سر سید پوٹھوہار پروفیسر منور علی خان علیگ

سر سید پوٹھوہار پروفیسر منور علی خان علیگ

سر سیدِ پوٹھوہار ، محقق ، مصنف ، اسکالر اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بواٸز ایسوسی ایشن کے روحِ رواں پروفیسرمنور علی خان علیگ

ظفر معین بلے جعفری

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جیسی عظیم مادر علمی سے وابستہ کیسے کیسے ستارے اور آفتاب غروب ہوگئے۔ ایک طویل فہرست ہے۔ ہمارے بہت پیارے، ہمیں دعائیں دینے والے بزرگ، استاذ الاساتذہ اور ممتاز ماہرتعلیم سرسید پوٹھوہار پروفیسر منور علی خان علیگ اسم بامسمیٰ تھے۔ اندر سے بھی ان کی شخصیت ان کے نام کی طرح منورتھی۔ اعلا تعلیم کی روشنی سے ان کادل اور دماغ منورتھا اور جہاں جہاں وہ رہے، ان علاقوں کو بھی منور کیے رکھا۔ علم کے اتنے چراغ انھوں نے روشن کیے کہ اگر ان چراغوں کو یکجاکردیاجائے تو اتنا اجالا پھیل جائے کہ رات پر دن کاگمان ہونے لگے۔
پروفیسر منورعلی خان علیگ ایک خوب صورت شخصیت کے مالک تھے۔ دوسرے کےکام آنا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے تھے۔ فرماتے تھےقانون اور قاعدے انسانوں کے لیے ہوتےہیں، انسان قانون اور قاعدوں کے لیے نہیں ہوتے۔ نئی نسل کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور اقبال کے شاہیں بچوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کا مستقبل مجھے ان دمکتے ہوئے چہروں کی طرح تابناک نظرآتاہے۔ ٹیلنٹڈ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتےتھے اور ان کی خواہش ہوتی تھی کہ باصلاحیت نوجوانوں کی ہرقدم اور ہرمرحلے پر حتی المقدور رہ نمائی کی جائے۔ انھوں نے خود بھی ساری زندگی یہی کچھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگردوں نے معاشرے میں بڑا نام اور مقام بنایا۔
پروفیسر منورعلی خان کی زندگی کا آفتاب یکم فروری انیس سو بائیس کو سکندرہ راؤ علی گڑھ کی سرزمین سے طلوع ہوا۔ علی گڑھ کی فضاؤں ہی میں ان کی تربیت ہوئی۔ وہیں پلے، بڑھے اور پروان چڑھے۔ ایم اے تاریخ اورایل ایل بی کےامتحانات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے پاس کیے۔ علم کے رسیا تھے۔ اس لیے درس و تدریس ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ یہی ان کا شوق بھی تھا اوران کا مشغلہ بھی۔ اسی کو انھوں نے اپنے روزگار کاوسیلہ بھی بنالیا اور اپنا مشن بھی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی تعمیرِ شخصیت کےلیے ضروری سمجھتےتھے۔ یہ سوچ بھی دراصل مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی دین تھی. ان کی شخصیت مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی تہذیب میں ڈھلی ہوئی تھی۔وہ محض ایک شخصیت نہیں، سچ پوچھیےتواپنی ذات میں خود ایک فعال ادارہ بھی تھے اور ایک تربیت گاہ بھی۔ ایک انجمن بھی تھے اور ایک دانش گاہ بھی۔ دھوپ میں سائبان بھی تھے اور اعلا اخلاقی اور انسانی قدروں کے پاسبان بھی۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر جی اٹھتے تھے۔ انھیں اس بات کا ملال تھا کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک نظریاتی فلاحی مملکت نہیں بنایا جاسکا، حالانکہ یہ ملک اسی لیے حاصل کیا گیاتھا کہ یہاں اسلامی نظام قائم کرکے اسے دنیا بھر کے لیے ایک ماڈل اسلامی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والدگرامی سید فخرالدین بلےعلیگ کاایک مضمون پڑھ کر وہ آبدیدہ ہوگئےتھے. اس مضمون میں بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات لکھی گئی تھی کہ "کہنے کو یہ دنیا کی اسلامی فلاحی ریاست ہے لیکن اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام نظر آتاہے نہ ہی یہاں شجرِ جمہوریت پروان چڑھ سکا ہے اور تواوراسے اقبال اور قائداعظم کا پاکستان بھی نہیں بنایاجاسکا ۔" پروفیسر منور علی خان تاریخ کے استاد تھے، اس لیے ان کی گفتگو میں بھی تاریخی حوالے بکثرت درآتے تھے۔ قومیں کیسے بنیں؟ کیسے ترقی کی؟ ان کی زندگیوں میں کون کون سے اہم موڑآئے؟ کون کون سے لیڈروں نے تاریخ سازکردار ادا کیا اور قومی شخصیت کی تعمیر میں کیا رول ادا کیا؟ اگر کسی محفل میں ایسے موضوعات زیر بحث آتے تو ان کی گفتگو اتنی بھرپور، اثرانگیز اور بصیرت افروز ہوتی کہ لوگوں کو ان متذکرہ بالاتمام سوالوں کے جواب مل جایاکرتے تھے اور وہ انھیں بغورسنتےبلکہ سر دُھنتے رہ جاتےتھے۔ سر سید احمد خان، قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے تقسیم ہند میں جوتاریخ ساز کردار ادا کیا، اس کے وہ ساری زندگی مداح رہے۔فرماتے تھےقرآنی تعلیمات کی روشنی میں سر سید نے دوقومی نظریہ پیش کیا۔ ایک منجھے ہوئے نباض کی حیثیت سے برصغیر کےمسلمانوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر قومی مرض کی تشخیص کی۔ اقبال نے خطبۂ الہ آباد میں ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ اپنی شاعری کے ذریعے قوم میں احساس ِ زیاں اور ملی شعور کوجگایا۔آزادی کی آگ کو بھڑکایا اورعلاحدہ اسلامی ریاست کا جو خاکہ پیش کیا، بابائےقوم نے اس میں حقیقت کےرنگ بھر دیے اورنظریاتی بنیاد پر سب سے بڑی اسلامی ریاست دنیاکے نقشے پر ابھر آئی۔ پروفیستر منور علی خان جب قیام پاکستان کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں۔ ایسا لگتاتھاکہ جدوجہد آزادی کی تاریخ کا ایک ایک باب ان کے سامنے کھل گیا ہے۔
بھارت سے ہجرت کے بعد انھوں نے بہاولپور آکر اپنی عمر کا بیش تر حصہ گزارا۔ محکمہ تعلیم سے وابسگتی رہی۔ ایس ای کالج بہاولپور کے پرنسپل کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں۔ طلبا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت سازی کے لیے بھی کوشاں رہے۔ ڈائریکٹر ایجوکیشن بہاولپور کی حیثیت سے ان کی خدمات کو آج بھی یاد کیاجاتا ہے۔ تاریخ کے پروفیسر محترم منور علی خان علیگ کا دوران ملازمت بیش تر وقت ملتان اور بہاولپور میں گزرا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان دونوں شہروں نےبہت پذیرائی بخشی. مان دیا اور تعلیمی اداروں میں بہتری کے حوالے سے میں نے جو کوششیں کیں، ان میں میرا ہاتھ بٹایا۔
پروفیسر منور علی خان مرحوم کی ایک ادا یہ بھی تھی کہ وہ سلام کرنے میں پہل کیا کرتے تھے۔ کبھی یہ نہیں سوچتے تھے کہ یہ عمر میں مجھ سے چھوٹاہے تو سلام اسے کرنا چاہیے۔ بچوں سے شفقت سے پیش آنے کی وجہ سے بھی وہ نوجوان نسل میں بڑے مقبول تھے۔ مجھ سے ہی کوتاہی ہوجاتی تھی ان سے رابطہ کرنے میں، اور جب ان کا فون آجاتا تو میں اپنے اندر ندامت محسوس کیا کرتاتھا کہ میں نے خود ہی ان سے فون پر رابطہ کیوں نہیں کرلیا؟
محترم پروفیسر منورعلی خاں علیگ صاحب کا اپنے لینڈلائن نمبر سے میرے موبائل پرکال کرکےخیریت معلوم کرنا، دعائیں دینا، ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے علیگ کو محبت کے ساتھ یاد کرنا، اور ان کی خدمات کو شان دار الفاظ میں خراج پیش کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔ ان سے فون پر ہمیشہ طویل گفتگو ہوتی اور مختلف اوقات میں گفتگو کے دوران انھوں نے مجھے کئی بار مطلع فرمایا کہ سید فخرالدین بلے علیگ کی شخصیت، فن اور خدمات کے حوالے سے انھوں نے طویل مضامین بھی تحریر فرمائے ہیں اور ان میں سے ایک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اولڈبوائزایسوسی ایشن کراچی کےجریدے ”تہذیب“میں بھی شائع ہوا تھا۔ اپنےایک طویل مضمون کا اقتباس ”نوائے وقت“ میں بھی انھوں نے شائع کرواکےاس کی کاپی مجھےبھی بھجوائی تھی، جو میرے پاس محفوظ ہے۔
مجھے شکور رافع صاحب سے متعارف کروانے والے بھی پروفیسر منور علی خاں صاحب تھے۔ اللہُ اکبر۔ کیا وضع دار انسان تھے۔ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ ایک مرتبہ فون پر رابطہ کرکے فرمایا کہ
"آپ نے سرسید کی سوانح حیات کےحوالے سے بڑا جان دار مضمون تحریر فرمایا ہے۔ ہمیں تو بہت پسند آیا۔ یہ تحقیقی مضمون آج سے آپ کا نہیں رہا، بلکہ ہمارا ہوگیا ہے۔ ”نوائےاخلاق“ میں تو شائع ہوگا ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم آپ کے مضمون کا بیش تر حصہ یہاں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اولڈبوائز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام قائم کی گئی وسیع و عریض درس گاہ کے شان دار آڈیٹوریم کے باہر دیوار پر بھی آویزاں کروا رہے ہیں۔ جب بھی آپ آئیں گے آپ دیکھیں گے بلکہ ہم آپ کو دکھائیں گے کہ آپ کی تحریر کو ہم نے اس شان دار درس گاہ کی فصیل پرآویزاں کر رکھا ہے۔ ہمارے ایک اور مضمون کے حوالے سے ایک اور مرتبہ خاص طور پر فون کرکے فرمایا کہ "ہمیں خوشی ہے کہ آپ محسنین ملت کو یاد رکھتے ہیں اور ان کی خدمات اور کارناموں سے اپنے قارئین کو باخبر رکھنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے چوہدری برکت علی کے لیے جو مضامین تحریر فرمائے ہیں، ان میں سے چند ہماری نظر سے بھی گزرے ہیں۔ ان میں سے ایک دو کے تو عنوانات بھی یاد آرہے ہیں۔ ”سرسیدِلاہور : چوہدری برکت علی“ اور چوہدری برکت علی ۔۔
”وہ نصف صدی میں اک صدی کا کام کرگئے“
اور ہم نے آپ کے وہ مضامین بھی پڑھے ہیں جو آپ نے چوہدری عبدالرحمن کی وفات اور برسی کےموقع پر تحریر فرمائے۔ شاید ”سرسید ِملتان چوہدری عبدالرحمن“ عنوان تھا۔
پروفیسرمنور علی خان علیگ صاحب کا حافظہ ماشا اللہ قابل رشک تھا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی حسین یادیں اور باتیں اور اس وقت کے اساتذہ کے رویے اور طرز تدریس، یونی ورسٹی کا وہ فقیدالمثال ماحول کہ جس میں جونیئرز اپنے سے سینئرز کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو کے خاص موضوعات ہوا کرتےتھے۔ گفتگو کرتے کرتے ان کی حسین یادوں کے دریچے کھل جایا کرتے تھے۔ ملتان اوربہاول پور میں دوران ملازمت اپنے قیام کا دور یاد فرماتے۔ ملتان اور بہاول پور کی ادبی محفلوں کےحوالے سے بھی ان کے پاس کہنے اور بتانے کوبہت کچھ تھا۔ ایس ای کالج، وہاں کے ادبی ماحول اور اس کالج کے قصے، کبھی علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب سے قربتوں میں اضافے کا ذکر، کبھی منصورعاقل صاحب، کبھی ادیب واثقی اور کبھی مشیر عالم صاحب کی رفاقتوں کو یاد فرمانے لگتے۔ کراچی کی بےشمار علمی و ادبی شخصیات سے ان کے مسلسل روابط تھے۔ ان میں اکثریت ان کے ہم مکتب یعنی اولڈ بوائز آف علی گڑھ یونی ورسٹی کی تھی۔ میں تیس سال سے شہر قائد میں رہائش پذیر ہوں، اہل علم و ادب سے بھی رابطہ رہتاہے، اس لیے یہاں رہتے ہوئے اندازہ ہوا کہ اس شہر کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے۔ ان میں شبنم رومانی، محسن بھوپالی، جمیل الدین عالی جی، حضرت راغب مرادآبادی، انجم اعظمی علیگ،حسنین کاظمی، صہبا لکھنوی اور ابوالخیر کشفی صاحب سمیت ایسی بہت سی شخصیات شامل ہیں، میں ان میں سے بہت سے احباب سے پروفیسر منور علی خان علیگ کی علمیت اور ایثار پسندی کے تذکرے سنتا رہا ہوں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ میری پروفیسر منور علی خان علیگ سے ملاقاتیں تو کم کم رہیں، لیکن ٹیلیفون پر گفتگو بہت ہوئی اور بہت بار ہوئی۔ جو یقیناً میرے لیے کسی بہت بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ وہ میری کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے میرے ساتھ رابطے میں نہیں تھے، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میرے والد بزرگوارسید فخرالدین بَلے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے اور یہ ان کی اعلا ظرفی تھی کہ مجھے بھی وہ اس دانش گاہ کے اولڈ اسٹوڈنٹس میں شمار فرماتے تھے۔
ایک روز فون پر بات کرتے کرتے اللہ جانے کیسے انھیں پھر سے میراکوئی مضمون یاد آگیا اور اس کا حوالہ دے کر فرمانے لگے کہ آپ نے درست تحریر کیا ہے کہ سرسید ایک نظریے، ایک مشن اورایک تحریک کا نام ہے اور ہر عہد میں سرسید کی اس تحریک کا کوئی نہ کوئی علم بردار زندہ مثال بن کر سامنے آجاتا ہے، جیسے آپ نے اپنے مضمون میں راجستھان کے واحد چوہان کو خراج تحسین پیش کیا یے، آپ کی نظر میں وہ بھی سرسیدِ راجستھان ہے اور بےشک۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے. 
ایک روز دوران گفتگو میں نے راولپنڈی میں قائم اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام قائم کردہ درس گاہ کے حوالے سے جاننا چاہا تو فرمانے لگے
” ہم کیا عرض کریں ہماری تو خواہش ہے کہ آپ خود آکر ملاحظہ فرمائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہمارے تمام رفقائے کار نے کس جاں فشانی سے ایک خواب کو حقیقت میں بدل ڈالا ہے۔ میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں دوسروں کی کامیابیاں دیکھ کر خوش ہی ہوسکتا ہوں. اللہ تبارک و تعالی کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے بڑے فرض شناس، مخلص اور ایثار پسند رفقا و معاونین عطا فرمائے ہیں۔ اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ شکور رافع صاحب اور ان جیسے باہمت اور باصلاحیت نوجوانوں نے ہمارے کندھوں کا بوجھ بھی بہ خوشی اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ہم تمام خیر خواہوں کی کامیابی و کامرانی کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔"
یہ ایک حقیقت ہے کہ پروفیسر منور علی خان علیگ اب ہم میں نہیں ہیں، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ انھوں نے جوکارنامے انجام دیے، جوادارے تشکیل دیے، علم و ادب کے جو چراغ روشن کیے، وہ ان کے زندہ نہیں تابندہ ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ میں اپنے اس مضمون کااختتام اپنے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے اس لافانی شعر پر کررہا ہوں۔
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
****
ظفر معین بلے جعفری کی یہ نگارش بھی پڑھیں: محسن نقوی اور سید فخرالدین بلے فیملی : داستان رفاقت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے