خواتین کی خود نوشت سوانح عمری

خواتین کی خود نوشت سوانح عمری

رضوان اللہ

حقانی القاسمی کوئی درجن بھر تصنیفات اور بے شمار مضامین کی تخلیق کے علاوہ مجلاتی صحافت کے دشت جنوں سے بھی گزرتے ہوئے اس راہ میں ”استعارہ“ ، ”بزمِ سہارا“ اور ”عالمی سہارا“ جیسے نشانات ثبت کرنے کے بعد کسی نئے خارزار کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ انھیں کانٹے بہت عزیز ہیں. وہ کانٹوں کو ”زندگی کے تحرک کی علامت“ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے نئے خارزار کو ”اندازِ بیاں“ کا عنوان دیا ہے۔ وہ اسے ایک موضوعاتی مجلہ کہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ایک مجلہ نہیں ایک مجلداتی سلسلہ ہے. کیونکہ اس کو نمبر۱ درج کیا ہے اور آئندہ موضوع کا اعلان بھی کیا ہے۔ اگلا عنوان ہے ”پولیس کا تخلیقی چہرہ“۔
فی الحال ہمارے پیش نظر اس سلسلے کا پہلا مجلہ ہے جو خواتین کی خود نوشست سوانح عمریوں پر مشتمل نہیں بلکہ ان کے متعلق دوسرے لکھنے والوں کے ٢٤ مضامین کا مجموعہ ہے. لیکن ان مضامین سے پہلے ایک تمہید طولانی ہے جو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ”آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے“ اس تمہید کے عنوان ”جنوں زاویہ“ کا مدعا عنقا ہی رہے گا تا آنکہ قاری ان بیس صفحات سے سلامتی کے ساتھ گزر نہ جائے۔ اس عنوان سے پہلے بھی کئی عنوانات ہیں۔ ”باغ شفقت“ اس کے تحت ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ دوسرا عنوان ہے ”شجر محبت“ اس کے تحت بھی ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ تیسرا عنوان ہے ”شاخ الفت“ اس کے تحت بھی ناموں کی ایک فہرست ہے۔ چوتھا عنوان ہے ”دریچے“ اس کا مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اس کتاب کے مشمولات کی فہرست ہے۔
حقانی کو اپنی اس کوشش ناتمام پر افسوس ہے۔ لکھتے ہیں:
”میری کوشش تھی کہ تمام زبانوں میں لکھی گئی خواتین کی آپ بیتیوں کے حوالے سے گفتگو ہو تاکہ نسائی دکھ اور احتجاج کے عالمی منظر نامے سے آگہی ہوسکے مگر کوششوں کی کامیابی کے لیے جن وسائل اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے اس سے محرومی اکثر آرزوؤں کو چکنا چور کردیتی ہے۔ سو،” اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“۔
اس اظہار افسوس کے باوجود حقانی نے اپنے ابتدائیہ میں اور دوسرے مضمون میں جس کا عنوان ہے ”جو رہی سو بے خبری رہی“ جو کہ دراصل ادا جعفری کی خود نوشت کا عنوان ہے اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اس سے اس کتاب کے مشمولات کے بڑے حصے کا احاطہ ہوجاتا ہے اور نسوانی ذہن کے بہتیرے گوشوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
”خواتین کی آپ بیتیاں پڑھتے ہوئے بالکل ایک نئی دنیا روبرو ہوتی ہے جس میں حزن ہے، کسک ہے، درد ہے، دکھ ہے، تنہائی ہے، اداسی ہے، اضطراب ہے، افسردگی ہے، احتجاج ہے، مزاحمت ہے۔ امرتا پریتم کی ”رسیدی ٹکٹ“ آج بھی ذہن کو مشتعل کرتی ہے، ادا جعفری کی جو رہی سو بے خبری رہی، پدما سچدیوں کی ”بوندیاوڑی“ پڑھتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ کشور ناہید کی ”بری عورت کی کتھا“ پیاری لگتی ہے، سعیدہ احمد کی ”ڈگر سے ہٹ کر“ بھی اچھا تاثر پیدا کرتی ہے، ادا جعفری کی جو رہی سو بے خبری رہی آدھی دنیا کے درد سے باخبر کرتی ہے۔ اجیت کور کی ”خانہ بدوش“ ، کسم انسل کی ”جو کہا نہیں گیا“ اور کرشن اگنی ہوتری کی ”لگتا نہیں ہے دل مرا“ اور مینکا گپتا کی ”حادثے“ ایسی خود نوشتیں ہیں جن میں ان خواتین نے نسائی تخلیقی اظہارات اور لمحات گزراں کے نئے تجربے پیش کیے ہیں۔ تسلیمہ نسرین اور تہمینہ درانی بھی اچھے مونتاز تیار کرتی ہیں لیکن ان دونوں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مشرقی معاشرے میں ان کی تحریریں مضر سمجھی جاتی ہیں۔“
”خواتین نے صرف نثر میں آپ بیتی نہیں لکھی ہے بلکہ منظوم خود نوشت سوانح عمری بھی عورتوں کے قلم سے وجود میں آئی ہیں۔ رشیدہ عیان (سیدہ رشیدہ بیگم مرادآبادی، حال مقیم امریکہ) نے ”میری کہانی“ کے عنوان سے ٢٧٨ صفحات پر محیط منظوم خود نوشت لکھی ہے۔ اس کتاب کے دیباچے میں رشیدہ عیان نے بہت خوب صورت باتیں لکھی ہیں۔ ’دنیا میں کہی سنی بات یہی ہے کہ اپنی داستانِ حیات لکھنا آسان کام نہیں، انگاروں پر چلنے کے مترادف ہے، صداقت کے پتھروں پر جب زندگی کے قدم پڑتے ہیں تو پاؤں سے روح تک چھل کر زخمی ہوجاتے ہیں اور جب لہو بہتا ہے تو وہی لکیریں تحریر بن جاتی ہیں۔“
میرا خیال ہے کہ یہ خود نوشت مثنوی کی شکل میں ہوگی۔ اگر چند اشعار بہ طور نمونہ پیش کیے گئے ہوتے تو زیادہ لطف آتا۔ یہی بات ابرار احمد اجراوی کے مضمون بہ عنوان ”عربی زبان میں خود نوشت“ کے متعلق درست معلوم ہوتی ہے۔ چند حوالوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ عالم عرب میں جو تازہ ہوائیں چلی ہیں انھوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔
پنجابی مصنفہ اجیت کور کی ”خانہ بدوش“ پڑھتے ہوئے مشہور رقاصہ اساڈورا ڈنکن Isadora Duncan یاد آگئیں جنھوں نے اپنی آپ بیتی My Life میں لکھا ہے کہ ”آج تک کسی عورت نے اپنی زندگی کی صداقت ظاہر نہیں کی۔ مشہور عورتوں کی خود نوشت سوانح عمریوں میں ان کے ظاہری وجود کا حساب کتاب ملتا ہے …. نشاط اور کرب کے عظیم لمحوں سے متعلق سب کی سب حیرت ناک طور پر خاموش ہیں۔“ اگر اساڈورا اجیت کور کی خود نوشت پڑھ لیتیں تو شاید انھیں اپنی بات میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتی۔
حقانی نے ہندستان میں مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی خود نوشتوں کا بھی اجمالی تذکرہ کیا ہے جیسے کہ سیاست میں، صحافت میں، طب اور زراعت کے پیشوں میں۔ انھوں نے نفیسہ بانو شمع کی خود نوشت ”جنت سے نکالی ہوئی حوا“ کا بھی تدکرہ کیا ہے جس میں جذبوں کے قبرستان کی ویرانی ہو ہو کرتی ہے۔ نفیسہ بانو شمع کی اس داستان میں جتنے نسائی کردار ہیں سب کشتۂ تیغ ستم ہیں۔
بڑی پرکشش اور دل چسپ ہے داستان حرم۔ جن خواتین کی خود نوشت سوانح عمریوں کا تذکرہ زیرِ نظر کتاب میں آیا ہے وہ یقینا کرب ناک اور اذیت ناک حالات سے گزری ہوں گی اور وہ اس کے اظہار پر قادر ہوں گی، ان کے انہی حالات نے انھیں اتنی مہلت بھی دی ہوگی کہ وہ اپنے احساسات کو ضبط تحریر میں لائیں لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ حقیقتیں ہیں۔ اول تو یہی جس کا تذکرہ حقانی نے اساڈورا ڈنکن Isadora Duncan کی خود نوشت My Life کے حوالے سے کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں”آج تک کسی عورت نے اپنی زندگی کی صداقت ظاہر نہیں کی۔ مشہور عورتوں کی خود نوشت سوانح عمریوں میں ان کے ظاہری وجود کا حساب کتاب ملتا ہے۔ غیر ضروری تفصیلات اور واقعات جن سے ان کی حقیقی زندگی کی ایک جھلک بھی سامنے نہیں آتی۔ نشاط اور کرب کے عظیم لمحوں سے متعلق سب کی سب حیرت ناک طور پر خاموش ہیں۔“
دوسرے ساری اذیتوں کا ٹھیکرا مرد سری نظام کے سر پر پھوڑنا صحیح نہیں ہے۔ ادنا سے ادنا اور اعلا سے اعلا خواتین کو اپنی ساس اور نندوں کی زبان سے جو کچھ نکلے اس کو سننا اور ان کی طرف سے جو کچھ آئے اس کو جھیلنا پڑتا ہے، وہ کم و بیش سب پر عیاں ہے۔ مزید یہ کہ انسانی معاشرے نے اپنے آغاز سے اب تک تہذیبی ترقیوں کے دور سے گزرتے ہوئے اور اس کے اعلا معیار تک پہنچنے کے دعوؤں کے باوجود ایسا کوئی نظام مرتب اور مروج نہیں کیا جہاں سارے انسانی طبقات کے درمیان مکمل مساوات اور انصاف ہو۔ اس نا انصافی کا شکار بلا امتیاز مرد و زن سب ہوتے ہیں، شاید عورتوں کے حصے میں زیادہ نا انصافیاں آتی ہیں۔ آخر دونوں اصناف کی بشری کم زوریوں اور توانائیوں کے درمیان جو فرق اور فاصلہ ہے اس کا کیا کیا جائے۔
تیسرے یہ کہنا کہ زندگی کا سارا عذاب صرف عورتوں کے حصے میں آتا ہے، مرد اس سے بالکل مبرا ہیں انصاف سے بعید ہوگا۔ عذاب کی نوعیتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ مغربی ایشیا اور افریقہ کے کتنے ہی ملکوں میں مرد کنوارے رہ جاتے ہیں کیونکہ لڑکی والوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے بھاری رقوم کا وہ انتظام نہیں کرپاتے۔ ان لوگوں کا عذاب کس نے دیکھا سنا اور لکھا ہے۔ خود ہمارے یہاں روزے رکھ کر دن دن بھر محنت مشقت کرنے والوں کی مزاج پرسی کس نے کی ہے۔ سرد راتوں میں کھیتوں میں آب پاشی کرنے والے کاشت کاروں کا حال خراب کس نے دیکھا ہے۔ فصلوں کی خرابی اور سرکاری اور غیر سرکاری قرضوں کی عدم ادائیگی اور تقاضوں سے تنگ آکر خود کشی کر نے والے کسانوں کے درد کو کس نے بانٹا ہے، ان کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سالانہ بتائی جاتی ہے۔ آج کا کسان ایک بھی ”خوشۂ گندم“ کو نہیں جلاتا، خود زہر کھا کر سوجاتا ہے۔
وہ جو مرنے پر تلا ہے اختر
اس نے جی کر بھی تو دیکھا ہوگا
(وکیل اختر، کلکتہ)
اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں بہتیرے معاشرتی نظاموں کا رواج رہا ہے اور نئے نئے تجربات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کثرت ازدواج کی بھی مثالیں ہیں تو کثرتِ شوہری کی بھی، پدرسری اور مادرسری بھی، ان سب سے گزرتے ہوئے ہم جمہوریت کے سرسری نظام تک پہنچے جہاں بلا تفریق مرد و زن سروں کی گنتی ہوتی ہے لیکن اس میں بھی ایک خاتون کی آمرانہ خود سری کو بھی دیکھا گیا جس کو ایمرجنسی کا نام دیا گیا۔ ہمارے یہاں سلطانہ اور مہارانیاں حکمراں ہوئیں، سربراہِ مملکت اور سربراہانِ حکومت خواتین ہوئیں لیکن اصل سوال جہاں کا تہاں ہے، انھوں نے خواتین کے ساتھ منصفانہ سلوک اور ان کے حالات میں بہتری کے لیے کیا کیا۔ اس لیے سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ کی جڑ کہیں اور ہے۔ شاید وہ مسئلہ دونوں صنفوں کے درمیان بشری کم زوریوں اور توانائیوں کے فرق کا ہے اور نزلہ بر عضو ضعیف تو ہوتا ہی ہے۔
ظاہر ہے اس کتاب کا موضوع ایسا سمندر ہے کہ اس کوزے میں نہیں سما سکتا لیکن اردو کے علاوہ کئی دیگر زبانوں میں بھی خواتین کی سرگزشتوں کی چاشنی تو مل ہی جاتی ہے۔ یوں یہ موضوع ایسا ہے کہ اس سے کبھی سیری نہیں ہوسکتی بلکہ تشنگی بڑھتی ہی جائے گی۔ خواتین کی خود نوشت پر مختلف زاویوں سے روشنی کی بات یوں ہے کہ مضمون نگاروں نے مختلف خود نوشتوں کو جیسا دیکھا یا سمجھا اسی کے مطابق ان کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ کہیں کہیں اقتباسات میں لکھنے والی خواتین کی فکری کاوشوں کے نمونے بھی مل جاتے ہیں۔
تمہید کے بعد پہلا مضمون رحمت یونس کا بہ عنوان ”خود نوشت کا فن“ ہے۔ اس مضمون میں سب سے پہلے اردو میں ٣٧ خود نوشتوں کی ایک فہرست ہے۔ آگے چل کر صبیحہ انور کی تصنیف ”اردو میں خود نوشت سوانح حیات“ کے مبسوط اقتباسات ہیں جن میں کئی انسائیکلوپیڈیا اور چند مستند لکھنے والوں کے حوالے سے خود نوشت سوانح نگاری کے خواص اور ان کے عمومی مواد کا ذکر ہے۔ جن میں ایک بات تقریباً مشترک ہے، وہ یہ کہ یہ تحریریں عموماً عمر کے آخری حصے میں لکھی جاتی ہیں اور وہ لوگ لکھتے ہیں جو اظہارِ ذات کے متمنی ہوتے ہیں. ایسے میں امید تو یہی کی جاتی ہے کہ لکھنے والا اپنی ذات کے متعلق سب کچھ بے لاگ لپیٹ لکھ گیا ہوگا، لیکن میرے خیال سے یہ ضروری نہیں ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ لکھنے والے نے اپنی زندگی کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہوگا۔
ان حوالوں میں خود نوشت سوانح عمری کی جو تعریفات اور ان کے لکھنے کے جو محرکات و اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ اس امر کی بھی صراحت ہوجاتی ہے کہ خود نوشت سوانح نگاری اعلا درجے کی صنف ادب ہے۔ اس میں لکھنے والے کا اپنا اسلوب اور اندازِ تحریر ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ خود نوشتوں کے علاوہ بھی ہر شاعر یا ادیب کی تخلیقات میں اس کی ذات کے اجزا ضرور موجود ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے شعرا اور ادبا کی تصنیفات کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ شعر یا تحریر کس کی ہوسکتی ہے۔
اکرم پرویز کا مضمون ”شورش دوراں: نسائی جمال کا نفسی انفجار و انقصام“ دیکھ کر بازخوانی کا لطف آیا۔ دراصل حمیدہ سالم کی یہ آپ بیتی ١٩٩٥ء میں شائع ہوئی اور اتفاق سے تبصرے کے لیے میرے پاس آئی۔ میرا تبصرہ اخبارِ مشرق، دہلی میں جون ١٩٩٦ءمیں شائع ہوا۔ تحریر یا تصنیف شعری ہو یا نثری اس پر تبصرہ کرنے والے کا اپنا زاویہ نگاہ اور اسلوب نگارش بھی اس کی تحریر میں شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اکرم پرویز کے مضمون کا عنوان ہی پڑھنے والے کو چشمہ صاف کرکے کمر کس لینے کا انتباہ کردیتا ہے۔ دراصل تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی ایک زبان ہوتی ہے جو ان کے ہم زبانوں کے لیے ہوتی ہے نہ کہ عوام اور ہما شما کے لیے۔ بہرحال حمیدہ سالم کی زبان و بیان نہایت سادہ ہے. وہ قاری کو اپنے زمانے اور اپنے دور کے سارے مناظر کی سیر کراتی ہوئی بڑھتی جاتی ہیں اور جن منزلوں اور مرحلوں سے گزرتی ہیں ان کے نشیب و فراز بھی جھنکاتی جاتی ہیں۔ مگر نہ کہیں شکوے شکایت ہیں نہ آہ و بکا۔ ایک مرد سری اور روایتی سماج میں رہتے ہوئے لمبی چھلانگوں سے ہفت خواں پار کرتی جاتی ہیں۔ ان کی ان کامیابیوں اور کامرانیوں میں حمید سالم کی جسارتوں کے علاوہ ان کے کنبے کے لوگوں کی وسعت نظر کو بھی بڑا دخل ہے۔ انھوں نے اپنی خود نوشت کے ذریعہ دراصل یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ”انہی پابندیوں میں رہ کے حاصل آزادی کو تو کرلے“
مزید یہ کہ بہت بڑی اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو کام یاب و کامران، خوش اور خوش حال ہیں۔ شاید انھیں ایسی کسک اور ایسی جراحت کا احساس نہیں ہوا کہ وہ اس کا تحریری اظہار ضروری سمجھیں۔ ایسی خواتین بھی ہیں جن کی جراحت سے مرد تنگ ہیں۔ کان پور میں ہمارے ایک پڑوسی ایک دن دامن میں پھٹے ہوئے نوٹ سمیٹے گڑگڑاتے ہوئے گھر سے باہر نکلے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ روپیہ ماں کو دے دیا تھا، پھر بقیہ بیوی کو پیش کیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے. آج شکم مادر میں بچیوں کو زندگی کے حق سے بھی محروم کرنے کی وبا چل پڑی ہے، اس کی ذمہ دار شاید باپ سے زیادہ ماں ہے۔
بہرحال اب Live in relationship کو قانون اور سماج تسلیم کرتا جارہا ہے، ایسے میں مرد سری نظام سے نجات کی طالب خواتین کے لیے میدان بڑا وسیع ہے لیکن ایک زمانہ گزرجانے کے بعد سماج کا حلیہ کتنا مسخ ہوچکے گا اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت لکھی جانے والی سوانح عمریاں خواہ کسی کی ہوں شاید مختلف ہوں گی۔
حقانی صاحب نے حکایات و شکایات حرم کی جو داستانیں پیش کی ہیں وہ دل چسپ ہیں اور انھیں ’سینۂ گل کے گداز (دروں) تک پہنچے کی‘ سعیِ ناتمام پر کسی قدر اطمینان ہوجانا چاہیے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :حقانی القاسمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے