غضنفر کی تین نظمیں

غضنفر کی تین نظمیں

(ان نظموں کی قرات سے قبل آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ تین ہی نظمیں کیوں یا یہی تین نظمیں کیوں یا تین نظمیں کیوں تعداد اس سے الگ بھی ہو سکتی تھی.
در اصل ہمیں دو نظموں کو مربوط کرکے پیش کرنا تھا لیکن ہمیں ان کی فیس بک وال پہ ایک اور نظم مل گئی جو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے. ہمیں یہ دعوا نہیں کہ غضنفر کے یہاں ان نظموں کے علاوہ اس سلسلے کی کوئی دوسری نظم نہیں. ہمیں سر دست یہ تین ہی میسر آئیں.
ان تین نظموں میں غضنفر نے اکیسویں صدی میں ہندستان کے سیاسی منظرنامے کو جس تخلیقی ہنرمندی سے پیش کیا ہے وہ دشت ادب میں لمبی سیاحت سے حاصل ہوتی ہے. لمبی سیاحت سے ہماری مراد یہ ہے کہ سیاسی شعور، سماجی سمجھ، تاریخی تانک جھانک، ادبی و شعری ادراک و وجدان کے ساتھ جب کوئی تخلیق کار اس دشت میں اترتا ہے تو ذرے ذرے پر گہری نظر رکھتا ہے اور خارجی اشیا، واقعات، عوامل، احساسات، جذبات اور الفاظ کو یوں ایک لڑی میں پروتا ہے کہ بار بار پڑھی اور سہیج کر رکھی جانے والی تخلیق منصہ شہود پر آتی ہے.
زیر نظر نظموں میں گھن گرج نہیں ہے لیکن احتجاج کی لہر موجود ہے. دور تک پھیلے مہیب سناٹے کا ذکر ہے لیکن خوف کا احساس نہیں ہے. آزادی کے بعد کی نصف صدی میں ایک خاص نظریے کے بار بار سر اٹھانے کا ذکر اور اکیسویں صدی میں اچانک اس نظریے کا سیلاب کی طرح پورے ملک میں پھیل جانے کا بیان ہے. ناموں کی تبدیلی اور اس کے عوامل کا ذکر ہے اور اس کا سرا کہاں جاکے ٹھہرے گا کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مداری اپنے اٹاری کو خوب سے خوب تر کرنے میں مست ہے اور تماش بینوں کو نہ صرف نظر بند کردیا گیا ہے بلکہ ایک ایسی نشہ آور دوا پلادی گئی ہے جو بھنگ سے زیادہ نشیلی ہے. اس نشے کا موجد صرف ہندستانی مداری نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں ایسے کئی مداری ہیں. اس نشے میں لوگ زومبی بن گئے ہیں جن کو صرف خون میں لذت محسوس ہوتی ہے چاہے وہ کسی حاملہ کا شکم چاک کر کے ہی ملے. ہم نے نظموں کی ترتیب زمانہ آخر سے اول کی طرف رکھی ہے. نظموں کی روانی میں آپ اگر بہہ جائیں تو باز قرات لازم ہے.
طیب فرقانی) 

(1) نظم: کون دیکھے مگر

بمبئی ممبئی ہو گئی
شہرِ مدراس اب چنّئی بن گیا
کچھ تغیّر بنارس میں بھی آگیا
تیر لگتا تھا غالب کے سینے پہ جس نام سے
نام وہ بھی جھکا، وہ بھی ترچھا ہوا
شہرِ امرود کا ذائقہ بھی گیا
نامِ اکبر بھی تو مخمصے میں پڑا
فیض آباد بھی چل بسا
اور بھی کچھ نگر ٹیڑھے میڑھے ہوئے
اور بھی کتنے شہروں پہ آرے چلے
اور بھی کتنے ناموں کے سر اپنے دھڑ سے گرے
اس تغیّر سے کیا کیا بدلتا گیا
اس تبدّل سے کیا کیا پگھلتا گیا
اس سے کیا کیا اُجڑتا گیا
اس سے کیا کیا بگڑتا گیا
لفظ سے کتنے معنے نکلتے گئے
حرف سے صوت کے بول چھنتے گئے
کتنے آہنگ سینے میں گھُٹتے گئے
کتنے تہذیب کے رنگ مِٹتے گئے
کتنے اوراقِ تاریخ پھٹتے گئے
کتنے اقدار کے پیڑ کٹتے گئے
کتنے نقشِ قدم ، بے نشاں ہو گئے
کتنے شعروسخن، بے زباں ہو گئے
کتنے اہلِ ہنر ، بے ہنر ہو گئے
کتنے اشجار بھی بے ثمر ہو گئے
کتنے منظر مٹے
کتنے پیکر ہٹے
کتنے سائے گھٹے
کتنے بادل پھٹے
کتنے رستے کٹے
کتنے رشتے لُٹے
کتنے گنبد گرے
کتنے دامن جلے
کتنی یادیں ہوا ہو گئیں
کتنی باتیں جدا ہو گئیں
صورتیں کیسی کیسی فنا ہو گئیں
شاخ سے تتلیوں کی قبا اڑ گئی
خوشبووں سے بھری اک فضا اڑ گئی
طائرِخوش گلو کی صدا اڑ گئی
نقش کوئی مٹا
رنگ کوئی اڑا
نور کوئی بجھا
کوئی روغن جھڑا
کوئی جذبہ لہو میں سنا
کوئی احساس سینےکے اندر دبا
اک تصور کا خوں ہو گیا
اک مصوّر کا پیکر مِٹا
کوئی تصویر دھندلی ہوئی
کوئی تحریر معنی سے خالی ہوئی
کیسی تاریخ کی پائمالی ہوئی
اب بھی جاری ہے بدلاؤ کا سلسلہ
روح سے تن کے الگاؤ کا سلسلہ
ضرب کا ، گھاؤ کا سلسلہ
کیا پتا لکھنئو بھی بدل جائے کل
تن سے دلی کا دل بھی نکل جائے کل
آگرہ اپنی تہذیب کے ساتھ جل جائے کل
روح اجمیر کی بھی ابل جائے کل
حیدرہ باد شر سے پگھل جاۓ کل
کون دیکھے مگر
کون سوچے مگر
کون روکے مگر
سر میں سودا کہاں
کس کو فرصت یہاں
کون جوکھم اٹھاۓ میاں

(2) نظم: پٹاری کا سانپ

یہ سانپ جو کل تک تھاپٹاری میں کسی بند
ڈھکّن کو اٹھا، اس کو دکھاتا تھا سپیرا
آتی تھی نظر اس کی کبھی ہلتی ہوئی دم
دکھتا تھا فقط سویا ہوا اس کا کبھی پھن
خاموش پڑا رہتا تھا مارے ہوئے کنڈل
اک خوف کی دھندلی سی جھلک
آنکھ میں آتی
دہشت کے کسی عکس سے کچھ دیر ڈراتی
پھر دستِ سپیرا سے نکل جاتا تھا ڈھکًن
ہو جاتا تھا یہ سانپ بھی پھر آنکھ سے اوجھل
دہشت بھی سرک جاتی تھی تن من سے ہمارے
اک روز پٹاری سے مگر اڑ گیا ڈھکّن
لہراتا ہوا سانپ نکل آیا فضا میں
دہشت کی ہوا پھیل گئی سارے جہاں میں
کاٹے بنا ہی بھرنے لگا زہر رگوں میں
برپا ہوا اک حشر ہر اک سمت صفوں میں
اس سانپ سے بستی کا ہر اک شخص پریشاں
ہر موڑ پر، ہر گام پر سب لوگ ہراساں
ماں باپ کو یہ فکر کہ مر جاۓ نہ بچّہ
اولاد کو یہ خوف بچھڑ جائیں نہ ابّا
رہ جائیں اکیلی نہ کہیں دہر میں امّاں
ہر فرد پریشاں کہ کہیں راہ میں اس کو
ڈس جاۓ نا یہ سانپ کسی سمت سے آکر
ہے رقصِ جنوں خیز بہت حشر بداماں
اس سانپ کےتیور پہ مفکر بھی ہیں حیراں
دانا بھی اسے دیکھ کے انگشت بدنداں
حیرت میں پڑی دیکھ اسے دانشِ دوراں
یہ ناگ کہیں آگ نہ پھونکوں سے لگا دے
پھُنکار سے تہذیب کا خِرمن نہ جلا دے
دھرتی سے کسی نسل کا دیپک نہ بجھا دے
دنیا سے کسی قوم کا نقشہ نہ مٹا دے
ہر سانس کو یہ آس کہ آۓ گا مسیحا
بیمار کو مرنے سے بچاۓ گا مسیحا
یہ بات مگر کون مریضوں کو بتاۓ
کوئی بھی نہیں شہر میں جو بین بجاۓ
بپھرے ہوۓ اس ناگ کو منتر سے رجھاۓ
سہمی ہوئی مخلوق کو وحشت سے بچاۓ

(3) نظم: کاش روکے کوئی

کون سا بھنگ ان کو پلایا گیا
آن میں لوگ آپے سے باہر ہوۓ
سب کے ماتھے کی تیوری چڑھی
آنکھ میں سرخ ڈورے پڑے
خنجروں کی طرح سب بھنویں کھنچ گئیں
گردنوں کی رگیں ساری نیلی ہوئیں
ہاتھ میں مشعلیں آ گئیں
شہر جلنے لگا
گھر سلگنے لگا
تن جھلسنے لگا
اسلحے سب میانوں سے باہر ہوۓ
سب کی نوکوں پہ سانِ سنک چڑھ گئی
جسم میں تیر و تلوار، خنجر اترنے لگے
فرش پر کٹ کے اعضا بکھرنے لگے
پیٹ سے آنت باہر نکلنے لگی
جلد سے زرد چربی پگھلنے لگی
خون بہنے لگا
زخم رسنے لگا
کھوپڑی سر کی پھٹنے لگی
ہڈّی پسلی چٹخنے لگی
باپ کے سامنے کوئی لختِ جگر
دھم سے نیچے گرا
خاک و خوں میں سنا
باپ بیٹے کے صدمے سے پاگل ہوا
غم کی آری سے ماں کا کلیجہ کٹا
دیکھتے دیکھتے کوئی عورت لٹی
کوئی جاں سے گئی
کوئی بیوہ ہوئی
آگ کا کوئی معصوم ایندھن بنا
کوئی ننھا کسی سنگ کی ضرب سے چل بسا
کوئی بیمار، لاچار بھی نہ بچا
ایک بے رحم چاقو کی بپھری ہوئی نوک پر
کوکھ میں پلنے والا بھی تو گُتھ گیا
کوئی لاچار، بے بس بدن بھی
کسی تیغ سے کٹ گیا
ہر طرف حشر برپا ہوا
ہر علاقے میں کرب و بلا
منظرِخوں چکاں
جسم کی دھجّیاں
روح کی کرچیاں
لب پہ آہ وفغاں
بین کرتا بیاں
خوں کے دریا میں ڈوبی ہوئی بستیاں
آدمی اور انسان کیا،
خالقِ دو جہاں کا مکاں بے اماں
اس کے اندر بھی شعلے، شرارے، دھواں
اس کے دیوار و در میں بھی آتش فشاں
اہلِ مشعل بھی پکڑے گئے
سب فسادی بھی پھندے میں جکڑے گئے
قید میں وہ بھی سڑ جائیں گے
ان کے گھر بھی اجڑ جائیں گے
ایک دن وہ بھی روتے ہوۓ
قید خانے کی مٹّی میں گڑ جائیں گے
فائدہ بس شکاری کو ہے
اس کے کوٹھے اٹاری کو ہے
اس کے طرزِخماری کو ہے
اس کی خوۓ مداری کو ہے
کون سمجھے مگر
کون سوچے مگر
کون روکے مگر
کاش سمجھے کوئی
کاش سوچے کوئی
کاش روکے کوئی
خون کا
درد کا
کرب کا
چیخ کا
آہ کا
سلسلہ
اک شکاری
مداری
کا بڑھتا ہوا حوصلہ
***
آپ غضنفر کی یہ نظم بھی پڑھ سکتے ہیں :نیا سال آیا

شیئر کیجیے

One thought on “غضنفر کی تین نظمیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے