کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے”چراغ تہ داماں” کے خالق اقبال متین: امان ذخیروی

کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے”چراغ تہ داماں” کے خالق اقبال متین: امان ذخیروی

جموئی 2 فروری. بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی ایک معروف ادبی تنظیم ہے، جس کے زیر اہتمام ملک کی نامور ادبی شخصیات کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر یادگاری تقاریب کا انعقاد ہوتا رہتا ہے. اس بزم کے جنرل سکریٹری معروف شاعر امان ذخیروی ہیں. چنانچہ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2 فروری کو ملک کے معروف شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار اور مضمون نگار اقبال متین کے یوم پیدائش پر ایک یادگاری تقریب کا انعقاد ہوا. بزم کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے اقبال متین کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں کثیر الجہات شخصیت کا حامل قرار دیا. اقبال متین سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے جناب ذخیروی نے کہا کہ اقبال متین کی پیدائش 2 فروری 1929ء کو محلہ رام کوٹ حیدر آباد میں ہوئی. ان کا اصل نام سید مسیح الدین خان اور قلمی نام اقبال متین تھا. ان کے والد کا نام سید عبد القادر تھا، جو خود بھی ایک کہنہ مشق شاعر تھے اور ناصر تخلص کرتے تھے. والد کے علاوہ ان کے تین چچا بھی شعر و ادب سے وابستہ تھے. ان بزرگوں کے زیر اثر اقبال متین کے شعری و ادبی ذوق کی نشو و نما ہوئی. ان کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی. پھر سٹی ہائی اسکول حیدر آباد سے میٹرک اور چار گھاٹ کالج حیدر آباد سے انٹر میڈیت کا امتحان پاس کیا. اس سے زیادہ وہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور محکمہ آب کاری میں ملازمت اختیار کر لی. ساتھ ساتھ پرورش لوح و قلم بھی کرتے رہے. اقبال متین کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا. ان کی پہلی نظم ” کب تلک" سب رس حیدر آباد میں 1942ء میں شائع ہوئی. مگر چند نظمیں کہنے کے بعد اقبال متین نے اپنا رخ شاعری سے کہانی کی طرف کر لیا. ان کی پہلی کہانی” چوڑیاں" 1945ء میں ادب لطیف لاہور میں شائع ہوئی. دوسری کہانی "سنہری لکیریں" 1949ء میں ادبی دنیا میں چھپی. 1960ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "اجلی پرچھائیاں" کے عنوان سے منظر عام پر آیا. اس کے علاوہ ان کے دیگر افسانوی مجموعے کے نام اس طرح ہیں…. نچا ہوا البم 1973ء، خالی پٹاریوں کا مداری 1977ء، آگہی کے ویرانے 1980ء، مزبلہ 1989ء، میں بھی فسانہ تم بھی کہانی 1993ء، اور شہر آشوب 2003ء. ایک ناولٹ چراغ تہہ داماں کے نام سے 1976ء میں منظر عام پر آیا. اس کے علاوہ سوندھی مٹی کی خوشبو ان کے خاکوں کا مجموعہ ہے جو 1995ء میں منظر عام پر آیا. باتیں ہماریاں ان کی یادوں پر مشتمل مجموعہ 1998ء، صریر جاں ان کا شعری مجموعہ 2006ء میں اور اجالے جھروکے میں مضامین کا مجموعہ 2008ء میں منظر عام پر آیا. ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں بہت سارے اعزازات سے بھی نوازا گیا، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ اتر پردیش اردو اکیڈمی اور مخدوم محی الدین ایوارڈ آندھرا پردیش اردو اکیڈمی قابل ذکر ہیں. بالآخر 5 مئی 2015ء کو 86 سال کی عمر میں وہ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے.
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آزاد غزل کے امام تھے "پچھلے موسم کا پھول” کے خالق مظہر امام : امان ذخیروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے