جعلی دانشوری

جعلی دانشوری

فاروق طاہر
حیدرآباد، انڈیا farooqaims@gmail.com
9700122826

ہرآدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اسے پسند کریں۔ ہر کوئی اپنی ذہنی سطح، معیار و ذوق کے حساب سے خود کو پیش کرتا ہے۔ اپنی ذہنی و علمی سطح، معیار اور ذوق کے لحاظ سے افراد ایک دوسرے کو پسند یا پھر مسترد کرتے ہیں۔ پسند اور استرداد، دونوں جس طرح ایک دوسرے کے متضاد ہیں بالکل اسی طرح دانش وری اور بے وقوفی بھی ایک دوسرے کی مقابل صفت ہے۔ جب تک لب کشائی نہ ہو دانش ور اور بے وقوف دونوں یکساں نظر آتے ہیں۔ آدمی خواہ دانش ور ہو یا بے وقوف خود کو ایک سنجیدہ اور ذہین شخص کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ خاص طور پر آج کی مسابقتی دنیا میں کوئی بھی شخص اپنے آپ کو گونگا یا بے وقوف کہلانا ہرگز پسند نہیں کرے گا۔ مادی فوائد کے لیے، یا پھر تعلق و رشتہ پیدا کرنے کے لیے نااہل افراد کا خود کو احمقانہ طور پر قابل بنا کر پیش کرنا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن تعلیم یافتہ اور بااثر افراد بھی آج کل ایسے بونگے پن سے خالی نظر نہیں آتے۔ اب تو دانشوروں کی محفلوں میں بھی بونگے پن کے ہوش ربا جلوے آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ بونگے بھی اب اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنے علم میں اضافے کے لیے سخت محنت کرتے نظر آرہے ہیں۔ پی ایج ڈیز کی بڑھتی ہوئی شرح سے اس بات کا آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بجا بالکل بجا، ہر ایک پی ایج ڈی بونگا نہیں ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ صف بونگوں سے بالکل خالی بھی نہیں ہے۔ پی ایج ڈی تو کیا زندگی کے ہر شعبہ میں اب بونگے پن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ احمق پن کو یقینا علم اور محنت سے دور اور دانش مندی کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ لیکن جو تن آسانی سے کام لیتے ہوئے دانش وروں کی صف میں خود کو شامل کرنا چاہتے ہیں ان میں احمق پن آن بان اور شان سے قایم و دائم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنے علم میں اضافے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔تاہم ایسا کرتے وقت کئی ایک اصل مقصد سے بھٹک بھی جاتے ہیں۔ ایسے افراد چند موضوعات پرعبور و گہرا علم پیدا کرنے کے بجائے انھیں سطحی انداز میں سمجھنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بونگا پن یہیں سے جنم لیتا ہے۔
کیا اہل کیا نااہل، اب تو جو بھی اونچے مقام و مرتبہ پر جیسے تیسے پہنچ گیا وہ دانش ور بن گیا۔ مقام و مرتبہ اور دانش وری سکھانے کے نہ تو اب اسکول رہے نہ کالج اور نہ یونی ورسٹیز۔ آج کل یہ سب بعض اعلا منصب و عہدوں پر فائز افراد کے آگے پیچھے رہنے والی مصاحبوں کی ٹولیوں کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ وہ اس اعتماد سے ان بونگوں کی دانش وری اور فراست کی داستانیں بیان کرتے ہیں کہ انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ ایک دانش ور ہیں۔ اب شروع ہوتے ہیں اعتماد سے بھرے بونگے پن کے مظاہرے۔ جاہل تو کجا علم والے بھی اپنے مفادات حاصلہ کے لیے اونچے رتبوں پر فائز نالائق افراد کے ہر بونگے پن کو کمال ثابت کرنے میں اب قطعی عار محسوس نہیں کررہے ہیں۔ اعلا مرتبت حضرات کے بونگے پن کی بات چلی ہے تو مناسب لگتا ہے کہ آپ کو ایک واقعہ یاد دلادوں۔ ایک وزیر کو پریشان دیکھ کر اس کے چپراسی نے پوچھا ”حضور کچھ پریشان نظرآرہے ہیں“۔ ”مزاج دشمناں تو ٹھیک ہے؟ اگر کوئی خدمت میرے لائق ہو تو عرض کیجیے گا۔“”ہاں! کچھ مسئلہ تو ہے“۔وزیر صاحب نے عرض کیا ”خیر جانے دو یہ تمھارے بس کی بات نہیں ہے“۔چپراسی نے بڑے ادب سے کہا”حضور پچیس سال سے وزرا کی دربانی کر رہاہوں۔ اتنا تجربہ تو ہے کہ دو ایک مسئلوں کو تو چٹکی بجاکر حل کرسکتا ہوں“۔ تب وزیر نے کہا ”ایک ٹھیکے دار چند دن قبل خدمت خاص کا وعدہ کرتے ہوئے ٹھیکے کی منظوری لے کر چلتا بنا۔ ہفتہ دس دن ہوگئے، وعدہ وفا نہ ہوتا دیکھ کرمیں نے اس کی فائل منگا کر اس پر Not approved لکھ دیا۔ ٹھیکے دار کو معلوم ہوا تو وہ دوڑا دوڑا آیا۔ اپنا وعدہ پورا کرنا چاہتاہے۔ اب میں کیا کروں؟“۔چپراسی نے کہا حضور اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ فائل منگائیے Not کی tکے آگے e لگا کر اسےNote کردیجیے Not approved، Note approved بن جائے گا۔ بونگوں کی رہبری کرنے والے ایسے چپراسی اب کثرت سے نظر آرہے ہیں۔ جہاں چپراسی کی نظر ہٹی بااعتماد بونگے پن کے مظاہرے دیکھتے جائیے اور چاہے تو افسوس کیجیے یا پھر لطف لیجیے۔
آج کل حکومت، اقتدار، ملازمت اور علم و ادب کی غلام گردشوں میں ایسے لوگوں کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔بلاشبہ قیادت، سیادت اور رہ بری و رہ نمائی دانشوروں کے کام ہیں اور یقیناً یہ ان ہی کو انجام دینے چاہئیں۔ لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہر آدمی کو اس بات کا علم ہوجائے کہ ہر کام اس کے بس کا نہیں۔کسی بات کا نہ جاننا آج کے آدمی کے لیے ایک ناقابل برداشت صدمہ ہے۔ اپنی لاعلمی کو چھپانے وہ ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے آپ کو ذہین اور سنجیدہ ثابت کرسکے۔ زندگی کے ہر محاذ پر ایسے لوگ درجنوں نہیں، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں مل جاتے ہیں۔ جاہلوں سے ٹکرانا خود عقل اور دانش مندی کی توہین ہے۔ عقل مندوں کا زندگی، اقتدار اور رہبری یا کسی بھی محاذ پر بونگوں سے سامنا ہوتا ہے تو وہ، ان سے الجھنے کے بجائے کمال مروت سے ان سے اعراض کرلیتے ہیں۔قرآن کریم اس سلسلے میں ہماری رہ بری کرتا ہے ”اور جب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے۔“(سورہ فرقان آیت 63)۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک ایسی تنگ گلی سے گزر رہے تھے جس سے ایک وقت میں صرف ایک آدمی گزر سکتا تھا۔ مخالف سمت سے ایک حزب اختلاف کا لیڈر آگیا۔ آمنے سامنے آکر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔ مخالف لیڈر نے کہا ”میں گدھوں کو راستہ نہیں دیتا“۔ ”لیکن میں دے دیا کرتا ہوں۔“ ونسٹن چرچل یہ کہہ کر ایک جانب ہٹ گئے۔ ونسٹن چرچل نے کمال شرافت سے بغیر الجھے بونگے پن کا جواب دانش مندی سے دے دیا۔ گدھوں کو راستہ نہ دینے کی بات کرنے والے خودساختہ دانش وروں کی مثال انگریزی کی کہاوت "Jack of all trades,but master of none.”کے مصداق نظرآتی ہے۔ یہ محاورہ ہے اسے آپ اصطلاح بھی کہہ سکتے ہیں. دراصل ایک ایسے کثیرالہنر شخص پر گہرا طنزہے جو ہر شے کا سطحی علم تو رکھتاہے لیکن اسے کسی بھی شے پر دست رسی و گہرائی حاصل نہیں رہتی۔ ہرچیز جانتا ہوں کے زعم میں اس کی بے وقوفی اور خراب کارکردگی لوگوں کے لیے مذاق کا موضوع بن جاتی ہے۔”جیک“ انگریزی کا ایک معروف نام ہے جسے کسی بھی عام فرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انگریزی ادب میں اس جملے کا استعمال 14ویں صدی سے شروع ہواجس کی مثال جان گوور (John Gower) کی نظم Confessio Amantist،1390 میں ملتی ہے۔ اردو مضمون میں انگریزی بیانیہ !!۔ براہ مہربانی اسے بونگے پن پر محمول مت کیجیے۔ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ”حکمت و دانش مومن کی گم شدہ میراث ہے، وہ اسے جہاں پائے حاصل کرلے۔“(ترمذی)۔ یہ مضمون لکھنے کا مقصد ہی معاشرے میں پائے جانے والی جیکوں (جعلی دانش وروں) کی شناخت و پہچان کرانا ہے تاکہ نامعقولیت کو ختم کیاجا سکے۔ جعلی و سفلی نظریات کو جڑ سے اکھاڑ کر دنیا کو امن و سکون اور راحت و مسرت کا گہوارہ بنایاجا سکے۔
احمق کے معنی ہیں ”جس میں بات سمجھنے کی صلاحیت کم ہو یا نہ ہو، بیوقوف، ناسمجھ (مرد یا عورت)“۔ لفظ احمق ”حمق“سے مشتق ہے۔ "حمق“ کا معنی ہے بے وقوفی۔ یہ عقل مندی کا متضاد ہے بلکہ اسے عقل کی خرابی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ بازار کی مندی کے اظہار کے لیے عربی زبان میں ”حمقت السوق“ لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بے وقوف بھی عقلی طور پر مندی کا شکار ہوتا ہے اسی لیے اسے احمق کہا جاتاہے۔ احمقوں کی پہچان کی داناؤں نے چھ نشانیاں بیان کی ہیں۔ (1)بلاوجہ غصے میں آنا (2)غیر مناسب جگہ پر مال اُڑانا (3)بلا فائدہ باتیں کرنا (4)ہر ایرے غیرے پر اعتماد کرنا (5)راز فاش کرنا (6)دوست دشمن میں فرق نہ کرنا اور اپنے آپ کو دانش ور سمجھ کرجو دل میں آئے کہہ دینا۔
ذی عقل آدمی اپنے آغاز ہی سے انجام کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ انجام کی فکر مندی اسے ہمیشہ خرابیوں سے روکتی ہے۔عقل، آدمی میں فکر و تدبر پیدا کرتی ہے۔عقل آدمی کو شرف عطا کرتی ہے۔ عقل سے آدمی مکلف ہوتا ہے، اس کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عقل آدمی کو نقصان سے محفوظ رکھتی اور مذموم قول و فعل سے بھی روکتی ہے۔ انسان کے پاس عقل سے بڑھ کر ہدایت اور بری چیزوں سے روکنے والی کوئی دوسری شے موجود نہیں ہے۔ ”اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمھیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے“(آل عمران 102)۔ علم سے عقل کو زندگی ملتی ہے جیسے آل عمران کی مذکورہ آیت واضح انداز میں اللہ سے اسی طرح ڈرنے کا مطالبہ کررہی ہے جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ کسی بات کو فوراً سمجھ جانا ہی عقل مندی کی علامت ہے۔ جو آدمی اپنی پیدائش کے مقصد، زندگی اور مقصد حیات کو نہ سمجھے دراصل وہی سب سے بڑا احمق اور نادان ہے۔ علم عقل کی افزائش کے لیے ضروری ہے اور زندگی کے تجربات عقل میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔ شریعت عقل و دانش کا مجموعہ ہے اور دین، عقل کے لیے روشنی کا کام کرتا ہے۔ بے شک شریعت اور شرعی مسائل و مقاصد عقل سے ہی سمجھے جاسکتے ہیں لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ عقل جب تک شریعت پر قائم رہے سیدھی رہتی ہے اور جیسے ہی شریعت سے اس کے پاؤں ڈگمگائے وہ گم راہی کا شکار ہوجاتی ہے۔ عقل ابتدا ہو کہ انتہا وحی سے رہ نمائی حاصل کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ عقل و ہدایت کے سارے راستے بند ہیں سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے قرآن اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی زندگیوں کو منور کیا ہو۔ عقل سلیم وہی ہے جو آدمی کو اپنے وحشی نفس پر قابو پانے کی ترغیب دے اور طمع و لالچ سے دور رکھے۔امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا ”انسان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ اپنے نفس کو بے نیازی کی تربیت دے اور طمع کا شکار نہ ہو۔ اس کے بعد کوئی پریشانی آجائے تو صبر کو اپنا شعار بنائے اور ہر ایک سے فریاد نہ کرے کہ اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جائے اور جب بولنے کا وقت آئے تو فکر کو زبان پر حاکم بنائے اور زبان کو نفس کا حاکم نہ بنا دے کہ جو چاہے کہنا شروع کر دے۔“حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عقل مند آدمی مختصر امیدیں رکھتا ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ سے فرمایا ”اے امیر المومنین! اگر آپ کو یہ بات پسند ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ سے جا ملو تو آپ اپنی امیدیں مختصر کریں اور کھانا کھائیں، لیکن پیٹ نہ بھریں اور لنگی بھی چھوٹی پہنیں، کرتے پر پیوند لگائیں اور اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھیں۔ اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جا ملیں گے۔ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں۔“ بہ زبان علامہ اقبالؒ
اس کی اْمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
نرم دمِ گْفتگو، گرم دمِ جْستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
عقل مندی کی تعریف حضرت سفیان بن عیینہ ؒ یوں بیان کرتے ہیں ”عقل مندی یہی نہیں ہے کہ اچھی بری چیز میں فرق کر لے، بلکہ عقل مند وہ ہے جو اچھائی کو پہچان کر اپنا لے، اور برائی کو دیکھ کر اْس سے بچ جائے“۔ ایک سو بیس (120)سالہ آدمی سے پوچھا گیا ”عقل مندی کیا ہے؟ اس نے کہا کہ عقل مندی یہ ہے کہ ”جہالت اور خواہشات پر تمھارا حلم غالب آجائے۔“ کسی دیہاتی سے عقل کے سب سے بڑے فائدے کے متعلق پوچھا گیا تو وہ کہتا ہے ”گناہوں سے بچنا۔“ ابو حاتم عقل مندی کی درجہ بندی میں اسے سب سے اعلا درجے کا عقل مند سمجھتے ہیں جو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا ہے۔“ جس کی عقل پختہ ہوگی، جس میں انتہا درجہ کی سمجھ داری ہوگی اور جس میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہوگی وہ شخص یقینا اپنے رب کا مطیع ہوگا، اسی کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھے گا اور عقل کے مطابق اس میں اطاعت و عبادت گزاری کا جذبہ بھی بہ درجہ اتم پایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”صرف عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں“(آل عمران 7)۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ وعظ و نصیحت اسی شخص کو فائدہ دیتی ہیں جو عقل و حلم والا ہو اور سمجھ دار و دانش ور ہو۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں ”تمام لوگ بچپن والی عقل رکھنے میں مساوی ہیں، ہاں وہی دانش ور اور عقل مند لوگوں کے مقام پر پہنچتا ہے جو حق کو علمی، عملی، اور معرفت کے انداز سے پہچان لیتا ہے“۔ درحقیقت عقل والا وہی ہے جو ایک اللہ کی عبادت کرے کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے، خود کو شہوتوں سے محفوظ رکھے، اہل فسق و فجور، بے عقل اور بے وقوفوں کی سطح پر کبھی خود کو نہ گرائے، جاہلوں، گناہوں میں ملوث اور حرام کاموں کے دل دادہ افراد سے بچ کر ہمیشہ اللہ کی طرف توجہ کرے۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہو بھی جائے تو فوری توبہ کرے۔ اللہ رب العزت کے نزدیک دراصل یہ ہی لوگ عقل والے ہیں ”جو توجہ سے بات کو سنتے ہیں پھر اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں، یہی ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقل والے ہیں“(سورۃالزمر18)۔
جعلی دانشوری کی پہچان
جعلی دانش ور بہت تیزی سے بات کرتے ہیں، بات کرتے ہوئے گھبرا جاتے ہیں اور اگر کسی برے کام کا کہا جائے تو فوری کر گزرتے ہیں۔ جعلی دانشواران کو ان کے مزاج کے ہلکے پن، سریع الغضب، جہالت، بے حیائی، بد گوئی، تکبر، خود پسندی، غفلت، سستی، نعمتوں کا ضیاع، کم علمی، اچھے لوگوں سے دشمنی، برے لوگوں سے دوستی، بنا تحقیق خبریں پھیلانا، ہر وقت لڑائی جھگڑا میں مشغول رہنا، یا جھگڑے و فساد بھڑکانے کے کاموں میں لگے رہنا، بڑوں کی عزت نہ کرنا، اور دوست احباب کو بھی چونا لگانا وغیرہ جیسی صفات و علامات سے بہ خوبی پہچانا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جو ان مذموم صفات سے خود کو بچاتے ہوئے، ہر شے کی حقیقت کو پہچان کر ذی عقل افراد کے نقش قدم پر چلتے ہیں نہ صرف وہ جعلی دانشوروں کے نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ عقل کے فیوض و برکات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ علم والوں کے لیے ضروری ہے کہ سطحی سوچ اور حیران و پریشان لوگوں کے پیچھے لگے رہنے سے خود کو بچائیں کیونکہ یہ بے عقل جانوروں کے کام ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اللہ کے ہاں بدترین جانور وہ ہیں جو بہرے، گونگے اور بے عقل ہیں (انفال 22)۔ امیر المومنین حضرت علی کی اپنے بیٹے حضرت حسن ؓ کو قبل از مرگ کی گئی نصیحتیں عقل کے متلاشیان کے حق میں زاد راہ کا کام کرتی ہیں۔ جب ابن ملجم ملعون نے حضرت علیؓ کو جنجر مارا تو حضرت حسن ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسنؓ رو رہے تھے، حضرت علیؓ نے فرمایا ”اے میرے بیٹے! کیوں رو رہے ہو؟ عرض کیا ”میں کیوں نہ روؤں، جب کہ آج آپ کا آخرت کا پہلا دن اور دنیا کا آخری دن ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ”چار اور چار (کل آٹھ) چیزوں کو پلے باندھ لو۔ ان آٹھ چیزوں کو تم اختیار کروگے تو پھر تمھارا کوئی عمل تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ حضرت حسنؓ نے عرض کیا ”ابا جان! وہ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا ”سب سے بڑی مال داری عقل مندی ہے، یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اور سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت کی چیز اور سب سے بڑی تنہائی عْجب اور خود پسندی ہے اور سب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں“۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں ”میں نے کہا: اے اباجان! یہ چار چیزیں تو ہوگئیں، مجھے باقی چار چیزیں بھی بتا دیجیے۔ فرمایا: ”بے وقوف کی دوستی سے بچنا، کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمھارا نقصان کر دے گا اور جھوٹے کی دوستی سے بچنا، کیونکہ جو تم سے دور ہے، یعنی تمھارا دشمن ہے، اسے تمھارے قریب کر دے گا اور جو تمھارے قریب ہے، یعنی تمھارا دوست ہے، اسے تم سے دور کر دے گا (یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اور نزدیک والی چیز کو دور بنائے گا اور تمھارا نقصان کر دے گا) اور کنجوس کی دوستی سے بھی بچنا، کیونکہ جب تمھیں اس کی سخت ضرورت ہو گی، وہ اس وقت تم سے دور ہو جائے گا اور بدکار کی دوستی سے بچنا، کیونکہ وہ تمھیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔“ (حیاۃ الصحابہ حصہ سوم)
زندگی میں آپ کا سامنا کبھی نہ کبھی، کم از کم ایک ایسے آدمی سے ضرور ہوا ہوگا جو، سب کچھ کے بارے میں کچھ تو ضرور کہنا چاہتا ہے (Something to say about everything)؟ یا، دوسروں کی رائے و نقطہ نظر کو سمجھے بغیر رد کر دیتاہے یا پھر ہمیشہ بحث و تکرار سے خود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ تعجب نہ کیجیے، یقینا آپ کا سامنا ہوا ہوگا۔ اب تو یہ سانحات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ معاشرہ ایسے جعلی افلاطونوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب پڑوس میں، گلیوں میں، نکڑوں پر، بازاروں میں، دکانوں میں، اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں، عبادت گاہوں، عدالتوں، تھانوں، اقتدار کے ایوانوں، دفتروں، علمی، طبی ادبی، تعلیمی، رفاہی، فلاحی و صحافتی اداروں اور انجمنوں میں ہر جگہ آپ کو جعلی دانشوران( جاہل افلاطون)بغیر کسی تلاش کے مل جائیں گے۔ آپ انھیں جاہل افلاطون کہہ لیجیے یا جعلی پھر دانشور
(Pseudo Intellectual)یا دانشور نما جاہل، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو بھی ان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یقینا ان نفوس بابرکات کی موجودگی سے آپ پر نمایاں فرق پڑے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے کہ یہ جعلی دانشور (Pseduo Intellectuals)جعلی افلاطون آخر کیا بلا ہیں۔ جعلی دانشوری
(Pseudo Intellectualism) کیا شے ہے۔ جعلی دانشور(سوڈو انٹیلیکچوئل) کی کیا پہچان ہے۔ ان سے کس طرح بچا جاسکتا ہے۔ اس مضمون کے ذریعے آپ کی توجہ جعلی دانشوروں کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنے اردگرد پائے جانے والے ان دانشوروں کو پہچان کر ان سے اعراض کریں اور ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھائیں تاکہ سماج کو صحیح خطوط پر چلایا جاسکے۔
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :ڈیجیٹل مواد، تخلیق و تیاری کے پہلو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے