آزاد غزل کے امام تھے "پچھلے موسم کا پھول” کے خالق مظہر امام : امان ذخیروی

آزاد غزل کے امام تھے "پچھلے موسم کا پھول” کے خالق مظہر امام : امان ذخیروی

جموئی 30 جنوری بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ بزم کے دفتر فضل احمد خان منزل میں جناب حاجی محمد سعد الله خان کی صدارت میں معروف شاعر، محقق، خاکہ نگار، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ مظہر امام کی دسویں برسی 30جنوری کے موقعے پر ایک یادگاری نشست کا انعقاد کیا گیا. بزم کے جنرل سکریٹری اور معروف شاعر امان ذخیروی نے مظہر امام کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں آزاد غزل کا امام بتایا. انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ مظہر امام کی پیدائش12 مارچ 1928ء کو مونگیر میں ہوئی، جہاں ان کے والد سید امیر علی ہیڈ پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر فائز تھے. ویسے ان کا آبائی وطن بکسر کے قریب سونی پٹی تھا، لیکن ان کے والد نے دربھنگہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی. کہتے ہیں ایک زمانے میں امیر منزل دربھنگہ کا علمی و ادبی گہوارہ کہا جاتا تھا، جہاں آسمان ادب کے تین ستارے اپنی روشنی بکھیرتے تھے. ان میں حسن امام درد، مظہر امام اور منظر امام شامل تھے. یہ تینوں سگے بھائی تھے اور سب شعر و ادب سے وابستہ تھے. مظہر امام نے مگدھ یونی ورسٹی سے ایم اے اردو اور بہار یونی ورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا. تعلیمی فراغت کے بعد 1951 میں وہ کلکتہ کے لیے عازم سفر ہوئے, جہاں انھوں نے درس و تدریس کو اپنا پیشہ بنایا جہاں پرویز شاہدی جیسی عظیم شخصیت سے ان کی صحبت رہی. پھر 1958ء میں وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے. سال 1988ء میں وہ دور درشن سری نگر کے ڈائرکٹر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے. مظہر امام نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا. تقریباً 30- 35 افسانے لکھے لیکن ان میں سے صرف 2 افسانوں کا ہی سراغ ملتا ہے, جن میں ایک "آخر اس درد کی دوا کیا ہے" اور دوسرا "وصال کے بعد" ہے. مگر ان کے فکر و فن کا اصل جوہر ان کی شاعری میں نکھر کر سامنے آیا اور پھر انھوں نے افسانہ نگاری کی طرف رخ نہیں کیا. ان کا پہلا شعری مجموعہ "زخم تمنا" 1962ء میں، دوسرا شعری مجموعہ ” رشتہ گونگے سفر کا" 1974ء میں. اور تیسرا شعری مجموعہ "پچھلے موسم کا پھول" 1988ء میں منظر عام پر آیا. 1994ء میں ان کے تیسرے شعری مجموعے "پچھلے موسم کا پھول" پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا. ان کی غزلوں کی کلیات بہ عنوان "پالکی کہکشاں کی" اور نظموں کی کلیات "بند ہوتا ہوا بار" ہے. اس کے علاوہ مظہر امام نے تنقیدی مضامین اور خاکے بھی لکھے. ان کے مضامین کے مجموعے کا نام "آتی جاتی لہریں" ہے جو 1981ء میں شائع ہوا، جب کہ ان کے خاکوں کی کتاب کا نام "اکثر یاد آتے ہیں" ہے. اس عظیم فن کار کا انتقال 30 جنوری 2012ء کو دہلی میں ہوا.
یہ بھی پڑھیں :بزم تعمیر ادب ذخیرہ میں پروفیسر مسعود حسین خان یاد کیے گئے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے