آنس معین ایک لافانی اور صاحب طرز  شاعر

آنس معین ایک لافانی اور صاحب طرز شاعر

آنس معین ایک عبقری ۔ ایک شعلۂ تخلیق
(ولادت: لاہور.29.نومبر.1960. ۔ وفات: ملتان. 5. فروری. 1986.)

ڈاکٹر اسلم انصاری

کیا شاعری محض تخلیق کی کرشمہ سازی ہے یا یہ صرف الفاظ کو برتنے کا ہنر ہے؟ کیا تخلیقی تجربہ وجود کی گہرائیوں سے برآمد ہوتا ہے اور اس میں ماورائے حسی ادراکات بھی شامل ہوتے ہیں؟ کیا شاعری ایک ایسا طرزِ احساس ہے جو شعری مطالب کو صوفیانہ واردات کے قریب لے جاتا ہے؟ یہ اور اس نوع کے کئی اور سوال شاعری کی ماہیت کی بحث میں ہمیشہ اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ قدما نے شاعری کو حکمت اور ایک بلند تر اخلاقی شعور سے مملو رکھا۔ عصرِ حاضر نے شاعری کو نقدِ حیات اور عکسِ حیات تسلیم کیا، اور حقیقت نگاری کو اس کی منزل قرار دیاہے۔ لیکن جدید تر عہد نے شاعری کی ماہیت کو سمجھنے میں کئی نئے علوم سے استفادہ کیا، نفسیات نے بالخصوص اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ جدید نفسیاتی علوم کے بانیوں نے زندگی کے دوسرے مظاہر کے علاوہ تخلیقی فنون میں بھی لاشعور کی قوت کوایک غیر معمولی عنصر کی حیثیت سے دیکھا اور شعروادب میں اس کی کارفرمائیوں کو بہت اہم قرار دیا۔ نفسیات کے بعد جس عقلی تحریک نے شاعری کی ماہیت کے مباحث میں کئی نئے ابواب کا اضافہ کیا وہ وجودّیت (Existentialism) کی تحریک تھی جس نے زندگی اور کائنات کے بارے میں پرانے عقلی تصورات کو رَد کرکے زندگی میں ایسے معانی تلاش کرنے کا دعویٰ کیا جن کا سرچشمہ فرد کی اپنی ذات اور اس کے اپنے تجربات ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ نفیسات اور فلسفۂ وجودیت نے شعروادب کے تصورات اور موضوعات پر بہت ہمہ گیر اثرات مرتب کیے ہیں۔لاشعوری محرکات کی تحلیل کی طرح لکھنے والوں نے وجودی تجربے کی تفصیلات کو شعر و ادب کا موضوع بنایا اور یوں جدید شاعری، جدیدافسانہ اور جدید ناول (نیز ڈراما) موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے کئی بنیادی تبدیلیوں سے دوچار ہوئے۔ جدیدیت کے بعض علم برداروں نے وجودی نظریات کی روشنی میں قدیم لسانی پیرایوں کو مسترد کرکے نئی لسانی تشکیلات کا اعادہ کیا، اس لیے کہ ان کے خیال میں وجودی بحران ایک طرح کالسانی بحران ہے، شاعر لگے بندھے لسانی سانچوں میں اپنے خالص وجودی یا انفرادی تجربات کو بیان یا متشکل نہیں کر سکتا تھا۔ عصرِ حاضرکے وجودیوں کے سب سے اہم منکر ژیں پال سارترؔ نے اپنے ایک طویل اور اہم مقالے ادب کیا ہے؟ میں اس صورتِ حال کا ان الفاظ میں تجزیہ کیا ہے:
”زبان کا بحران—جو اس صدی کے آغاز میں رونما ہوا۔ دراصل ایک شعری بحران ہے۔ اس کے معاشرتی اور تاریخی عوامل کچھ بھی رہے ہوں، اس بحران نے اپنے آپ کو عدم تجسیمیت کے حملے میں ظاہر کیا، جب کہ لکھنے والے نے الفاظ کا سامنا کیا۔! لکھنے والے کو یاد نہیں رہا تھا کہ وہ الفاظ کو کس طرح استعمال کرے یا برگساںؔ کے مشہور فارمولے کے مطابق وہ انھیں آدھا پہچانتا تھا۔ وہ الفاظ تک ایک مکمل حد تک باثمر احساسِ بیگانگی کے ساتھ رسائی حاصل کرتا تھا۔ الفاظ اب اس کے نہیں تھے ۔۔۔۔لیکن انھیں عجیب وغریب آئینوں (الفاظ) میں آسمان، زمین اور خود اس کی اپنی زندگی منعکس ہوتی تھی۔ آخر کار ۔۔۔الفاظ۔۔۔۔اشیا بن گئے، یا اشیا کا قلبِ سیاہ!۔۔۔۔۔۔۔جب شاعر الفاظ کو مصرعوں کی صورت میں موزوں کرتا ہے تو اس کی صورت بعینہ ایک مصور کی سی ہوتی ہے جو کینوس پر اپنے رنگ ترتیب دیتا ہے۔ بہ ظاہر تو شاعر ایک مصرع موزوں کررہا ہوتا ہے لیکن فی الحقیقت”اشیا تخلیق کررہا ہوتا ہے۔“
(ادب کیا ہے!۔۔۔انگریزی ترجمہ از bernard frechtman)
اس تناظر میں دیکھیے تو یہ بات بہ آسانی فہم میں آسکے گی کہ ایک جدید وجودی شاعر کے لیے الفاظ کس طرح کی شخصی اور انتہائی ذاتی معنویت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ خود سارتر ہی کے الفاظ ہیں ”ایک ادیب اس لیے ادیب نہیں بنتا کہ اسے کچھ خاص باتیں کہنا ہوتی ہیں۔۔۔بلکہ کچھ خاص باتیں ۔۔۔۔ایک خاص انداز میں کہنا ہوتی ہیں ۔“ گویا یہ ”خاص انداز“ ہے جو عصرِ حاضر کے شاعر کے تخلیقی اظہار کی بنیادی ضرورت بھی ہے اور اس کا وصفی امتیاز بھی۔ لیکن اس سارے عمل کی تہ میں تخلیقی فرد کی تنہائی کو بےحد اہمیت حاصل ہے جو تیزی سے پے چیدہ اور غیر شخصی ہوتے ہوئے معاشرے کی دین ہے۔ غیر شخصی معاشرہ۔۔۔جو رشتوں کی شکست و ریخت سے وجود میں آتا ہے، افراد کو انسان نہیں بلکہ عددی حقیقت بناتا چلا جاتا ہے، اس لیے تخلیقی انسان۔۔۔جو رشتوں کے رچاؤ سے رس اور جَس حاصل کرتا ہے، ایک ایسے معاشرے سے منقطع ہوتا چلا جاتا ہے جس نے اسے صرف ایک عددی اکائی میں تبدیل کردیا ہے۔ یہی وہ اندرونی بیگانگی (alienation) ہے جو تخلیقی انسان کو دہری زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایک اندر کی زندگی اور ایک باہر کی زندگی۔ چونکہ جدید معاشرے نے تحقیقی انسان کو اکیلی ۔۔۔تنہائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے اس لیے تخلیقی انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے لیے زندگی کی نئی معنویت تلاش کرے. ایک ایسی معنویت جس پر اس معاشرے کی پرچھائیاں نہ ہوں،بلکہ وہ اس کی نہایت ذاتی سچائی یا معنویت ہو۔ لیکن ایک ایسی سچائی جو باہر کی سچائیوں سے یکسر مختلف ہو، اپنی یافت یا اپنے ادراک میں ہزار طرح کے اندیشے اور خدشے بھی لاتی ہے، یہ آس، تشویش اور خوف کا سرچشمہ ہے جوفرد کو حسنِ ادراک کی آخری سرحد پر لے آتا ہے۔ اس احساس کو آنس معین نے اپنے ذاتی اسلوب میں اس طرح بیان کیا ہے:
کبھی میں سورج کو دوں صدا تیرگی کے ڈر سے
کبھی یہ سوچوں کہ برف کا ہے مکان اپنا

ذرا تو کم ہوئیں تنہائیاں پرندے کی
اب ایک خوف بھی اس آشیاں میں رہتا ہے

ہے مرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا
مگر کبھی تم نے اتنالمبا سفر کیا ہے!

بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی بس اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

ذرا سا کھول کے دیکھو تو گھر کا دروازہ
یہ کوئی اور ہی دستک ہے، اب ہوا کب ہے

یہ اشعار جو آج کے انسان کی وجودی صورتِ حال کو کمالِ صداقت کے ساتھ بیان کر رہے ہیں آنس معین کے ہیں جو اس نے بہ ظاہر بہت رواداری میں لکھے، لیکن اس کی داخلی سچائی کے آئینہ دار بھی ہیں۔ آنس معین کی شاعری جو ابھی بہت کم شائع ہوئی تھی ایک وجودی تحیر کی بھر پور ترجمان ہے۔
آنس معین ابھی بہت کم عمر تھا، وہ ایک بینک میں آفیسرز گریڈ میں تعینات تھا، اور معاشرتی زندگی میں اس کا اپنا ایک حوالہ بھی وجود میں آرہا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ابھی عمومی طور پر اپنے والد ۔۔۔سید فخرالدین بلے ۔۔۔کے حوالے سےہی جانا جاتا تھا، وہ ایک خوش شکل، خوش پوش، خوش گفتار اور خوش رفتار نوجوان تھا. اس کے لباس پر بہت کم کسی نے شکن دیکھی ہوگی۔ وہ بہت خلیق تھا، لیکن بہت کم آمیز اور کم گو انسان تھا۔ وہ شطرنج کا ماہر کھلاڑی تھا اور اچھے اچھے شاطروں کو چند چالوں میں مات دے دیتا تھا۔ اسے بچپن میں معمے حل کرنے کا شوق تھا۔ کسی حد تک وہ مہم جو بھی تھا۔ وہ ایک ذہین اور ہونہار بینکر تھا اور بینکنگ میں اس کے درخشاں مستقبل کی پیشین گوئی آسانی سے کی جا سکتی تھی۔ متصوفانہ افکار سے لگاؤ، شاعری اور معاشرتی میل ملاپ کے آداب اس کی خانگی وراثت تھی. اس نے اپنے والد کو ہر طرح کے لوگوں سے ملتے جلتے دیکھا ہوگا۔ اور اپنے والد اور ان کے بعض دوستوں کے درمیان متصوفانہ موضوعات پر طویل گفتگوئیں بھی سنی ہوں گی. سماع کی محفلوں میں بھی شریک ہوا ہوگا اور اس نے یہ مشہور شعر بھی سنا ہوگا:
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از منیب جانِ دیگر است
عام زندگی میں انسان ہر روز کئی باتیں کرتا ہے، مربوط، غیر مربوط۔۔۔۔۔بےحد معنی خیز، بےحدسرسری، لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس وقت کون سی بات کسی سننے والے کے دل میں گھر کر لے گی یا اس کے نظامِ حیات کواتھل پتھل کر کے رکھ دے گی. بلے صاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار ان کے ہاں کی ایک نجی محفل میں ان کے ایک فاضل دوست نے جنھیں تصوف اور روحانیت سے بھی لگاؤ ہے۔ گفتگو کی روانی میں ایک ایسی بات کہہ دی جس نے ممکنہ اثرات کے بارے میں شاید انھیں کچھ زیادہ اندازہ نہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ مرنے کے بعد انھیں کیسی خوب صورت دنیا سے سابقہ پڑے گا تو شاید آدھے سے زیادہ انسانی آبادی تو خود کشی کرلے۔ یہ بات اتفاق سے آنس نے بھی سن لی اور جیسے یہ جملہ صرف اسی کے لیے کہا گیا تھا۔
اس نے اس کی پوری معنویت کو اپنے لیے ایک تجربہ بنا لیا۔ وہ کئی دن رہ رہ کر اس جملے کے بارے میں اپنے والد سے تبادلہ خیال کرتا رہا۔ لیکن کیا صرف یہی ایک جملہ تھا جس نے اس کی ذہنی دنیا میں ایک تغیر پیدا کیا؟ نہیں اس کی ذہنی زندگی پہلے ہی سے ایک خاص ڈگر پر چل رہی تھی، اس کے اندر بہت دیر سے ایک مکالمہ جاری تھا، اپنے آپ سے اور اہل ذات سے سوال و جواب کا سلسلہ اس کے اندر بہت دیر سے جاری ہو چکا تھا. اس ڈائیلاگ نے اسے غزل کی شاعری کا ایک بہت خوب صورت پیرایہ عطا کردیا جو عام طور پر طویل ریاضت اور وسیع مطالعے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اسے یہ اسلوب اپنے اندر کے مطالعے کے نتیجے میں بنا بنایا مل گیا۔ یعنی ایسا لگتا ہے کہ اس نے شاعرانہ بیان میں بیک جست ایک ایسے اسلوب تک رسائی حاصل کرلی جو خود اس سے مخصوص تھا۔ اس اندازِ بیاں میں کہیں ۔۔۔۔۔۔۔نہیں تھے۔ بلکہ ایک تکمیلیت کی شان تھی۔ لیکن اس اسلوب کے تجزیے سے پیش تر ذرا یہ دیکھیے کہ یہ اندرونی مکالمہ کس نوعیت کا تھا۔ جس نے ایک ہری بھری زندگی کو موت کی تاریکیوں کی طرف جانے کے عمل کو صاحبِ مکالمہ کے لیے ایک تخلیقی یا روحانی واردات بنا دیا۔ اس طویل مکالمے کا اندازہ ان چند اشعار سے بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔
تھامے ہوئے گرتی ہوئی دیوار کو اب تک
شاید مرے ہاتھوں کے سوا اور بھی کچھ ہے

ان کے لیے جو لوٹ کے آئیں گے نہ آنسؔ
کیا جاگتی گلیوں کے سوا اور بھی کچھ ہے

آنس تم بھی سامنے رکھ کر آئینہ
زور سے اک آواز لگاؤ ، لوٹ آؤ!

آئینے میں اپنے عکس کو زور سے آواز دینے کی خواہش کہ ”لوٹ آؤ“۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ایسی واردات کا اشاریہ ہے جو کام نفسیاتی یا وجودی تجربے کی اصطلاحات میں بیان کرنا مشکل ہے. اسے ہم خود سے ملنے کی خواہش بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن خود سے ملنے کی خواہش اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی خود سے جدا ہوگیا ہو۔ آنس کے ہاں یہی وہ احساس ہے خود سے جدا ہو جانے کا جسے ہم وجودی اصطلاح میں alienation کہہ سکتے ہیں۔ اس خود اجنبیت کے آثار اس کے اور شعروں میں بھی ملتے ہیں، مثلا ایسے اشعار میں وہ خود کو اشاریوں میں تحلیل کر دیتا ہے جیسے:
رستہ دیکھنے والی آنکھیں سن لیں گی
اک موہوم سی دستک سی دروازوں پر

کاش قدموں کی چاپ نے آنسؔ
سونی گلیوں سے کچھ کہا ہوتا

اور بعض اشعار میں تو صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ خارجی دنیا سے سکور [سکون؟] کا واسطہ تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ
باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے

تیرگی من میں نہ در آئے کہیں
آنکھ شب کے درمیاں مت کھولنا

اس صورتِ حال میں کہ ذہن خارجی حقیقت کو حقیقت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ خارج سے منہ موڑ کر” اپنے اندر“ (لاشعورمیں )حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کرے۔ اس کوشش کے نتیجے میں اسے زندگی دو رخی نظر آنے لگتی ہے اور اندر اور باہر کے آدمی کے درمیان ایک واضح تضاد کا احساس ابھرنے لگتا ہے۔ آنس معین کے بہت سے خوب صورت اور لازوال اشعار کا موضوع یہی اندر اور باہر کے آدمی کی آویزش ہے، ایسے تمام اشعار میں ایک لطیف سا اشارہ اس بات کا موجود ہے کہ اندر کا آدمی باہر کے آدمی سے زیادہ طاقت ور ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ باہر کا آدمی تو صرف اس کی ایک پرچھائیں (shadow)ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی بس اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

کیاخبر ایک دوسرا آنس
ذات کے احتساب سے نکلے

اسے ملے ہو مگر جانتے کہاں ہو تم
خود اپنے آپ پہ آنسؔ ابھی کھلا کب ہے

وہ شخص تھا خود اپنی ہی دیوار کے پیچھے
اک شہر نما تھا جسے تسخیر کیا ہے

”باہر “ کی ردا اٹھا کر” اندر“ جھانکنے کے عمل میں ایک تخلیقی ذہن کو کس کس طرح کے کرب کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس کی ساری زندگی پر اسی کرب کی پرچھائیں چھا گئی تھیں، ذہن یا شعور کا کوئی رقبہ ایسا نہیں بچا تھا جو اس شکست و ریخت کے عمل سے نہ گزرا ہو۔دراڑیں، شکستگی اور ریزگی اس عمل کا ایک لازمی نتیجہ تھا جوہر حال میں ظاہر ہوا۔
گرتی ہوئی دیوارسے کچھ دیرکو آنسؔ
اک سائے کی طرح سے چمٹ کر تو ذرا دیکھ

یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا
اس سارے بحرانِ وجود میں ۔۔۔۔۔ایک اور احساس بھی مسلسل روشنی کی ایک لکیر کی طرح موجود رہتا ہے اور وہ ہے انسان کی سماجی صورتِ حال جس نے انسان کو بیک وقت ٹریجک بھی بنا دیا اور کامک بھی۔ یہ وہ سماجی صورتِ حال ہے جس نے انسان سے اس کا احساسِ عظمت چھین لیا ہے۔ اور اب انسان انسان نہیں، انسانوں کا خاکے ہیں۔ انسانی خاکے۔ انسانیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے:
زندگی بھر ساتھ دے گی کیا یہ بوسیدہ قبا
ہے جسے اس شہر میں ہر آدمی اوڑھے ہوئے

آنسؔ معین کی تمام غزلوں کو کھنگال جائیے. یہ احساس ہر شعر میں ملے گا کہ اسے زندگی کے حقیقی معانی کی تلاش ہے. زندگی جو بہ ظاہر اشکال کا ایک سیلِ رواں اور انسانوں کی ایک بے ربط بھیڑ سے عبارت ہے، زندگی جو عدم کی وادی میں صرف ایک گرتی ہوئی دیوار ہے اور جسے سہارا دے کر زیادہ دیرتک گرنے سے روکا نہیں جا سکتا. زندگی جوایک قاش قاش برف یا پاش پاش آئینہ ہے، کسی عکسِ جمال کی حامل ہے یا نہیں؟ یہی ایک سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے آنسؔ معین زندگی کے سب سے پرخطر سفر پر روانہ ہونے کے لیے بھی تیار ہو جاتاہے۔ اس لیے کہ اس سوال کا جواب حاصل کرنا اس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے: 
نظر کو خوب خبر تھی کہ اک سراب ہے وہ
مگر نظر کو بھروسہ اسی سراب پہ تھا

دامن بھی دریدہ ہے مراہاتھ بھی زخمی
شاخوں پہ گلابوں کے سوا اور بھی کچھ ہے

اگر نہیں میں آشنا عبادتوں کی رسم سے
چھپا ہوا ہوں کس لیے بدن کی خانقاہ میں

دستکیں دینے سے پہلے سوچ لو
بند دروازے کے پیچھے کون ہے

اس طرح اب دیکھتا ہوں آئینہ
جیسے کوئی خود سے پوچھے کون ہے؟

اس کے پیچھے چھپی ہیں کتنی دیواریں
جسم کی یہ دیوار گرا کر دیکھوں گا

ماضی قریب کی اردو شاعری اورغزل پر نظر رکھنے والوں کے ذہن آنس معین کی شخصیت سے قدرتی تلازمے کے طور پر مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں. یہ ذہنی تلازمہ بعض جزوی مشابہتوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے. آنس معین کے ایک شعر میں ”دستانے“ کا لفظ قانون، گواہی اور جرم و سزا کے سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے اور اس میں شک نہیں کہ پوری اردو شاعری میں دستانے کا لفظ سب سے پہلے مصطفیٰ زیدی نے ہی استعمال کیا تھا:
میں کس کےہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
عین ممکن ہے کہ آنس معین کے ہاں دستانے کا تلازمہ مصطفیٰ زیدی ہی کے حوالے سے ابھرا ہو لیکن صرف اتنی سی بات کو کسی تفصیلی موازنے کی وجہ نہیں بنایا جا سکتا، مصطفیٰ زیدی کی شاعرانہ فضا جن عناصر سے مل کر تشکیل پاتی ہے، آنس معین کے ہاں ان اجزا کا کم سے کم سراغ ملتا ہے۔ آنس معین کے ہاں غزل کی معاملہ بندی اور حسن وعشق کے معاملات کا وہ انداز ہے ہی نہیں جو ہمیں مصطفیٰ زیدی کے ہاں ملتا ہے۔تاہم شدتِ احساس ایک قدرِ مشترک ضرور ہے جو مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی اور آنس معین کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ جہاں تک شکیب جلالی کا تعلق ہے ان کے ہاں بھی ایک کربِ مسلسل کا احساس ضرور ملتاہے، لیکن کسی فلسفیانہ یا متصوفانہ تلاش و جستجو کا عنصر اس شدت یا صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ زندگی کاکرب اور شعور کا تیکھا پن شکیبؔ کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، لیکن اس کی غزل میں کسی وجودی مابعد الطبیعاتی یا صوفیانہ تلاش کا سراغ نہیں ملتا۔ جب کہ آنس معین کی ساری شاعری ایک ایسے ہی سوال کے گرد گھومتی ہے جسے سوائے ایک مابعد الطبیعاتی جستجو (metaphysical yearning)
کے کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے شکیبؔ اور مصطفیٰ زیدیؔ کے ساتھ آنس کی مشابہتیں جزوی اور سطحی ہیں بنیادی نہیں۔ یہ کہنا کہ آنس اپنے دور کا شکیب یا شکیب اپنے دور کا آنس تھا تنقیدی اعتبار سے درست نہیں ہوگا۔ جدید اردو غزل میں بالخصوص آنس کا رویہ اس کی ذات سے مخصوص تھا۔اس رویے کی اساس ایک ایسا روحانی کرب ہے جو محض سماجی شعور یا کسی ذاتی مسئلے کی شدت سے کہیں زیادہ وقیع اور ہمہ گیر ہے۔ آنس کی واردات پوری اور اردو شاعری میں ایک انوکھی واردات قرار دی جا سکتی ہے۔
آنس کی شاعری میں قدم قدم پر قطعی منفرد اور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے ایسے اشعار ملتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک شعر بھی کوئی کہہ پائے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جائے۔ ایسے چونکا دینے والے شعر حیرت انگیز حد تک سادہ، بلکہ سہل ممتنع کے انداز میں ہیں۔ ان میں آنسؔ حیرت انگیزطور پر epigrammatic
ہے. کم سے کم الفاظ میں جذبات و خیالات کی ایک دنیا بسا کر دکھادیتا ہے:
ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے

تیرگی من میں نہ درآئے کہیں
آنکھ شب کے درمیاں مت کھولنا

جب فضاؤں سے ربط بڑھتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے آشیانے سے

نظر آتی ہے دوسری دیوار
ایک دیوار کے گرانے سے

آنس معین کے ہاں شعری خیال ایسی حیرت انگیز وحدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ اس کے لیے شعر پر نظرِ ثانی کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ عام طور پر شاعر کو ایک شعر کو مکمل کرنے میں کئی تلازمات اور کئی لوازمات سے کام لینا پڑتا ہے۔ ردیف اور قوافی بعض اوقات ابلاغ میں حائل ہوجاتے ہیں، لیکن آنس معین کا ہر شعری اظہار بھرپور، ایسا مکمل اور ایسا فوری (spontaneous)
ہے کہ اسے سوائے تخلیقی معجزے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے ہاں خیال اور ہیئت میں ایسی یک جائی اور ہم آہنگی ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا. اس کے ہاں ایسے اشعار کثیر تعداد میں ہیں جو اس کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کا پتا دیتے ہیں۔ اس نے جتنا شعری سرمایہ چھوڑا ہے وہ اسے ایک لافانی صاحبِ طرز شاعر ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہے. ایسے اشعار جس میں اس کی خلاقی اور صناعی ایک ہو گئی ہیں اردو شاعری کا لازوال سرمایہ کہے جا سکتے ہیں، ایسے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں ایک پھول نے شگاف کیا

گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو
وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

کیا عدالت کو یہ باور میں کرا پاؤں گا
ہاتھ تھا اور کسی کا مرے دستانے میں

ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر،کہیں پگڑی کااحترام ہوا

اکثر صبحیں وقت سے پہلے آتی ہیں
اسی لیے ہر خوب ادھورا رہتا ہے

کب بارِ تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

جس نوجوان شاعر نے صرف چند سالوں میں ایسا مکمل اور بھرپور شعری انداز ایجاد کرلیا ہو اس کے انداز کے شعری امکانات کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ یقینا ایک عبقری تھا ۔ ایک شعلۂ تخلیق. 
خوش درخشیدہ ولے شعلۂ مستعجل بود

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : شاعرِ کرب آنس معین کا والدین کے نام آخری خط

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے