مسجد، مولانا اور مقتدی

مسجد، مولانا اور مقتدی

سید صفوان غنی، عالم گنج، پٹنہ
رابطہ : 8092649313

میں آج تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکا کہ 15 سے 20 منٹ ظہر کی نماز پڑھانے والے امام کے جذبہ ایمانی کی تعریف کروں یا ان 15 منٹوں کو محسوس کرنے والے مقتدیوں کے ضعف ایمانی پر افسوس کروں۔ ویسے اکثر دفعہ معاملہ برعکس بھی ہوتا ہے۔ یعنی بعض امام حضرات اس طرح چشم زدن میں نماز مکمل کرا جاتے ہیں گویا انھوں نے تکبیر اولی میں کُن کہا ہو اور فیکُن کی صورت میں سلام رونما ہوا ہو۔ اگر نماز درمیانی ہو یا یہ کہیں کہ ہلکی ہو تو چند مقتدیان اس نماز پر ایسے بھڑکتے ہیں گویا امام صاحب نے ان ”مومنین" کے درجات میں کمی واقع کر دی ہو۔ بہرحال اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ تعداد میں کون زیادہ ہیں۔ ان ”تراویح نما" نمازوں کو محسوس کرنے والے مقتدیان یا ان نمازوں میں سرور حاصل کرنے والے ائمہ اسلام۔ اسے معلوم کرنے کا ہمارے پاس صرف ایک ہی طریقہ ہے، وہ ہے مقتدیان و ائمہ کرام میں جمہور کا موقف معلوم کرلیا جائے۔ اس طرح مذہب اور جمہوریت میں  اشتراک بھی قائم رہے گا جس کی قوم کو اس وقت بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔ لیکن چونکہ مسئلہ اتنا نازک ہے کہ ظہورِ اضطراب کو زبان نہیں  مل پاتی۔ اب یہ امام صاحب سے پوچھنے کی جرات کون کرے کہ آپ کو عشاء کی نماز 20 منٹ پڑھاتے ہوئے فرحت و انبساط کا احساس ہوتا ہے یا صدر و سکریٹری سے مشاہرہ نہیں بڑھانے کا بدلہ پوری امتِ مسلمہ سے لے رہے ہیں؟ یہ بھی بات توجہ طلب ہے کہ بے حضوری کی نماز کا اکیلا مجرم امام نہیں ہے اور نا ہی صرف مقتدی۔ یہ مسئلہ علاقائی بھی نہیں ہے۔ اقبال صاحب نے تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور کہہ کر برصغیر کے مسلمانوں بہ شمول امام کی جس طرح تذلیل کی ہے اس کا میں ” گھور ورودھی" ہوں. اللہ غریق رحمت کرے لیکن علامہ کو ہسپانیہ کی خاک میں سجدوں کے پوشیدہ نشاں مل گئے اور یہاں کی نماز میں بے حضوری اور بے سروری نظر آئی۔ اب شعر کی بات آگئی تو مجھے ایک اور شعر یاد آگیا
؎ تم جو آ جاتے ہو مسجد میں ادا کرنے نماز
تم کو معلوم ہے کتنوں کی قضا ہوتی ہے؟
یہ بہ ظاہر ایک بہت عام فہم سا شعر ہونے کے باوجود مبہم بھی ہے اور شرعی و فقہی سوالات کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ اول تو یہ کہ شاعر نے جہاں نماز ادا کی ہے کیا وہاں ”کو-ایڈ“ نماز کا نظم تھا؟ دوم یہ کہ کیا شاعر سارے نمازیوں پر دوران نماز غیر محرموں پر نگاہ ڈالنے کا افترا باندھ رہا ہے؟ لفظ ”کتنوں" کے ذریعہ شاعر محبوب کے حسن کی رعنائی بیان کر رہا ہے یا صلوۃِ ساھون والے اشخاص کی گنتی کر رہا ہے؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہونی چاہیے کہ طویل نمازوں کے ”اپنے فوائد" بھی ہیں۔ اول یہ کہ اتنی دیر ہم منکرات، سیئات، فضولیات سے بچے رہتے ہیں. دوئم یہ کہ مختلف خانگی، ملکی و بین الاقوامی مسائل کی طرف ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے…ہندستانی مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔۔۔۔کل نوشاد درزی سے سلنے دیے کپڑے لینے ہیں۔۔۔ ابھی گھر جاتے وقت ایک پسیری پیاز لیتے جانا ہے۔۔۔۔ اور ان جیسے بے شمار امور کی انجام دہی کی طرف توجہ نماز میں ہی مبذول ہوتی ہے۔ دماغ کے قفل ایک دم سے کھل جاتے ہیں۔ مختلف مسائل کے حل القا ہونے لگتے ہیں۔ تبھی یکایک خواب غفلت سے آنکھ کھلتی ہے اور معلوم ہوتا کہ ہم لامکاں سے ہو کر چوتھی رکعت کے تشہد میں ہیں۔ ایک دن مجھے سجدے سے اُٹھتے ہوئے زور کی کھانسی آ گئی۔ پھر کیا تھا لوگوں نے امام کی اقتدا چھوڑ کر میری اقتدا میں کھانسنا شروع کر دیا. تب مجھے دو چیزوں کا احساس ہوا۔. ایک یہ کہ مقتدی حضرات بھی میری طرح ضبط کیے ہوئے تھے اور دوسری یہ کہ اقتدا صرف نماز کی ہی نہیں، کھانسی کی بھی ہو سکتی ہے۔
آپ یہ انشائیہ بھی پڑھ سکتے ہیں : اشتہاری شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے