نیا سال آیا

نیا سال آیا

غضنفر

نیا سال آیا
گیا
پھر سے آیا
رہا
پھر گیا
سال نکلے کئی
سال کے ساتھ نکلے کئی خواب بھی
آنکھ سے، ذہن سے، جان سے
چاند غائب ہوۓ، مہر ڈوبے کئی
نجم ٹوٹے کئی اپنے افلاک سے
آرزو کی زمیں اور بنجر ہوئی
زندگی کا سفر اور بے رس ہوا
اور بھی کچھ رکاوٹ ہوئی سانس میں
اور بھی جسم کا رنگ پھیکا پڑا
اور بھی آنکھ میں کچھ اندھیرا گھلا
اور بھی ذہن پر کچھ اداسی چڑھی
اور بھی دل کی دھڑکن میں آئی کمی
اور بھی خون پانی ہوا
اور بھی سیلِ جذبہ رکا
اور بھی پڑ گئی ایک سِل نفس پر
اور بھی اک پرت جم گئی برف کی
میں نے ہر بار کی طرح اس بار بھی
دل سے چاہا کہ اس سال تو
ایسا موسم ملے
خواب کا در کُھلے
پھول کوئی کِھلے
کوئی خوشبو کا ریلا چلے
سانس میں کوئی عنبر گُھلے
جسم پر کوئی رنگت چڑھے
مشک کوئی مساموں کو بھی مس کرے
آنکھ میں کوئی دیپک جلے
کوئی لو ہنس پڑے
پتلیوں میں حسیں کوئی منظر بسے
نور کی چاندنی اک تنے
اک دھنک رنگ کی آسماں پر بنے
کوئی تتلی اڑے
جگنوؤں کا فضاؤں میں میلا لگے
قلب میں خون گردش کرے
دھڑکنوں کی حرارت بڑھے
مور سینے میں چھم چھم کرے
کان میں کوک کوئل بھرے
جان میں جاں پڑے
میں نے ہر بار آنکھیں بچھا کر سواگت کیا
اس کی آمد پہ جشنِ چراغاں کیا
اس کی آنکھوں میں خود کو نمایاں کیا
اس کو سو سو طرح سے رجھایا مگر
مجھ سے غافل رہا
مجھ کو دیکھے بنا
میرے اطراف میں سال بھر تک رہا
پھر گیا
آج پھر آ گیا
پھر سے آنکھیں مری راہ میں بچھ گئیں
پھر سے پلنے لگی آرزو خواب کی
پھر سے بیدار ہونے لگیں
رنگ کی، نور کی، خون کی خواہشیں
پر یہ پھر خون کر جائے گا
خواہشوں کا مری
غضنفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے