ڈاکٹر شاہین مفتی : تعارف اور منتخب کلام

ڈاکٹر شاہین مفتی : تعارف اور منتخب کلام

تعارف اور انتخابِ کلام: ظفر معین بلے جعفری

شعبہۂ درس و تدریس سے وابستہ سینئر شاعرہ اور نثر نگار محترمہ ڈاکٹر شاہین مفتی صاحبہ کو نوعمری سے ہی ایک باوقار خاتون تسلیم کرلیا گیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے وقار و اعتبار میں اضافہ بھی ہوا اور ان کی نیک نامی اور مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا گراف بھی قابل رشک حد تک تیزی سے بڑھتا ہی چلا گیا۔
سب سے پہلے میرا ڈاکٹر شاہین مفتی صاحبہ سے تعارف ہماری بہنا اور معتبر شاعرہ اور سہہ ماہی فنون کی معاون مدیرہ منصورہ احمد صاحبہ نے کروایا تھا اور تعارف کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی فرمائی تھی کہ ” شاہین مفتی بہت پڑھی لکھی ہے وسیع مطالعہ ہے دنیا اور زندگی کے اتار چڑھاؤ سے بہ خوبی واقف ہے، واقعی اس نے زندگی کے نشیب و فراز کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے. نیک سیرت اور خوب صورت سچی اور کھری عجیب لڑکی ہے، منافقت اور ریاکاری سے ناواقف و نابلد. وسیع النظر اور وسیع القلب۔ اپنے سے بڑوں اور سینئرز کا حد درجہ اور دل سے احترام کرنے والی اور قدر دان، میری بہترین اور بے تکلف دوست اور دوستی اپنی جگہ لیکن میں دل سے شاہین مفتی صاحبہ کی قدر کرتی ہوں“.
منصورہ احمد کی زبان میں ڈاکٹر شاہین مفتی کے اس مختصر تعارف کے بعد میں اپنے اس خیال کا بھی اظہار کرتا چلوں کہ ڈاکٹر شاہین مفتی کے اندر ایک توجہ طلب مزاح نگار بھی پوشیدہ ہے جو کبھی کبھار لمحہ بھر کو جھلک سی دکھا کر پھر اپنی ذات کی گہرائی میں چھپ جاتا ہے۔
پروفیسر شاہین مفتی، پیدائش 12 اکتوبر۔ 1954۔ سرگودھا، پاکستان۔ پرنسپل پوسٹ گریجوٹ کالج برائے خواتین جلالپو، جٹاں، گجرات۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
‘فیض کی شاعری میں رنگ‘، ’اردو ادب کا اینٹی ہیرو، ’انیس ناگی‘ ، ’جدید اردو نظم میں وجودیت‘ (تنقید)۔ ‘ دس امریکی شاعرات‘ اور’دوستوفسکی کی ناول نگاری‘ (تحقیق) اور شاعری کے چار مجموعے،
امانت‘ ، ’مسافت‘، ’پانی پہ قدم‘ اور کنارہ کس نے دیکھا ہے.
ہم ڈاکٹر شاہین مفتی صاحبہ کے اور بھی بے شمار اوصاف سے واقف ہیں لیکن وہ کیا ہے ناں کہ پھر کسی کا بھی رشک بہت آسانی سے حسد میں تبدیل ہوسکتا ہے. عام طور پر عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں ہم نے قصداً محترمہ ڈاکٹر شاہین مفتی کی صفات کی پردہ پوشی کی ہے. اللہ تعالی ہماری اس بخیلی کو درگزر فرمائے۔
آئیے اب ملاحظہ فرمائیے محترمہ ڈاکٹر شاہین مفتی صاحبہ کا منتخب کلام.
نظم
بساط اب کے کچھ اس طرح
سے بچھی ہوئی ہے
ہر اِک کھلاڑی کو اپنی
اپنی پڑی ہوئی ہے
جو ہوسکے تو مرے لیے بھی
تم ایک نسخہ خرید لانا
سُنا ہے اب تک کسی گلی میں
دکانِ حافظ کُھلی ہوئی ہے
کبھی جو گذرو تو اِس
گلی میں ذرا سا رُکنا
یہیں وہ گھر ہے کہ جس پہ
اب تک تمھاری تختی لگی ہوئی ہے
وہ دیر تک ساتھ چلنے والے
بِچھڑ چُکے ہیں بِچھڑنے والے
اور اُن کے قدموں کی دُھول
اب تک ہمارے دل پہ جمی ہوئی ہے
میں اِس کو اِس کی ہر ایک
آہٹ سے جانتی ہوں
یہ کم نصیبی جو بچپنے سے
ہی ساتھ میرے بڑی ہوئی ہے
بس ایک پل میں ہی سارا
منظر بدل گیا ہے
کہیں پہ تختہ کھنچا ہوا ہے
کہیں پہ سُولی گڑی ہوئی ہے
نیا کوئی سانحہ ہوا ہے
ذرا بتاؤ تو کیا ہوا ہے
کیوں چاند اتنا بجھا ہوا ہے
کیوں رات اتنی ڈری ہوئی ہے

غزل1

عشق کے ضابطے معتبر ہوگئے
جب سے عشاق ہیں مُشتہر ہوگئے

یوں تو پہلےسےطے تھا ہر اِک فیصلہ
چند نقطے اِدھر سے ادُھر ہوگئے

منزلوں کے تعیین کی بس دیر تھی
راستے اور بھی پْر خطر ہوگئے

جیسے جیسے بڑھی بے نیازی تری
اپنے شکوے گِلے مختصر ہو گئے

دل میں رہتےتھےجو دردِ دل کی طرح
رفتہ رفتہ وہی دردِ سر ہو گئے

پہلے خود کو روانہ سفر پر کیا
پھر تعاقب میں گردِ سفر ہو گئے

بے وفائی کی تاریخ لکھی گئی
جتنے غدار تھے وہ امر ہو گئے

غزل2.

اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے
تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے

مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں
شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے

گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے
مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے

روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا
کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے

اسے تو گوشۂ مخصوص میں سنبھال کے رکھ
کرن ہے کوچۂ شمس و قمر سے آئی ہے

غزل3 .

مثال سنگ تپیدہ جڑے ہوئے ہیں کہیں
ہمارے خواب یہیں پر پڑے ہوئے ہیں کہیں

الجھ رہی ہے نئی ڈور نرم ہاتھوں سے
پتنگ شاخ شجر پر اڑے ہوئے ہیں کہیں

جنھیں اگایا گیا برگدوں کی چھاؤں میں
بھلا وہ پیڑ چمن میں بڑے ہوئے ہیں کہیں

گزر گیا وہ قیامت کی چال چلتے ہوئے
جو منتظر تھے وہیں پر کھڑے ہوئے ہیں کہیں

بلا رہا ہے کوئی شہر آرزو سے ہمیں
مگر یہ پاؤں زمیں میں گڑے ہوئے ہیں کہیں

غزل4 ۔

گلی میں جو نِکلے تو ڈر مار دے گا
رہے اپنے گھر پہ تو گھر مار دے گا

دعاؤں کی تاثیر اُلٹی پڑی ہے
کِسی بھی دعا کا اثر مار دے گا

جو صحرا سے بچ کر نِکل بھی گئے تو
سمندر کا مد و جزر مار دے گا

کسی دِن اچانک اکیلے میں ہم کو
کوئی جان کر بے خبر مار دے گا

جو لکھا ہے اُس کو سمجھنے سے پہلے
عبارت کا زیر و زبر مار دے گا

نہ منزل نہ رستہ نہ راہی نہ رہبر
مسافر کو ایسا سفر مار دے گا

وہ جس نے کبھی ہم کو پیدا کیا تھا
وہی ہم کو بارِ دِگر مار دے گا

نظم

ہم وہ خانہ بدوش ہیں جن کو
تاقیامت سفر میں رہنا ہے
ہجرتوں کا عذاب سہنا ہے
نقشۂ زندگی پہ اپنے لیے
ایک بھی ساعتِ قیام نہیں
ایک ٹکڑا بھی اپنے نام بھی
لامکانی کے استغاثے کو
کس عدالت میں لے کے جائیں ہم
کون سے در کو کھٹکھٹائیں ہم
آسمانِ ملال کے نیچے
وقت کی گردشوں سے
بچ بچ کر
اپنے سائے میں چُھپتے پھرتے ہیں
اور تعاقب میں رائیگانی ہے
ہم سے ہجرت نصیب لوگوں کی
ہر جگہ ایک سی کہانی ہے

مرشد سے خطاب1

گِن گِن کے اپنے کام جتانے سے فائدہ
تھیلوں پہ اپنا نام لِکھانے سے فائدہ

مُرشد ہمارے ساتھ کریں بات کام کی
روٹی نہیں مِلی ہے ہمیں آج شام کی

صدقہ نہ ہم کو آپ کی خیرات چاہیے
جو خود کما کے کھائے وہی ہاتھ چاہیے

جس دن ہمارے دل نے کوئی بات ٹھان لی
پھر تو مچے گی ایسی زمانے میں کھلبلی

مُرشد بچے گا کوئی نہ کوئی مہابلی
گونجے گا صرف نامِ خدا ہی گلی گلی

مرشد سے خطاب ٢

مرشد ہمارے کھیت مکانوں میں ڈھل گئے
مرشد ہماری ذات کے معنی بدل گئے

مرشد ہماری بھوک کو رسوا کیا گیا
مرشد ہمارے نام پہ چندہ لیا گیا

کاغذ کی پرچیوں پہ انگوٹھے کی دیر تھی
مرشد ہمارا رِزق کوئی اور لے اُڑا

مسجد کوئی کُھلی ہے نہ مندر کوئی کُھلا
نہ ہی کسی مزار کا لنگر کوئی کُھلا

گلیاں بھی بند شہر کا رستہ بھی بند ہے
اور شہر یار اپنا !!!! اذیت پسند ہے

مرشد سے خطاب ٣

ہر قول ہر قرار کے معنی بدل گئے
اُلفت کے، کاروبار کے، معنی بدل گئے

مرشد وفا کے نام پہ دھوکا دیا گیا
مرشد بساطِ عشق کو اُلٹا دیا گیا

سرحد کے اُس طرف سے بلاتا رہا کوئی
رو رو کے اپنا حال سناتا رہا کوئی

لیکن ہمارے پاؤں میں زنجیر پڑ گئی
مرشد ہمارے عہد کی تاریخ مر گئی

مرشد منافقت کا چلن عام ہو گیا
مرشد وفا کا لفظ ہی بدنام ہو گیا

مرشد سے خطاب ٤

مرشد شبِ ملال گذرتی نہیں ہے کیوں
مرشد ہمارے حصے کا سورج کدھر گیا

اوندھا پڑا ہوا ہے ہر اک گنبدِ خیال
مرشد ہمارے سر سے قیامت گذر گئی

مرشد مری گلی کے بہت لوگ مر گئے
لیکن کسی بھی گھر سے جنازہ نہیں اُٹھا

مرشد جناز گاہ میں بس چار لوگ تھے
میّت تھی کِس کی اِس کی کِسی کو خبر نہیں

مرشد ہر ایک شہر کے ناکے پہ موت ہے
مرشد تمام ُملک قرنطینہ ہو گیا

بے ذائقہ ہوا ہے یہ پیمانۂ حیات
کِس نے ہے اِس شراب میں پانی مِلا دیا

مرشد سے خطاب ۔٥

مرشد ہمیں نصاب پڑھایا نہیں گیا
مرشد ہمیں حساب سکھایا نہیں گیا

ہم کو خدا کے حکم کی تعلیم دی گئی
ہر بار جس میں نِِت نئی ترمیم کی گئی

مرشد ہمیں جہاد کی آیات یاد ہیں
مرشد ہمیں فساد کے اوقات یاد ہیں

ہم حجرۂ ہوس کے غلامانِ خوبرو
حور و قصور لے کے بھلا اب کریں گے کیا

مرشد تمام عمر اذیت میں کٹ گئی
مرشد ہمارے حصے کی ہر چیز بٹ گئی

مرشد سے خطاب ٦

پھر خیمۂ خیال سے اُٹھنے لگا دھواں
سرمہ ہوئی ہے آنکھ کی اِک شامِ کربلا

تیغِ ستم چلی کہیں خنجر الف ہوا
میقاتِ زندگی پہ لہو پھیلتا گیا

روکے ہوئے ہیں اشک بڑے حوصلے کے ساتھ
کچھ سر بریدہ لوگ ہیں اِس قافلے کے ساتھ

ماتم سرائے دل میں عجب کھلبلی سی ہے
مرشد ہمارے درد کی قیمت بڑھائیے

مرشد ہمیں نشاط کی عادت نہیں رہی
مرشد ہمیں انیس کے نوحے سنائیے

مرشد سے خطاب ٧

مرشد ہمارے درد کا درماں کہیں نہ تھا
ہم نے بھی زخمِ دل کی نمائش کبھی نہ کی

آنکھیں ہماری کیسے کوئی خواب دیکھتیں
اِن کو تو آنسوؤں سے ہی فرصت نہیں مِلی

گھر پر رہے تو صحن کی دیوار آ گِری
نِکلے کبھی سفر پہ تو اسباب لُٹ گیا

لوگوں نے اپنی موت کا فرمان پڑھ لیا
اب زندگی کسی کی ضرورت نہیں رہی

گم کردہ راستوں پہ کئی اور بھی ہیں جو
اِس بندگی کے طوق سے نالاں ہیں آج کل

مرشد سے خطاب ٨

مرشد کچھ آپ کو بھی جھگڑنے کا شوق تھا
مرشد کچھ اِن دنوں اُنھیں فرصت بلا کی تھی

سو میری فوج آ کے کروونا سے بِھڑ گئی
اب سرحدوں پہ جا کے کروونے کریں گے کیا

مرشد وہ کہہ رہے ہیں کہ مرشد بدل کے دیکھ
مقتل جو سج گیا ہے تو اب قتل کرکے دیکھ

نظم: لا پتہ کا پتہ

یہ کس نے اپنے ہی گھر میں نقب لگائی ہے
یہ کون اپنا ہی ساماں چُرانے آیا ہے

نہ دن کا ذکر نہ راتوں کا تذکرہ ہے یہاں
ہمیں ہیں شہرِ ستم کے وہ چند ہجر نصیب

کہ جِن کو لُوٹا گیا اُن کے گھر کی چوکھٹ پر
لگا کے قُفل گھروں کو کھڑے ہیں کوچے میں

گلی کے لوگ دریچوں سے دیکھتے ہیں ہمیں
نہ کوئی دستِ تسلی نہ کوئی حرفِ دعا

کِسی تعلقِ خاطر کا شائبہ بھی نہیں
تمام عمر یوں ہی اپنی راستوں میں کٹی

سوال کرتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے
کِسی سے مِل نہ سکا اپنے لاپتہ کا پتہ

برادرانِ سرابیل حِیلہ جُو تھے بہت
نہ جانے کون سے جنگل میں چھوڑ آئے اْسے

نہ جانے کون سے بازار میں بِکا یوسف
نہ جانے کون سے زنداں میں اُس کی عمر کٹی

نہ جانے کون سی تلوار کا نشانہ ہوا
کہ جب بھی ذِکر ہوا اُس کا غائبانہ ہوا

عزیزِ مصر کہیں مِل سکے تو عرض کریں
کہیں سے ڈھونڈ کے لا دے وہ لاپتہ کا پتہ

کہ جس سے بِچھڑے ہوئے ہم کو اِک زمانہ ہوا
بغیر اس کے ہیں ہم چوبِ خشکِ صحرائی

لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا۔۔۔۔۔


لمبی لمبی چھوڑنےوالوں سےخطاب

جرم و سزا کے کھیل سے کچھ بھی نہیں مِلا
لاٹھی سے اور جیل سے کچھ بھی نہیں مِلا

خبروں کے تال میل سے کچھ بھی نہیں مِلا
قرضوں کی ریل پیل سے کچھ بھی نہیں مِلا

باتوں سے اپنی سب کو نہ بہلائیے حضور
موجود ہیں کہیں تو نظر آئیے حضور

جرم و سزا کے کھیل کو اب بند کیجیے
رُوٹھے ہووؤں کو جا کے رضا مند کیجیے


نظم: یہ ہم کون ہیں

یہ ہم کون ہیں
وقت کی شاہ راہوں پہ ننگے قدم
تیز تیز دھوپ میں
بے ردا بے اماں
راستے میں کوئی میل پتھر نہیں
اور ہوائے مسافت گزرتے ہوئے
رک کے کہتی ہے یہ
کوئی منزل تمھارا مقدر نہیں
یہ ہم کون ہیں
بے یقینی کے ساحل پہ تنہا کھڑے
آنکھ کی کشتیاں
پانیوں کے سفر پر روانہ ہوئیں
دور تک
نیلگوں
سبز پانی کا گرداب ہے
واپسی کا تصور بھی اب خواب ہے
خواب ہے
یہ ہم کون ہیں
نیند میں جاگتے
خواب میں بھاگتے
خیمۂ جاں کو اپنے ہی ہاتھوں میں تھامے ہوئے
جن کے کچے گھروندوں کو
بے وقت کی بارشیں کھا گئیں
سب ستم ڈھ گئیں
یہ ہم کون ہیں
سجدہ گاہ محبت میں جن کی جبیں
سنگ در ہو گئی
معتبر ہو گئی
اور ہونٹوں پہ حرف دعا تک نہیں
التجا تک نہیں
آسمانوں کی کھڑکی کھلی ہے مگر
خالق شش جہت
مالک بحر و بر
دیکھ سکتا نہیں
پوچھ سکتا نہیں
یہ ہم کون ہیں

نظم: ضرورت کیا ہے

اس قدر ہم سے گریزاں کیوں ہو
کچھ نہیں ہم ہیں فقط عکس خیال
ایک تصویر کا دھندلا سا نشاں
حرف و معنی کے پر اسرار تسلسل میں کہیں
ان کہی بات کا احساس زیاں
اجنبی شہر میں چلتے چلتے راستہ ہاتھ پکڑ لے تو رکو
جس طرح تیز ہوا آ کے دریچے پہ کبھی
دستکیں دیتی ہے چپ چاپ پلٹ جاتی ہے
اور گزر گاہ سماعت میں فقط گونجتے ہیں
اس کے قدموں کے نشاں
جو یقیں ہیں نہ گماں
کسی اک لمحۂ گزراں کی حقیقت کیا ہے
کار الفت بھی اگر کار اذیت ہے تو پھر
آخر اس کار اذیت کی ضرورت کیا ہے

نظم: مفاہمت

ہم کہ عریاں بہت ہیں
تماشا نہ بن
اپنی ضد چھوڑ دے
میں تجھے اوڑھ لوں
تو مجھے اوڑھ لے

نظم: کابوس

رات کے پہلو میں
بیٹھا ہے سنہری اژدہا
احمریں پھنکار کے
مدھم سروں کا شور ہے
اس گھڑی لگتا ہے وہ کچھ اور ہے
بند ہوتے اور کھلتے دائروں کے درمیاں
آپ اپنی ذات کے گرداب میں
جیسے کوئی دیوتا محراب میں
وقت کے اس نقشۂ مبہم پہ کون
اس کے مسکن کا لگائے گا سراغ
کون رکھے گا ہتھیلی پر چراغ
اس کے نیش آرزو کے ذائقے چکھے گا کون
کس کو دل داری کی فرصت ہے یہاں
ہاں مگر یہ رات ہے اس کی رفیق
دیر تک اپنا بدن ڈسوائے گی
صبح ہونے تک اسی کے رنگ میں رنگ جائے گی

ہجرت کی نظم

پلک کے جھپکتے کئی سال بیتے
میں واپس جو لوٹی تو میں نے یہ دیکھا
مرے گھر کی ہر چھت ٹپکنے لگی تھی
در و بام کا رنگ مدھم پڑا تھا
وہ آنگن کہ جس میں مہکتی تھی چمپا
اس آنگن کا ہر پھول مرجھا گیا تھا
فقط ایک برگد کہ تنہا کھڑا تھا
وہ تنہا تھا اور جانے کیا سوچتا تھا
خزاؤں نے ہر سو بسیرا کیا تھا
یہی وہ جگہ تھی جہاں میرا بچپن
کئی مہرباں نرم ہاتھوں میں گزرا
یہیں پر مری تند خو دھڑکنوں نے
نئے موسموں کی بشارت سنی تھی
مری ساری صبحیں مری ساری شامیں
اس آنگن کی اڑتی ہوئی تتلیاں تھیں
مگر ایک دن ایسی ساعت بھی آئی
مرا گھر فقط چار لفظوں کی اندھی عقیدت کے آگے
آپ ہی آپ چپ چاپ ہو کر
سبھی رابطوں سے سبھی واسطوں سے الگ ہو گیا تھا
بیاض نظر کے وہ موہوم نقطے
بھی پھیل کے دائرے بن چکے ہیں
نئی زندگی میں
پرانے دنوں کی
حقیقت فقط کانچ کی ٹوٹتی چوڑیاں رہ گئی ہے
کہ جن کو تشخص کی حاجت نہیں ہے
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے