے یاد نہیں جب بڑی پھوپھی اپنے بچوں کے ساتھ ہمارے گھر پر رہتی تھیں. میرے ہوش میں آنے سے پہلے ان کا اپنا گھر بن گیا تھا اور ہمارے گھر سے اچھا بنا تھا. میرا گھر مٹی کی موٹی موٹی دیواروں کا کھپریل تھا. لیکن ان کا گھر پکی چھتوں والا تھا جو ہمارے لیے بڑی کشش رکھتا تھا. گرمیوں میں ہم زیادہ تر انہی کی چھت پر رضوان کے ساتھ سویا کرتے تھے. اس طرح ہماری راتیں بھی زیادہ تر ساتھ ہی گزرتی تھیں. ہم آپس میں اکثر لڑائی جھگڑا بھی کرتے، مگر ہماری لڑائی کچھ ایسی نہیں تھی جیسی بڑے لوگ مال و دولت اور اپنی انا کے لیے لڑتے ہیں. ہماری لڑائی مٹی کے کسی کھلونے، رنگ برنگی ہری، لال چوڑیوں کے ٹکڑوں، زہر کرمی کے موٹے ڈنڈوں اور سر راہ مل جانے والے چاقووں یا استروں کے لیے ہوتی تھی. بات تو تو میں میں سے شروع ہوکر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی تھی. مگر کچھ گھنٹوں کے بعد ہم پھر ایک دوسرے کے ساتھ اپنے معمول کے کھیل کود میں مگن ہوجاتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ ہمارے بیچ کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا.
ایسے ہی ایک دن ہم کھیلتے کھیلتے ایک دوسرے سے لڑ پڑے. وجہ کیا تھی اب اچھی طرح یاد نہیں، مگر اس روز ہمارے درمیان ایسی لڑائی ہوئی جس میں ہماری زبان اور ہمارے ہاتھ پاوں ایک ساتھ پوری شدت سے چل رہے تھے. زبان سے مغلظات جاری تھے، ہاتھ پاوں اپنی زور آزمائی میں مشغول. غرض کہ وہ ایسی لڑائی تھی جو نہ کبھی اس سے پہلے ہوئی تھی اور نہ پھر کبھی بعد میں ہوئی. اب مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ ہم دونوں میں سے قصور کس کا تھا. لیکن یہ لکھتے ہوئے مجھے ذرا بھی ندامت نہیں کہ اس لڑائی میں میری شکست یوئی تھی اور میں بہت زیادہ مار کھا گیا تھا. گھر آ کر جب اماں کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ جا کر اپنی پھو پھی کو بتا دو. چنانچہ میں اپنی پھوپھی کی عدالت میں اپنی فریاد لے کر حاضر ہوا. اس وقت میرے ہمراہ بہت سارے لڑکوں کا ہجوم تھا جو لڑائی کے وقت موجود تھے اور ہماری بے گناہی کی گواہی دے سکتے تھے. بہر حال ان لڑکوں کو پیشی اور فرد بیان کا موقع تو نہیں ملا، لیکن پھوپھی نے مجھے یقین دلایا کہ گھر آنے پر رضوان کی اچھی خبر لیں گی. مجھے اس کا علم تو نہیں ہو سکا کہ انھوں نے اس کی اس حرکت کے لیے اسے کیا سزا دی تاہم تقریباً ایک گھنٹے بعد بڑی پھوپھی میرے گھر آئیں. ان کے ہاتھ میں ایک پیالا تھاجو کچھ خون اور کچھ پانی سے بھرا تھا. انھوں نے آکر مجھے بتایا کہ لو رضوان کو اس کے کیے کی سزا مل گئی. کچھ دیر تک تو میں اس خون بھرے پیالے کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا کہ آخر یہ کیا غضب ہو گیا. اماں کے پوچھنے پر انھوں نے جو بتایا اس کا نچوڑ یہ تھا کہ میری پھوپھی کے یہاں ایک بڑا خوش رنگ عصیل مرغا تھا. سر پر خمیدہ سرخ پھول اس کے حسن کو اور دوبالا کرتا تھا. ایسا لگتا تھا کہ وہ مرغوں کے دیس کا راجا ہو. وہ بڑا ہی نازک مزاج، مغرور اور سر کش تھا. محلے کی مرغیاں اس سے پناہ مانگتی تھیں. وہ اپنی شان میں گستاخی ذرا بھی برداشت نہیں کرتا تھا، اور چھیڑنےپر وہ کسی کے اوپر چھپٹ ہڑتا تھا. مجھ سے لڑائی کے بعد میاں رضوان جب گھر آئے تو انھیں اپنی اماں سے مجھے مارنے کے جرم میں مار کھانی پڑی. اب جو ان کو غصہ آیا تو نہ آو دیکھا نہ تاو اور لگے مرغے پر ہی اپنی کھیج اتارنے. مگر مرغے کو کب یہ گوارہ تھا کہ کوئی اس کی شان میں گستاخی کرے. پھر کیا تھا مرغے نے برچھی نما ناخونوں سے لیس اپنے پنجے سے رضوان پر یوں اچھل اچھل کر وار کیا کہ اس کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا. خون چہرے سے ٹپک کر اس کے کپڑے پر بھی پھیل گیا. وہی خون ناحق مجھے دکھانے میری پھوپھی آئی تھیں. گویا اس مرغے نے میری مار کا بدلا لے لیا تھا. میں آپ سے سچ کہوں تو اس مکافات عمل سے مجھے بےحد خوشی ہوئی تھی.
***
امان ذخیروی کی یہ نگارش بھی پڑھیں:قوم کی جاں باز بیٹی مسکان خان کے نام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے