سامنے اس کے میرا ذکر جو آیا ہو گا

سامنے اس کے میرا ذکر جو آیا ہو گا

شعیب سراج

سامنے اس کے میرا ذکر جو آیا ہو گا
اس نے ہونٹوں پہ تبسم کو سجایا ہو گا

مالی مایوس رہا ہو گا خوشی سے ورنہ
باغ کو کس نے بہاروں میں جلایا ہو گا

دیکھ کر تجھ کو کسی اور کے ہم راہ اسے
"اپنا ٹوٹا ہوا دل یاد تو آیا ہو گا”

رکھ کے سر اپنا کسی دوست کے شانوں پر وہ
تذکرہ کرکے مرا پھوٹ کے رویا ہو گا

بعد میرے مری یادوں کو بھلانے کے لیے
اس نے رو رو کے مرے خط کو جلایا ہو گا

خاک اس وقت خودی اس کی ہوئی ہو گی سراج
اس کے محسن نے جب احسان جتایا ہو گا
شعیب سراج کی یہ غزل بھی ملاحظہ ہو :غزل جب سے وہ گنگنانے لگے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے