حقانی القاسمی: ایک تخلیقی نقاد

حقانی القاسمی: ایک تخلیقی نقاد

ڈاکٹرقسیم اختر
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو، مارواڑی کالج، کشن گنج، بہار 
موبائل:9470120116
qaseemakhtar786@gmail.com

موجودہ دور میں حقانی القاسمی ایک ایسے تنقید نگار بن کر ابھرے ہیں جن کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ وہ ایک منفرد نقاد ہیں اور الگ نہج سے سوچنے کا انداز رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید بصیرت افروز ہوتی ہے اور علمی بھی۔ حقانی ایک ایسے ناقد ہیں جنھوں نے بہت کم وقت میں بلکہ کم عمری میں برصغیر ہند و پاک میں اپنی ادبی حیثیت مستحکم کرلی ہے۔ اور ان کا ذکر حوالوں میں آنے لگا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ اور وہاب اشرفی کے بعد اردو تنقید کے منظرنامے پر ابھرنے والے ناقدین میں حقانی القاسمی یقینا ایک آفتاب کی طرح ہیں۔ ہماری نظر جب آسمان تنقید کی طرف اٹھتی ہے تو حقانی کی ادبی شخصیت سے پھوٹنے والی کرنیں ہمارے ذہن کے دریچوں سے چھن کر دل و دماغ کو روشن کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔حقانی کی تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ وہ ایک فطری نقاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید نگاری ان کی بہترین صحافتی صلاحیت پر غالب اور حاوی نظر آتی ہے۔
حقانی القاسمی کی تنقید میں کئی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ان کی تنقید ایک تخلیقی تنقید ہے اور ان کی یہ تخلیقی جودت ہر تحریر میں نظر آتی ہے۔ اس پر ان کا انداز و اسلوب اور لہجہ مستزاد ہے۔ اور یہ باتیں ان کی تحریروں میں شروع سے نظر آتی ہیں۔ ان کے ایم فل کا مقالہ ’فلسطین کے چار ممتاز شعرا‘ ہی اپنے عنوان کے باعث پہلی نظر میں قاری کو چونکاتا ہے۔ اسی طرح ’طواف دشت جنوں‘، ’لاتخف‘ اور ’بدن کی جمالیات‘ جیسی کتابیں ان کی سوچ اور فکر کا نہج متعین کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ادب میں جمالیات کے حوالے سے ایک بڑا اور منفرد کام شکیل الرحمان نے انجام دیا ہے۔ دوسرا بڑا کام شکیل الرحمان کے جمالیاتی وجدان کا پتہ لگا کر حقانی القاسمی نے کیاہے۔ حقانی کی کتاب ”شکیل الرحمان کا جمالیاتی وجدان" ان کے وجد آفریں تخلیقی ذہن کا علامیہ ہے۔ ادب میں جمالیات کی بحث شروع سے رہی ہے لیکن اب تک حتمی طور پر یہ متعین نہیں کیا جا سکا ہے کہ جمالیات کس پرندے کا نام ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس تنازع سے آگے بڑھ کر شکیل الرحمان نے ادب پاروں میں جمالیات کی تلاش و تفہیم کی اور حقانی القاسمی نے اس تلاش و تفہیم کے حوالے سے شکیل الرحمان کی جمالیاتی حس کو ٹٹولنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بات جتنی آسانی سے کہی جاسکتی ہے اس کاعمل اتنا ہی مشکل ہے۔ یہ کام ایک تخلیقی ذہن ہی کرسکتا ہے۔ ایسے میں حقانی کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کا ذہن تخلیقی ہے اور یہ تخلیقی ذہن ہی انھیں تخلیقی نقاد بناتا ہے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ حقانی القاسمی نے بہت کم وقت میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ ان کی تنقیدی بصیرت کاثبوت یہ بھی ہے کہ وہ ناقدین کے لیے بھی مرکز کشش بن گئے ہیں۔ ان کی تحریروں کے حوالے سے گفتگو باربار ہورہی ہے اوران کی تنقید کی تہہ میں اترنے والے انھیں تخلیقی نقاد قرار دے رہے ہیں۔ میں نے حقانی کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ ان کی تحریروں میں تخلیقیت ہے۔ اور اسی مطالعے کے دوران انور سدید کی رائے میری نظر سے گزری جس سے میری ناقص رائے کی تصدیق ہوتی ہے۔ انور سدید لکھتے ہیں:
”حقانی القاسمی نے اپنی تنقید کو تخلیقی قرار دیا ہے جو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ فن پارے کا صرف تفریحی مطالعہ نہیں کرتے بلکہ مصنف کے باطن میں اتر کر اس کرب کو بھی محسوس کرتے ہیں جو تخلیق کے لمحے میں اس نے محسوس کیا تھا اور پھرحقانی القاسمی تخلیق مکرر کے عمل سے گز رتے ہیں اور مصنف کے تخلیقی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حقانی القاسمی کی نکتہ آفرینی خلیل الرحمان اعظمی جیسا، نوک خار سے لکھنے کا انداز فضیل جعفری جیسا اور دوٹوک بات کرنے کا طریقہ وارث علوی جیسا ہے لیکن مجموعی فضا گوپی چند نارنگ کی طرح استوار ہوتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گمبھیر مطالعہ کی اساس پر اپنی انفرادیت منواتے اور اپنی ٹکسال کاسکہ جاری کردیتے ہیں۔……“
حقانی القاسمی کے کئی ایسے مضامین ہیں جن میں شہروں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ایسے موضوعات عام طور پر محض تاریخی ہوا کرتے ہیں لیکن حقانی کا کمال یہ ہے کہ وہ مطلوب شہروں کے تاریخی پس منظر کے ساتھ وہاں کی تہذیب و تمدن اور ادبی سرگرمیوں اور ثقافتی روایتوں کو مثالوں کے ساتھ اس طرح واضح کرتے جاتے ہیں کہ شہر کی اہمیت دوچند ہونے کے ساتھ ہمارے علم میں اضافہ بھی ہوتا جاتاہے۔ ان کے تخلیقی ذہن سے ہوکر گزرنے والا بہ ظاہر عام اور ایک غیر ادبی نظر آنے والا مضمون ادبی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ان کے ایسے ہی مضامین میں ایک’اناؤ کا تخلیقی الاؤ‘ بھی ہے۔ اس مضمون کی ابتدا ان جملوں سے ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
”مادیت صارفیت نے شہروں کے مزاج بدل دیے ہیں۔ اب شہروں میں شعور نہیں شور ہے۔ حد نگاہ تک ہجوم اور اس میں گم ہوتی تہذیبی ثقافتی قدریں – یہ ہے شہر کا نیا شناخت نامہ۔
شہر کی بدلتی ہوئی سائیکی میں اب صبحوں کا جمال، شاموں کی ملاحت کون تلاش کرے، جاں نثار اختر کی طرح اپنے شہر کے عہد بہاراں، شاداب تمنا کے مہکتے ہوئے خواب، محفل کا فسانہ، خلوت کا فسوں، نغموں کی پکار، گیتوں کاسنگھار کون یاد رکھتا ہے۔ اس مصروف ترین عہد میں گل کدہ پارینہ کے بارے میں سوچنے کی فرصت کس کے پاس ہے؟ اختر شیرانی کی طرح یہ پوچھنے والے بھی تونہیں رہے ؎
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی دل چسپ اندھیرا ہوتاہے
اور سڑکوں کی دھندلی راہوں پر سایوں کا ڈیرا ہوتاہے
باغوں کی گھنیری شاخوں میں جس طرح سویرا ہوتاہے
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں
شاخوں کے گھنیرے پردوں میں نغموں کے خزانے کھولتے ہیں
ساون کے رسیلے گیتوں سے تالاب میں امرت گھولتے ہیں
اپنے شہر کی پرخواب فضا ؤں، بہاروں کے شبستاں کو اب کون یاد کرتاہے۔ یادیں ذہن سے رشتہ توڑتی جارہی ہیں اور شہر کی خاک سے خلوص، مہر وفا غائب ہوتے جا رہے ہیں کہ وقت اور حالات نے لوگوں کی دنیاے آرزو بدل دی ہے۔
آج کے مصروف انسان کو فرصت نظارگی بھی نصیب نہیں ہے اس لیے شہر کی صباحتیں، ملاحتیں سبھی کچھ کھوگئی ہیں۔ شہر کے ماضی کی تلاش اب آسان نہیں رہی کہ یادوں کے نگر بھی آباد نہیں رہے۔ وقت بدلتا ہے تو کیفیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔
اب عشق یار کے وہ عجائب نہیں رہے
اب حسن کی وہ عشوہ طرازی نہیں رہی“
یہ شہر ’اناؤ‘ کے تمہیدی جملے ہیں، جس کے بعد وہ اناؤ کی مٹی کی بھینی بھینی خوش بو، چشم یار کی جادو نگاہی اور شیرینی نسیم کا ذکر کرتے ہیں۔ ان جملوں سے قاری کا ذہن کھنچ کر اناؤ میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اور قاری یہ جاننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے کہ اناؤ کی کون سی ایسی باتیں اور کون سی خصوصیتیں ہیں جو مضمون نگار کو نوحہ خوانی پر مجبور کرتی ہیں؟ ان جملوں میں حقانی قدروں کی پامالی اور بدلتے عہد و ماحول پر نوحہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حقانی کا یہ وہ انداز تحریر ہے جو دامن دل کو کھینچتا ہے۔
قدریں تو بہرحال بدلتی رہتی ہیں لیکن ان کا ملال بھی ہمیں ہوتا ہے۔ حقانی القاسمی کے یہاں یہ احساس شدید ہے۔ وہ شہروں کے شور سے اکتائے اکتائے نظر آتے ہیں اور گاؤں کی مٹی کی خوش بو انھیں اپنے دیس لوٹ آنے کی بات کہتی ہے لیکن شہر کا یہ شور انھیں آنے بھی نہیں دیتا۔ ایسے میں یادیں اور شدت اختیار کرلیتی ہیں اور باربار ذہن کے پردے پر ابھرتی ہیں۔ حقانی کے یہاں یہ کیفیت باربار دیکھنے کوملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی نوعیت بدلتی جاتی ہے۔ لیکن بہر صورت قدروں کی پامالی اور روایتوں کے مٹنے کا احساس موجود ہوتا ہے۔ حقانی القاسمی کے انہی احساسات کی تکمیل ان کے مضمون”چشم و چراغ عالم اعظم گڑھ“ میں ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اعظم گڑھ کے حوالے سے اندلس کو یاد کرتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا احساس ہے کہ عظمتیں ہجرت کرتی ہیں اس یقین کے ساتھ کہ دہلی اجڑتی ہے تو پھر لکھنؤ آباد ہوتا ہے۔ ان کے یہ جملے نوٹ کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ:
”عظمتیں بھی ہجرت کرتی ہیں۔ اس لیے اگر مغرب کا اندلس اجڑ گیا، مشرق کا اعظم گڑھ آباد ہوگیا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ دلی نہ اجڑتی تو لکھنؤ آباد نہ ہوتا۔ علوم و فنون، تہذیب و تمدن کو بھی نئے مکانوں، نئے زمانوں اور نئے قدر دانوں کی تلاش رہتی ہے اور اسی تلاش کے نتیجے میں یہ اپنا مستقر بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مغرب تو کبھی مشرق کبھی شمال کبھی جنوب، علوم و فنون کی محافظت نہ ہو تو مہاجرت مجبوری بن جاتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ علوم و فنون کا ارتقائی سفر ٹھہر جائے تو کائنات ایک تاریک خلا میں تبدیل ہوجائے گی۔ اعظم گڑھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ہر قصبہ مانک مول ہے۔ اگر علم سونا ہے تو اعظم گڑھ یقینا سونا اگلنے والی زمین ہے جسے راجہ بکرماجیت سنگھ کے بیٹے راجہ اعظم خان نے ١٦٦٥ میں آباد کیا تھا۔“
ان جملوں سے تاریخی معلومات فراہم ہونے کے ساتھ ساتھ حقانی القاسمی کی تحقیق و تدقیق کا کارنامہ بھی اجاگر ہوتا ہے۔ یہ حقانی کا کمال ہے کہ وہ اپنے موئے قلم سے معمولی بات کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔ مثلاً اسی مضمون میں انھوں نے ایک قصبہ بندول کا ذکر کیا ہے۔ بندول ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن حقانی القاسمی اسے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بندول قاری کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے رقم ہوجاتا ہے دوسری طرف ہمیں ایک شخصیت کی عظمت کا اندازہ بھی چند جملوں میں ہوجاتا ہے۔ یقینا یہ اقتباس دیکھنے کے قابل ہے۔ حقانی لکھتے ہیں:
”بندول چھوٹا سا قصبہ ہے مگر اس نے ایک ایسی شخصیت کو جنم دیا جس کی فکر نے پورے عالم اسلام میں انقلاب برپا کیا ہے، وہ شخصیت شبلی نعمانی کی ہے جو اردو کے عناصر خمسہ میں سے ایک ہیں۔ باقی چار سرسید، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی اور مولوی محمد حسین آزاد ہیں۔ دنیا انھیں مورخ، سیرت نگار، نقاد اور مورخ کی حیثیت سے جانتی ہے۔ جن کے بارے میں پروفیسر خورشیدالاسلام نے لکھا تھا کہ شبلی پہلا یونانی ہے جس نے ہندوستان میں جنم لیا۔“
حقانی کی یہ تحریر ان کے انداز بیان کے سبب بالکل نئی معلوم ہوتی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ہم شبلی سے ناواقف ہیں اور نہ ہی سرسید اور حالی سے۔ لیکن حقانی جس انداز سے ان کا ذکر کرتے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے۔
ہم اسی حقیقت سے ان کے مضمون ’بنارس کی تخلیقی صبح‘ میں بھی واقف ہوتے ہیں۔ میں یہ بات ایک بار پھر کہنا چاہتاہوں کہ حقانی کی تحریروں میں بڑی چیز تخلیقی ہنر مندی ہے۔ اور اس کا اظہار ان کے مضامین کے عناوین سے بھی ہوتا ہے۔ وہ مضمون جو شہر بنارس پر مبنی ہے اس میں بنارس کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:
”شیو کا بسایا ہوا پانچ ہزار سال پرانا یہ وہ شہر ہے جس کا ذکر ہندوؤں کے مقدس صحیفوں رگ وید، اسکند پران، رامائن اور مہابھارت میں بھی ہے۔ شاد عباسی نے نبی احمد سندیلوی کی کتاب مرقع بنارس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک انگریز کا خیال ہے کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ بنارس کب آباد ہوا تھا تو ہمالیہ پہاڑ کے عالم وجود میں آنے کا زمانہ معلوم کرنا آسان ہوگا اور یہ بھی کہ ہندؤں کا عقیدہ ہے کہ طوفان نوح میں اس شہر کو وشوناتھ نے اپنے ترشول پر اٹھا لیا تھا اور جب قیامت آئے گی تو یہ شہر محفوظ رہے گا۔“
عقیدے سے پرے یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ حقانی القاسمی بنارس کا تعارف کس انداز سے کراتے ہیں۔ حقانی القاسمی کو داد دینی ہوگی کہ وہ شہروں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس کے ادبی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ جس کی بدولت ان کا مضمون تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ہوجاتا ہے۔ اور مجھے یہ بھی کہنے دیجیے کہ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کی گل کاریاں بھی کرتے جاتے ہیں۔ ’بنارس کی تخلیقی صبح میں‘ پریم چند پر گفتگو کرتے ہوئے وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
”اردو فکشن کے بنیاد گزار یہ وہی پریم چند تھے جنھوں نے نبی کانیتی نرواہ جیسا افسانہ اور اسلامی تہذیب جیسا مضمون لکھا۔ اور ببانگ دہل یہ بھی لکھا کہ”یہ بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا۔ تلوار کی طاقت سے کوئی مذہب نہیں پھیلتا۔ بھارت میں اسلام پھیلنے کی وجہ اونچی جاتیوں کے ہندوؤں کا نیچی جاتی کے ہندوؤں پر مظالم تھے۔“۱؎
اسی مضمون میں حقانی القاسمی کی تخلیقی کاوش کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی بات کتابوں سے حاصل معلومات پر ختم نہیں کرتے اگرچہ یہ بھی ایک ادق مرحلہ ہے، لیکن حقانی اس سے آگے بڑھ کر موجودہ عہد تک اس کا سرا ملا دیتے ہیں اور نتیجہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ موجودہ صورت حال امید افزا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”نئی صدی نے عارف ہندی کی ادارت میں جہاں نئی بلندیاں طے کی ہیں وہیں جاوید انور نے تحریک ادب کو اپنی مسلسل محنت سے نیا تحرک بخشا ہے۔ دانش الہ آبادی نے ’سبق اردو‘ کو نئی شناخت عطا کی ہے۔ پہلے یہ رسالہ جدیدیت کے زیرسایہ تھا مگر اب تحویل قبلہ کر کے مابعدجدیدیت کی آغوش میں چلا گیا ہے۔ یہ تمام رسالے ادب کے نئے مسائل و موضوعات کے ذریعہ قاری کے دلوں میں اپنا مقام بناچکے ہیں۔ بنارس جیسی سر زمین میں جو ادبی جمود و تعطل تھا ان رسالوں کی وجہ سے وہ ٹوٹا ہے اور بنارس صحافتی منظرنامے پر اپنی تخلیقی رعنائیاں بکھیرنے میں اب کامیاب نظر آتا ہے۔“
حقانی القاسمی کا تخلیقی ذہن ان کے مضمون ”فتح پور کا تخلیقی طور“ میں بھی پوری طرح بیدار اور کار فرما نظر آتا ہے۔ اس مضمون میں وہ ایک طرف فتح پور کی تاریخی اہمیت و عظمت واضح کرتے ہیں تو دوسری طرف اس سرزمین سے اٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں کا ذکر کرکے اس شہر کو وقار بخشتے ہیں۔ یہ اقتباس دیکھیں:
”نیاز فتح پوری کا یہی وہ شہر ہے جس سے علوم و ادبیات کے روشن ستاروں کا رشتہ ہے۔ اردو ڈرامے کے اولین معمار عبداللہ فتح پوری، ہندی ڈرامے کی ممتاز شخصیت اصغر وجاہت، تحقیق و تنقید کے معتبر نام نیاز فتح پوری، فرمان فتح پوری، ابومحمد سحر، مظفر حنفی، یعقوب یاور فکشن میں امراؤ طارق، شاعری کے باب میں مولانا ابوسعید ایرایانی(فاضل دیوبند)، عطا علی خاک فتح پوری، نشتر، سحر، علی اوسط رشک، زیبا کوٹی، غلام مرتضیٰ راہی، فاروق ارگلی، ظفر اقبال، حباب ہاشمی جیسی شخصیتوں کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والے حکمت اللہ خاں بھی اسی شہر کے ہیں اور فتح پور کی عظمت کو ایک نئی جہت اور اس طور پر بھی مل جاتی ہے کہ ندوۃ العلما لکھنؤ کا تاسیسی تعلق بھی اسی شہر سے جڑا ہوا ہے کہ مولانا سید شاہ ظہورالاسلام اسی شہر کے تھے اور بقول فرمان فتح پوری بعض تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا فی الواقع ندوۃ العلما کے محرک اور بانی تھے۔“
حقانی القاسمی کی یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ نظم و نثر دونوں کی تنقید پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ حقانی کا مطالعہ وسیع ہی نہیں عمیق بھی ہے. اس لیے ان کی تحریروں میں وسعت ہے، اس پر ان کا انداز بیاں اسے خوب تر بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابرار احمد اجراوی ان کی تنقیدی کاوش کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حقانی القاسمی کے علم و آگہی کا ہرگوشہ روشن اور منور ہے۔ اور ذہن کی ساری کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں۔ وہ ادب و صحافت کے ساتھ سیاست و سماج کا بھی درک رکھتے ہیں۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی اور اردو ہندی کے تخلیقی اور تنقیدی سرمایے پر گہری اور عمیق نگاہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نثر و نظم کی تقریباً تمام اصناف پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں، وہ فکشن اور شعر کسی بھی موضوع پر قلم اٹھائیں، پہلے متون کی گہرائی میں اترتے ہیں اور پھر اپنا رخش قلم کاغذ کے سینے پر دوڑاتے ہیں۔ وہ زود نویس بھی ہیں اور بسیار نویس بھی۔ ان کا تنقیدی اعمال نامہ اس کم عمری میں ہی بہت طویل ہوگیا ہے۔ لاتخف، فلسطین کے چار ممتاز شعرا، طواف دشت جنوں، دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، رینو کے شہر میں، خوشبو، روشنی اور رنگ، شکیل الرحمان کاجمالیاتی وجدان، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کولاژ ان کے تنقیدی سفر کے سنگ میل ہیں۔ یہ کتابیں مضامین کا مجموعہ ہیں۔ مگر ہر مضمون ایک متن کی حیثیت رکھتا ہے جس سے کئی تنقیدی متون تیار کیے جاسکتے ہیں۔“
ہمارے قلم کاروں میں ایک اہم نام فاروقی ارگلی کاہے۔انھوں نے حقانی القاسمی کی تحریروں کو پرکھنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ اس سے حقانی کی تفہیم میں آسانی ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”نئی نسل کے نامور قلم کار، منفرد نقاد، صحافی و مبصر حقانی القاسمی کو بیس بائیس برسوں سے جانتاہوں مگر سچے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ انھیں آج تک پہچان نہیں سکا۔ راقم تو خیر اردو کا ایک ادنیٰ سا تذکرہ نگار ہے، خبر نویس کہہ لیجیے لیکن عہد حاضر کے اس عبقری کو پوری طرح پہچان سکنے کا دعویٰ تو اسناد و مناصب کی زرکار خلعتوں میں ملبوس دانشوری کے لیے بھی آسان نہیں۔ اس دور صارفیت میں علم وفضل کی سیلز مین شپ، برانڈنگ اور مارکیٹنگ کی فضاؤں میں حقانی شاید اردو دنیا کی واحد شخصیت ہیں جو ڈاکٹری اور پروفیسری کے طرہ ہائے امتیاز کے بغیر علم و آگہی کی عصری خانقاہ کے ایسے بوریہ نشین درویش ہیں جن کے علمی، فنی اور فکری تصرفات و تخلیقی کمالات کے سامنے اقلیم ادب کی دنیا ساز سلطانی و تاجداری سرنیاز خم کرنے پر مجبور ہے۔“
(مضمون:حقانی القاسمی۔ فاروق ارگلی)
حقانی اور حقانی کی تحریروں پر بہت سے ادیبوں نے لکھا ہے اور ان کی تنقیدی بصیرت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ حقانی کی تحریروں سے ہمارے لکھنے والے مرعوب ہوئے ہیں۔ کیوں کہ ان کی تحریریں ان کے وسیع مطالعے اور ان کے مختلف علوم و فنون پر دسترس کا پتہ دیتی ہیں۔ان کے علم و آگہی کا اعتراف اگر خورشید حیات ان لفظوں میں کرتے ہیں تو قطعی بے جا معلوم نہیں ہوتا:
”کبیرا تیری چدریا کو دیکھتے دیکھتے میں کئی بار بہک گیا کہ من لاگا، من لاگا حقانی تم رے ہرحرف سے ان حروف سے جو دھرتی، امبر، سریتا، ساگر جیسے ہیں۔ میں کہ ٹھہرا ادھورا آدمی، من مورا لاگے فقیری میں، زندگی کی گاڑی ریل کی پٹریوں پر دوڑ رہی ہے۔ سچ بتاؤں مورسنگی! تمھارے بدن کی جمالیات اور پھر شکیل الرحمان کا جمالیاتی وجدان، کئی راگوں کے سنگم، سجن محل، اوم منی پدم، جنسی، طلسمی، تخیلی کائنات، سکمار بدن، نیلگوں شبنمی کپڑے، مدھ بھری آنکھیں، نہر رکناباد، دھنپت رائے سری واستو کی ”نئی بیوی“ اور حافظ کے درون میں ”عشق“ کی آنچ، خواجہ شمس الدین کی شاخ نبات اور بھی بہت کچھ میرے اندر یہ کون سی نئی جوت جلاگئے، رے مورسنگی! نہررکناباد سے ”عشق“ کی ایک نئی لہر بہہ رہی ہے۔“
(کبیرا تیری چدریا کوقریب سے دیکھا۔ خورشید حیات)
آخرمیں مجھ جیساناچیز صرف یہ کہہ سکتاہے کہ حقانی القاسمی کی ہرتحریر سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتاہے اور ہمارے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی ہیں اوریہی حقانی کی پہچان ہے۔
٭٭٭

ڈاکٹر قسیم اختر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ ہو:مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں انفرادی رنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے