روشنیوں کے شہر کی تیرگی!

روشنیوں کے شہر کی تیرگی!

(سندھی ادب سے ترجمہ)

تحریر : زيب سندھی
مترجم: آکاش مغل
انتخاب و پیش کش : ظفر معین بلے جعفری

گھر کے ایک گوشے میں موجود قدرے تنگ کمرے میں سوئے ہوئے، اسی سالہ باپ کی رات کے کسی پہر اچانک آنکھ کھلی تو بیٹے اور بہو کے درمیان جاری بحث و تکرار کی آوازیں اس کی سماعت سے ٹکرائیں. بہو، سسر کو گھر سے بے دخل کرنے پر بضد تھی اور بیٹا، بیوی کو چند روز صبر کرنے کی تلقین کر رہا تھا. کچھ دیر جاری رہنے والی اس بحث کا اختتام اس وقت ہوا جب، بیوی نے شوہر کو دھمکی دی، "اگر تم صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے باپ کو اپنے بھائی کے گھر چھوڑنے کے لیے لے کر نہیں گئے تو، تمھارے دفتر سے واپسی تک میں اس گھر میں نہیں رہوں گی … مجھے دو منٹ میں سوچ سمجھ کر جواب دو، ورنہ میں ابھی جاکر پیکنگ کرتی ہوں !"
بیوی کی دھمکی کے بعد ان دو منٹ کی خاموشی کے دوران، لاؤنج میں بیٹھی بیوی، شوہر کے جواب کی منتظر تھی اور اے سی سے محروم تنگ و تاریک کمرے میں قیامت خیز گرمی کے باعث کھڑکیاں دروازے کھول کر بستر پر کروٹیں بدلتے بوڑھے باپ کے کان بھی بیٹے کا جواب سننے کے منتظر تھے، جاں گسل سناٹے میں اس پیر تسمہ پا کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ، وہ اٹھے اور جا کر بہو سے کہے کہ، "بیٹی، کل صبح سورج نکلتے ہی میں خود یہاں سے نکل جاؤں گا، تم دونوں آپس میں ہنسی خوشی رہو …" لیکن اس نے اس خیال کو اندر ہی دبا دیا، کہ مبادا اس طرح اس کے بیٹے اور بہو کے مابین ناچاقی اور بڑھ جائے، لہٰذا وہ دم سادھے بیٹے کے جواب کا انتظار کرتا رہا. اگلے ہی لمحے اس کے کانوں میں بیٹے کی آواز سنائی دی، جو بیوی سے کہہ رہا تھا،
"ٹھیک ہے! میں صبح دفتر جاتے ہوئے بابا کو بھائی کے گھر چھوڑ جاؤں گا."
جواباً بیوی نے شوہر کو کوئی پیار بھرا جملہ کہا، مگر تاریک کمرے میں لیٹے ہوئے ضعیف باپ کا دل تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور تکیے میں جذب ہوگئے۔ اس نے مضطربانہ طویل سانس خارج کرتے ہوئے کروٹ بدلی تو سوچ کا پنچھی ماضی کی طرف پرواز کر گیا،
آج وہ جس بڑے بیٹے کے گھر میں رہائش پذیر تھا، اس کا یہ بیٹا دو سال کا تھا کہ جوانی میں بیوی اور معصوم بیٹے کے بہتر مستقبل کی خاطر وہ انھیں گاؤں میں چھوڑ کر، سمندر کنارے آباد اس سمندر جیسے بڑے شہر چلا آیا تھا. جہاں ایک نجی کمپنی میں معمولی سی ملازمت کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے کے بعد، تھکن سے چور ہونے کے باوجود، مختلف چھوٹی موٹی مزدوریاں کرتا. بیٹے کے اسکول جانے کی عمر پہنچنے تک، اس نے کچھ پس انداز کرلیا تو اپنی بیوی اور پیارے بیٹے کو شہر لے آیا۔ اس نے اپنی معمولی مالی استطاعت کے باوجود بیٹے کو ایک اچھے اسکول میں داخل کرا دیا. بعد میں وہ مزید دو بیٹوں کا باپ بنا اور ہر بچے کی پیدائش کے بعد، ڈھلتی عمر کے باوجود وہ سخت مشقت کرتا رہا۔ اسے یاد نہیں کہ چاليس برس تک سخت مشقت کے دوران کبھی کسی رات، وہ چار گھنٹے سے زیادہ سویا ہو۔ اس کے سامنے فقط ایک ہی مقصد تھا کہ اس کے بیٹے تعلیم حاصل کر کے کوئی بلند مقام حاصل کرلیں … اور آج جب اس کے تینوں بیٹے اعلا عہدوں پر فائز ہو چکے تو اس کی اپنی کوئی منزل نہ رہی!
اس کے بیٹے بڑے شہر کے مختلف پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ضعیف والدین کی مکمل ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں. کبھی ماں ایک بیٹے کے پاس رہتی ہے تو باپ دوسرے بیٹے کے ہاں، مہینوں گزر جاتے ہیں اور شدید خواہش کے باوجود ضعیف میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں ۔… ! ماضی سے حال تک کا سوچتے سوچتے بوڑھے باپ کا دل اندر ہی اندر سلگتا رہا۔ اس کی ساری رات کبیدہ خاطری میں کروٹیں بدلتے گزری.
صبح چائے پیتے ہوئے بیٹے نے نظریں چراتے ہوئے کچھ کہنا چاہا،
"بابا…!"
باپ نے بیٹے کے مزید کچھ کہنے سے قبل ہی جواب دیا،
” ہاں بیٹا ، آج میں بھی تمھارے ساتھ ہی چلتا ہوں. تم ایسا کرنا کہ، مجھے چھوٹے بھائی کے گھر کے دروازے پر اتار دینا.
بیٹے نے کوئی جواب نہ دیا ، کہ باپ نے خود ہی اس کے سر سے یہ بوجھ اتار دیا تھا۔
وہ اٹھا اور کشادہ گھر کے چھوٹے سے کمرے سے اپنا سارا سامان ایک شاپنگ بيگ میں ڈال کر لے آیا، جو دو جوڑے کپڑے، ایک چھوٹے ٹوتھ پيسٹ ٹوتھ برش اور ایک صابن پر ہی تو مشتمل تھا!
بڑے بیٹے نے باپ کو شہر کے دوسرے گوشے میں، بھائی کے بنگلے کے گیٹ پر اتار دیا اور تب تک کار میں بیٹھا رہا جب تک چوکی دار نے گیٹ نہیں کھولا.
بوڑھا باپ منجھلے بیٹے کے گھر میں داخل ہوا اور لاؤنج میں جاکر بیٹھ گیا۔ بیٹا گھر پر موجود نہیں تھا. وہ کافی دیر کسی مہمان کی طرح بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا۔ خاصی تاخیر سے متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والی بہو اپنے کمرے سے نکلی اور سسر کو وہاں بیٹھا دیکھ کر ناک بھوں چڑھایا اور ناگواری سے بولی "آپ کب آئے ؟"
بوڑھے نے اٹھ کر ایک پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا ” مجھے تو یہاں آئے ہوئے کافی دیر ہوگئی ہے بیٹی! میرا بیٹا تو دفتر چلا گیا ہوگا نا؟"
بہو نے نخوت سے طنزیہ لہجے میں جواب دیا ، “ہاں …چلاگیا ! آپ اپنے آنے سے پہلے مطلع کر دیتے تو اسے آپ کی آؤ بھگت کے لیے کھڑا کر دیتی !"
بوڑھے نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، “میں اسی کمرے میں جاؤں نا ؟"
بہو نے بد تمیزی سے جواب دیا ، “ تو اور کیا اب آپ کے لیے اپنا بیڈ روم خالی کر دوں ۔ ۔ !"
ضعیف شخص نے کوئی جواب دیے بغیر، خاموشی سے اپنے سامان کی تھیلی اٹھائی اور سر جھکا کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
دوپہر کے کھانے کے لیے ڈائننگ ٹيبل پر بلانے کے بجائے بوڑھے کا کھانا  اس کے کمرے میں ہی بھجوا دیا گیا۔ اس نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ بیٹا کمرے [میں] داخل ہوا. بیٹے پر نظر پڑتے ہی سن رسیدہ باپ کے مرجھائے چہرے پر رونق آ گئی. وہ اٹھ کر بیٹے سے بغل گیر ہوگیا مگر اسے بیٹے کے بازوؤں میں محبت کی گرم جوشی محسوس نہ ہوئی. بیٹے نے بیٹھتے ہی کہا،
"بابا ، آپ آگئے اچھی بات ہے مگر۔ ۔۔ مگر وہ کیا ہے کہ میری بیوی ۔ ۔ ۔ میری بیوی آج کل مجھ سے کچھ ناراض ہے۔ اور ان حالات میں آپ کی یہاں موجودگی میرے لیے مزید مسائل کھڑے کر دے گی تو۔ ۔ ۔ بہتر ہو گا کہ فی الحال آپ چھوٹے کے پاس جا کر رہ لیں ۔ ۔ ۔!"
ضعیف باپ نے گردن جھکا کر رضامندی سے سر ہلایا. "ٹھیک ہے بیٹے، جیسے تم اور تمھاری بیوی راضی، بس تمہارا گھر آباد رہے ."
باپ کا کھانا بیچ میں رہ گیا. بیٹے نے باپ کے سامان کی تھیلی اٹھائی اور اسی وقت باپ کو شہر کے تیسرے کنارے اس بیس منزلہ عمارت کی لفٹ میں سوار کر آیا، جس میں چھوٹے بیٹے کا لگژری فلیٹ تھا.
بوڑھا فليٹ کی کال بيل بجا کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دير بعد دروازہ کُھلا تو دیکھا، دروازے میں اس کی سن رسیدہ شریک حیات کھڑی تھی۔ کئی ماہ بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر دونوں کی آنکھیں آب دیدہ ہوگئیں.
اس کے دل میں شدت سے خواہش جاگی کہ اپنی بیوی کو محبت سے بازوؤں میں بھر لے!، مگر اس نے اپنی اس خواہش کو من کے قبرستان میں دفن کردیا۔
وہ اپنی بیوی سمیت اندر داخل ہوا تو، لاونج میں ٹی وی پر انگلش فلم دیکھنے میں مگن اس کی چھوٹی بہو اٹھ کر انھیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی، پیر پٹختی ہوئی بيڈ روم میں چلی گئی. بوڑھے نے بیوی کی طرف دیکھ کر پوچھا، "بیٹا کہاں ہے؟"
بیوی نے بتایا،
” دفتر سے تھکا ہارا آیا تھا، سو رہا ہے ." بوڑھا اپنی بیوی کے ساتھ اس کمرے میں چلا گی، جہاں اس کی بیوی اپنی تنہائی کے شب و روز گزار رہی تھی. کافی عرصے بعد وہ مل کر بیٹھے تو دونوں کا دل بھر آیا۔ وہ دیر تک روتے رہے. شام رات میں ڈھل گئی تو بیٹا باپ سے ملنے کمرے میں آیا۔ باپ  آگے بڑھ کر اپنے چھوٹے اور سب سے لاڈلے بیٹے سے بغل گیر ہو گیا لیکن بیٹے کی بغل گیری میں اس نے اجنبیت محسوس کی۔ اس کے دل پر چوٹ سی لگی، مگر جب بیٹے نے کہا، "بابا، آج رات کا کھانا باہر کھانے چلںں گے .”تو اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا. ضعیف باپ نے مسکرا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا تو بیٹا فوراً بولا،
"ڈاکٹر نے اماں کو باہر کا کھانا کھانے سے منع کر رکھا ہے، اس لیے اماں گھر پر ہی رکیں گی."
اس نے آزردگی سے جواب دیا ،” تو پھر بس رہنے ہی دو، میں بھی دو نوالے یہیں گھر میں کھا لوں گا. "
بیٹا فوراً بولا ، "نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ ، آپ کو تو لازماً ہمارے ساتھ ہی چلنا ہوگا. "
باپ کو بیٹے کا تحمکانہ انداز پسند نہ آیا مگر وہ کچھ نہ کہہ سکا اور چپ ہوگیا۔
رات کے وقت ساحل سمندر پر رواں کار میں بیٹا اپنی خوش گپیوں سے، اگلی سیٹ پر بیٹھی بیوی کو خوش کرنے کی کوشش کرتا رہا اور عقبی نشست پر اکیلا بیٹھا باپ اپنی سوچوں میں گم رہا۔ جب کار ایک جگہ رکی تو اسے یاد آیا کہ جب اس کا یہ بیٹا بہت چھوٹا تھا  تب وہ اکثر اسے یہاں لایا کرتا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ساحل کی ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چلایا کرتا تھا. اس یاد کے ساتھ ہی بوڑھے کے اندر کا بچہ مچلا، دل چاہا کہ وہ بیٹےسے کہے کہ  آج وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ننگے پاؤں ساحل کی ٹھنڈی ریت پر چلائے!، مگر اس سے پہلے ہی بیٹے کی آواز آئی، "بابا، ہم کچھ دیر واک کریں گے اور پھر اس دور نظر آنے والے ہوٹل میں جا کر کھانا کھائیں گے۔ آپ، کیوں کہ تھک جائیں گے، اس لیے آپ یہاں گاڑی میں ہی بیٹھیں، آپ کا کھانا ہم آتےہوئے پیک کروا لائیں گے. "
معمر باپ سمندر ساحل پر ہوا کے تھپیڑوں سے اڑتی ہوئی ریت کی طرح ریز ریزہ ہو کر بکھر گیا. اس نے اقرار میں سر ہلا کر گردن جھکا لی. اس کا کار کا دروازہ کھولنے کی نیت سے اٹھا ہوا ہاتھ سیٹ پر گر گیا اور بیٹا اور بہو کار سے اتر کر چل دیے۔ بوڑھے نے بیٹے کو دیکھا، جو اپنی بیوی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دھیرے دھیرے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا گیا …
کار میں بیٹھا باپ اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا رہا … مسلسل انتظار کرتا رہا … اسے شدید بھوک لگ رہی تھی … وہ بھوکا پیاسا بیٹے کی واپسی کی راہیں تکتا رہا … رنج و الم نے اس کے حواس پر پنجے گاڑ لیے اور بالآخر بھوک انتظار پر غالب آگئی اور کہن سال باپ غم و اندہ کی تصویر بن گیا۔
کافی دیر کے بعد جب اس کا بیٹا اور بہو واپس لوٹے تو عقبی نشست پر بیٹھے باپ کی آنکھیں بند تھیں۔
ڈرائيونگ سيٹ پر بیٹھے بیٹے نے، پيک شدہ کھانے کا بکس ہاتھ بڑھا کر پچھلی سیٹ پر بیٹھے باپ کے پہلو میں رکھتے ہوئے کہا، "بھوک لگی ہو تو گاڑی میں ہی کھا لیں. "
باپ نے آنکھیں کھولے بغیر جواب دیا ،” نہیں بیٹے، مجھے بھوک نہیں لگی."
کار شہر کے بارونق راستوں پر چلتی رہی، کار میں انگلش ميوزک کی دھنیں بجتی رہیں، بیٹا خوش گپیوں سے اپنی بیوی کو محظوظ کرتا رہا۔ اور پچھلی سیٹ پر سر جھکائے بیٹھے باپ کی آنکھیں بند ہی رہیں. کار ایک مقام پر رکی تو اس نے آنکھیں کھول کر کار کے شیشے سے باہر دیکھا۔ کار اس کے بڑے بیٹے کے اسی گھر کے سامنے کھڑی تھی، جہاں سے آج سویرے تڑکے ہی اسے روانہ کیا گیا تھا! بوڑھےکی زبان صدمے سے گنگ ہوگئی۔ اس کا دل شدت غم سے پھٹا جا رہا تھا۔ بیٹے نے کار کا دروازہ کھولا، باپ کا ہاتھ پکڑ کر اترنے میں اس کی مدد کی اور بولا ، "بابا، میری بیوی کا خیال ہے کہ جب تک اماں ہمارے پاس ہیں، تب تک آپ بڑے بھائی کے گھر میں رہیں. "
یہ کہہ کر اس نے کار کی عقبی نشست سے کھانے کا بکس اٹھا کر باپ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اور پھر کار کی ڈگی کھول کر باپ کے سامان والی تھیلی نکال کر باپ کو پکڑا دی، بوڑھا یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کے سامان والی تھیلی کب اور کیسے کار کی ڈگی میں رکھ دی گئی تھی!
اس نے جوں ہی سر جھکا کر بڑے بیٹے کے بنگلے کے گیٹ کی طرف قدم بڑھایا، چھوٹے بیٹے کی کار فراٹے بھرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی.
بوڑھا بھاری قدموں سے چلتا بنگلے کے گیٹ پر پہنچا۔ انٹر کام کے بٹن پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔… وہ گھڑی بھر سر جھکائے کچھ سوچتا رہا۔ پھر اپنا ہاتھ بٹن سے ہٹا لیا. اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر بیٹے کے گھر کی دہلیز پر گرے اور وہ یہ دو آنسو بیٹے کی دہلیز پر چھوڑ کر وہاں سے چل دیا.
اس کا دل گہرے صدمے سے چور تاریکیوں کے سمندر میں ڈوب گیا، مگر وہ روشنيوں کے شہر فوٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ ایک بجلی کے پول کے نیچے دو ننھے بچوں سمیت بیٹھی عورت نے بھیک کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا، اس نے نیچے جھک کر پیک کیے ہوئے کھانے کا بکس عورت کے آگے رکھ دیا اور معصوم بچوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ گیا۔
وه چلتا رہا. اس کا دل چاہا کہ وہ روشنیوں کے شہر سے باہر نکل جائے۔ وہ مسلسل چلتا رہا۔ … شہر تو ختم نہ ہوا البتہ رات کے پچھلے پہر تک اس کی ٹانگیں جواب دے گئیں۔ وہ روشنيوں کے شہر کے تاریک علائقے میں پہنچ گیا۔
نقاہت کی حالت میں فٹ پاتھ پر اپنے پیروں کو گھسیٹتے، اسے کچھ اپنے ہم عمر بوڑھے نظر آئے جو لب سڑک سوئے ہوئے تھے۔ ایک پل کے لیے وہ ان کے قریب کھڑا ہوا پھر آگے بڑھ گیا۔ وہ تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ فٹ پاتھ پر ڈھکن سے محروم گٹر میں گرتے گرتے بچا۔ وہ شدید تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا اور اب اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ اپنے قدموں کو مزید گھسیٹ کر آگے بڑھ سکے۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے گردن گھما کر، فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے اپنے جیسے بوڑھوں کا جائزہ لیا. کچھ سوچ کر اپنی جیب سے شناختی کارڈ نکال کر گٹر میں پھینک دیا. اور شکستہ قدموں سے چلتا ہوا زمانے کے ٹھکرائے ہوئے ضعیفوں کے قریب جا پہنچا. وہ کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔ پھر ان کے قریب لیٹ کر، اپنے سامان والی تھیلی کو تکیے کی طرح زمین پر بچھایا اور اس پر اپنا سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : ممتاز افسانہ نگار، صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے