کتاب: افغانستان آخری صلیبی جنگ کا نقطۂ آغاز

کتاب: افغانستان آخری صلیبی جنگ کا نقطۂ آغاز

مبصر: ابو الفیض اعظمی

عابد اللہ جان (مقیم حال کینیڈا) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار، مشہور صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ Independent Center for Strategic Studies and Analysis سے وابستہ ہیں۔ آپ کی شہرت عالمی و سیاسی تبصروں کی وجہ سے بہت زیادہ ہے۔ آپ کے مضامین بین الاقوامی سطح کے جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ نے طالبان حکومت میں UNDP کے ایک مشن کے تحت افغانستان میں مختلف طبقات کے افراد اور طالبان کے اہل کاروں سے باتیں بھی کیں تاکہ طالبان حکومت کی پالیسیوں کے تحت ان کے ترقیاتی کاموں کاجایزہ لیا جاسکے۔
عابد اللہ جان نے نائن الیون کے واقعہ سے چند ہفتے پہلے دہشت گردی سے متعلق اپنی ایک زیر تصنیف کتاب کے سلسلے میں اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری سے انٹرویو بھی کیا تھا جس کا تفصیلی ذکر کتاب میں موجود ہے۔
یہ کتاب ایک ایسے موضوع (آخری صلیبی جنگ ) کے تحت لکھی گئی ہے جس پر بہت سے تجزیہ کار اور مصنفین نے اپنے اپنے حساب سے خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ موضوع ابھی تک برصغیر کے زیادہ تر علما اور مسلم دانشور وں کی نظر میں غیرمانوس ہے، لیکن اہل مغرب خصوصاً یہود و نصاریٰ اس کے ایک ایک حرف سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اسے انجام تک پہنچانے اور امت مسلمہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پوری طرح جدو جہد کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون (9/11) کا واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا اور افغانستان پر حملہ مذہبی نقطۂ نظر سے تھا جس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
باطل کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پوری امت مسلمہ کو مسلک اور قومیت کے نام پر تقسیم کرکے رکھے تاکہ ان کے اندر سے خلافت کا تصور ختم ہوجائے اور وہ ایک امیر کے جھنڈے تلے جمع نہ ہوسکیں، جہاں کہیں بھی اس طرح کی چنگاری نظر آرہی ہو اسے لَو بننے سے پہلے ہی بھسم کردیاجائے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ طالبان کی حکومت پوری طرح سے اسلامی نقطۂ نظر پر قائم نہ تھی لیکن انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر اسے ختم نہ کیا جائے تو یہی ٹوٹی پھوٹی کوشش آگے چل کر خلافت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جو خلا میں وجود پذیر ہونے والی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی اور روحانی پس منظر رکھتی ہے۔
زیرنظر کتاب ’’افغانستان آخری صلیبی جنگ کانقطۂ آغاز‘‘ کل سات ابواب پر مشتمل ہے۔ آخر میں مصنف نے نتیجے کے طور پر کچھ باتیں لکھیں ہیں جو پوری کتاب کاخلاصہ ہے۔
تمہیدی گفتگو کے تحت یہ لکھا گیا ہے کہ ’’افغانستان پر امریکا اور نیٹو کی یلغار، جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا، درحقیقت اسلام اور اسلامی دنیا کے خلاف آخری صلیبی جنگ کا آغاز تھا۔‘‘ مزید لکھا ہے کہ ’’ تمام صلیبیوں کا ہدف اسلام ہے۔ باقی جو کچھ ہم سنتے ہیں مثلاً بنیاد پرستی، سیاسی اسلام، اسلام ازم وغیرہ یہ صرف بہانے ہیں جو دنیا کو بے وقوف بنانے اور استعمال کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، تاکہ اپنے ہدف کوحاصل کیا جاسکے۔‘‘(ص۵)
مصنف نے’’ منصوبہ بند جارحیت ‘‘ کے عنوان سے ایک تعارفی نوٹ لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ ستمبر کے آخر میں ۳۷ممالک میں ایک سروے میں یہ سوال پوچھا گیاتھا کہ اگر دہشت گردوں کی شناخت ایک دفعہ ہوجائے تو امریکی حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ آیا اسے ان ممالک پر حملہ کرناچاہیے جہاں ان دہشت گردوں کو پناہ مل رہی ہے یا امریکا کو ان کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ ان پر مقدمہ چلا یا جاسکے۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت ( جو پہلے سے ’’دہشت گردوں ‘‘ کے ساتھ مصروف جنگ تھے) میں اکثریت نے جنگ کے حق میں رائے دی۔ ۸۰ فی صد یورپین، ۹۰ فی صد ساؤتھ امریکن، ۸۰ فی صد بوسنیائی اور ۶۹ فی صد پاکستانیوں نے حوالگی اور مقدمہ چلانے کے حق میں رائے دی۔‘‘ (ص۲۱،۲۲)
مصنف نے آگے لکھا ہے کہ افغانستان پر حملہ کرنے کے پیچھے انتقامی جذبہ نہیں بلکہ دوسری وجوہات تھیں جن میں ۳ قابل غور ہیں۔ پہلی وجہ طالبان کو تباہی سے دوچار کرنا تھا، تاکہ ان کا اسلامی امارت کا خواب چکنا چور ہوجائے۔ دوسری وجہ امریکہ کے سامنے اس کی استعماری حیثیت کی ساکھ ہے۔….. اور تیسری وجہ وہ مفاد تھا جو کروسیڈ کے نتیجہ میں مال غنیمت یا لوٹ کی شکل میں ممکن الحصول تھا اور یہ وسطی ایشیائی ملکو ں کے تیل اور قدرتی گیس پر اختیار کا حصول تھا۔‘‘(ص۳۲،۳۳)
مصنف نے کتاب کے پہلے باب ’’جنگ کے پس پردہ جذبہ محرکہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ کروسیڈ کا اعلانیہ حوالہ اور طالبان حکومت گرانے کے لیے عملی اقدام بش کے ایسے اقدامات ہیں جنھوں نے کیتھولکس، ایوانجلسٹس پروٹسٹنٹ کو مذہبی فرنٹ پر اکٹھا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔‘‘ (ص۴۲)
مصنف نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ ۲۰۰۱ء میں دیکھا گیا ہے کہ امریکی قصر صدارت کی ترجیحات کے تعین میں مذہبی قیادت کاکردار فیصلہ کن رہا ہے، جن میں افغانستان پر حملہ اور طالبان حکومت کو گرانا، سوڈان کے خلاف ’’امن‘‘ کے بہانے اقدامات اور عراق پر حملہ اور اسرائیل کی زیادہ اہتمام کے ساتھ حمایت جیسے فیصلے شامل ہیں۔ ‘‘ (ص۴۵)
کتاب کے تیسرے باب ’’حقیقی چیلنج‘‘ کی شروعات کچھ اس طرح ہوتی ہے:
’’ہمیں آج کل عالمی اور مقامی دونوں سطح پر اسلام کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس چیلنج پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرناہے۔ ہم نے اس ایشو کو مدت تک نظر انداز کیے رکھا ہے کیونکہ ہم میں برداشت کی صفت ہے اور کچھ ہم سست واقع ہوئے ہیں۔ اسلام کے خلاف ہماری جو مخالفت ہے وہ دکھانی چاہیے اور بعض اوقات ہمیں کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ ‘‘(ص۸۵)
مصنف نے کتاب کے چوتھے باب ’’ جہاد سے صلیبی جنگ تک ‘‘ میں ایک جگہ میڈیا کے پروپیگنڈے کے بارے میں لکھاہے:
’’ ان تمام درخواستوں کو منظور کرنے کے لیے یہ شرائط رکھی گئیں کہ تمام تعلیمی سہولیات مخلوط تعلیم کی یقین دہانی پر ہی مہیا کی جائیں گی۔ روحانی رپوٹرز کو بتایا کرتے تھے کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے بالکل خلاف نہیں ہیں۔ ۔۔۔ تاہم یہ رپورٹرز اتنا تعصب برتتے کہ واپس جا کر رپورٹ دیا کرتے تھے کہ طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی ہے۔‘‘ (ص ۱۵۹)
چھٹے باب ’’ جنگ اور قبضہ کاجواز‘‘ میں مصنف نے ایک جگہ القاعدہ کے سلسلے میں یہ لکھا ہے:
’’القاعدہ اکیسویں صدی کے عظیم ترین ’’جھوٹوں‘‘ میں سے ایک جھوٹ ہے۔ دنیا میں القاعدہ کی ہیئت سے کوئی تنظیم موجود نہیں ہے سوائے ان جھوٹی ویڈیوز کے جو اس کے متعلق بنائی گئی ہیں۔‘‘ (ص۲۲۳)
حاصل بحث کے طور پر مصنف نے کچھ الگ سے باتیں لکھی ہیں۔ وہ ان میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’ اشرافیہ کی ایک ’’جمہوری‘‘ حکومت جس طرح جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لے کر اکثریت پر حکمرانی کرتی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے کے متعلق نیو یارک ٹائمز بات نہیں کرتا۔ جس اختلاف رائے کا تذکرہ اخبار کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے مطابق رہنے سے انکار کیا جائے اور قرآن کو اللہ کے آخری منشور کے طور پر تسلیم کرنے کو مسترد کیاجائے۔‘‘ (ص۲۷۲)
کتاب کا اسلوب بیان شستہ اور سادہ ہے، لیکن حقائق اور چشم کشا رپورٹوں اور دستاویزات کی وجہ سے سلاست اور روانی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے بعض دفعہ کتاب پڑھنے سے من اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ کتاب موضوع کے اعتبار سے اپنا ایک انفرادی مقام رکھتی ہے جسے پڑھنے کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ ساتھ میں باطل کے منصوبوں کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتاہے۔
اس کتاب کے مترجم محمد فہیم صاحب ہیں۔ یہ کتاب ۳۵۰ صفحات پر مشتمل ہے، مکتبہ خدام القرآن لاہور نے شائع کیا ہے.
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :خوف کے سائے میں از ابوالفیض اعظمی 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے