بہ یاد حبیب جالب مرحوم

بہ یاد حبیب جالب مرحوم

بہ یاد حبیب جالب مرحوم

احمد علی برقی اعظمی

جو لکھا ہے حبیب جالب نے
آج بھی ہے وہ وقت کی آواز
ظلم سے تھے وہ برسر پیکار
ان کی شہرت کا ہے اسی میں راز
انقلاب آفریں ہے ان کا کلام
تھی بلند ان کے ذہن کی پرواز
تھے کبھی قید تو کبھی آزاد
زندگی تھی پر از نشیب و فراز
ذہن کے بند جو دریچے تھے
انھیں برقی وہ کررہے تھے باز

غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی

ظلمتِ شب کے فرسودہ دستور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
جو نشانہ بناتا ہو مزدور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
صبحِ اُمید ہے میرے پیشِ نظر گامزن ہوں رہِ شوق میں بے خطر
کچھ سمجھتا نہیں ایسے مغرور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
روشنی کی کرن جس میں کافور ہو خانۂ قلب جس سے نہ پُرنور ہو
ایسی ویسی کسی صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
خدمتِ خلق بس میرا دستور ہے جو کہ حِرص و ہوس سے بہت دور ہے
اپنا سب کچھ سمجھتا ہو جو حور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
جس کا ہے کارنامہ یہ ویرانیاں بچ کے جائے گا آخر وہ برقیؔ کہاں
وقت دے گا سزا ایسے مغرور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
***
برقی اعظمی کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ فرمائیں :کے ایم ایس بی سحرؔ تھے مایہ ناز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے