ڈاکٹر مظفر حنفی : یم بہ یم سے چنیدہ تک، ایک مطالعہ

ڈاکٹر مظفر حنفی : یم بہ یم سے چنیدہ تک، ایک مطالعہ

مسعود بیگ تشنہ

(میں نے بھائی فیروز مظفر کی فرمائش پر مظفر حنفی مرحوم کے شعری انتخاب ‘یم بہ یم` کے تجزیاتی مطالعہ کے بعد اپنے تاثرات قلم بند کر لیے تھے. ان کے آخری انتخاب ‘چنیدہ` کا پی ڈی ایف فارمیٹ میں مطالعہ کئی بار کیا. مگر ‘چنیدہ` ہارڈ کاپی میں نہ ہونے سے تجزیاتی مطالعہ کو قلم بند نہیں کر سکا. جس کے لیے آج بھی ابنانِ حنفی کے سامنے شرمندہ ہوں. اس تحریر کو قسط اول سمجھا جائے.)
میں نے بچپن سے جواں ہوتے تک چچا مظفر حنفی کے ‘نئے چراغ` روشن ہوتے دیکھے اور پڑھے. مجھے ایک لا محسوس سا تعلق برہان پور، کھنڈوہ اور دلّی سے رہا. برہان پور کہ میرا وطنِ مولود، کھنڈوہ کہ ڈاکٹر مظفر حنفی کا وطنِ مولود اور دلّی جہاں مظفر حنفی کی بیش تر زندگی گزری اور آپ نے ایک دو موقعوں پر دلّی سے مجھے اپنے مشوروں سے نوازا.
مظفر حنفی نے ادب کی تقریباً ہر صنف کو اپنے قلم سے وقار بخشا اور شاعری بھی کثرت سے کی، اطفالی ادب بھی لکھا، افسانے بھی لکھے اور ترجمے بھی کیے. ‘یم بہ یم، پانچ شعری مجموعوں کے بعد کا انتخاب ہے جو 1979 میں ترقی اردو ہند، دہلی نے شایع کیا. آخری انتخاب ‘چنیدہ` کے عنوان سے 2006 میں اشاعت پذیر ہوا. زمانی فاصلے کے اعتبار سے دیکھیں تو’ ہم بہ یم` کا دورانیہ جوانی پر محیط ہے اور ‘چنیدہ’ کا 77 سال کی عمر کا دورانیہ، عمر کے آخری پڑاؤ سے تقریباً ایک دہائی پہلے پہلے کا ہے.
پانچ شعری مجموعوں سے گزرنے کے بعد، اس وقت کے تازہ کلام کے انتخاب میں، عام فہم زبان، سُبک ہندی، عام بول چال کے انگریزی الفاظ، نئی ردیفوں اور نئے قوافی کے ساتھ معاملاتِ حسن و عشق، احساسِ زیاں، آپ بیتی اور کچھ کچھ جگ بیتی کا احساس ہوتا ہے. یہاں زبان اس طرح تیزابی، پتھریلی اور کھردری نہیں ہوئی ہے جیسا کہ ‘چنیدہ` کے انتخاب میں کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے. عموماً یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ مظفر حنفی کی شاعری اپنے استاد شاد عارفی کی طنزیہ شاعری کا ایکسٹنشن ہے. لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی اور مجھے بھی حیرت ہے کہ ان کی شاعری میں طنزیہ پیرایۂ اظہار تو زبردست ہے لیکن جس کھردرے پن کے لیے ان کی شاعری جانی پہچانی جاتی ہے، ویسا تو کچھ بھی نہیں ہے. ہاں کچھ سخت ہندی الفاظ جو صوتی اعتبار سے سخت اور شاعری میں پنہاں موسیقی کے لیے اچھے نہیں مانے جاتے، ضرور استعمال ہوئے ہیں. ہاں ‘چنیدہ` تک آتے آتے شعوری طور پر کھردرے لہجے کی افزائش کی گئی ہے.
ایک انوکھی بات مظفر حنفی کے مقطعوں کی ہے. عموماً غزل کا سب سے کم زور شعر مقطع ہوتا ہے جہاں شاعر اپنے تخلص کو ٹھونستا ہے. یہاں معاملہ الٹا ہے. مظفر حنفی کے اکثر مقطعوں میں ان کا تنقیدی نظریہ جھلکتا ہے جس میں نقادوں کی سرد مہری پر تنقید صاف نظر آتی ہے. یہی مقطع وہ مقام ہے جہاں شعوری طور پر انھوں نے اپنی شاعری کے مبادیات کو واضح کیا ہے. مقطع میں ہی آپ سب سے زیادہ کُھلتے ہیں، اپنے اندرونی کرب کا اظہار کرتے ہیں. انھیں آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے میں مزا آتا ہے اور وہ یہ ہنر مقطع میں خوب آزماتے ہیں :
کیوں مظفر کس لیے بھوپال یاد آنے لگا
کیا سمجھتے تھے کہ دلّی میں نہ ہو گا آسماں
مظفر پُر تکلف محفلوں میں گُھٹ رہا تھا دم
قلم ہاتھوں میں آتے ہی مِرے پر سے نکل آئے
اے مظفر چٹکتی کلی کی طرح
تیری غزلوں میں سوزِ دروں کم نہیں
سبھی ہم عصر چشمے ہوئے خشک
مظفر ہے کہ دریا بہہ رہا ہے
کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں
مظفر سر بسر انکار ہو جا
تنقید بھی حیران مظفر بھی پریشان
قابو میں مری لغزشِ پا کیوں نہیں آتی
اس عہد میں جہاں بھی ہوا تیز و تند ہو
طوفان سا بیاضِ مظفر میں آ گیا
نیزہ، دھوپ کے نیزے، سوا نیزے پر سورج، بگولہ، تیز ہوا، بال و پر، آسمان، بادبان، اونچی اڑان، بلندی، گردباد، ،صحرا، دریا، طوفان، شہ رگ، سمتِ ممنوعہ، شجرِ ممنوعہ، شجر، پرند وہ استعارے ہیں جن میں خاص طور پر بگولہ، بلندی، نیزہ، سمتِ ممنوعہ کی بار بار باز گشت ملتی ہے.
(19 فروری 2021 ،اِندور)
مسعود بیگ تشنہ کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں :تازہ صوبائی انتخابات کے نتائج : فوری و دور رس اثرات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے