تنقید و تعریف اور ان کی حدود

تنقید و تعریف اور ان کی حدود

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com


” تنقید" (critical appraisal) اور "تعریف" (praise) ایسی دو علمی اصطلاحات ہیں، جن کا ہمارے آج کے معاشرے میں "غلو" (exaggeration) کی حد تک غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو ادب میں تنقید ایک معیاری لفظ ہے۔ جہاں تک لفظ تعریف کا تعلق ہے، یہ بھی تنقید کا ہی ایک ذیلی عنوان (sub title) ہے۔
” تنقید" ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہوتے ہیں- ” چھان بین کرنا" یا "کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا"۔ اصطلاحی طور پر، اس فن (art) کو تنقید کہتے ہیں، جس میں کسی فن کار یا تخلیق کار، یعنی آرٹسٹ، ادیب، شاعر، مصنف، مرتب یا مقرر وغیرہ کی ” تخلیق" پر ذاتی تعصبات، نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، علم کے عصری تقاضوں، اصول و ضوابط اور قواعد کی روشنی میں، حق و انصاف کے ساتھ بے لاگ علمی تجزیہ یا تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔
علم کی دنیا میں تنقید علمی تخلیقات کو پرکھنے اور تولنے کا ایک ایسا بیش قیمتی فن ہے جس کی بدولت قارئین و ناظرین میں ذوقِ سلیم پیدا ہوتا ہے اور زیر نظر فن پاروں کا علمی مقام اور افادیت واضح ہوتی ہے۔
اس طرح یہ صاف ہوجاتا ہے، کہ تنقید کرنے والا اور تنقید سننے والا دونوں کو اس "فکر" سے پاک ہونا چاہیے کہ تنقید کا مطلب کسی کی برائی اور تحقیر بھی ہوسکتا ہے۔
مختلف مطالب کے طور پر، علم و ادب کے میدان میں، تنقید کے کئی ہم پلہ (equivalent) الفاظ موجود ہیں, جو اپنے آپ میں بہت ہی معنی خیز ہیں۔ ان میں سے کچھ قیمتی الفاظ یہ ہیں:
تنقیح (investigation)، تحقیق (research) اور
تجزیہ (analysis)۔
مگر، اسی کے ساتھ، تنقید کے معنی کے طور پر کئی دوسرے الفاظ جیسے اعتراض، نکتہ چینی اور آلوچنا (ہندی) بھی لغت میں موجود ہیں۔ بلا شبہ، بذات خود یہ بھی علمی الفاظ ہیں، مگر معاشرہ کے پس منظر کی مطابقت میں دیکھا جائے تو ان کی لسانی (linguistic) آواز کچھ ایسا تاثر پیش کرتی ہے کہ جیسے تنقید کوئی نا قابل التفات اور معیوب شے ہے۔ کئی مرتبہ، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا معاشرہ نے تنقیدی افعال کے لیے صرف انہی تین یا ان کے ہی خاندان کے دوسرے الفاظ کا انتخاب کر لیا ہے۔
کوئی شخص اگر تنقید کرنے کو عیب جوئی اور برائی کے اظہار کا طریقہ سمجھتا ہے، تو کوئی بات نہیں، وہ سمجھا کر ہے؛ مگر میں اس ‘عالی جناب` سے صرف یہی کہوں گا کہ وہ اپنی سوچ پر ضرور اور جلد از جلد نظر ثانی کرے، کیوں کہ تنقید تو خالص علمی اظہار خیال کا نام ہے، نہ کہ کذب بیانی کا۔
ایسے منفی استعمال کے لیے رائج لفظ کا نام "تنقیص" (fault finding) ہے۔
تنقید، بہ معنی تنقیص، کرنے والے کی "فکر" سے قطع نظر، میں اس شخص کے اطمینان کا سامان مہیا کرنا چاہتا ہوں، جس کو تنقید کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ایسے افراد کے لیے میرا نیک اور علمی مشورہ یہ ہے کہ وہ مشتعل ہونے کے بجائے، تنقیص کو بھی تنقید کی نظر سے ہی دیکھیں، کیوں کہ ایسا کرنے میں بہت خیر ہے۔
معاشرے میں کیفیتِ اطمینان اور علمی فضا قائم رکھنے کی غرض سے، زیر نظر مضمون میں خیر کے انہی پوشیدہ پہلوؤں کو عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
انسان اپنی فطرت میں عجلت پسند واقع ہوا ہے (الانبیاء-21: 37)۔
شاید اسی وجہ سے وہ اکثر اوقات اپنی حدود سے تجاوز کرتا رہتا ہے، اور معاشرہ میں متعدد قسم کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس کا یہی غیر معتدل رویہ (immoderate attitude) تنقید و تعریف کے معاملات میں بھی بڑے پیمانے پر ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ اکثر و بیش تر، وہ اگر کسی کی تعریف بہت بڑھا چڑھا کر کرتا ہے، تو کسی دوسرے کی برائی یا نقص بیانی بھی، حدود کی اخلاقی پرواہ کیے بغیر، بہت گِرا گِرا کر کرتا ہے۔
"اعتدال پسندی" کی اسلامی تعلیمات کو گویا اس نے اپنی یادداشت سے ہی زائل کردیا ہے۔ اخلاق و کردار کے اسی تضاد نے انسان جیسی ‘بہترین ساخت` (the best mould ) پر تخلیق کی گئی مخلوق (التین-95: 4) کو بھی پست سے پست تر حالت میں گرا دیا ہے (التین-95: 5)۔
اللہ تعالی نے انسان کو گوناگوں فطری داعیات و رجحانات کے ساتھ پیدا کیا ہے، جن میں خیر بھی ہے اور شر بھی!
مگر خیر و شر کے تعلق سے انسان کے لیے، اللہ تعالی کی جو ہدایت ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ، خود کو شر سے محفوظ رکھتے ہوئے، اپنی زندگی کو خیر سے ہم کنار کرے۔
دراصل، خیر و شر کی یہی کش مکش دنیا میں اس کا امتحان (test) ہے۔
مصلحتِ "امتحان" کی عدل و انصاف سے وابستگی بنائے رکھنے کے لیے، اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں خیر و شر کا "شعور" رکھ دیا ہے۔
اسی خیر و شر کے امتحانی پس و پیش میں، اپنے بندوں کی ” فتح" کو یقینی بنانے کی خاطر، اللہ رب العالمین نے اپنے رحمٰن و رحیم ہونے کا بہترین ثبوت اس طرح دیا ہے کہ اس نے آڑے وقت میں ان کو مدد (succour) فراہم کرنے کے لیے "ضمیر" (conscience) نام کی ایک لائف لائن (life line) مستقل طورپر مہیا کردی ہے۔
آج کل، تنقید و تحسین کے تعلق سے انسانی رویوں (attitudes) کا جو مشاہدہ سامنے آرہا ہے، وہ بہت ہی پیچیدہ (perplexed) قسم کا ہے۔
انسانی علوم کی روشنی میں، اس الجھے ہوئے معاملہ کو تسلی بخش طریقے سے حل کرنا انتہائی مشکل محسوس ہوتا ہے۔
اس لیے، اس ضمن میں، راہ نجات تک رسائی حاصل کرنے کی غرض سے، اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی اللہ تعالی کی آخری کتاب، قرآن مجید سے استفادہ حاصل کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے تنقید کے ذیلی عنوان ( sub title) "تعریف" کا جائزہ لینا مناسب رہے گا۔
حالاں کہ اردو لغت کی روشنی میں لفظ تعریف کے بہت سے معنی ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ اہم الفاظ ہیں- مدح، توصیف، پسندیدگی، تحسین اور قدر شناسی، جب کہ ادبی اصطلاح کے طور پر تعریف کا مطلب ہوتا ہے- تعارف، تشریح، توضیح اور کسی کے خصائص کا بیان۔ اسی اصطلاحی پس منظر میں، تعریف بھی تنقید کا ہی دوسرا نام ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ ” تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام کائنات کا رب ہے" (الفاتحہ-1: 2)۔
اس آیت کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ بجا طور پر، اللہ رب العالمین ہی "تعریف" کا اکیلا حق دار ہے۔
جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے، تو اللہ تعالی کی مخلوق کے طور پر، مختلف مدارج و مراتب کے اعتبار سے ان کو حاصل ” تکریم" (ادب و احترام ) ہی ان کی اصل تعریف ہے۔
اللہ تعالی کی تعریف کو اسلامی اصطلاح میں "حمد" کہتے ہیں۔ اس لیے، انسانوں کی تعریف کے معاملہ میں ہر ایک شخص کو محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا کے بندوں کی تعریف، حمد خداوندی کی حدود میں داخل نہ ہوجائے۔
لالچ، طمع اور خود غرضی کی نفسیات سے مغلوب، انسان اکثر و بیش تر اپنے آقا و خیر خواہ، پیر و مرشد اور معاشرے کی دوسری بڑی شخصیات کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔
یہ صرف تعریف کرنے والے کی ہی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنی حدود کا خیال رکھے، بلکہ تعریف وصول کرنے والوں کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھیں کہ ” بڑائی" کی نفسیات میں مبتلا ہوکر وہ کہیں اللہ رب العزت کا حق تو نہیں کھا رہے ہیں۔
صرف اتنا ادراک کہ حمد کے درجے کی تعریف صرف اور صرف اللہ تعالی کا حق ہے، معاشرہ کو اخلاقی پاکیزگی سے ہم کنار کر سکتا ہے۔
یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ وہی شخص جو اپنی تنقید سن کر ” لال پیلا" (غضب ناک) ہوجاتا ہے، اپنی کسی بھی ڈگری (مقدار ) میں تعریف سن کر، اس کو مغالطہ سے بھی، کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ اس بلند درجہ کی مدح و تحسین کا اہل نہیں ہے۔
اپنی آخرت کی کام یابی، اور معاشرہ کی اخلاقی صحت کی خاطر، یہ ہم سبھی کا فرض اولین ہے کہ اگر ہم خود تنقید سے متنفر ہوتے ہیں، تو ہمیں خلاف واقعہ تعریف سے بھی خوش نہیں ہونا چاہیے۔ "جھوٹی تعریف" گویا کسی اور کی امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے۔
اگلی سطور میں، "تنقید" کی اصطلاح کا علمی تجزیہ حاصل کرنے کی ایک سنجیدہ اور مخلص کوشش کی جا رہی ہے:
قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی آیات 30 سے 34 تک کا ترجمہ یہ ہے:
” اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اس نے سکھا دیے آدم کو سارے نام۔ پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ گر تم سچے ہو تو مجھے ان اشیا کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے، ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک توہی علم والا اور حکمت والا ہے ۔ اللہ نے کہا اے آدم ان کو بتاؤ ان اشیا کے نام، تو جب آدم نے بتائے ان کو ان اشیا کے نام تو اللہ نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتاہوں، اور مجھ کو معلوم ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔"
تدبر کے ساتھ ان آیات کا سنجیدہ مطالعہ، یہ سمجھنے میں بہت زیادہ معاون ہو سکتا ہے کہ آخر تنقید ہے کیا اور اس سے کس طرح نبردآزما ہونا چاہیے؟
فرشتوں نے کہا: ” کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں"، گویا فرشتوں نے کائنات میں پہلی مرتبہ "تنقید " کے فعل کی شروعات کی، وہ بھی اللہ رب العزت کے حضور میں!
انسانوں کے لیے، یہاں جو ربانی رہ نمائی موجود ہے، وہ یہ ہے کہ خود فرشتوں کے بھی خالق، اللہ تعالی نے فرشتوں کی تنقید پر ناراضگی نہیں دکھائی، بلکہ فرشتوں کو اپنے بلند مقام کا ادراک کرایا کہ
” میں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے"۔
ساتھ ہی جب اللہ تعالی کے عنایت کردہ علم سے آدم علیہ السلام نے وہ ساری باتیں بتادیں جو فرشتے خود نہ بتا سکے، تب انھوں نے اللہ تعالی کی بڑائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ
” تو پاک ہے، ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک، توہی علم والا اور حکمت والا ہے۔"
اور جب اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو انھوں نے سجدہ کیا۔
اس قرآنی رہ نمائی کو عقل و شعور کی بینائی سے دیکھنے پر واضح ہوجاتا ہے کہ بہ ذات خود تنقید کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں، قابل اعتنا اگر کوئی چیز ہے، تو وہ ہے ” تنقید کا ہدف" بنائے گئے انسان کا جواب یا اس کا ردعمل۔
اللہ تعالی کی توفیق سے، میں مندرجہ بالا قرآنی آیات کی روشنی میں، کچھ بہ ظاہر چھوٹے، مگر بہت اہم نکات پر بات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی صورت میں، علمی و فکری ایوانوں میں مسائل تنقید کا مستقل حل حاصل کیا جاسکتاہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس حقیقت سے قطع نظر کہ موصول ہونے والی تنقید، علمی تنقید ہے، شخصی تنقیص ہے یا محض تحقیر کی ایک کوشش؛ ہمیں اس کو "علمی تنقید" کے طور پر ہی قبول کرنا چاہیے۔
فرشتوں کو جو اندیشہ ہوا کہ اختیار و اقتدار پاکر انسان بگڑ سکتا ہے اور نتیجتاً، دنیا میں خون خرابہ کرسکتا ہے؛ وہ انھوں نے اپنے پروردگار کے سامنے پیش کردیا، گویا وہ اپنے رب کے حضور اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ، یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ دنیا میں انسان کے ارادہ و اختیار کی آزادی اور اس کے منصب اقتدار کا معاملہ کس طرح ظہور پذیر ہوگا؟
فرشتوں اور انسانوں کے مابین واقع فرق کے ساتھ، دنیا میں بھی تنقید کرنے والوں کا معاملہ کچھ اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔
جب آپ کی تحریر یا تقریر پر اس طرح کا تبصرہ موصول ہوتا ہے کہ "فلاں اور فلاں بات کے تعلق سے آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟" یا "جو فلاں مشورہ آپ نے تجویز کیا ہے وہ قابل عمل نہیں ہے؟" یا "آپ اپنے اردو مضامین میں جو انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہ اصلاحی طریقہ نہیں ہے؟ یا "کافی عمر ہوجانے کے بعد بھی، ابھی تک آپ نے ایسے افراد تیار نہیں کئے جو آپ کے بعد آپ کے مشن کو بخوبی سنبھال سکیں؟" یا مختلف جہتوں کو چھونے والے دوسرے ہزاروں سوال، تب آپ کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ لوگ آپ کی علمی اور فکری کاوشوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔
گہرائی اور گیرائی کے ساتھ غور کرنے پر سمجھ میں آئے گا کہ دراصل، تنقید کرنے والا کوئی برائی یا نکتہ چینی نہیں کر رہا ہے، بلکہ آپ کی بہت سی علمی و فکری "با توں کو نہ سمجھ پانے" کا اظہار کررہا ہے۔
آپ تشریح کردیجیے، وہ مطمئن ہوجائے گا۔ ایک بار جب آپ کے ناقد کو آپ کی تحریروں کی باریک بینی (delicacy) اور مستقبل بینی (future oriented approach) کا ادراک ہوجائے گا، وہ آپ کو نہ صرف تعریفی کلمات سے لبریز خطوط ارسال کرنے لگے گا، بلکہ وہ آپ کی تحریروں یا دوسرے تخلیقی کارناموں کا سفیر (ambassador) بھی بن جائے گا۔
تنقید و تعریف کے اسی تناظر میں، میری سروس کے دوران وقوع پذیر ہوا ایک دل چسپ واقعہ، باتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔
ایک خوب صورت غزل کے اس خوب صورت شعر:
ایک صرف ہمیں مے کو، آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو اس شہر میں، مے خانے ہزاروں ہیں
کی تشریح جب میں نے دفتر کے اپنے ایک ساتھی سے اس طرح کی کہ شہر میں ہزاروں شراب خانے ہونے کے باوجود، یہ کرشمہ (miracle) صرف اور صرف ہم کو ہی حاصل ہے کہ ہم شراب آنکھوں سے پلاتے ہیں۔
میری باتیں سن کر، وہ خوشی سے اچھل پڑا اور یوں گویا ہوا کہ ” یہ غزل تو وہ کئی سالوں سے سن رہا ہے، مگر آج معلوم ہوا کہ اس میں کتنی زیادہ سنسنی (thrill) ہے!"
کرنے والا تنقید کرے یا تنقیص، مشتعل ہونے کے بجائے، آپ صرف علمی اور سنجیدہ جواب دیں، کیوں کہ اس نے آپ کے مقام کا اعتراف بھی کیا ہے اور آپ کو نظر انداز کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ ایسا کرنے پر، آپ خود ہی محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی واقعی "زندگی" سے ہم کنار ہو گئی ہے۔
اس واقعہ میں آپ کو اللہ تعالی کی تائید بھی نظر آئے گی، کیوں کہ خود عزت عنایت کرنے والے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
"اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی قریبی دوست۔" ( حٰم السجدہ-41: 34)۔
یہاں تک، میری علمی و فکری اور تحقیقی تگ و دو نے یہ واضح کردیا ہے کہ تخلیقی اور تصنیفی کارناموں کے میدان میں فن تنقید (art of criticism) گویا "جیون ریکھا" (life line) ہے۔
یہاں، اسی ضمن میں، جناب آل احمد سرور کے "تنقید کیا ہے ؟" نام کے مضمون سے شکریہ کے ساتھ، ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:
” بڑے تخلیقی کارنامے بغیر ایک اچھے تنقیدی شعور کے وجود میں نہیں آ سکتے۔ تخلیقی جوہر بغیر تنقیدی شعور کے گمراہ ہو جاتا ہے اور تنقیدی شعور بغیر تخلیقی استعداد کے بے جان رہتا ہے۔"
یونی ورسٹی اور بڑے تعلیمی اداروں میں اعلا تعلیم کی سطح پر تنقیدی مطالعہ (critical studies) کے ذریعے طلبا میں تنقیدی استعداد پیدا کی جاتی ہے۔
میں نے خود اس میدان میں، ‘غیر سائنسی انسانی علوم` (humanities) کے زیر اہتمام متعدد ادبی شاہ کار (literary masterpiece) کا مطالعہ کیا ہے۔ ان میں جارج آرول (George Orwell) کی ‘اینیمل فارم` (Animal Farm) اور ‘دی نائنٹین ایٹی فور` (The 1984)، اور ارنیسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway) کی کتاب ‘دی اولڈ مین اینڈ دا سی` (The Old Man and The Sea) خاص ہیں۔
اب تک حاصل اعتماد کی مضبوطی کے ساتھ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنقید کا معاملہ کرنے کا کم، کیے جانے کا زیادہ ہے۔ سارا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ردعمل منفی ہے کہ مثبت۔
اس صورت حال کی بہترین عکاسی کرنے والا، میری اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ، سبق آموز ہونے کی وجہ سے، ذیلی سطور میں پیش کیا جارہاہے :
بینک انڈسٹری کے زیر انتظام، ایک افسر کے مدارج طے کرنے والا پیمانہ اسکیل (scale) کہلاتا ہے۔ ترقی کے ضمن میں بینک میں، اسکیل 1 سے اسکیل 7 تک کا طریقہ رائج ہے۔
میرا اسکیل 1 سے اسکیل 2 میں پروموشن ہونا تھا۔ ان دنوں میری پوسٹنگ الہ آباد بینک کی انٹرنیشنل برانچ، مرادآباد میں تھی اور میرا انٹرویو زونل آفس، نئی دہلی میں ہونا تھا۔ مذکورہ برانچ ایکسپورٹ/امپورٹ کاروبار کے لیے مشہور و معروف تھی۔
رسمی دعا سلام اور اپنی کرسی پر بیٹھ جانے کے بعد، میرے ساتھ ایک عجیب نفسیاتی واقعہ پیش آیا۔ بورڈ کے چیرمین نے مجھ سے برجستہ کہا کہ آپ کی انٹرنیشنل برانچ صحیح کام نہیں کر رہی ہے، گویا انہوں نے تنقید ہی نہیں، بلکہ بھاری تنقیص کردی۔
یہ بات کسی کو ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھی، مگر الحمدللہ، میں نے خود کو سنبھال لیا، اور چند لمحوں کے وقفے کے بعد، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ، میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ میری برانچ صحیح کام نہیں کر رہی ہے؟ میرا سوال سن کر بورڈ کے سربراہ نے بھی دوبارہ سوال کردیا: ” تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی برانچ اچھا کام کررہی ہے؟"
ان کے سوال نے گویا کام یابی کی کلید (key) میرے سپرد کردی۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ ان سے یوں مخاطب ہوا کہ "عالی جناب، اچھا ہی نہیں، بہت اچھا کام کررہی ہے۔" اس کے بعد باس نے جو کہا وہ ایک چیلینج تھا کہ "آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آپ کی برانچ بہت اچھا کام کررہی ہے"۔ جواب میں، میں نے ہدف (target) اور کارکردگی (performance) کے آنکڑے(data) پیش کردیے۔ جن کی روشنی میں یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ "برانچ بہت اچھی ہی نہیں، بلکہ بہترین کام کررہی ہے۔
اس وقت چیئرمین صاحب خود کو روک نہیں پائے، اور مارے خوشی کے مجھے وہیں ” شاباشی" دینے لگے۔ رزلٹ جب آیا، میرا پروموشن ہو چکا تھا!
زیر نظر مضمون کے موضوع کی مناسبت سے میرے پروموشن کے اس واقعہ میں زبردست رہ نمائی موجود ہے۔
آخری طور پر، تعریف کرنے والے اور تنقید کرنے والے، دونوں کے لیے ایک انتباہ پیش کرنا چاہتا ہوں :
اللہ کے بندوں کی شان میں کی گئی تعریف، صرف تعریف ہی رہے ” حمد" نہ بن جائے۔
اور تنقید، صرف تنقید ہی رہے، وہ "تنقیص" نہ بن جائے.
(21.03.2022AD; 17.08.1443 AH)
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی پڑھیں:آج کل سچ بولنا کیوں مشکل ہوتا جا رہا ہے؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے