سید محمد جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ

سید محمد جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور ٢٤٤٩٠١ یوپی،انڈیا
موبائل نمبر:  9520576079

رضا لائبریری رام پور کے ذخیرۂ مخطوطات میں ایک مخطوطہ ’تواریخ عجیبہ‘ کے نام سے موجود و محفوظ ہے۔ یہ مخطوطہ جہازی سائز میں اور اچھی حالت میں ٦٠٠ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف سید محمد نثار علی رام پوری ہیں۔ اس مخطوطہ میں سات بزرگوں کے سوانحی حالات درج کیے گئے ہیں۔ ہر بزرگ کے تذکرہ میں ان کے ملفوظات، خرق عادات، کرامات اور اخلاقی واقعات کو جگہ دی گئی ہے، جن کے اثرات معاشرتی اور تہذیبی طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ جن بزرگوں کے حالات اس مجموعہ میں شامل ہیں، ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں. سید منیر علی، سید محمد رستم علی، حافظ امین نہٹوری، شاہ بلاقی مرادآبادی، سید محمد میاں، منصور علی رام پوری اور سید محمد جمال الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہم۔ ان بزرگوں کے علاوہ کچھ تذکرہ ’رسالہ چہل خواب‘ سے متعلق بھی ہے۔ اس مخطوطہ میں خود مصنف نے اپنے بارے میں کچھ بھی تحریر نہیں کیا ہے۔ کتاب کا سال تصنیف ١٣٣٣ ہجری مطابق ١٩١٤ عیسوی ہے۔ مصنف کی زبان سادہ، سلیس، رواں، جاذب نظر اور اسلوب نگارش شائستہ و دل نشیں ہے۔
اس مخطوطہ میں سید محمد جمال الدین صاحب کا تذکرہ صفحہ نمبر ٥٤٩ سے صفحہ نمبر ٥٨١ تک کل ۳۳صفحات پر مشتمل ہے۔ آپ کے پیرومرشد اور چند مریدوں نیز اہل خاندان کا تذکرہ ان ۳۳صفحات کے علاوہ مزید چند صفحات میں تحریر کیا گیا ہے۔ سید محمد جمال الدین صاحب کے سوانحی حالات، آپ کی شخصیت، عادات، اخلاق، آپ سے متعلق واقعات اور کرامات کا تذکرہ درج ذیل صفحات میں ملاحظہ فرمائیے۔
معرفت آگاہ، حقیقت دست گاہ، ماہر علوم شریعت، واقف رموز طریقت، مقتدائے انام، پیشوائے خاص و عام، مرجع مخلوقات، صاحب کرامات، محبوب یزدان، مظہر رحمان، واقف رموز خفی و جلی، خلف اکبر سید مولوی کفایت علی صاحب، جن کا نام نامی و اسم گرامی حضرت مولانا جمال الدین صاحب ہے۔ وطن اصلی جمال الدین صاحب کا، شہر لاہور تھا۔ آپ کی ولادت با سعادت ١١٣٧ ہجری مطابق ١٧٢٤ عیسوی میں ہوئی۔ آپ سید سندی اور علوم عقلی و نقلی کے عالم تھے۔ آپ پچیس برس کی سن میں بہ مقام دہلی تشریف لائے اور علم حدیث مبارک جناب مولانا ولی اللہ صاحب محدث دہلوی سے بارہ برس تک پڑھا لیکن بعد ختم، حدیث پاک مکرر بارہ سال تک سنائی۔ اس وقت استاد محترم جناب شاہ ولی اللہ صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے روبرو عبدالعزیز کو پڑھاؤ۔ چنانچہ مولانا جمال الدین صاحب نے بہ ایمائے شاہ صاحب، مولانا عبد العزیز صاحب کو بارہ سال حدیث پاک پڑھائی۔ اس طرح حضرت جمال الدین صاحب نے چھتیس سال اس عظیم ریاضت یعنی تحصیل علم میں صرف کیے۔
بعد فراغ علوم ظاہری حضرت مولانا جمال الدین صاحب نے، مولانا فخرالدین صاحب سے بیعت کی اور بعد مدت قلیل کے، آپ نے خرقۂ خلافت پایا اور اس طرح سلسلہ فخر صاحب کا جاری و ساری ہوا۔ پھر مولانا فخرالدین صاحب نے جو آپ کے مرشد تھے، طرف رام پور کے رخصت کرکے ارشاد فرمایا کہ تم رام پور جاؤ اور مستقل وہیں رہنا۔ لہٰذا حسب الارشاد پیرومرشد، مولانا صاحب رام پور کے لیے روانہ ہوئے اور پہلے مرادآباد میں تشریف لائے۔ آپ نے خاندان سید صاحب میں، جن کا مزار متصل رام گنگا پیش دروازہ جامع مسجد کے ہے، ایک بی بی سے نکاح فرمایا۔ یہ سید صاحب رستم خاں صوبۂ دکن کے پیر تھے۔ ان کا مزار آج بھی مرجع فقیر و امیر ہے۔ حضرت مولانا جمال الدین صاحب بہ عہد نواب فیض اللہ خاں صاحب بہادر، رام پور تشریف لائے۔ یہاں آکر امیر و فقیر، ادنا و اعلا، رئیس سے سائیس تک لوگ ان کے فیض و کمال کے معتقد ہوئے۔ ہر شخص بہ صدق دل آپ کا معترف ہوا۔ آپ مرجع خلائق خاص و عام کے ایسے تھے کہ عدیل اور نظیر اپنا اس دیار میں نہیں رکھتے تھے۔ لوگ آپ کو مظہر آیات جلالی و جمالی اور ماہتاب یگانہ سمجھتے تھے۔ سارے غریب و امیر آپ کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹے بڑے سب لوگ آپ کو ”حضرت صاحب“ کہا کرتے تھے۔ آپ کے خلفا بہت ہوئے لیکن ان کا پورا احوال معلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ ان میں چار بہت مشہور ہوئے. اول مولانا فقیہ الدین صاحب، آپ کے صاحب زادہ، جن کا مزار شریف چبوترہ مزار جناب مولانا جمال الدین صاحب پر ہے۔ دوسرے سید کفایت علی صاحب، جن کا مزار بھی وہیں ہے۔ تیسرے میر حسین علی صاحب، جن کا مزار موضع گوگئی ضلع میر گنج میں ہے۔ چہارم غلام نور صاحب ولایتی کہ جن کا مزار کسی دیگر مقام پر ہے۔
سید کرامت علی صاحب برادر زادۂ سید کفایت علی صاحب ناقل ہیں کہ غلام محمد خاں صاحب بدایونی جن کے والد ماجد کو جناب مولانا فخرالدین صاحب دہلوی سے بیعت تھی، بعد ہنگام غدر میرے پاس آئے اور یہ کلام زبان پر لائے کہ میرے والد صاحب اکثر مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ تو بھی کسی بزرگوار سے بیعت کرلے۔میں عرض کرتا کہ اگر مولانا فخر صاحب ہوتے تو میں البتہ ضرور بیعت کرتا اور یوں دربدر نہ پھرتا۔ وہ فرماتے کہ مولانا فخر صاحب کو تو دار آخرت پسند آیا مگر مولانا حضرت جمال الدین صاحب موجود ہیں اور اس زمانہ میں اہل کمال کے مقصود ہیں۔ میں نے انکار کیا۔ بعد اس تذکرہ کے ایک شب خواب میں ایک بزرگ نظر آئے اور اس طرح زبان پر لائے کہ تو مرید کیوں نہیں ہوتا؟ میں نے وہی کلام کیا کہ اگر مولانا فخر صاحب ہوتے تو میں ضرور مرید ہوتا۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ مولانا جمال الدین صاحب جو مشہور، دورونزدیک ہیں بالفضل باری، ساکن رام پور ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھ کو بتا دو اور ان کی صورت دکھا دو۔ فوراً ان بزرگوار نے شبیہ مولانا جمال الدین صاحب کی دکھا دی۔ دیکھتے ہی اس جمال با کمال کے، میرے ہوش جاتے رہے۔ اچانک آنکھ کھل گئی۔ بے تابانہ بلا اجازت اپنے والد کے، پا پیادہ راہی رام پور ہوا۔ بعد قطع منازل جب رام پور حضرت ممدوح کی خدمت میں آیا تو جو صورت کہ خواب میں دیکھی تھی، سرمو فرق نہ پایا۔ اسی وقت بیعت کی اور ماجرائے گزشتہ من و عن کہہ سنایا۔ چند روز حضرت کی خدمت میں رہا۔ ہنگام رخصت میں نے عرض کیا کہ حضور میری ایک خواہش ہے کہ روزانہ زیارت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو جایا کروں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر تمھارا ایسا خیال ہے تو ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ بہ موجب ارشاد حضرت صاحب کے ہر شب زیارت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوتا رہا۔ تھوڑے عرصے کے بعد میں نے دوست احباب سے یہ تذکرہ کیا کہ مجھ کو بدولت اپنے مرشد کے ہر روز زیارت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتی ہے۔ یہ کہنا تھا کہ اسی روز سے زیارت ہونا موقوف ہوگئی اور اس کیفیت کے جانے سے میری زندگانی تلخ ہو گئی۔ کوئی صورت بن نہ پڑی۔
آخر کار حضرت صاحب کی خدمت شریف میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم کو اپنے مطلب سے مطلب ہے یا اظہار سے؟ میں نے عفوئے قصور چاہا۔فرمایا ان شاء اللہ پھر زیارت ہوگی۔ چنانچہ اس روز سے پھر زیارت ہونے لگی۔ دو روز خدمت شریف میں پڑا رہا۔پھر راہی وطن ہوا۔ اس کو ایک مدت دراز گزر گئی۔ ایک جلسۂ احباب میں یہ تذکرہ درپیش تھا کہ کون سی زیارت سے زیارت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے۔ میرے منھ سے یک بارگی نکلا کہ مجھے یہ بات بغیر زیارت کے حاصل ہے۔ اسی روز سے پھر وہ بات جاتی رہی اور اس اثنا میں حضرت صاحب کا بھی انتقال ہو گیا۔اس زمانہ تک کہ جس کو چالیس برس کا عرصہ ہوا آج تک صدہا فقرا سے ملا مگر وہ دولت میسر نہ ہوئی۔ اب تذکرہ مولوی حبیب اللہ صاحب کا سن کر یہاں آیا ہوں مجھے ان کی خدمت میں لے چلو۔ غرض بہ ہمراہی میرے، غلام محمد خاں صاحب مولوی حبیب اللہ صاحب کی خدمت میں گئے اور کل کیفیت بیان کی۔ مولوی صاحب نے سن کر فرمایا کہ اگر اس بات کا شوق ہے تو بی بی کو طلاق دے اور بچوں کو زہر دے پھر اپنا سر اپنے ہاتھ سے کاٹ کر ہمارے پاس لا، تب اپنا مدعا پائے گا اور یہ قدرت اور اختیار تو مولانا جمال الدین صاحب کو تھا ہمیں نہیں ہے۔ آخرالامر غلام محمد خاں روتے پیٹتے، واپس اپنے گھر کو گئے اور کچھ روز کے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ حضرت مولانا جمال الدین صاحب ہر کس و ناکس سے بدرجۂ غایت حسن اخلاق سے پیش آتے تھے اور کسی سے سخت کلامی اور درشت زبانی نہ کرتے تھے۔ مہتر اور کہتر کو حاضر غائب میں تعظیم سے یاد فرماتے۔ شیریں زبانی وہ رکھتے تھے کہ بڑے بڑے ترش رو آپ کے روبرو انکساری اختیار کرتے تھے۔ شیعہ اور اہل ہنود تک آپ کی مجلس سے خوش اٹھتے اور ہر فرد بشر اچھے الفاظ اور بامدح و ثنا سے ان کو یاد کرتا۔ چنانچہ جانکی پرشاد دیوان صدر نے مولوی نثار علی سے بیان کیا کہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں ایک مرتبہ حاضر ہوا۔ آپ نے میری طرف کمال شفقت سے متوجہ ہو کر فرمایا: ”جسے معبود حقیقی جانتے ہو اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہونا۔“ غرض شبانہ روز میں صدہا آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ سب کے واسطے آپ سروقد تعظیم کو کھڑے ہو جاتے اور یہ اخلاق آپ کے جبلی تھے نہ کہ نمائشی۔ ایسے صاحب عظیم الشان کو کہ مرجع عالم ہو واسطے دوست و دشمن، آشنا اور غیر آشنا کے تعظیماً و تکریماً کھڑا ہونا بہت دشوار ہے بلکہ ایسا اکثر دیکھا اور سنا نہیں گیا ہے۔
آپ کی ولادت سے متعلق نقل ہے کہ مولوی کفایت علی صاحب، والد ماجد حضرت صاحب کے، ایک درویش کرامت کیش کی خدمت میں تشریف لے گئے اور کہا وہ چراغ کہ میرے تاریک گھر کو منور کرے اور اس سے میری بقائے نسل کی روشنی برقرار رہے، نہیں رکھتا ہوں۔اس فقیر پرتاثیر نے ایک لیمو شیریں ان کو عطا کیا اور فرمایا اس کو نوش جان کر لو۔ حق تعالیٰ تم کو فرزند معلا عنایت فرمادے گا۔ فوراً انھوں نے تناول فرما لیا۔ بعد مدت کے یہ شمس فلک، تقویٰ و ہدایت، صاحب شریعت و معرفت، ظہور میں آئے کہ اسم گرامی و نام نامی اس مقبول درگاہ رب العالمین کا، جمال الدین رکھا گیا۔ بعد کچھ عرصے کے پھر سعید ازلی مولوی کفایت علی صاحب اس گوہر دریائے معرفت اور شناور محیط حقیقت کے پاس سائل ایک اور فرزند دل بند کے ہوئے یعنی ایک اور فرزند کی پیدائش کے خواہش مند ہوئے۔شاہ صاحب موصوف گرامی قدر نے پھر ایک لیمو ترش مرحمت فرمایا اور حسب سابق پھر وہی جملے ارشاد فرمائے۔ لہٰذا اس کے بعد صاحب زادہ کمال الدین صاحب عالم وجود میں تشریف لائے۔ البتہ لیمو شیریں کا یہ ایما یعنی اثر پایا گیا کہ مولوی جمال الدین صاحب مظہر اوصاف جمالی ہوئے اور میاں کمال الدین صاحب مصدر صفات جلالی ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ نواب کریم اللہ خاں صاحب کے یہاں کوئی صاحب شہر لکھنوی مہمان آئے۔ ایک روز لکھنوی صاحب نے نواب کریم اللہ خاں صاحب سے کہا کہ آپ کے شہر میں جو کوئی شخص بزرگ ہوں، ہم ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ نواب صاحب نے اپنے کسی اہل کار کے ہمراہ لکھنوی صاحب کو خدمت بابرکت حضرت صاحب میں بھیجا۔ حضرت صاحب اس وقت نماز عصر پڑھ کر صحن مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ لکھنوی صاحب جوتا پہنے ہوئے صحن میں کسی قدر آگے بڑھ آئے کہ کسی صاحب نے کہا کہ آپ مسجد میں جوتا پہنے ہوئے چلے آتے ہیں؟ لکھنوی صاحب نے جواب دیا میں واقف نہ تھا کہ یہ مسجد ہے۔ فوراً لکھنوی صاحب نے جوتا اتار کر علاحدہ رکھ دیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بعد سلام علیک مولانا صاحب کے نزدیک بیٹھے اور کسی قدر ٹھہر کر حضرت صاحب سے عرض کیا کہ مجھ سے یہ قصور ہوا کہ جوتا پہنے ہوئے مسجد میں چلا آیا۔ حضرت صاحب نے کیا خوب فرمایا: ”یہ میرا ہی قصور تھا کہ نماز پڑھ کر مسجد میں مجلس کرنے کے واسطے بیٹھ گیا، آپ کا کچھ قصور نہیں ہے۔“ بعد ازیں لکھنوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ پھر تھوڑی دیر بعد مولانا صاحب سے رخصت ہو کر نواب صاحب کے پاس واپس آگئے اور نواب صاحب سے کہا کہ آپ نے مجھ کو ایسے شخص کی ملاقات کے واسطے بھیجا کہ جب تک میں ان کے پاس بیٹھا رہا، بار بار دل میں خیال آتا تھا کہ میں اپنے مسلک کو چھوڑ کر ان کے مسلک میں شامل ہو جاؤں۔
ایک شخص عبداللہ خاں نامی مولانا صاحب کے مریدوں میں سے تھے۔ اتفاقاً وہ ایک مہترانی یعنی خاکروبہ پر عاشق ہو گئے اور مہترانی کے عشق میں ان کا حال بہت مضطروپریشان ہو گیا۔ ادھر عبداللہ خاں کا یہ حال اور ادھر مہترانی کو بھی ان کے یک طرفہ عشق کی خبر ہو گئی۔ مہترانی کو یہ خوف ہوا کہ یہ مولانا صاحب کے مرید ہیں، شاید مجھ کو تکلیف پہنچائیں۔ اس لیے وہ نواب صاحب کے سالے شفاعت کے گھر چلی گئی کہ اس کو کوئی مضرت اور نقصان نہ پہنچے۔ اس نے صاحب مکان سے عبداللہ خاں کے عشق کا حال بیان کیا۔ صاحب مکان نے مہترانی کو تسلی دی کہ تو کچھ خوف نہ کر تجھ کو کوئی شخص ضرر نہ پہنچائے گا۔ بعد کو اس واقعہ سے مولانا صاحب کو بھی پوری اطلاع ہوئی۔حضرت صاحب نے اپنے د ومریدوں سے فرمایا کہ ہمارا یہ پیغام مہترانی سے جا کر کہہ دو۔ مرید صاحب حضرت صاحب کا یہ پیغام لے کر مہترانی کے پاس اس مکان میں آئے اور صاحب مکان سے مہترانی کو معلوم کیا۔ صاحب مکان نے مہترانی کو بلا کر کہا کہ تو کچھ خوف نہ کر، یہ لوگ حضرت صاحب کا کچھ پیغام لائے ہیں، اسے سن لے۔ مہترانی نے کہا: ”اچھا!“ اس وقت مریدوں نے کہا، حضرت صاحب فرماتے ہیں: ”تو خود مختار ہے، جہاں تیرا دل چاہے وہاں جا اور کچھ اپنے ضرر کا اندیشہ نہ کر۔ مگر یہ بھی تو خیال کر کہ ایسا چاہنے والا کہاں ملتا ہے؟“ یہ پیغام حضرت صاحب کا مہترانی کے دل میں موثر ہوا۔ اسی وقت مہترانی مریدوں کے ہمراہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے حال سے تائب ہو کر مسلمان ہو گئی۔مہترانی کے مسلمان ہو جانے کے بعد عبداللہ خاں کا نکاح اس مہترانی سے ہو گیا۔
نقل ہے کہ ایک روز حضرت صاحب ہمراہیوں وغیرہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک مہتر یعنی خاکروب جو مولانا صاحب کے قرب و جوار میں رہتا تھا، راستے میں ملا۔ اس نے اپنے دل میں خیال کیا کہ مولانا صاحب تشریف لا رہے ہیں، میں سلام کروں لیکن مہتر سلام کرنے نہیں پایا تھا کہ حضرت صاحب نے مہتر سے ان الفاظ میں فرمایا: ”مہتر صاحب! آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟“ مہتر نے کہا: ”اور تو کچھ نہیں فقط سلام کرنا چاہتا ہوں۔“ حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر فرمایا: ”اچھا مہتر صاحب! سلام، خوش رہو۔“
کہا جاتا ہے کہ ایک روز حضرت صاحب اپنے دولت خانہ سے نماز جمعہ کے واسطے مسجد کو بہ ہمراہی مریدان تشریف لاتے تھے۔ اثنائے راہ میں ایک مہتر یعنی خاکروب کو جو وہیں قریب میں رہا کرتا تھا دیکھا کہ شراب کے نشے میں، دھوپ میں فرش زمین پر بے ہوش پڑا ہوا ہے۔حضرت صاحب نے اس کا یہ حال دیکھ کر بہت افسوس کیا اور فرمایا کہ مہتر صاحب کو اس وقت بہت تکلیف ہے۔ قریب آکر آپ نے چادر سے اس کے سر پر سایہ کیا۔مریدوں نے بھی یہ دیکھ کر چھتری لگا لی۔ حضرت صاحب یہاں تک کھڑے رہے کہ وقت نماز جمعہ کا آخیر ہوا جاتا تھا اور نمازی آکر بار بار حضرت صاحب سے کہتے تھے کہ حضرت چلیے نماز میں بہت تاخیر ہو گئی ہے۔ جب مہتر کو نشۂ شراب سے افاقہ ہوا اور وہ ہوش میں آیا تب مولانا صاحب نے فرمایا: ”مہتر صاحب! آپ کو اس وقت دھوپ سے بہت تکلیف تھی۔“ مہتر نے جب حضرت صاحب کا یہ کلام سنا تو گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔بعد کو حضرت صاحب نماز کے واسطے مسجد میں تشریف لائے اور نماز جمعہ پڑھی اور مہتر نے اپنے حال سے بہ سبب تصرف باطن حضرت صاحب کے، توبہ کی اور ایمان لا کر اسلام قبول کیا۔
نقل ہے کہ ایک شخص نے مولانا صاحب سے آکر عرض کیا: ”نواب صاحب بہادر نے پگڑی مہتری کی جو حق میرا تھا، دوسرے کے سر پر بندھوا دی اور میرے حق سے مجھ کو محروم رکھا۔ اگر آپ میری مہتری کے واسطے سفارش فرمائیں گے تو مجھ کو پگڑی مل جائے گی۔“ حضرت صاحب نے اقرار سفارش کرنے کا فرمایا۔ جو حجام کہ نواب صاحب کا خط بنایا کرتا تھا وہی حضرت صاحب کا بھی خط بنایا کرتا۔ مگر حجام کا یہ قاعدہ تھا کہ پہلے خط حضرت صاحب کا بناتا اور بعد کو اسی دن جاکر نواب صاحب کا خط بناتا۔ ایک روز جب کہ حجام روز مقررہ پر حضرت صاحب کی خدمت میں خط بنانے کے واسطے حاضر ہوا، حضرت صاحب نے فرمایا: ”تم نواب صاحب کا خط بنانے کب جاؤگے؟“ حجام نے عرض کیا: ”آج ہی جاؤں گا مگر پہلے خط آپ کا بناتا ہوں اور بعد کو نواب صاحب کا خط بنانے کے واسطے جاتا ہوں۔“ مولانا صاحب نے حجام سے فرمایا: ”جس وقت خط بنانے کے واسطے جاؤ تو میری طرف سے کہنا کہ اس نے کہا ہے استحقاق پگڑی مہتری کا فلاں شخص رکھتا ہے اور آپ نے اس کو اس استحقاق سے محروم رکھا اور دوسرے کے سر پر پگڑی مہتری کی بندھوا دی، یہ مناسب نہیں ہے۔“ جس وقت کہ حجام نواب صاحب کا خط بنانے کے لیے گیا، خط بناتے وقت حضرت صاحب کا ارشاد بجا لایا۔
نواب صاحب نے حجام سے مخاطب ہو کر کہا: ”حضرت صاحب انتظام ریاست نہیں جانتے اور یہ کچھ لڑکوں کا کھیل نہیں ہے کہ آج ایک کے سر پر اور پھر کل دوسرے کے سر پر، اب جو کچھ ہوا وہ ہوا۔“ چونکہ نواب صاحب نے حجام سے جواباً یہ بات نہیں کہی تھی۔ اس وجہ سے حجام نے بھی نواب صاحب کا فرمودہ مولانا صاحب سے آکر نہیں کہا۔ اس کے بعد جب خط بنانے کا روز ہوا تو حجام حسب معمول حضرت صاحب کی خدمت میں خط بنانے کے لیے حاضر ہوا۔ حضرت صاحب نے حجام سے دریافت فرمایا: ”نواب صاحب نے میرا کلام سن کر کیا فرمایا؟“حجام خاموش ہو رہا۔ حضرت صاحب نے مکرر دریافت فرمایا۔ اس وقت حجا م نے عرض کیا: ”نواب صاحب نے فرمایا، حضرت صاحب انتظام ریاست نہیں جانتے ہیں اور یہ لڑکوں کا کھیل نہیں ہے۔“ حضرت صاحب حجام کے یہ کہنے کے بعد خاموش ہو کر مراقب ہوئے اور وقفہ فرما کر سر اقدس اٹھایا اور حجام سے کہا: ”نواب صاحب نے کیا فرمایا؟“ حجام نے نواب صاحب کا فرمودہ، بیان کر دیا۔ حضرت صاحب پھر مراقب ہوئے اور بعد دیر کے حجام سے دریافت فرمایا۔حجام نے وہی فرمودہ نواب صاحب کا کہہ دیا۔ تیسری مرتبہ حضرت صاحب پھر مراقب ہوئے اور سر اٹھانے نہیں پائے تھے کہ نواب صاحب بہ ذات خودحضرت صاحب کی خدمت میں مع دو خوان شیرینی و پگڑی کے حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ پگڑی مہتری کی موجود ہے جس کے سر پر آپ چاہیں باندھ دیں۔ مولانا صاحب نے اس شخص کو جس سے سفارش کا وعدہ فرمایا تھا بلوایا لیکن اتفاقاً اس شخص کو وہیں حاضر پایا۔ مولانا صاحب نے اس شخص کو اپنے نزدیک بلا کر نواب صاحب سے کہا کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر پگڑی باندھیں۔ نواب صاحب نے کہا کہ آپ ہی باندھیں۔ حضرت صاحب نے اس شخص کے سر پر ایک پیچ پگڑی کا اپنے ہاتھ سے باندھا اور باقی تمام پیچ پگڑی کے نواب صاحب نے اس شخص کے سر پر اپنے ہاتھ سے باندھے اور بعد کو شیرینی جو نواب صاحب دو خوانوں میں لائے تھے تقسیم ہوئی اور وہ شخص حضرت صاحب کی سفارش کے حسب وعدہ، اپنے استحقاق پگڑی پر پہنچا۔
نقل ہے کہ جب مولوی جمال الدین صاحب اپنے مرشد مولانا فخرالدین صاحب کے پاس دہلی کو جاتے تو مرشد موصوف دریائے جمنا تک واسطے استقبال کے تشریف لاتے تھے۔ مولوی صاحب ان کو دیکھ کر بہلی سے اترنا چاہتے تو مرشد منع فرماتے اور کہتے کہ تم میری خوشی کو آئے ہو تو ایسے ہی بیٹھے رہو، جیسے بیٹھے ہو اور آپ کی بہلی کے ہمراہ ہو کر پیدل اپنے دولت خانے فیض کاشانے کو لے جاتے تھے۔ پھر فرماتے اگر اس شخص نے مجھ سے بیعت نہ کی ہوتی تو یہ اس قابل تھا کہ میں اس سے بیعت کرتا۔ سچ ہے کہ ولی کو ولی پہچانتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار مولانا فخرالدین صاحب کے صاحب زادے میاں کالے صاحب، دہلی سے رام پور کو تشریف لاتے تھے۔ مولوی جمال الدین صاحب مرشد زادے کے آنے کی خبر سن کر دس کوس تک استقبال کے واسطے تشریف لے گئے۔ بعد ملاقات کے جب رام پور کو واپسی کی تو میاں کالے صاحب فرماتے تھے کہ آپ کی پالکی آگے چلے میں پیچھے چلوں اور مولوی صاحب فرماتے تھے کہ صاحب زادے صاحب آپ کی سواری آگے ہو۔ بعد مبالغہ بسیار کے طرفین سے مولوی صاحب نے کہا، ایک شرط سے میں آگے چلتا ہوں، جس وقت شہر کے دروازے پر پہنچیں، جیسا میں عرض کروں اور کہوں اس میں آپ کچھ ارشاد نہ کریں۔ انھوں نے وعدہ کر لیا۔شہر کے دروازے تک سواری پالکی، مولوی صاحب کے آگے آگے آئی۔ دروازے پر آکے مولوی صاحب پالکی سے اتر پڑے اور صاحب زادے صاحب کی پالکی کو کندھا بجائے کہار کے خود لگا دیا۔
نواب جنگی خاں ککرالے والے اور بہت سے اکابر صاحب زادہ خاندانی اور صدہا مرید مولوی صاحب کے، دروازۂ شہر پر پہنچ گئے تھے۔ ان سب نے کندھا پالکی کو دیا اور ہر ایک رئیس چاہتا تھا کہ صاحب زادے صاحب میرے مکان میں فروکش ہوں مگر صاحب زادے صاحب نے فرمایا: ”میں مولوی صاحب کے واسطے آیا ہوں اور ان ہی کے مکان میں اتروں گا۔“ بعد چند روز کے جب وہ دہلی کو تشریف لے گئے ایک مخلص نے مولوی صاحب سے دریافت فرمایا کہ صاحب زادے صاحب کیسے تشریف لائے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ طالب اس امانت کے تھے جو مجھے ان کے بزرگوں سے پہنچی تھی، سو میں نے وہ امانت ان کو دے دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں کالے صاحب نے مخفی بیعت مولوی جمال الدین صاحب سے کی تھی اور بعض اصحاب کہتے ہیں کہ بعد وفات مولانا فخرالدین صاحب کے میاں کالے صاحب مرید شاہ سلیمان صاحب کے ہوئے تھے۔ واللہ اعلم!
روایت ہے کہ حضرت مولانا جمال الدین صاحب ہر ادنا اور اعلا کی تعظیم کے واسطے سروقد کھڑے ہو جاتے تھے اور عادت شریف مدت العمر یہی رہی کہ ایک روز آپ کے پاس نواب احمد علی خاں صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور خدمت گار نواب صاحب کا کھڑا ہوا تھا۔ مولوی صاحب اپنی جبلی خصلت سے، اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہو گئے۔ ناچار نواب صاحب بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ خدمت گار نواب صاحب کے خوف سے بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ مولوی صاحب سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت بیٹھ جائیے۔ فرمایا یہ صاحب تو کھڑے ہوئے ہیں، میں کیسے بیٹھ جاؤں؟ نواب صاحب نے اشارہ کیا، وہ خدمت گار سامنے سے ہٹ گیا، تب حضرت بیٹھے۔ اس روز سے نواب صاحب جب بھی آتے، ہمراہ کسی خدمت گار کو نہیں لاتے تھے۔ اللہ اللہ کیا حسن سیرت اور اخلاق کریمانہ تھا حضرت جمال الدین صاحب کا!
حضرت مولانا جمال الدین صاحب ہر سال اپنے پیر و مرشد کا عرس کیا کرتے اور عرس کے روز قوالی سنا کرتے تھے۔ مقولہ حضرت صاحب کا یہ تھا گانے والا امرد نہ ہو اور نہ عورت ہو اور جو گایا جائے کلام ہزل اور لغو نہ ہو جیسے شعرائے طازی معشوقانہ مجازی کی توصیف خدوخال، زلف و کاکل سے مبالغہ تمام کیا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس قوالی میں حمدونعت اور کلام تصوف ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے حصول کا ذریعہ ہو اور ذوق و شوق، یاد الٰہی کا پیدا کرتا ہو۔ مزید یہ کہ اہل جلسہ بھی ہم مذاق تصوف ہوں اور غیر کفو کا وہاں دخل نہ ہو۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ یہ طریقہ مرشدوں کا ہے کہ سال میں ایک مرتبہ سن لیتا ہوں اور تمام سال اپنے حال پر نادم رہتا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت صاحب کے روبرو قوالی ہو رہی تھی اور نواب جنگی خاں حسب معمول اپنی عادت کے، خوانوں میں سے دوشالے، رومال اور روپیہ اٹھا اٹھا کر حضرت صاحب پر سے قربان کرکے قوالوں کی طرف پھینکتے تھے اور اہل جلسہ پر حال اور وجد کی کیفیت طاری ہو رہی تھی کہ اسی درمیان حضرت صاحب کے نواسے مولوی عبدالعلی صاحب خلف اکبر مولانا رستم علی صاحب نے بہ سبب کم سنی کے، ڈنڈا ہاتھ میں لے کر اہل وجد کو پیٹ ڈالا۔ جوں ہی حضرت صاحب نے نگاہ کی وہ بے ہوش ہو گئے۔ اس وقت حضرت صاحب نے ان کو ان کے مکان پر بھجوا دیا۔ دوسرے روز خود عیادت کے واسطے تشریف لے گئے۔ اس وقت مولانا رستم علی صاحب اپنے صحن مکان میں بیٹھے ہوئے تھے اور میاں عبدالعلی صاحب پر بخار چڑھا ہوا تھا اور دالان میں لیٹے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب نے مولانا رستم علی صاحب کے پاس بیٹھنے کا ارادہ کیا لیکن مولانا صاحب نے کہا آپ عبدالعلی کے پاس اندر تشریف لے جائیے۔حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور ان پر کچھ دم کیا جس سے وہ فوراً اچھے ہو گئے۔
روایت ہے کہ بعد آدھی رات کے حضرت صاحب کھانا تناول فرمانے کے لیے زنانہ مکان میں تشریف لے جایا کرتے اور کھانا کھا کر آرام فرماتے جب سب سو جاتے تو آپ یاد رب کے لیے اٹھ کے بیٹھ جاتے۔ بی بی کریماً ایک خادمہ نے جہاں دیکھا کہ آپ اٹھے، عرض کیا حضرت آپ دن بھر کے تھکے ہوئے ہیں، سوتے نہیں ہیں؟ فرماتے اچھا ابھی سوتا ہوں۔ پھر لیٹ جاتے لیکن تھوڑی دیر کے بعد جہاں اٹھے اس خادمہ نے آواز دی کہ حضرت آپ پھر جلدی سے اٹھ بیٹھے ہیں۔ آپ یہ سن کر پھر لیٹ جاتے۔غرض شب میں کئی مرتبہ یہ اتفاق ہوتا۔ سبحان اللہ کیا آپ کا حلم و اخلاق تھا! کبھی کسی کو زجر و منع نہیں فرماتے۔ اپنی خادمہ کے کہنے کو بھی ایسا مان لیتے جیسے کوئی فرماں بردار بچہ اپنے والدین کے خوف کا خیال کرتا ہے۔ زین الدین خاں صاحب ’با اخلاص‘ سے نقل ہے کہ ایک مولوی صاحب میرے آشنا تھے۔ انھوں نے مجھ سے بہت اصرار کیا کہ تو حضرت صاحب سے ’قصیدۂ بردہ‘ کے پڑھنے کی اجازت لے۔ پھر میں تجھ سے اجازت لے لوں گا۔ میں نے بھی کم فہمی سے گستاخانہ عرض کیا کہ حضرت مجھے ”قصیدۂ بردہ“ پڑھنے کی اجازت دے دیجیے۔ آپ نے مجھے ایک شعر پڑھنے کی اجازت دے دی۔ میں نے عرض کیا، کل کی اجازت چاہتا ہوں۔ فرمایا، تم کو برکتاً اتنا ہی کفایت کرتا ہے۔
قاری عبدالرحیم صاحب کی روایت ہے کہ میرے والد مولوی عبدالماجد صاحب حضرت صاحب کے مرید تھے۔میں صغیر سن تھا۔ میرے والد مجھے حضرت صاحب کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت صاحب نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا: ”آؤ حافظ عبد الرحیم!“ میرے والد نے عرض کیا کہ اس نے تو ابھی کلام اللہ شریف ناظرہ بھی نہیں پڑھا ہے۔ فرمایا: ”ان شاء اللہ تعالیٰ حافظ ہو جائے گا۔“ میں تھوڑی مدت میں قرآن شریف کا حافظ ہو گیا۔تمام شہر حضرت صاحب کی خوبی ذات اور کرامات کا معترف ہے۔
حضرت مولوی جمال الدین صاحب نے بتاریخ ٢٩/جمادی الاولیٰ ١٢٤٠ھ مطابق ١٨٢٤ء میں اس دیار ناپائیدار سے عالم جاودانی کی طرف انتقال فرمایا۔ اس روز تمام شہر پر صدمۂ عظیم تھا اور ہزارہا آدمی، کیا ہندو کیا مسلمان ہمراہ جنازہ کے تھے اور نواب احمد علی خاں صاحب بھی جنازہ کے ساتھ چل رہے تھے۔ قبر میں خود نواب صاحب نے ہی آپ کو اتارا۔ جس وقت قبر میں چہرہ پر انوار کھولا گیا، نواب صاحب بہت غمگین ہوئے اور کہا: ”پچاس برس فقیر زیر دیوار مجھ کم بخت کے رہا۔افسوس صدا فسوس! کہ میں نے نہیں پہچانا۔“
زین الدین خاں کہتے ہیں: ”جب نواب صاحب نے انتقال کی خبر سنی تو فرمایا کہ جو بھی زمین اور باغ پسند ہو وہاں دفن کریں۔ چنانچہ بریلی دروازہ پر، جہاں اب مزار شریف ہے، یہ باغ نہایت عمدہ تھا اور دروازہ یہی بنا ہوا تھا کہ کسی باغ کا یہاں ایسا خوب صورت دروازہ نہیں تھا، پسند ہوا جسے نواب صاحب نے نہایت عقیدت اور محبت سے عطا فرمایا۔ اسی وجہ سے باہر بریلی دروازہ کے ایک میدان وسیع میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔اس قدر اژدہام خلائق تھا کہ کبھی رام پور میں کسی نے امیر فقیر کے جنازہ میں ایسا انبوہ کثیر نہ دیکھا ہوگا۔میں نے اس میدان میں ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا۔جہاں تک نگاہ جاتی تھی سر ہی سر آدمیوں کے نظر آتے تھے۔ بروقت دفن کئی آدمیوں نے کہا کہ ہم ملک در ملک کیا روم کیا شام وغیرہ پھرے ہیں مگر اس شان کا کوئی بزرگ نہیں دیکھا۔
اس موقع پر اکثر صاحبوں نے تاریخیں عمدہ عمدہ لکھیں مگر میاں فقیہ الدین صاحب، آپ کے صاحب زادہ نے فرمایا: ”زیادہ تکلف کرنا کیا ضرور ہے۔ مرشد برحق، ہادی مطلق، افتخارالمومنین، مولانا فخرالدین صاحب کی تاریخ ’رضی اللہ عنہ‘ ہے اس میں ایک حرف ’میم‘ اور زیادہ کر دو یعنی ’رضی اللہ عنہم‘ لکھ دو۔ چنانچہ یہی تاریخ لکھی گئی اور مورخین کو نہایت دل پسند ہوئی۔
سید مولوی منیر علی صاحب سے روایت ہے کہ ایک روز پنج شنبہ کو میں مزار فائزالانوار حضرت مولانا رستم علی صاحب پر گیا۔ شب کو وہاں رہا۔ صبح کو کہ روز جمعہ تھا باہر باہر شہر سے بریلی دروازہ زیارت مزار نانا صاحب مولوی جمال الدین صاحب پر گیا۔ دوپہر تک بیٹھا ہوا وہاں کلام اللہ شریف پڑھتا رہا۔ حضرت نور خاں نامی ایک پٹھان میرے ہمراہ گئے تھے۔ انھوں نے کہا میرے اوپر بھوک غالب ہے، مکان کو چلو۔ میں نے کہا عجب نہیں کہ حضرت صاحب یہیں کھلوا دیں۔ اس واسطے کہ لڑکپن میں جمعہ کے روز آپ کے مکان پر جایا کرتا تھا تو آپ پکانے والوں کو تاکید فرما دیتے تھے کہ لڑکے کے واسطے جلد کھانا پکا کر کھلا دو اور آج بھی جمعہ ہے اور وقت معمول پر آیا ہوں اور رات سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔ آپ کی توجہ سے بعید نہیں ہے کہ ہمیں کھانا کھلا دیں اور بھوکا نہ چھوڑیں۔ خان مذکور نے کہا کہ و ہ معاملہ زندگانی کا تھا۔ میں نے کہا میرے عقیدے میں اب بھی زندہ ہیں، فقیر مرتا نہیں ہے صرف انتقال مکانی ہوتا ہے بلکہ ِاس عالم سے نقل مکانی کرکے اُس عالم میں زیادہ قوی ہو جاتا ہے۔
الغرض یہ گفتگو ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ ایک شخص نے آکر کہا: ”بیگم صاحبہ آئی ہیں، پردہ ہو جائیں۔“ میں زیارت کے روضہ میں سے صحنچی میں اوپر جا بیٹھا کہ اچانک دو مامائیں میرے پاس آئیں کہ ایک کے پاس ایک ڈلیا میں اندرسے تازہ رکھے ہوئے اور دوسری ڈلیا میں کوڑئیں بھری ہوئیں اور کہا کہ صاحب زادہ کرم علی خاں گنج والی کی والدہ آپ کو سلام کہتی ہیں کہ میرے ملازموں نے بڑی گستاخی کی کہ آپ کو زیارت میں سے اٹھایا اور تکلیف دی۔ آپ ہمارے صاحب زادے ہیں۔ آپ سے پردہ کیا تھا اور یہ چڑھاوا بھیجا ہے۔آپ فاتحہ دے کر لے لیجیے۔ آپ کے ہوتے ہوئے عصمت خاں مجاور کو دینے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ میں نے فاتحہ دی اور حضرت نور خاں سے کہا: ”دیکھو! تصرف اولیا حق ہے یا نہیں؟“ انھوں نے کہا: ”سچ ہے۔“ پھر میں نے خان مذکور سے کہا: ”جس قدر تمھارا دل چاہے اس میں سے لے لو۔“ انھوں نے بہ قدر ایک سیر اس میں سے اندرسے لے لیے اور باقی اندرسے مع کوڑیوں کے میں نے عصمت خاں مجاور کو بھجوا دیے۔
واقف خفی و جلی مولوی محمد منیر صاحب سے نقل ہے کہ صاحب زادہ محمد سعید خاں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ نواب احمد علی خاں نے ہمیں حکم شہر بدر کرنے کا دیا ہے، سو ہم جاتے ہیں۔ امیدوار دعائے عالی ہیں۔ فرمایا: ”اللہ کے حکم سے معزز اور مکرم آؤگے۔ خاطر جمع رکھو اور ایک کلاہ مبارک منگوا کر عنایت فرمائی۔ صاحب زادہ نے عرض کیا: ”جو ٹوپی حضرت اس وقت اوڑھے ہوئے ہیں یہ بخشش فرمائیں۔ اسی میں میری سعادت ہے۔“ آپ نے وہی ٹوپی فرق مبارک سے اتار کر عنایت فرمائی۔ وہ سلام کرکے چلے گئے۔ جب نواب احمد علی خاں فوت ہوئے اور سردار شہر میں نہ تھا۔ اہل شہر از بسکہ پریشان خاطر تھے اور والدہ صاحبہ بہت مشوش یعنی پریشان اور مضطرب تھیں۔ میں مسجد کو نماز کے واسطے گیا تھا کہ نجو ماما نے مجھ سے آن کر کہا کہ بی بی صاحبہ آپ کو بلاتی ہیں۔ میں گیا تو فرمایا: ”میں نے اس وقت خواب دیکھا ہے کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کچھ تشویش نہ کر۔ محمد سعید خاں پسر نواب محمد خاں نواب رام پور ہوا۔“ میں نے کہا: ”خداوند تعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ مگر میں نہیں جانتا کہ محمد سعید خاں کہاں ہیں اور کیونکر وہ نواب ہوں گے۔“ بعد چند روز کے نواب محمد سعید خاں کی خبر شہر میں منتشر ہوئی، جب کہ وہ رئیس رام پور ہوکر آئے تمام شہر متحیر رہ گیا کہ جس کو امید شہر میں گھسنے کی نہ تھی وہ بلا استحقاق مالکِ ملک اور خزانہ ہو جائیں اور نواب احمد علی خاں کی اولاد محروم رہے۔ ہر چند نواب احمد علی خاں کی صاحب زادی گنج والی نے دعوے کیے مگر ریاست میسر نہ ہوئی بلکہ مہدی علی خاں، ان کے شوہر لندن تک گئے اور مال و اسباب بہت کچھ برباد کیا، کچھ سود مند نہ ہوا۔ بعد ان کے فرزند ارجمند بنا صاحب اسی آرزو میں مرادآباد میں انتقال کر گئے اور ان کی میت رام پور لائی گئی۔ ان کی تاریخ فوت بے اختیار فقیر کے منھ سے نکلی: ”سراج منیر تقویٰ و ہدایت غواص دریائے حقیقت و معرفت۔“
روایت ہے کہ جناب حضرت مولوی منیر علی صاحب نواسہ حضرت صاحب کے یہاں دو لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں اور امید ولادت روز عن قریب تھے۔ عورتوں کو بہت فکر تھی کہ مبادا اور لڑکی پیدا ہو، بڑے صاحب زادے حضرت صاحب نے، جو والدہ محترمہ مولوی محمد منیر علی صاحب کی تھیں، خواب دیکھا کہ حضرت جمال الدین صاحب تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں: ”بی بی تو کیوں فکر کرتی ہے؟ تیرے پوتا ہوا مبارک ہو تجھے!“ عرض کیا: ”حضرت! آپ بھی مبارک ہوں کہ آپ کا بھی پوتا ہوا اور کرتہ ٹوپی بھی عنایت کیجیے گا۔“ انگشت سے ایک سمت کو اشارہ کیا اور فرمایا: ”لے لو صاحب زادے صاحب!“ جو بیدار ہوئیں خبر آئی کہ لڑکا پیدا ہوا۔ جس طرف کو اشارہ فرمایا تھا ہر چند جستجو کی، کچھ نہ پایا۔ متحیر ہوئیں کہ ایک امر تو ویسا ہی ہوا جیسا فرمایا تھا۔ دوسرے کام کا نہ ہونا بڑا تعجب ہے۔ بعد دیر کے وہاں جو تکیہ رکھا تھا اس کو پھاڑ کے دیکھا تو اس میں ایک کرتہ حضرت صاحب کا ملبوس نکلا۔ اسی وقت اس کو کتر کے کرتہ ٹوپی سی کر پہنا اوڑھا دیا۔
ایک روز حضرت صاحب وضو کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے نسبت شاہ مولوی عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کی، جو آپ کے استاد زادہ تھے، آپ سے دریافت کیا: ”حضرت! آپ بڑے یا وہ؟“ آپ نے فرمایا: ”بھائی! بڑے تو وہی ہیں مگر کچھ سال عمر کے میرے زیادہ ہیں۔“ سبحان اللہ! کیا کلام سنجیدہ، پرمعنی اور انکساری سے لبریز تھا۔ حکیم غلام حسین نائب نواب احمد علی خاں یہ کہا کرتے تھے کہ خوبی مرد کی تین چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے یعنی دستار، گفتار اور رفتار۔ سو یہ تینوں امور خوبی کے ساتھ حضرت صاحب میں پاتا ہوں اور رائے حضرت صاحب کی قابل وزارت کے ہے۔ ہر چند کہ یہ لفظ وزارت کا حضرت صاحب کی نسبت کہنا موافق خیال حکیم صاحب کے تھا وگرنہ حقیقت میں وہ خود شہنشاہ تھے، وزارت کی ان کے روبرو کیا حقیقت تھی!
منقول ہے کہ حافظ غلام علی صاحب جو حضرت کے نواسے تھے، نابینا ہو گئے اور آنکھیں کسی عارضہ سے جاتی رہیں۔ ان کی والدہ محترمہ جو بڑی صاحب زادی حضرت جمال الدین صاحب کی تھیں، حضرت صاحب کے مزار پر جاکے فریادی ہوئیں کہ غلام نابینا ہو گیا ہے۔میرے اوپر صدمۂ عظیم ہے۔ ان کی بینائی فوراً درست ہو گئی اور تادم مرگ خوب روشنی آنکھوں کی درست رہی اور صاحب زادی صاحبہ موصوفہ کا قاعدہ تھا کہ جب کبھی کوئی فکر ان پر پیش آتی وہ حضرت صاحب کے مزار پر جاکے داد خواہ ہوتیں۔ بفضلہ تعالیٰ حضرت کی برکت سے کیسا ہی اہم کام ہوتا، بر آتا اور حل ہو جاتا۔
حضرت صاحب کی عمر شریف ہجری سنہ کے مطابق ایک سو تین سال کی ہوئی۔ نواب فیض اللہ خاں صاحب کے عہد میں رام پور میں رونق افروز ہوئے تھے اور نواب احمد علی خاں صاحب کے عہد میں حضرت صاحب ١٢٤٠ھ مطابق ١٨٢٤ء میں چالیس روز بارود خانے کے اڑنے سے یعنی عین روز چہلم حضرت صاحب تھا جو بارود خانہ اڑا تھا، وفات پائی۔ اتنے زمانے میں صدہا کرامات آپ سے ظہور میں آئیں کہ جن کا اظہار اور تذکرہ ناممکن ہے۔
آپ کی چار صاحب زادیاں تھیں۔ سب سے بڑی مسماۃ بی بی امت الغفور جو مولانا رستم علی صاحب کو منسوب ہوئی تھیں۔ ان کی اولاد امجاد کا حال نسب نامہ مولانا رستم علی صاحب میں لکھا گیا ہے۔ الغرض مولانا جمال الدین صاحب کا مزار مبارک بریلی دروازہ، رام پور میں آج بھی مرجع خلائق اور لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔سیکڑوں لوگ ہر روز یہاں آتے اور مزار شریف پر حاضری دیا کرتے ہیں۔ اکثر و بیش تر آپ کے مزار پر لنگر بھی جاری رہتا ہے جسے بلا تفریق مذہب و ملت سب لوگ مل بیٹھ کر تناول کرتے ہیں۔***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:اردو کی معروف افسانہ نگار: انجم بہار شمسی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے