خواجہ غریب نواز کا حسن کردار اور اخلاق کریمانہ

خواجہ غریب نواز کا حسن کردار اور اخلاق کریمانہ

محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور، بنگال

انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت، اخلاق حسنہ، اعلا کردار، اخوت و مساوات اور محبت و شفقت ہی سے عروج و ارتقا حاصل کرتے ہیں. معاشرے کے امن، خوش حالی اور استحکام کا راز اعلا تعلیم و تربیت اور اخلاق میں پوشیدہ ہے. یقینا اخلاق حسنہ سے دلوں پر فتح و ظفر حاصل کی جاتی ہے. ہمارے اسلاف نے حسن اخلاق ہی سے اسلام کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیا اور شجر اسلام کو سر سبز و شاداب کیا. اخلاق حسنہ کے پیش نظر ہی اللہ کریم نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کو خُلق عظیم کے اعلا درجہ پر فائز فرمایا.
اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: اِنَّكَ لَعَلٰی خُلُق عَظِیْم (سورۃ القلم) ترجمہ: یقینا آپ خلق عظیم پر فائز ہیں.
نبی اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم نے اخلاق کی تروج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلاَقِ (البیھقی فی السنن الکبرٰی، الرقم: ۲۰٥٧١)
ترجمہ: یقینا میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ شریفانہ اخلاق کی تکمیل کروں.
رسول اکرم صلّی تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم نے حسن اخلاق کی اہمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ کوئی چیز جو حساب کے ترازو میں رکھی جائےگی حسن اخلاق سے زیادہ بھاری نہیں ہوگی. (جامع الترمذی، باب ما جاء فی حسن الخلق، الرقم:۲۰۲، ۲۰٣)
متذکرہ بالا آیت و احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اخلاق حسنہ کی بڑی اہمیت ہے. انبیائے کرام علیھیم الصلاۃ و السلام، صحابہ کرام اور اولیاء اللہ رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے اپنے حسن کردار اور حسن اخلاق سے غیروں کو داخل اسلام کر کے اسلام کا گرویدہ بنایا اور ساری کائنات کو نورِ اسلام سے منوّر کیا.
ملک ہندستان کے عظیم صوفی، جلیل القدر بزرگ، متبحّر عالم دین، محقق، مفکر، عارف باللہ، بے مثال مجدد اور باکرامت ولی سلطان الہند، عطائے رسول حضور سیّدنا سرکار خواجہ غریب نواز معین الحق و الدین حسن چشتی اجمیری رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہندستان میں ورود مسعود اس دور میں ہوتا ہے جب کہ ہندستان میں ہر طرف ضلالت و گمراہیت چھائی ہوئی تھی، معبودانِ باطل کی پرستش کی جاتی تھی، بت پرستی اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں چہار سو عام تھیں، ظلم و استبداد عروج پر تھا، اخوّت و بھائی چارگی کا فقدان تھا، جبر و تشدّد کو شان و عزّت تصوّر کیا جاتا تھا، حق تلفی، قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا اور لوگ اخلاق و کردار کی پستی کا شکار تھے. ایسے پر فتن اور پر آشوب ماحول میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ نے اس سر زمین کو اپنے حسن کردار، شیریں گفتار، حلم و بردباری، صبر و تحمّل اور اخلاق کریمانہ سے انوارِ توحید و رسالت سے ایسا منوّر کیا کہ اسلام کا نور چہار سو پھیلتا چلا گیا، فسق و فجور کی سیاہی مٹ گئی، رشد و ہدایت کی قندیل چمک اٹھی اور کلمۂ حق کی صدا بلند ہونے لگی. آپ نے حق گوئی، دیانت داری، صدق و صفا، امن و شانتی اور محبت بھائی چارگی کا ایسا درس دیا کہ آپ کے اخلاق اور کردار و گفتار سے متأثر ہو کر لاکھوں لوگ کفر کی تاریکیوں سے نکل اسلام کے نور میں داخل ہوگئے.
اخلاق کریمانہ:
تاریخی شواہد سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کے فروغ و استحکام میں آپ کے اخلاق کریمانہ، حسن کردار، صبر و تحمّل، حلم و برد باری، عفو و درگزد، تواضع انکساری اور آپ کی شیریں کلامی کا اہم رول رہا ہے. آپ مکارم اخلاق کے عظیم پیکر تھے، اخلاق نبوی صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کے مکمل عکس و پرتو تھے، غریب نوازی آپ کاشیوہ تھا، خیر خواہی، ہم دردی اور خدمتِ خَلق آپ کی زندگی کا مشغلہ تھا، احقاقِ حق اور ابطال باطل آپ کے مزاج میں رچا بسا تھا.
خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کا فریضہ نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دیا، آپ کے صدق و صفا، حسن کردار اور حسن اخلاق کو دیکھ کر لوگ صداقت شعار اور پاکیزہ اخلاق کے حامل ہو گئے.
ایک شخص آپ کی خدمت میں عقیدت مند بن کر بغل میں خنجر چھپا کر حاضر ہوا لیکن اس کی نیت آپ کو نقصان پہچانے کی تھی، آپ نے فراست باطنی سے اس کا ارادہ جان لیا اور مسکرا کر فرمایا: درویش درویشوں کے پاس قلب کی صفائی کے لیے حاضر ہوتے ہیں نہ کہ ظلم کرنے کے لیے، تم جس نیت سے آئے ہو اسے اختیار کرو یا اپنا عقیدہ درست کرو. یہ سن کر اس شخص نے فورا اپنی آستین سے ہتھیار نکال کر پھینک دیا اور صدق دل سے توبہ کر کے آپ کے دامنِ کرم سے وابستہ ہوگیا (اسرار الاولیا، صفحہ: ۸٤)
حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حال بیان کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں: کہ میں (قطب صاحب) حضرت خواجہ غریب کے ہم راہ خلا ملا بیس سال تک رہا، ایک مرتبہ ہم ایسے جنگل میں پہنچے جہاں پرند بھی پر نہیں مار سکتا تھا، ہم تین دن تک اسی جنگل میں پھرتے رہے. میں نے سنا تھا کہ اس بیابان کے پاس ایک پہاڑ پر ایک بزرگ رہتے ہیں. حضرت خواجہ غریب نواز نے دو روٹیاں مصلّٰی کے نیچے سے نکال کر مجھ کو دیں اور فرمایا کہ ان بزرگ کی خدمت میں یہ لے جاؤ اور میرا سلام کہو. میں نے روٹیاں ان بزرگ کے سامنے رکھیں اور سلام عرض کیا، انھوں نے ایک روٹی مجھے دی اور دوسری افطار کے لیے رکھ لی. پھر مصلّٰی کے نیچے سے چار کھجوریں نکال کر مجھے دیں اور کہا: یہ معین الدین کو دے دینا. جب میں کھجوریں لے کر آیا تو غریب نواز مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ: اے درویش پیر کا فرمان رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہوتا ہے پس جو پیر کا فرمان بجا لاتا ہے وہ گویا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان بجا لاتا ہے-(معین الارواح، صفحہ: ١۰۰)
عطا و سخا:
آپ نہایت سخی، غریب پرور اور منکسر المزاج تھے. آپ غربا اور محتاجوں کی امداد فرماتے تھے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے.
عطا و بخشش کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سائل یا فقیر آپ کے در سے محروم نہ گیا. حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی فرماتے ہیں کہ مدت تک آپ کی خدمت میں رہا مگر میں نے کسی سائل یا فقیر کو آپ کے در سے محروم جاتے نہیں دیکھا-
(معین الارواح، صفحہ: ١۰٣)
خوف خدا:
خوف خدا آپ پر اس درجہ غالب تھا کہ آپ ہمیشہ کانپتے اور روتے رہتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ اے لوگوں اگر تم کو زیرِ خاک سونے والوں کا حال ذرہ بھر بھی معلوم ہو جائے تو تم کھڑے کھڑے پگھل جاؤ اور مثل نمک پانی ہو جاؤ(معین الارواح، صفحہ: ۹۹)
آپ کا حسن خُلق، عادات و اطوار، پیارا کردار، شیریں گفتار، صبر و تحمّل اور آپ کی تعلیمات یقینا ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں. آپ نے اپنے کردار سے ساری دنیا کو اس پیغام لا زوال سے روشناس کرایا کہ دلوں پر حکمرانی کرنے کے لیے تیر و تلوار کی نہیں بلکہ حسن کردار کی ضرورت ہوتی ہے.
محمد مقتدر اشرف فریدی کی گذشتہ نگارش:سو شل میڈیا کا استعمال، ہمارے بچے اور بچیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے