اردو ادب کا مان بانو قدسیہ اور سید فخرالدین بلے فیملی

اردو ادب کا مان بانو قدسیہ اور سید فخرالدین بلے فیملی

داستانِ رفاقت
بانو قدسیہ اور اشفاق احمد مستقل شرکائے قافلہ پڑاٶ
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

آج 4.فروری کو بانو قدسیہ صاحبہ کی برسی مناٸی جارہی ہے‎‎.
جو کونپلیں پھوٹیں، جو گلاب کھلے۔ اس سے ہمارا گلستانِ ادب مہک اٹھا۔ پھراچانک یوں ہوا، ہجرتوں کے درمیان، کچھ اور نہیں، حواکے نام، چہار چمن، پروا، دوسرا دروازہ، سامانِ وجود، اک ہنس کا جوڑا، فٹ پاتھ کی گھاس، شہرِ لازوال آباد ویرانے، توجہ کی طالب، آتش زیرپا، سدھراں، مردابریشم، ایک دن، شہرِ بے مثال، بازگشت، چھوٹا شہر بڑے لوگ، آخرمیں ہی کیوں؟، موم کی گلیاں، دست بستہ، سورج مکھی، موم کا پتلا، دوسرا قدم، حاصل گھاٹ اور راجہ گدھ خوب صورت کہانیوں کی ایسی کتابیں ہیں، جن میں انسانی نفسیات کی کارفرمائیاں بھی ہیں اورزندگی کی سچائیاں بھی، تخلیقی توانائیاں بھی ہیں اورتخلیات کی بلند پروازیاں بھی، مخصوص زاویہ فکر و نگاہ کی رعنائیاں بھی ہیں اور معرفت کی عقدہ کشائیاں بھی۔ آپ کوئی سی بھی کتاب اٹھا کردیکھ لیں، آپ کو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بڑا واضح پیغام ملے گا۔ راجہ گدھ پر بہت کچھ لکھا گیا، اس کی بہت سی فکری اور تخلیقی جہتیں بھی ناقدین نے دریافت کیں۔ اگر آپ غور کریں تو مرکزی خیال رزقِ حلا ل ہے اور رزق حلا ل کمانے کا پیغام اتنی خوب صورتی کے ساتھ دیا گیا ہے کہ یہ دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ کا فلسفہ یہ ہے کہ رزق حلال کا پیغام ہی اسلام کی روح ہے، جو اسے تمام ادیان ِعالم سے ممتاز کرتا ہے۔ میں نے تو انھیں یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اسلا م واحد مذہب ہے، جس نے رزقِ حلال کمانے کا حکم دیا۔ ان کی یہی بات سن کر ان کے گھر آنے والے امریکی مہمان نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
اشفاق احمداوربانو قدسیہ دو دو الگ الگ شخصیات ضرور تھیں لیکن ان میں جو فکری ہم رنگی اور ذہنی ہم آہنگی نظر آتی ہے، اس کے پیش نظر اگر انھیں سکے کے دو رخ قرار دیاجائے تو بے جانہ ہوگا۔ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں، ایک دن اشفاق احمد ان کا ہاتھ تھام کر انھیں کچن سے باہر لائے۔ لان میں پڑی کرسی پر انھیں بٹھایا اور دوسری کرسی پر خود بیٹھ گئے۔ کہنے لگے کیوں باورچی خانے میں وقت اور خودکوضائع کررہی ہو؟ کھانا پکانے کے لیے نوکرانی ہے، سوچو، سوچو، سوچو، تم کیاکرسکتی ہو؟
بانو آپا نے قافلے کی ایک محفل میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک منٹ کے توقف کے بعد خان صاحب سےکہامیں لکھ سکتی ہوں۔ کہنے لگے پھر لکھتی کیوں نہیں؟ چھوڑ دو باورچی خانے کو ہمیشہ کے لیے۔ شوہر پرست بانو قدسیہ نے حامی بھرلی اور پھر لکھنا شروع کردیا۔ علم و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ یہ باتیں بانو قدسیہ نے قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کے دوران اشفاق احمد کی موجودگی میں بتائیں۔ ادبی تنظیم قافلہ کے بانی میرے والدِ بزرگوار سید فخرالدین بلے مرحوم تھے اور ہمارے گھر پر قافلے کے تحت  جو محفلیں سجتی تھیں، انھیں میرے والد محترم قافلے کے پڑاؤ کانا م دیا کرتے تھے۔ قافلے کے پڑاؤ لاہور میں برس ہا برس جی او آر شادمان میں ہمارے گھر پر ہوتے رہے۔بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے مجھے بھی انہی محفلوں میں فیض یاب ہونے کے مواقع ملے۔
اشفاق احمد اور بانوقدسیہ کا ہمارے گھر آنا جانا لگارہا۔بعض دنوں میں ملاقاتیں بڑھ جاتیں اور بعض دنوں میں کسی معلوم وجہ کے بغیر ملناجلناکم ہوجاتا، لیکن وہ ہمارے اور ہم ان کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔
اشفاق حمد صاحب نے آنس معین کی الم ناک موت پر جس انداز میں پرسہ دیا اور اس کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے مضمون لکھ کردیا، اسے پڑھ کر بانو آپا کی آنکھیں نم ناک ہوگئی تھیں۔ انھوں نے کہا میں نے اس کی کچھ غزلیں اور نظمیں پڑھی ہیں بلکہ جن دنوں خان صاحب مضمون لکھ رہے تھے تو انھوں نے بھی مجھے آنس معین کے کچھ اشعار سنائے تھے۔ وہ تو بلا کا شاعر تھا، کرب، دکھ اس کی غزلوں میں رچابسا ہے، ایسا شعری رنگ مجھے آج کے کسی اور شاعر کے کلام میں نظر نہیں آیا۔ وہ کافی دیر روتی رہیں اور آنس معین پر بات کرتی رہیں۔ موضوع بدل جاتا تو پھر گھوم پھر کر وہ آنس معین کی طرف اس کارخ موڑدیتیں۔انھوں نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا بیٹا کیا شعر ہے وہ، میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا۔
میں نے آنس معین کاپورا شعر سنادیا، آ پ بھی سن لیں
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج، مجھے دیا لکھنا
زندگی اور موت کی تاریخوں میں ایک دن کا فرق عجیب اتفاق ہے۔ بانو آپا کی تاریخِ پیدائش 28نومبر ہے اور آنس معین کی29 نومبر۔ بانو آپا نے 4 فروری کو دنیا سے کوچ کیا اور آنس معین نے برسوں پہلے 5 فروری کو۔ہے ناں عجیب سی بات۔
اسی اور نوے کی دہائی میں جی او آر میں میرے والد مرحوم سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر قافلے کی  محفلیں سجا کرتی تھیں اور ان میں بڑے بڑےادیب اور شاعر اپنی گفتگو سے ہمارے دامان سماعت سچے اور  سُچے موتیوں سے بھر دیا کرتے تھے۔ ان محفلوں میں بہت بار بانو آپا بھی اپنے جیون ساتھی کے ساتھ تشریف لائیں۔ اپنے خوب صورت افسانے بھی سنائے۔ ادب کے گرم موضوعات پر بڑے ٹھہراؤ کے ساتھ گفتگو بھی کی۔ماضی کی باتیں کرکے یادوں کے دریچے بھی وا کئے۔ بہت سے مناظر میری آنکھوں کے سامنے جاگ گئے ہیں. لگتا ہے ماضی لوٹ آیا ہے اور قافلے کا پڑاؤ جاری ہے اور شرکائے محفل بانو آپا اور اشفاق احمد کو دلجمعی کے ساتھ سن رہے ہیں۔ بانو آپا محض ایک نامور ناول نگار، ڈراما نگار اور افسانہ نویس ہی نہیں تھیں، وہ ہمارے گھر کی ایک فرد بھی تھیں۔ ان کے جانے سے لگتا ہے کہ ہمارے سر سے ایک اور سایہ اٹھ گیا ہے اور گھر کا ایک اور اہم فرد کم ہوگیا ہے۔ وہ ہمارے ہر دکھ سکھ میں شریک رہیں۔ ان کے جملے اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں
بیٹا ! تمھارے والد سید فخرالدین بَلّے بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وہ شاعر، ادیب، دانشور اور مزاجاً صوفی ہی نہیں اپنی ذات میں ایک ادارہ اور ایک انجمن بھی تھے۔ساری زندگی رزقِ  حلال  کمایا، خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی یہی کچھ کھلایا۔ دوست احباب میں آسانیاں بانٹیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قبر اور حشر میں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدافرمائے۔ میں کیا کہوں؟ زبان گنگ ہوگئی ہے اور الفاظ میراساتھ نہیں دے رہے۔چند جملے بولنے کے بعد بانو آپا چپ ہوگئیں۔ لیکن اس مختصر سی گفتگو کی گونج مجھے اب بھی سنائی دے رہی ہے۔
بانوقدسیہ کی زندگی کا سورج ڈوبنے کےساتھ ہی ناول نگاری اور افسانوی ادب کاایک روشن باب بند ہوگیا۔
اشفاق احمد اور بانوقدسیہ ادبی دنیا کی ایک مثالی جوڑی تھی۔ جو ایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔ بانو آپا کو ان کے جیون ساتھی اشفاق احمد کی پائنتی سپردِ خاک کیا گیا۔ جادہ ادب پر دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلے، رکے توساتھ رکے، اس دورکنی قافلے نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو اکٹھے ڈالا۔ اور اس سفرمیں اتنے گہرے نقوش چھوڑے کہ مسافرانِ ادب کے لیے راستے روشن ہوگئے۔
بانو قدسیہ محض اشفاق احمد کی اہلیہ نہیں، ناول نگاری اور افسانہ نویسی کا ایک بڑا نام تھیں اور ہیں۔ وہ اردو ادب کی آبرو تھیں اور گلشنِ ادب کا خوب صورت رنگ۔ ان کے فکروخیال کی بنیاد پر جوکلیاں چٹکیں
یہ نوے کی دہائی کی بات ہے۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ قافلے کے پڑاؤ میں شریک ہوئے۔ بانوآپا (محترمہ بانو قدسیہ) نے اپنا افسانہ کعبہ میرے پیچھے، بھی میری ہی فرمائش پر پڑھا تھا۔ میں نے ان کے گھر جا کر تازہ افسانہ پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔ انھوں نے جواباً بتایا ایک افسانہ تو کل پرسوں ہی مکمل ہوا ہے مگر وہ نہیں، بلکہ ایک اور افسانہ لکھنا شروع کیا ہے، وہ پڑھوں گی۔ میں نے کہا قافلے کا پڑاؤ اب سے 20 دن بعد ہوگا، یہ افسانہ میرا ہوا۔ وہ مسکرائیں اور حامی بھرلی۔ چند روز بعد خیال آیا کہ بانو آپا نے تو دعوت قبول کرلی ہے مگر ابھی اشفاق صاحب سے بات نہیں ہوئی، وہ ان کے بغیر نہیں آئیں گی، چنانچہ فون پر اشفاق صاحب سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ میری بانو آپا سے بات ہوچکی ہے، اب آپ کی اجازت درکار ہے۔ وہ بھی یوں کہ وہ آپ کے بنا اور آپ ان کے بغیر اتنے اچھے نہیں لگتے کہ جتنے ساتھ ساتھ۔ اشفاق صاحب میری بات پر ہنسے اور کہا انھیں پھانس چکے ہو اور اب میری باری ہے۔ بہر حال پھر یکم تاریخ بھی آگئی اور یہ دونوں بھی حسب وعدہ میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر آگئے۔بہت سے اربابِ علم و ادب پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔اسلم کمال نے اپنے چند نثرپارے پیش کیے، پھر بانو آپا نے اپنا خوب صورت افسانہ پڑھا۔ غالباً اس افسانے کا دورانیہ 45 یا 55 منٹ تھا۔ شرکائے قافلہ پڑاؤ کا انہماک دیدنی تھا۔ چند منٹوں تک حاضرین محفل اس کے سحر سے باہر نہیں آسکے۔ پھر میزبانِ محفل سید فخرالدین بلے نے افسانے کے حوالے سے گفتگو کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ بانو قدسیہ صاحبہ کا اشفاق صاحب سے بڑا قریبی تعلق ہے مگر پھر بھی افسانے میں کہیں ابہام نہیں ہے۔اس جملے کے بعد انھوں نے بانو آپا کے اس افسانے کی کچھ جہتوں کی نشان دہی کی اور اس میں چھپے ہوئے پیغام کو بھی اجاگر کیا۔ علامہ شبیر بخاری، مرتضیٰ برلاس، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر اجمل نیازی، خالد احمد، بیدار سرمدی اور سرفراز سید نے افسانے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ البتہ اشفاق صاحب نے گفتگو میں کم حصہ لیا۔ اب اشفاق صاحب اور برادرِ محترم سید عارف معین بلے تبادلہ خیال میں مصروف نظر آئے۔ میں نے بانو آپا سے کہا آپ چائے تو پی لیجیے۔کہنے لگیں پہلے خان صاحب کو دیجیے۔ انھوں نے واپس جانے کی اجازت چاہی تو میں نے برجستہ کہا آپ سے آنے کا وقت طے ہوا تھا، جانے کا نہیں۔ پھر عارف بھائی بھی بانو آپا کے پاس آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آپ سے تو اب بات ہوگی، چند لمحوں میں ان دونوں کا موضوع بن گئے اشفاق احمد۔۔ عارف بھائی نے جب بانو آپا کو اشفاق احمد کی تمام تخلیقات کا بالترتیب حوالہ دیا تو بانو آپا نے حیرت کے ساتھ پوچھا بیٹا تم نے خان صاحب کو کتنا پڑھ رکھا ہے؟ ان کی تخلیقات کی گہرائی میں اترنا مشکل ہے لیکن خان صاحب سے آپ سب لوگوں کی محبت اور ان کی سوچ اور فکر سے آپ کی آگاہی قابل قدر ہے۔
میں نے کہا بے شک۔ لیکن آج تو آپ کا دن ہے اور اب عارف بھائی آپ سے آپ کی تخلیقات کے حوالے سے بات کریں گے۔ جب دیر تک بانو آپا عارف بھائی سے اپنی کتابوں اور افسانوی تخلیقات کے بارے میں سنتی رہیں تو فرمایا بیٹے یہ آپ کی محبت ہے ورنہ کیا برگد تلے کوئی پودا پروان چڑھ سکتا ہے؟ عارف بھائی نے برجستہ کہا برگد کے پیڑ کے پاس ایک اور برگد کا پیڑ بھی تو ہوسکتا ہے۔ بانو آپا اشفاق احمد کو برگد کا پیڑ ہی کہا کرتی تھیں۔
قافلے کے ایک اور پڑاؤ میں بانو آپا اشفاق احمد کے ساتھ آئیں۔ سید فخرالدین بلے اور اشفاق احمد خان صاحب میں تصوف پر خوب مکالمہ ہوا۔ دونوں ہی دریائے تصوف کے شناور تھے۔ اشفاق صاحب کے سوالات کانٹے کے تھے اور فخرالدین بلے کے جوابات بھی۔ منور سعید، بیگم منور سعید، شائستہ سعید کے ساتھ ڈاکٹر وحید قریشی، بیدار سرمدی، کرامت بخاری، ڈاکٹر انور سدید، سرفراز سید، کنول فیروز، ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر اجمل نیازی، علامہ غلام شبیر بخاری، حسین مجروح، افتخار ایلی، اسرار زیدی، شاہد واسطی، میرزا ادیب، ظفر علی ر اجا، ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹر وزیر آغا، حسن رضوی، نجمی نیگنوی، غلام الثلقین نقوی، نسرین شیراز اور آمنہ آصف سمیت تمام شرکائے قافلہ اشفاق احمد اور فخرالدین بلے کے مابین ہونے والے مکالمے سے خوب محظوظ ہوئے۔ اختتام پر علامہ غلام شبیر بخاری نے سید فخرالدین بلے کی غزل کا یہ مصرع پڑھ کر بحث سمیٹی. سوال خوب تھا، لیکن جواب کیسا ہے؟
بانو آپا یہ کہہ کر قافلے کے پڑاؤ سے اٹھیں کہ آج بڑی خوب صورت گفتگو سننے کو ملی ہے۔ ایسی محفلیں سجاتے رہو اور ہمیں بلاتے رہو۔
سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ داتا کی نگری میں تشریف لائے توان کے اعزاز میں قافلے نے پڑاؤ ڈالا، رات کو میرے والد سید فخرالدین بلے نے ان کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا۔ نامور ادبی جوڑا بھی خصوصی دعوت پر شریک محفل ہوا۔ بات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہوتی ہوئی تربیت گاہوں تک پہنچ گئی۔ بانو آپا نے کھل کر گفتگو کی۔ کہنے لگیں علی گڑھ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اپنے رنگ ڈھنگ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ یہ بولیں تو ان کی تربیت بھی بولتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں اعلا پائے کے تعلیمی ادارے ہیں لیکن تربیتی ادارے نہیں ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں کو تربیت گاہوں میں تبدیل کرکے سماجی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا بڑا اچھا لگا، مجھے ہی نہیں بھارت سے آئے ہوئے مہمان سید حامد کو بھی۔
برسوں پہلے بانو آپا کی والدہ ماجدہ شدید علالت کے باعث لاہور کے ایک اسپتال میں داخل تھیں۔ میرے والدِ بزرگوار سید فخرالدین بَلے کو پتا چلا تو وہ میری امی محترمہ اور مجھے لے کر اسپتال پہنچے۔ اشفاق احمد خان اور ممتاز مفتی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ ان سے اسپتال کے باہر ہی ملاقات ہوگئی۔ اب طبیعت کیسی ہے؟ ابو نے پوچھا تو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ خاموش رہے۔ البتہ ممتاز مفتی نے اتنا کہا کہ بَلّے صاحب! جو آیا ہے، اسے جانا ہے۔ باریاں لگی ہوئی ہیں۔ انھیں ہی نہیں ہمیں بھی جانا ہے۔ اللہ سے ملاقات کا بہانہ تو ضرور بنے گا۔ ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ دونوں کو تشفی اور تسلی دینے کے بجائے جو کچھ ہونے والا ہے، اس کے لیے ابھی سے ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ پھر وہی کچھ ہوا، جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ بانو آپا کے سر سے محبتوں اور شفقتوں کا سایہ اُٹھ گیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو توضرور جھلملائے لیکن وہ اللہ کے اس فیصلے پر راضی بہ رضا نظر آئیں۔ میں نے انھیں غم کا پہاڑ ٹوٹنے پر بھی پیکرِ تسلیم پایا۔
بانو آپا اسلامی اقدار اور روایات کی امین تھیں۔ ڈھلکنے سے پہلے اپنے آنچل کو سنبھال لیتی تھیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ البتہ کسی ادبی تحریک کا اثر انھوں نے لگتا ہے قبول ہی نہیں کیا۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تحریکیں بھی چلیں لیکن انھوں نے دائیں یا بائیں طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ وہ تو میانہ روی کی قائل تھیں۔ اسی کو وہ سچا راستہ کہتی اور سمجھتی رہیں۔ غور کریں تو سچائی ہی ان کی شخصیت اور فن کی پہچان ہے۔ مخلوقِ خدا کی مدد کو ساری زندگی عبادت سمجھتی رہیں اور اس عبادت کی روشنی سے ان کی زندگی کی کتاب کے اوراق روشن ہیں۔
ایڈیٹر ادبِ لطیف کی حیثیت سے بھی کئی بار مجھے معروف ادبی جوڑے سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے بہت سے قصے بھی سنے۔ پوچھنے پر یہ بھی بتا دیا کرتی تھیں کہ آج کل کون کون سی کتابیں پڑھ رہی ہیں اور کون کون سی کتابیں حال ہی میں پڑھ چکی ہیں۔ خود نمائی سے کوسوں دور تھیں۔ تکلف اور تصنع انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سادگی، مروت اور رواداری ان میں رچی بسی تھی۔ ادبِ لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم سے بھی میں نے آپا بانو قدسیہ کی بہت سے باتیں سنی تھیں۔ وہ ان کی سمدھن بھی تھیں۔ دونوں میں محبتوں اور احترام کا رشتہ قائم ہی نہیں تھا، نظر بھی آتا تھا۔ اشفاق احمد صاحب کے رخصت ہو جانے کے بعد بانو آپا نے اپنی بہت سے سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ ادب سے رشتہ تو نہیں ٹوٹ پایا لیکن بینائی کم زور پڑ جانے کے باعث آخری ایام میں ان کا لکھنا لکھانا بہت کم ہو گیا۔ ان کے بیٹوں نے انھیں سنبھالے رکھا۔ وہ اپنی ماں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے۔ وہ واقعی اپنی ماں کی آنکھوں کا نور بنے رہے اور کسی بھی موڑ پر انھیں اپنی نظر کی کم زوری کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔
کوتاہی ہوگی اگر میں ان کی کتاب راہِ رواں کا ذکر نہ کروں، جو انھوں نے اپنے مجازی خدا اشفاق احمد صاحب کے حوالے سے لکھی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر دو اہم شخصیات اپنے تمام تر خوب صورت خدو خال کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی۔ ایک اشفاق خان صاحب اور دوسری شخصیت بانو قدسیہ کی ہے۔ یہ محبتوں کے سفر کی زندہ کہانی ہے، جس میں سچے جذبے کی بھرپور ترجمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھیے تو یہ خود بتائے گی کہ بانو آپا کے دل پر اشفاق احمد خان کی حکمرانی ہے۔
بانو قدسیہ کی زندگی کی کتاب بند ضرور ہوگئی ہے لیکن اس کےسا تھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ان کی کتابِ زندگی کے اوراق دوبارہ کھلنے لگے ہیں۔ مجھے یہاں اپنے والد مرحوم سیدفخرالدین بلے کاایک شعر موقع کی مناسبت سے یادآگیا ہے:
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
اب نئے زاویوں سے انھیں اوران کے فن کو دیکھاجائے گا۔ممکن ہے ہم ان کی دودرجن سے زیادہ کتابوں سے ایک مختلف بانو قدسیہ کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایسا ہوا تو ان کی موت انھیں فنی زندگی میں ایک اور زندگی بخش دے گی۔ بہرحال مجھے تو لگتا ہے بانو آپانے اپنا ٹھکانہ ہی بدلا ہے۔ پہلے وہ اس دنیا کی مکیں تھیں، اب اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:سر سید پوٹھوہار پروفیسر منور علی خان علیگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے