جڑیں گر رب سے تو طوفاں سہارا ہو بھی سکتا ہے

جڑیں گر رب سے تو طوفاں سہارا ہو بھی سکتا ہے

🖊️ شعیب سراج

جڑیں گر رب سے تو طوفاں سہارا ہو بھی سکتا ہے
غموں کے اس سمندر کا کنارا ہو بھی سکتا ہے

زباں والو! نہ اترانا فصاحت اور بلاغت پر
سنو! گونگوں کا لفظوں پر اجارا ہو بھی سکتا ہے

اسی امید پر ہم رب سے اب تک گڑ گڑاتے ہیں
"نہیں ہے جو ہمارا وہ ہمارا ہو بھی سکتا ہے”

نہیں ہے شیخ کی نظروں میں جس کی کوئی بھی عزت
وہ عاصی ربِ عالم کا دلارا ہو بھی سکتا ہے

جو ظلمت بو رہے ہیں کان اپنا کھول کر سن لیں
مرے گھر کا کوئی جگنو شرارا ہو بھی سکتا ہے

محمد مصطفی کا شہر ہو اور سامنے کعبہ
نظر والو کوئی ایسا نظارا ہو بھی سکتا ہے

بچھڑ کر مجھ سے تجھ کو فائدہ ہو ہے بہت ممکن
مگر تو یاد یہ رکھنا خسارہ ہو بھی سکتا ہے

ہے جس کو ناز قوت پر بتا دے اے سراج اس کو
مری ہمت کے آگے بے سہارا ہو بھی سکتا ہے
***
صاحب غزل کی یہ غزل بھی پڑھیں:سامنے اس کے میرا ذکر جو آیا ہو گا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے