عزائم

عزائم

حُسین قُریشی
بلڈانہ ،مہاراشٹر ( انڈیا )

سر، "آپ مجھے میرے دونوں بیٹوں کی ٹی سی دے دیجیے. اب میں انھیں اسکول میں پڑھانا نہیں چاہتا۔ وہ کچھ محنت مزدوری کریں گے تو گھر کے اخراجات میں آسانی ہوگی۔" ذاکر نے خالد سر سے درخواست کی۔ "آپ میرا آفس میں انتظار کریں۔ میں تھوڑی دیر بعد وہاں آتا ہوں۔ ہم وہی پر بات کریں گے۔" یہ کہہ کر سر جماعت میں داخل ہوگئے۔ وقفے کے بعد آفس میں آتے ہی خالد سر نے ذاکر سے پوچھا، مجھے اطمینان سے پوری بات بتاؤ کیا ہوا۔ کیوں تم اپنے ہونہار بچوں کی تعلیم روکنا چاہتے ہو؟ ان کا مسقبل روشن ہے۔ یہ میں تمھارے بچوں کی تعلیمی دل چسپی اور قابلیت کی بنیاد پرکہہ رہا ہوں۔" ذاکر نے کہا ” سر گھر میں چار بیٹیاں ہیں۔ ایک چھوٹا لڑکا ہے۔ کمانے والا میں اکیلا ہوں۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہورہی ہے۔ میرے بچوں کو دو وقت کی روٹی، تن کو کپڑا بڑی مشکل و مشقت کے بعد میسر ہوتا ہے۔ اور نہ ہی میں ان کی چھوٹی تمناؤں اور آرزوؤں کو پورا کر پا تا ہوں۔ میرے رشتے دار اور دوست احباب بھی کہتے ہیں کہ ” کب تک بچوں کو پڑھاتے رہو گے؟ پڑھانے سے کیا نوکری ملے گی؟ تم کیوں اپنی زندگی مٹی کر رہے ہو؟ تعلیم کا غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔" سر نے بات کاٹ کر کہا اور تم نے ان کی بات مان لی۔
"دیکھو ذاکر بھائی!!! ۔۔۔۔۔۔ تمھارے بچے پڑھائی میں ہوشیار ہیں۔ جماعت میں اول نمبر آتے ہیں۔ انھیں کوئی غلط شوق بھی نہیں ہے۔ انھیں پڑھنے دو۔ تمھیں ان کی پڑھائی کا کچھ بھی خرچ نہیں دینا ہے۔ میں سب دیکھ لوں گا۔ ان کی پڑھائی میری ذمہ داری ہے۔ اللہ نے چاہا تو ان کی زندگی کامیاب ہوگی۔ تمھیں اپنے بچوں پر فخر ہوگا۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ اور سنو۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اچھے کاموں میں ساتھ نہیں دیتے اور منفی مشورے دیتے رہتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر بھلا دیا کرو۔ تمھاری محنت و مشقت کا اجر تمھیں ضرور بہ ضرور ملےگا۔ تم ایک ایمان دار حلال کمانے والے شخص ہو۔۔۔۔۔۔ تمھاری تڑپتی دعاؤں کو اللہ ضرور سنے گا۔ صبر سے کام لو۔ ذاکر نے خالد سر کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس چلے آئے۔
ذاکر سال میں ایک دو مرتبہ اسکول میں بچوں کا داخلہ لینے آتا رہتا تھا۔ شاید!! جب مفلسی و غربت کے حالات برداشت سے پرے ہوجاتے تو وہ مجبوراً بچوں کو اسکول سے نکال کر کام کاج یا محنت مزدوری کرنے کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔ حالانکہ اس کی دلی خواہش و تمنا یہی تھی کہ ان کے بچے اسکول میں پڑھیں۔ تعلیم حاصل کریں۔ اچھے انسان بنیں تاکہ وہ اپنی زندگی چھاؤ میں گزار سکیں۔ اس کی طرح تنگ دستی، مفلسی یا محتاجی میں کی کڑی دھوپ میں نہیں۔۔۔ لیکن ایک بڑا پریوار اس ساٹھ سالہ شخص پر منحصر تھا۔ جو گاؤں میں بے یار و مددگار تھا۔ جس کے پاس نہ گھر تھا اور نہ کچھ اثاثہ موجود تھا۔ ڈاکٹر کِنگے انھیں بہ خوبی جانتے تھے۔ ذاکر ان کے دواخانے کے قریب وقتاً فوقتاً پھلوں کا ڈھیلا لگاتا تھا۔ ڈاکٹر کِنگے ایک سماجی خدمت گار بھی تھے۔ وہ ذاکر کے معاشی حالات اور ایمان داری سے بہ خوبی واقف تھے۔ اس لیے ذاکر کے مانگنے پر وہ دو تین سو روپے ہفتے کے دن ادھار دےدیا کرتے تھے۔ ذاکر ان روپیوں سے پھل فروٹ خرید کر پورا ہفتہ پھیری لگا کر بیچتا رہتا۔ روزآنہ صبح سے شام پھیری لگا تا اور شام ہونے پر گھر آکر حساب کرتا. چند روپیوں میں گھر کے اخراجات پورے کرتا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو روپیے واپس دینے کے لیے جمع رکھتا۔ وہ برابر وعدے کے مطابق ڈاکٹر کِنگے کے ادھار لیے روپے لوٹا دیتا تھا۔ اگر کبھی روپیوں کا انتظام نہ ہوتا تو بھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرکے مجبوری بتاتا تھا۔ اس پر ڈاکٹر کِنگے اسے مزید مہلت دے دیتا تھا۔ اس طرح مصیبت و پریشانیوں میں وہ اپنے پریوار کے دن گزاررہا تھا۔ لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہا تھا۔

شام کو عابد اور عارف نے والد سے کہا "ابوجان! آپ آج اسکول سے ہمارا نام نکالنے کے لیے آئے تھے نہ۔۔۔ ابو جان! ہمیں اسکول جانا اچھا لگتا ہے۔ ہم خوب پڑھیں گے۔ اچھے قابل انسان بنیں گے۔ اور تمھارا نام روشن کریں گے۔ تمھیں آرام دیں گے۔" دونوں بیٹوں نے اپنے والد سے کہا۔ ” شاباش!!۔۔۔ میرے بچو۔۔۔۔۔۔ تم قابل بنو۔ اچھے اور نیک انسان بنو۔ بس یہی میری تمنا ہے۔ میں اسکول میں تمھارا نام نکالنے نہیں آیا تھا۔ بلکہ میں تو تمھارے استاد سے ملنے آیا تھا۔ ‘میرے بچےکیسے پڑھ رہے ہیں؟` یہ دیکھنے آیا تھا۔ میرے بچو! تم دل لگا کر پڑھو۔۔۔۔۔۔" ذاکر نے دونوں بیٹوں کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ خوشی کے یا بے بسی کے۔

عابد اور عارف دونوں جماعت ہفتم میں پڑھتے تھے۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ دونوں بھائی خوب دل لگا کر پڑھائی کرتے۔ وقت پر روزآنہ اسکول اور مدرسہ جاتے۔ بڑی لگن و محنت سے ہوم ورک کرتے۔ ساتھ ہی نماز و تلاوت بھی پابندی سے کیا کرتے تھے۔ کھیل کود میں زیادہ وقت نہیں گزارتے۔ والد سے کسی چیزکی فرمائش نہیں کرتے۔ جو ملتا اسی پر اتفاق کرتے۔ یوں ہی دسویں سے بارہویں جماعت میں دونوں نے نمایاں کام یابی حاصل کی۔ اچھے نمبرات کی وجہ سے دونوں بھائیوں کا سرکاری کالج میں ڈپلوما کورس میں داخلہ ہوگیا۔ دو سال بڑی محنت و مشقت سے مکمل کرنے کے بعد دونوں بھائیوں کو سرکاری ملازمت ان کے نمبرات کی وجہ سے مل گئی۔ وہ میریٹ میں آئے تھے۔ ہر سو ان کے چرچے ہوئے۔ لوگ ششدر رہ گئے کہ ان غریب مفلس بچوں نے مثالی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ذاکر، اپنے بیٹوں کی کامیابی پر پھولے نہیں سمایا۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا‌۔ کیوں کہ دنیا، جس تعلیم کو بے کار سمجھ کر انھیں طعنے دیتی تھی۔ آج وہ سب زبانیں سکوت اختیار کر گئی تھیں۔ ایک غریب والد کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا تھا.
جب کوئی ذاکرکی تعریف کرتے ہوئے کہتا کہ ” تمھاری محنت، لگن اور تڑپ نے بچوں کو کام یابی عطا کی۔" تو وہ فوراً جواب دیتا کہ ” نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے‌ جس نے میرے بچوں کے بلند "عزائم" کو کام یابی بخشی۔ اور انھیں صابر رکھا۔"
***
حُسین قُریشی کی گذشتہ نگارش:بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ایک جوہرِ نایاب تھے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے