اردو کی معروف افسانہ نگار: چشمہ فاروقی

اردو کی معروف افسانہ نگار: چشمہ فاروقی

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رامپور 244901 یو پی،انڈیا
موبائل:9719316703

ایک قلم کار کی حیثیت سے مجھے اب تک ملک اور بیرون ملک کے ہزاروں قارئین کے ساتھ سیکڑوں مدیران سے بھی واسطہ پڑا ہے۔ کچھ سے ملاقات یا مراسلت کا تاثر لمحاتی رہا اور کچھ سے ملاقات کے نقش ذہن سے برسوں میں بھی محو نہیں ہوئے۔ ١٩٧٤ء سے شروع ہوئے اپنے ادبی سفر میں مجھے اب تک تین مدیران ایسے ضرور ملے جن سے صرف ادیب اور مدیر کا تعلق نہیں رہا بلکہ یہ رشتہ اور تعلق خلوص و محبت، شفقت و عنایت اور عقیدت و احترام میں تبدیل ہو گیا۔ ان میں ایک حاجی انیس دہلوی صاحب تھے جو ہندستان ہی نہیں بلکہ کئی بیرونی ممالک میں بھی فلم، ادب اور صحافت کے میدان میں مشہور تھے اور ایک مقبول و معروف شخصیت کے مالک تھے۔ رام پور تشریف لاتے تو اعلا سہولیات سے مزین ہوٹل کے بجائے غریب خانے کو ہی رونق بخشتے اور ان کے خطوط لکھنے کا یہ عالم بلکہ جنون تھا کہ میرا خط اگر مل گیا ہے تو چاہے ان کے پاس، اس روز سیکڑوں لوگوں کے خطوط آئے ہوں اور رسالہ کی مصروفیت کے باعث چاہے رات کے دو بج گئے ہوں لیکن وہ میرے خط کا جواب اسی روز اور اسی رات میں ضرور لکھتے۔ انھوں نے اپنے رسالوں ماہنامہ ’باجی‘ اور  ماہنامہ ’فلمی ستارے‘ میں میرے کئی افسانے بھی شائع کیے۔ میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’ٹھنڈا خون‘ بھی ١٩٩٤ء میں اپنے ادارہ سے شائع کیا اور برسوں اس کا اشتہار بھی رسالہ میں بغیر کسی معاوضہ یا فیس کے شائع کرتے رہے۔ آج شاید سب کچھ کاروباری سا ہو گیا ہے۔
دوسری شخصیت کے مالک ’رہنمائے تعلیم‘ کے ایڈیٹر ہر بھجن سنگھ تھاپر جی تھے۔ ان کی وفات تک لگ بھگ دس سال میرا ان سے تعلق رہا۔ اس درمیان انھوں نے مجھے کم سے کم دو سو خط لکھے۔ ہر خط میں محبت و شفقت کا اظہار کرتے۔ میری ہر تخلیق کو اولیت کے ساتھ بلکہ فوراً شائع کرنے کا اہتمام فرماتے۔ ظاہر ہے میں نے بھی ان کے رسالے اور ادب کی خدمت کرنے میں کبھی کمی نہیں کی۔ میری گزارش پر رئیس رام پوری صاحب کی ایک کتاب کے اجرا کے لیے وہ رام پور بھی تشریف لائے اور ہمیں ان کی خدمت میں، ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں، سپاس نامہ پیش کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔ اس سے قبل ایک ادبی تقریب میں، ہم نے حاجی انیس دہلوی صاحب کو بھی سپاس نامہ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اور تیسرے مدیر تھے توفیق فاروقی صاحب! عام طور سے مشہور تھا کہ ان کے ادارہ سے کسی کے خط کا جواب نہیں دیا جاتا۔ ظاہر ہے ان کی مجبوریاں بھی تھیں۔ وہ رسالہ (خاتون مشرق) جو ان کے زمانہ میں ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں چھپتا ہو، جس میں ایک دن میں سیکڑوں کی تعداد میں تخلیقات ہندستان اور باہر کے ممالک سے آتی ہوں، وہاں خطوط کا جواب دینا بڑی مجبوری کی بات ہوتی ہے لیکن مجھے یاد ہے ١٩٨٢ء میں، میں نے ان کو پہلی بار خط لکھا تھا اور ایک افسانہ ”ضرورت رشتہ“ ارسال کیا تھا۔ موصوف نے میرے پہلے ہی خط کی پذیرائی فرمائی، میرے افسانے کو پسند کیا اور اسے جلد ہی شائع کر دیا۔ میں نے خط میں ایسا کچھ نہیں لکھ دیا تھا کہ جس سے وہ متاثر ہوئے ہوں لیکن آج اتنے طویل عرصے بعد میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ خاکم بدہن، انھوں نے میرے اندر چھپے ہوئے فنکار اور میری صلاحیتوں کا ضرور ادراک اور اندازہ کر لیا تھا۔ ان باتوں یا ان حالات کے بارے میں اتنی گہرائی سے نہ میں نے کبھی سوچا تھا اور نہ اس پہلو پر، پہلے میری نظر گئی تھی۔ بہرحال ان کی یہ شفقت و محبت اور ان سے گھریلو تعلقات ان کے انتقال تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ یہ بے غرض روابط آج بھی اسی جذبے کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ میں بھی ان کے پاس دہلی جاتا رہا اور ان موصوف نے بھی اپنے افراد خانہ سمیت دو تین بار رام پور تشریف لاکر میرے غریب خانے کی رونق و روشنی بڑھائی۔
نیک، خوش اخلاق، ملنسار اور صالح اولادیں بھی اپنے والدین کے طرز عمل اور نقش قدم کو نہیں چھوڑتیں اور وہی وطیرہ اختیار کرتی ہیں جو ان کے والدین کا دوسروں کے ساتھ اور خاص کر اپنے قریبی لوگوں کے تئیں ہوتا ہے۔ لہٰذا اس روایت کو آپ کی بیٹی چشمہ فاروقی نے بھی برقرار رکھا ہے۔ رواداری اسی کو کہتے ہیں اور مسلم گھرانوں میں تو رواداری کی روایت ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ سب جگہ ایسا نہیں ہوتا لیکن چشمہ فاروقی اس روایت کی امین رہی ہیں۔ بہن بھائی کی حیثیت سے ہمارا رشتہ تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔
زمانہ میں تغیر و تبدل آجاتا ہے، معاشرہ کے حالات بدل جاتے ہیں، اخلاقی قدروں کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے، تعلقات اور رشتوں میں مفادات حائل ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے تعلق میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ رشتوں کو ہمیشہ ذاتی مفادات اور خود غرضیوں سے دور رکھنا چاہیے۔ راقم کا تجربہ یہی ہے کہ ذاتی فائدے، مطلب پرستی، خود غرضی، بغض و عناد، انا کے مسئلے اور لالچ جیسی برائیوں سے اپنے قلب و ذہن کو پاک رکھا جائے تو ہر رشتہ کو برسوں نہیں بلکہ دہائیوں تک نبھایا اور برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
چشمہ فاروقی حسن اخلاق کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ایک بھائی اگر کچھ دن تک مصروفیت کے باعث خط و کتابت نہ کر سکے تو اس کو خود خط لکھ لو، نہ کہ اس سے روٹھ جاؤ اور اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لو۔ علم و ادب چشمہ فاروقی کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ان کے دادا عبد اللہ فاروقی صاحب ملک کے مجاہد آزادی اور مشہورومعروف صحافی تھے۔ انھوں نے اکیاسی سال قبل ١٩٣٦ء میں ملک کی خواتین کے لیے ایک رسالے ’خاتون مشرق‘ کا اجرا کیا تھا جو آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ’خاتون مشرق‘ کا شمار برصغیر کے مشہور ترین رسائل میں ہوتا ہے۔ عبداللہ فاروقی صاحب کے بعد رسالے کی ادارت توفیق فاروقی صاحب نے سنبھالی اور ان کے بعد ان کی بیٹی چشمہ فاروقی نے اس ذمہ داری کو سنبھالا۔ توفیق فاروقی صاحب بھی بڑی صلاحیتوں کے حامل، خوش اخلاق، ملنسار اور ہمدرد انسان تھے۔ لہٰذا یہ ساری خوبیاں ان کی اولادوں، بیٹوں اور بیٹیوں میں بھی موجود ہیں۔
چشمہ فاروقی کو نثر نگاری اور خصوصاً افسانہ نگاری کا شوق ابتدا سے رہا ہے لیکن رسالہ کی مصروفیات کے باعث وہ اب تک اپنی کوئی کتاب شائع نہ کرا سکی تھیں۔ اب کچھ فرصت کے لمحات میسر آئے ہیں تو انھوں نے اپنا افسانوی مجموعہ مرتب کیا ہے جس میں ان کے بہترین افسانے شامل ہیں۔
بٹوارہ کے موضوع پر اردو میں بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں۔ بٹوارہ چاہے ملکوں اور زمین کا ہو، رشتوں یا تہذیب کا ہو، دل اور اس میں اٹھنے والے جذبات کا ہو، مکان اور جائیداد کا ہو، اچھی چیز نہیں لیکن کچھ دکھ بھرے حالات میں یہ بٹوارہ ضروری اور ناگزیر ہو جاتا ہے یا ضروری اور ناگزیر سمجھ لیا جاتا ہے اور یہ چاہے کسی ضرورت کے تحت ہو یا کسی مصلحت کی وجہ سے۔ ادیبوں اور شاعروں نے اس موضوع پر شاہ کار تخلیقات ادب کو دی ہیں۔ افسانہ بھی بٹوارہ کے اس کرب سے اچھوتا نہیں رہا ہے اور مختلف موضوعات اور پلاٹ کے تحت بے شمار افسانے لکھے گئے ہیں۔ قلم کار سماج میں رونما ہونے والی ان ہی پریشانیوں سے اٹھنے والے مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ ان مسائل کا حل پیش کرنا یا ان کے سدباب کے طریقے تلاش کرنا، افسانہ نگار کی ذمہ داری نہیں۔ چشمہ فاروقی کا افسانہ ’بٹوارہ‘ بھی اس سماجی دردوکرب کا عکاس ہے۔
وہ ماں باپ جن کی عزت و احترام کی ہدایت ہر مذہب نے کی ہے لیکن جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو اکثر اولادیں چاہتی ہیں کہ ان کا جلد خاتمہ ہو اور ہم زمین جائیداد کے مالک بنیں۔ کبھی یہ بٹوارہ، بزرگ اپنی زندگی میں ہی کر دیتے ہیں اور کبھی یہ عمل ان کی آنکھیں بند ہونے کے فوراً بعد ہی کر لیا جاتا ہے لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی زندگی میں زمین جائیداد کا کیا گیا بٹوارہ ان بزرگوں کے لیے مصیبت بن جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں کوئی ان کو دو وقت کی روٹی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ چشمہ فاروقی کا افسانہ ’بٹوارہ‘ اسی پہلو کی دردناک نشان دہی کرتاہے۔وہ ماں باپ جو اپنی اولاد کی خوش حالی کے لیے، ہر  جتن کرنے کو، ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ خود ان کی اولادیں دشمن بن کر ان کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ چشمہ فاروقی کے اس افسانہ کا پلاٹ بالکل واضح اور مربوط ہے۔ ان کی تحریر اور بیانیہ میں کہیں کوئی الجھاؤ نہیں۔ زبان بھی انھوں نے صاف ستھری اور کہانی کے پلاٹ کی مناسبت سے ہی اختیار کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان اور گھروں میں دیوار اٹھانے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے بلکہ کچھ اور نئے مسائل و مصائب ضرور جنملے لیتے ہیں۔ لفظ ’بٹوارہ‘ ذہن میں آتے ہی لاشعوری طور پر ایک دیوار کا عکس نظروں میں گھوم جاتا ہے۔
آج کے دور میں جہیز ہماری معاشرتی اور ازدواجی زندگی کا ایک ضروری حصہ بن گیا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں بہت سے گھر آباد ہوتے ہیں تو وہیں کئی گھر بنتے بنتے بگڑ بھی جاتے ہیں۔ یہ ایسا جلتا ہوا موضوع اور ایسا سوہان روح مسئلہ ہے جس پر جتنا سوچا جائے، کم اور جتنا کچھ لکھا جائے، وہ اس سے بھی کم ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک گھر یا خاندان کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں سبھی مذاہب کے امیر غریب لوگ شامل ہیں بلکہ انھیں شامل کے بجائے ملوث کہنا زیادہ صحیح ہے۔ ملک میں کسی ایک بات پر سبھی لوگ متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن جہیز کے موضوع یا مسئلہ پر جیسے سب میں یک جہتی، خیر سگالی اور اتفاق ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک مذہب یا کچھ خاندانوں کا نہیں بلکہ پورے ملک اور ملک کے ہر سماج کا ہے۔ اس موضوع پر اگرچہ فلمیں بھی بنی ہیں، ڈرامے بھی لکھے گئے ہیں، مضامین بھی تحریر کیے گئے ہیں اور سیکڑوں افسانوں میں اس کو مرکزی تھیم بھی بنایا گیا ہے لیکن مختلف شکلوں میں یہ مسئلہ آج بھی موجود ہے۔ چشمہ فاروقی کا قلم بھی اس موضوع سے ان چھوا نہیں رہا ہے۔ ان کا ایک افسانہ ’اعتبار نہ کرنا‘ اس موضوع پر لکھا گیا ایک تلخ افسانہ ہے۔ اپنی جھوٹی انا، بے فیض خود داری، ذاتی غرض اور حرص و ہوس کے باعث کتنی سہاگنوں کے ہاتھوں کی مہندی پھیکی اور ان کے، شادی کے کتنے ہی جوڑوں کے رنگ ماند پڑ گئے۔ یہ افسانہ اگرچہ روایتی انداز کا ہے لیکن جذبوں کی شدت اور واقعات کے بیان کی ندرت نے افسانے کو خوب صورت بنا دیا ہے۔ کہانی میں تجسس اور اس کا کلائمکس بہترین ہے۔ تجسس کے باعث قاری پورے افسانے کو پڑھ ڈالتا ہے۔ کہانی کے کردار اگرچہ بہت کم ہیں لیکن پھر بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ خاص کر لڑکی یا دلہن کا کردار اور اس کی قربانی بے مثال اور لاجواب ہے لیکن کیا جہیز کے لالچی لوگوں کو سزا دینے کی خاطر ساری عمر کنواری رہ کر زندگی بسر کرنا اور شادی نہ کرنا اس مسئلہ کا حل ہے؟ شاید نہیں کیونکہ اس کا حل صرف یہ ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے لوگ بیدار ہوں، ذہن و قلب کو کشادہ کریں اور اپنے اندر اچھی سوچ پیدا کریں اور یہ ساری چیزیں صرف تعلیم سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔
اس برائی کو صرف تعلیم اور شدید قوت ارادی کے ساتھ ہی دور بلکہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ چشمہ فاروقی نے اپنے افسانہ میں مسئلہ کا حل پیش نہیں کیا ہے. یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ افسانہ نگار کا کام بیش تر حالات میں ان برائیوں کی نشان دہی کرنا ہے۔ اگر وہ افسانہ میں پند و نصیحت بھی کرنے لگے تو ظاہر ہے اس سے افسانے کا حسن زائل ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے چشمہ فاروقی کا افسانہ ”اعتبار نہ کرنا“ اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک خوب صورت اور کامیاب افسانہ ہے۔
آج دنیا میں سرکاری و غیر سرکاری سیکڑوں تنظیمیں، سماج میں عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم عمل اور کوشاں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی خواتین سے متعلق جرائم جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اس کے بارے میں تفصیل سے بتانے کی شاید ضرورت نہیں۔ قلم کار بھی موضوعات کے تحت مضامین اور افسانوں کے ذریعہ ان مسائل کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔چشمہ فاروقی کا افسانہ ’تمنا‘ بھی اسی موضوع پر لکھا گیا ایک دل کش افسانہ ہے۔ پلاٹ میں جدت پیدا کرنے کی انھوں نے بھر پور کوشش کی ہے او ر وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی رہی ہیں۔ کہانی کا اختتامیہ دل گداز ہے اور اور دل میں درد کی ایک ٹیس ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اور ہزاروں دعوؤں کے باوجود بھی، عورت کو وہ مقام و مرتبہ نہیں مل سکا ہے جس کی وہ متمنی تو ہے ہی، حق دار بھی ہے۔ اس کا یہ حق اسے کب ملے گا، شاید اس کے لیے ابھی اور بہت کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔
وہ شادیاں جو گھر کے بڑوں کی مرضی سے ہوتی ہیں اور ان میں اولادوں کا عمل دخل اور ان کی مرضی بالکل شامل نہیں ہوتی، ایسی شادیوں کو وقتی طور پر بھلے ہی کامیاب قرار دیا جائے لیکن ان کے اثرات اور ان سے پیدا ہونے والی تلخی انسانی رشتوں کو جوڑتی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے توڑ دیتی ہے۔ چشمہ فاروقی کی کہانی ’ادھورا انسان‘ انسانی کش مکش، ذہنی انتشار اور دو کشتیوں میں سوار شخص کی کہانی ہے۔ ساس بہو کا جھگڑا، بے روزگاری کا درد، غیر ملکی زمین پر رہائش، باپ کی محبت کو تڑپتے بچے، ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے مسائل، غرض اس طرح کی بہت سی چیزوں یا مسائل کو ایک افسانہ ’ادھورا انسان‘ میں چشمہ فاروقی نے نہایت دل کش پیرایے، بہترین اسلوب اور سادہ زبان میں بیان کر دیا ہے۔ انھوں نے اس مسئلہ کی طرف پوری شدت کے ساتھ ان جذبات کی ترجمانی کی ہے جو اس عورت کے جذبات ہیں جو ایک غیر ملک میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ یہی نہیں وہ ان بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے بھی بھاگ دوڑ کرتی ہے اور اس کا شوہر صرف اس لیے اس غیر ملک یعنی انگلینڈ کو نہیں جانا چاہتا کہ اسے اپنی ماں کو تنہا چھوڑ کر جانا مناسب نہیں لگتا۔ ایسے غیر آسودہ، سرد، بے روح اور غیر جذباتی رشتوں کا جو اور جیسا انجام ہوتا ہے، یہ پوری طرح اس کہانی کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے۔
’خودداریوں کا ظرف‘ گھریلو زندگی کی ایک درد مند کہانی ہے۔ چونکہ چشمہ خود اپنی بہنوں میں سب سے بڑی ہیں اور ایک بڑی بہن کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور نامساعد حالات کے باوجود وہ ان ذمہ داریوں کو کس خوش اسلوبی اور خود داری کے ساتھ نباہتی ہے، یہی اس کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ اپنوں سے انسان کو جو دکھ اور رنج پہنچتا ہے اس کا اثر بہت دل دوز، شدید اور دیر پا ہوتا ہے۔ کہانی اپنے بیانیہ کے لحاظ سے بھی خوب صورت ہے۔ کہانی کا کلائمکس اور اختتامیہ غیر متوقع، پر تجسس اور متاثر کن ہے۔ کہانی میں کرداروں کی بھی بہتات نہیں ہے۔ جو بھی کردار پیش کیے گئے ہیں ان کی طبیعت، ان کے رویے اور ان کے مزاج میں کوئی الجھاؤ نہیں۔ اس لیے کہانی میں روانی بھی ہے۔
یہ کہانی فنی لحاظ سے اگرچہ روایتی ہی ہے لیکن اس درد کو ضرور اجاگر کرتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھر کا بکھراؤ اور خاندان کی بربادی کیوں ہوتی ہے؟آج معاشرہ میں ہر جگہ یہی ماحول نظر آتا ہے اور بیش تر لوگوں کو اسی طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غرضیکہ خود غرضیوں کو تج اور تیاگ کر ہی ہم اپنے معاشرہ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ قلم کار کا مقصد ایسے ہی معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کی خواہش میں مضمر و پوشیدہ ہوتا ہے کیونکہ قلم کار صرف وقت گزاری کے لیے نہیں لکھتا۔ وہ دنیا کے جن حالات سے خود گزرتا ہے، ان ہی حالات کو جگ بیتی بنا کر دوسروں کو اپنے غم میں شریک بھی کرتا ہے اور ان کو آگاہی بھی دیتا ہے کہ ایسے حالات و واقعات ان کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں۔
چشمہ کے کئی افسانوں میں خاندان کے بکھرنے اور ٹوٹنے کا درد موجود ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں اس کے مختلف اسباب و علل بھی بتاتی ہیں اور نئے اسلوب، نئے پلاٹ اور نئے کرداروں کے ساتھ ان کو کہانیوں میں پیش کرتی ہیں۔ بیٹے اور وارث کی خواہش بھی کئی خاندانوں کی بربادی کا سبب بنتی ہے۔ کچھ ایسے ہی واقعات کے ذریعہ ان مسائل کو کہانی ’محبت کی گھڑیاں جو راس نہ آئیں‘ میں پیش کیا گیا ہے۔ ہمیں اس سوچ کو بھی بدلنا ہوگا کہ بیٹے ہی ہمارے اچھے وارث ہیں یا اچھے وارث ہو سکتے ہیں. جب کہ سیکڑوں، ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بیٹیاں اپنی محبت، وفاداری اور ہم دردی کے باعث اپنے والدین کی خدمت لڑکوں سے کہیں زیادہ اچھے اور بہتر طریقے سے کرتی ہیں۔ وہ اپنی شادی کے بعد بھی اپنے والدین کی خدمت کو اپنا فرض عین سمجھتی ہیں اور اکثر بیٹے اپنی شادی سے پہلے ہی والدین کو اپنے لیے مصیبت اور وبال جان سمجھنے لگتے ہیں۔ سب جگہ ایسا نہ ہوتا ہو لیکن بیش تر مقامات پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی صرف بیٹے کی ہی خواہش کرنا ایک غیر منصفانہ عمل ہے۔ یہاں دنیا کے مختلف مذاہب کے نظریات اور ان کی تعلیمات پیش کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے لیکن دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کو سب سے اہم مقام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کی بار بار تنبیہ فرمائی۔خاص، عورتوں کے تعلق اور ان کے مسائل اور ان سے رشتوں کی اہمیت سے متعلق قرآن عظیم میں سورۂ مریم، سورۂ طلاق، سورۂ نور اور سورۂ نساء نازل فرمائیں اور اس کے علاوہ پورے کلام پاک میں مردوں کے ساتھ عورتوں کے نیک عمل اور ان کی برابر کی جزا کا ذکر فرمایا۔
کلام پاک کے علاوہ سیکڑوں احادیث مبارکہ میں بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے یا ان کو ادا کرنے کی تلقین اور تنبیہ فرمائی ہے۔ عورتوں سے متعلق بیش تر احادیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ عورتوں کے، حقوق کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
ہم نے سابقہ سطروں میں لڑکیوں کی، اپنے ماں باپ کی خدمت کا تذکرہ کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدمت گزاری اور محبت، عورت کی سرشت میں شامل ہوتی ہے۔ ماں کے علاوہ بہن، بیوی اور بیٹی کی شکل میں بھی وہ خدمت گزاری کی اعلا مثال پیش کرتی ہے۔ چشمہ کے سینے میں بھی ایک گداز، درد انگیز اور محبت سے لبریز دل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف طریقوں، متفرق پلاٹ و موضوعات اور اسلوب و واقعات کے حوالے سے یہ سب کچھ کہانیوں میں پیش کر دیتی ہیں۔ مذکورہ افسانہ ’محبت کی گھڑیاں جو راس نہ آئیں‘ بھی ان کے ان ہی جذبات اور درد مندانہ خیالات کا عکاس ہے۔ افسانے کے کلائمکس میں بہترین تجسس نے افسانے کو خوب صورت بنا دیا ہے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ ایک صالح، مہذب، تعلیم یافتہ اور خوش حال معاشرہ کی تشکیل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جب تک اس معاشرہ میں عورتوں کے تحفظ، ان کے حقوق، ان کے مسائل، ان کی بہترین تعلیم و تربیت اور ان کی دیگر ضروریات کاخلوص دل، غیر جانب دارانہ اور بے غرض طریقے سے خیال نہ رکھا جائے۔
’پگڈنڈی‘ بھی چشمہ فاروقی کا ایک دل کش اور معاشرتی افسانہ ہے۔ سلیقہ شعار، ہنر مند لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں اور ان کو کیسا ہونا چاہیے، یہ اس افسانہ کا مرکزی خیال ہے۔ اس کے علاوہ، ایک سگھڑ اور سلیقہ پسند لڑکی کس طرح ایک گھر ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کو سدھار سکتی ہے، یہ بھی اس افسانہ کی روح ہے۔ افسانہ نہایت پاکیزہ، دل چسپ اور کچھ شوخی و شرارت لیے ہوئے ہے۔ نیک اور صالح اولادیں اپنے بڑوں اور بزرگو ں کا ادب و احترام کرکے کس طرح ہر ایک کے دل میں گھر کر سکتی ہیں، ان سب باتوں کو بہترین پلاٹ اور بڑے شائستہ اسلوب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔کہانی گھر آنگن اور اس سے جڑے چھوٹے چھوٹے واقعات کو پرو کر خوب صورت انداز سے پیش کی گئی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار فاطمہ نام کی لڑکی ہے جو اپنی سلیقہ شعاری کے باعث اپنے باپ، دادی اور خاندان کے دیگر افراد کی چہیتی اور نور نظر بن جاتی ہے۔ کہانی پوری طرح معاشرتی رنگ کی ہے اور اصلاح کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایسی پاکیزہ تحریریں اگر کسی گھر یا خاندان کے کسی فرد کو اصلاح کا موقع فراہم کریں تو یقیناً تحریر اور کہانی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ افسانہ کا خاص مقصد پندونصائح نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس طرح کے اصلاحی افسانے معاشرے کو بہت کچھ دے سکتے ہیں اور بے مقصد، فضول افسانہ نگاری کے بجائے کسی خاص مقصد کے تحت افسانے لکھے جائیں تو ان سے یقیناً فائدہ پہنچتا ہے۔
’ٹوٹا پتہ‘ دہشت گردی کے موضوع پر لکھا گیا افسانہ ہے لیکن اس میں انسانیت کی صالح اقدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا ہے۔ صبا مرکزی کردار ہے اور کہانی اس کی شادی کے واقعات سے شروع ہوتی ہے۔ بہت سی باتیں بچوں سے اس وقت تک پوشیدہ رکھی جاتی ہیں جب تک کہ ان کی شادی کا موقع نہیں آجائے اور ان خفیہ باتوں یا واقعات کا ایک دم یا اچانک اظہار کبھی کبھی منفی اثرات بھی ڈالتا ہے۔ بہرحال کہانی اچھی ہے جس میں واقعات یا پلاٹ کو ایک ترتیل کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ بیانیہ پاکیزہ، صاف ستھرا اور سپاٹ ہے بلکہ چشمہ کے سبھی افسانوں میں، پلاٹ میں کسی جگہ الجھاؤ نہیں ہے۔ ہر افسانہ میں کہانی پن اور چاشنی موجود ہے، جو ہر افسانہ کا طرۂ امتیاز ہونا بھی چاہیے۔ چشمہ فاروقی کا افسانہ ’شکست‘ خواتین سے متعلق اس اہم مسئلہ کی نشان دہی کرتا ہے جس میں پیدائش سے پہلے ہی مشینوں کے ذریعہ یہ معلوم کر لیا جاتا ہے کہ ہونے والی اولاد، لڑکی ہے یا لڑکا لیکن عورتیں اور خاص کر مائیں اس امر کا مصمم ارادہ کر لیں کہ ہمیں ہمت نہیں ہارنی ہے تو وہ بڑی سے بڑی پریشانی سے نہ صرف یہ کہ آسانی سے گزر سکتی ہیں بلکہ سماج میں ایک مثال بھی پیش کر سکتی ہیں۔ اس افسانہ کا مرکزی خیال کچھ ایسے ہی جذبوں کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانہ طویل ہونے کے باوجود دل چسپ ہے۔
آج کے دور میں جتنے مسائل ہیں، ان میں سے بیش تر کی محرک خواتین ہیں یا پھر ایسا نہیں ہے تو کسی نہ کسی طرح ان کا تعلق خواتین سے ضرور ہے۔ عورتوں کے تحفظ کے لیے آج جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں اتنی شاید پہلے کسی سماج میں نہیں کی گئی ہیں لیکن مسائل اور مصائب ہیں کہ جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ہمیں اس سلسلے میں سماجی، ادبی، مذہبی، اخلاقی، معاشی، غرض ہر پہلو سے نہ صرف سوچنا ہوگا بلکہ اس کے لیے کوششیں بھی کرنی ہوں گی۔ عورتوں پر اگر ظلم و تشدد ہوتا ہے یا ان کی عصمت و عفت اور ناموس پر حرف آتا ہے تو اس میں خواتین بھی پوری طرح ذمہ دار اور ملوث ہیں۔ وہ جرائم جو پس پردہ کیے جاتے ہیں، جب روشنی میں آتے ہیں تو عدالت یا پولیس تھانے میں سارے الزامات مرد پر لگا کر عورت بری الذمہ ہو جاتی ہے جب کہ ان بہت سے کاموں میں خود اس کا عمل دخل بھی برابر کا اور کبھی کبھی تو زیادہ ہی ہوتا ہے۔ عورتوں کی آزادی کے نام پر جو بھی کچھ کیا جا رہا ہے اس میں عورتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی تبھی ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ممکن ہو سکے گی۔ بہرحال چشمہ فاروقی کے افسانے ہمارے معاشرہ کی ایک بہترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ امید ہے ان کے افسانے قبول عام کی سند حاصل کریں گے۔
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: یہاں پڑھیں : سید محمد جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے