مستحسن عزم : شخصیت، مسافرت اور شاعری ‘ہموار نہیں کچھ بھی` کے تناظر میں

مستحسن عزم : شخصیت، مسافرت اور شاعری ‘ہموار نہیں کچھ بھی` کے تناظر میں

احسان قاسمی

مستحسن عزم کا تعلق سیمانچل کے کشن گنج ضلع سے ہے ۔ گزشتہ بیس بائیس سال سے ممبئی میں رہتے ہیں جہاں ان کا ذاتی کاروبار ہے۔ بہترین شاعر اور افسانہ و افسانچہ نگار ہیں ۔ علم العروض پر بھی اچھی گرفت ہے۔ دیوناگری رسم الخط میں ایک شعری مجموعہ ‘منزل کے آس پاس` 2001ء میں شائع ہو چکا ہے۔ مشہور ہندی رسالہ ‘چنتن دِشا` (مدیر ہردئیش مینک) کی ادارتی اور مشاورتی ٹیم کے رکن ہیں۔ ٹی وی سیریلز میں ڈائلاگ اور تھیم سانگ رائٹنگ کا کام کر چکے ہیں۔
اردو ڈائریکٹوریٹ، پٹنہ (بہار) نے انھیں ان کے شعری مجموعہ ‘ہموار نہیں کچھ بھی` کی اشاعت کے سلسلے میں مالی تعاون فراہم کیا ہے.
ان شاء اللہ بہت جلد یہ کتاب بھی زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظرعام پر آ رہی ہے۔
میں مستحسن عزم صاحب کی خدمت میں بغیر کسی پس و پیش کے پیشگی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ ان کی یہ پیش رفت برقرار رہے ۔
میری یہ پیشکش آپ احباب کو کیسی لگی ؟
اپنے خیالات کے اظہار میں پیش پیش رہیں۔

مستحسن عزم کا تعلق صوبہ بہار کے انتہائی شمال مشرقی ضلع کشن گنج سے ہے۔ وہی کشن گنج جس سے ہوکر قومی شاہ راہ 31 گزرتی ہے جو نارتھ ایسٹ کے سات صوبوں جنھیں عرف عام میں ‘seven sisters` کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے کو باقی ملک سے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ وہی کشن گنج جہاں سون پور کے ہری ہر کشیتر میلے کے بعد دوسرا سب سے بڑا میلہ لگا کرتا ہے۔ کشن گنج جہاں چائے کے باغات ہیں، انسان اسکول ہے… بھکا، پیٹھا، پنتا بھات، مونگری، سنگھی، بواری مچھلی اور لاپھا ساگ کا جھول ہے… داس، کنکئ اور مہانندا ندیاں ہیں، بنگال، نیپال اور بنگلہ دیش کی سرحدیں ہیں، سورجا پوری جہاں کی بولی اور چاند مارکہ اور پاکیزہ برانڈ لنگیاں جہاں کی پہچان ہیں… لیکن وسائل معدوم ہیں۔
وسائل (infrastructure) کے لحاظ سے کشن گنج بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے پس ماندہ ترین ضلعوں میں شمار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں ہر سال متعدد دفعہ آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں۔ دوسری بڑی وجہ اہلِ سیاست کی عدم توجہی ہے جب کہ کشن گنج نے جمیل الرحمن، سید شہاب الدین، ایم جے اکبر، تسلیم الدین اور مولانا اسرارالحق قاسمی وغیرہ جیسے ٹاپ سیاست دان اور منسٹر قومی سیاست کو دیے۔
تیسری بڑی وجہ یہاں کے مکینوں کی سادگی، آسان پسندی اور ان کی شرمیلی فطرت ہے۔
اس ضلع میں زمانہ قدیم سے تصنیف و تالیف کا کام جاری ہے مگر ان میں سے بیش تر تخلیقات ذاتی ڈائریوں تک محدود رہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ امتداد زمانہ کا شکار ہو کر ناپید ہو گئیں۔
اس پورے خطے میں اردو اور فارسی زبانوں کے جید علما بھرے پڑے تھے۔ سیمانچل کے ادبی ذخیرے میں سب سے بڑی حصہ داری کشن گنج ضلع کی ہی رہی ہے۔ ادب کے کئی اصناف میں اسے پایونئر (pioneer) کی حیثیت حاصل ہے۔ سیمانچل کا اولین مطبوعہ شعری مجموعہ ‘کلیات عزیزی` ہے۔ اس مجموعے کو مولوی عبد العزیز، ساکن پلاسمنی (بہادرگنج) نے 1314ھ بہ مطابق 1896ء بنارس سے چھپوا کر شائع کیا تھا۔ اس میں فارسی اور اردو کی غزلیات شامل ہیں۔
کشن گنج میں کھگڑا میلہ کی شروعات نواب عطا حسین نے 1883ء میں کی تھی۔ نوابین کھگڑا کے دربار میں اس زمانہ کے بڑے بڑے ادبا و شعرا کی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔ آگے چل کر کھگڑا میلہ مشاعرہ کی روایت قائم ہوئی کی۔ اس کے روح رواں حکیم رکن الدین دانا تھے۔ ان کی ادارت میں انجمن ترقی اردو کشن گنج شاخ (قائم شدہ 1927ء) کے زیر اہتمام 1940ء میں ایک مجلہ ‘تحفۂ احسان` کے نام سے شائع کیا گیا تھا جس میں شعرائے کشن گنج کی مختصر تاریخ، تعارف اور اس سال منعقدہ میلہ مشاعرہ کی تمام غزلوں کا گلدستہ شامل تھا۔
افسانہ نگاری کے میدان میں بھی کشن گنج کو اولیت حاصل ہے۔ مولوی محمد سلیمان، پلاسمنی اور شمس بمن گرامی، کشن گنج کے افسانے رسالہ ‘طلبا` (پورنیہ) کے 37 – 1936ء کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے تھے۔
ناول نگاری کے میدان میں بھی شمس بمن گرامی کے ناول ‘نذرانہ` کو اولیت کا درجہ حاصل ہے جس کی اشاعت 1951ء میں ہوئی تھی۔ بعد ازاں ان کے دو اور ناول ‘اور سالگرہ آتی رہی` اور ‘حاتم بھائی` بھی اشاعت پذیر ہوئے۔ تہذیب احمد غافل کا ناولٹ ‘انتالیس ہزار’ 1960ء میں منظرعام پر آیا.
تحقیق کے میدان میں مرحوم اکمل یزدانی نے میاں محمد احسان علیگ رئیس پدم پور و ایم ایل اے اور مالک اخبار ‘انسان` کشن گنج کے تعاون سے بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انسان کا پورنیہ نمبر مطبوعہ جنوری 1955ء سیمانچل میں تحقیق کے حوالے سے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
بہ طور تمہید میں نے کشن گنج ضلع کی ادبی تاریخ اور ادبی پس منظر کو پیش کرنا یہاں مناسب جانا کہ ایک انسان کی ذہنی نشو و نما میں خطۂ خاص کی آب و ہوا، تاریخ، عصری ماحول اور تربیت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہسٹری یا فزکس کا کوئی طالب علم اپنی شبانہ روز محنت، مطالعہ، لگن اور مشق سے آئی اے ایس بن سکتا ہے لیکن شاعر نہیں۔ یہ جو کچھ بھی ہے بس خالقِ کائنات کی دین ہے جو وقت اور حالات کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اگر یوں نہ ہوتا تو ہر قصبہ، گاؤں اور گلی گھر میں ورڈسورتھ، گورکی، میر و غالب اور ٹیگور پائے جاتے۔
اب آئیے بات کرتے ہیں مستحسن عزم کے حالات کی، تعلیم و تربیت کی، ان کے لمبے سنگھرش کی اور بہ طور ایک عمدہ شاعر اور قابلِ ذکر افسانہ نگار ان کے سفر کی۔
شہر کشن گنج سے تقریباً پانچ چھ کیلو میٹر جانبِ شمال مستحسن عزم کا آبائی گاؤں ‘ گاچھ پاڑا` واقع ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ ہر دن شہر سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ‘گاچھ پاڑا` کے معنی ہیں "پیڑوں سے سجا خطۂ زمین"۔ قارئین کرام اس نام سے ہی بہ آسانی گاؤں کی خوب صورتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہمالہ کی برف پوش چوٹیاں یہاں سے صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہیں اور کوہ ہمالہ کے دامن سے نکلنے والی شوخ و چنچل ‘مہانندا` گاؤں کے قریب سے اٹکھیلیاں کرتی گزرتی ہے۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم سے دھان، پٹوا، مرغ و ماہی اور رواداری و مہمان نوازی کے لیے مشہور رہا ہے۔ یہاں عام طور پر مقامی بولی ‘سورجا پوری` بولی جاتی ہے لیکن بچوں کی ابتدائی تعلیم اردو قاعدہ بغدادی اور عربی یسرناالقرآن وغیرہ کے ذریعہ دی جاتی ہے. بول چال کے لہجے پر مقامی سورجا پوری بولی کا غلبہ صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
محمد مستحسن اختر نے اسی خوب صورت مگر گمنام گاؤں میں محمد خیرالبشر اور بی بی عصمت النساء کے آنگن میں 02 فروری 1970ء کو آنکھیں کھولیں۔ والد محمد خیرالبشر مرحوم کا آبائی پیشہ کاشت کاری تھا۔ یوں کہہ لیں کہ چھوٹے موٹے زمین دار تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک سند یافتہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور مقامی دیہی پوسٹ آفس کے پوسٹ ماسٹر بھی تھے۔ برسوں اپنی پنچایت کے مکھیا بھی رہے۔ والدہ مرحومہ کے ذمہ ہی دراصل عملی طور پر گھر کی تمام ذمہ داریاں رہیں جنھیں انھوں نے اپنے آخری دم یعنی 2017 ء تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا بھی اور بیٹے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی بھی فرماتی رہیں۔
محمد مستحسن اختر نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مڈل اسکول سے حاصل کی۔ بعد ازاں قریبی بیلوا ہائی اسکول سے میٹرک پاس کر انسان کالج، کشن گنج میں انٹر میں داخلہ لیا۔ پدم شری سید حسن کا قائم کردہ انسان اسکول و انسان کالج اس زمانے میں اپنے عروج پر تھا۔ ڈاکٹر اقبال واجد یہاں اردو زبان و ادب کے معلم تھے جو ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ہی افسانوی ادب کے بہتر نقاد اور محقق بھی تھے۔ تلفظ پر خاص توجہ دیا کرتے تھے۔ یہاں مستحسن اختر کا تعارف ادبی ذوق کے حامل چند احباب اور سینئرز سے ہوا جن میں عبدالواحد مخلص (استاد اسلام پور ہائی اسکول) اور شرافت حسین (پوسٹ ماسٹر، کانکی) وغیرہم قابل ذکر ہیں. ہندی زبان کے معلم ڈاکٹر شاکر علی جو ایک اچھے شاعر بھی تھے، ان سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ گویا کہ ان کے ارد گرد پڑھنے لکھنے کا ایک اچھا ماحول موجود تھا جس نے ان کی شخصیت کو لسانی اور ادبی اعتبار سے متاثر کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کشن گنج کے ادبی افق پر ایک نیا نام ممتاز نیر کا ابھر کر سامنے آیا۔ ممتاز نیر نے 78 – 1977 ء میں بیک وقت شاعری اور افسانہ نگاری کی ابتدا کی تھی اور خاتون مشرق، پرواز، پروازِ ادب، تعمیر ہریانہ، گلابی کرن وغیرہ جیسے اس زمانے کے مقبول عام رسائل میں شائع ہونے لگے تھے۔ ممتاز نیر نے اپنے بعد کی نسل کو متاثر کیا اور کشن گنج ضلع میں شعرا و افسانہ نگاروں کی ایک نئی کھیپ تیار ہوئی جس میں گوہر رفیع شاذ، عبد الواحد مخلص، مستحسن عزم، مشتاق گوہر اور جہانگیر نایاب قابلِ ذکر نام ہیں۔ گریجویشن (جغرافیہ) کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بھاگل پور یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ وہاں شعور بھاگل پوری، احقر بھاگل پوری، جلال الدین اور دیگر تخلیق کاروں کی صحبت میں مستحسن اختر کی شاعری اور افسانہ نگاری کو نئے پنکھ ملے۔ لیکن اس وقت تک بحر اور وزن سے ان کی شناسائی کم کم ہی تھی۔ پھر شوق جاگا تو کئی کتابیں خریدیں اور مسلسل مطالعہ اور مشق کی بدولت اس میدان میں بھی کامیابی حاصل کی۔ باضابطہ کسی استاد کے آگے زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا۔
گریجویشن کے بعد فلم نگری میں ڈائلاگ رائٹر اور گیت کار بننے کے شوق نے جنون کی صورت اختیار کی۔ عزم تو عزم ٹھہرے، انھیں اپنے ارادے سے بھلا کون باز رکھ سکتا تھا ۔
؂ مری صحرا نوردی ٹھکانہ چاہتی ہے
جنونِ عشق کو آزمانا چاہتی ہے
انھیں اپنا گاؤں بہت چھوٹا لگنے لگا تھا اور وہ اپنی قوتِ پرواز کا امتحان خود سے لینا چاہتے تھے۔
؂ میں ہوں آزاد پرندہ مرا گھر سارا گگن
قصرِ سلطانی سے چھوٹا مرا سنسار نہیں
دل میں حوصلہ تھا اور ارادوں میں مضبوطی بھی، اس کے باوجود ایک انجانا خوف دامن گیر بھی تھا۔ فلم نگر بمبئی کی دنیا… اجنبی، انجانی اور ایک ناتجربہ کار نوجوان۔ ڈر تو لگتا ہے، جھجھک تو ہوتی ہے۔ مگر پرانی کہانیوں میں ایک شہزادہ بھی تو ہوا کرتا تھا جو اپنے گھوڑے کی باگ اسی سمت موڑ ڈالا کرتا تھا جس سمت سفر کی اسے اجازت حاصل نہیں ہوا کرتی تھی۔
؂ مجھے بھٹکا رہا ہے مرا اک ڈر مسلسل
مری اک سوچ اسی سمت جانا چاہتی ہے
لیکن وہ عزم کیا جو ہمت ہار جائے ۔
؂اسی کے حوصلے میں آتی ہے پرواز کی طاقت
جو شاہیں کی، چکوری کی، خلا کی بات کرتا ہے
؂ قدم جو بڑھ گئے آگے تو رک نہیں سکتے
سفر میں ساتھ مرے قافلہ رہے نہ رہے
اب بات جب اس حد تک پہنچ جائے تو نتیجہ بھی معلوم ہے۔ عزم صاحب ماں کے ہاتھوں تیار شدہ شدھ دیسی گھی میں تلے پراٹھے اور چینگنی (مرغی جس نے انڈے دینے کی شروعات نہ کی ہو) کا اسٹیو (Stew ) ٹفن باکس میں لیے 1995ء میں بمبئی نگریا کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔
؂ اک دھڑکتا ہوا دل اور جنوں کرکے عطا
یوں مجھے مائلِ رفتار کیا ہے اُس نے
ابھی دو چار ماہ عروس البلاد بمبئی کے نظارے دیکھنے اور مختلف فلم اسٹوڈیوز کی تاک جھانک میں گزرے تھے کہ ہمشیرہ کی شادی کی تاریخ طے ہونے کی خبر آ گئی اور عزم یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ
؂ دنیا داری مجھے نبھانی پڑی
خواب کو مختصر بناتے ہوئے
جنون جو سر پر سوار ہو چکا تھا وہ انھیں کسی کروٹ چین سے بیٹھنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ حالانکہ یہ عام observation ہے کہ سیمانچل اور خصوصاً سورجاپوری برادری کے لوگ اکثر home sickness کا شکار ہوا کرتے ہیں لیکن یہاں تو معاملہ ہی الگ تھا گویا پانی کی تلاش میں بھٹکتا کوئی پیاسا کنویں کی کگار سے تشنہ لب ہی لوٹ آیا ہو۔ یہ جذبات کی سراسر ناقدری تھی جسے کسی بھی طور پر برداشت کرنے کو وہ تیار نہ تھے۔
؂ خود احترامِ شدتِ تشنہ لبی کرو
ایڑی رگڑ کے ریت کو ہی زمزمی کرو
لہذا عزم دوبارہ نئے حوصلوں کے ساتھ اکتوبر 1996ء میں ایک بار پھر گواہاٹی دادر ایکسپریس پر سوار ہو لیے۔
؂ گم ہوا رختِ سفر، قافلہ چھوٹا لیکن
حوصلہ دیتا رہا پاؤں کا چھالا مجھ کو
بمبئی میں ہندی کے مشہور شاعر اور ‘چنتن دِشا` رسالہ کے مدیر جناب ہردئیش مینک
(Hridayesh Mayank)
سے وابستگی ہوئی اور ان کے توسط سے جناب ندا فاضلی، ظفر گورکھ پوری اور ساگر سرحدی وغیرہم تک رسائی حاصل ہوئی۔ تمام لوگوں نے یہی مشورہ دیا کہ فلم انڈسٹری میں پاؤں جمانا وقت طلب مسئلہ ہے۔ لہذا یہاں ٹکے رہنے کے لیے ذریعۂ معاش کی تلاش ناگزیر ہے۔ مستحسن عزم کے پاس دوسرا کوئی چارہ تھا بھی نہیں. انھوں نے جانسن اینڈ جانسن کمپنی میں عارضی ملازمت حاصل کی، لیکن کسی قیمت پر ہار نہیں مانی۔
؂ مشکلو مجھ کو پرکھنے کی یہ عادت چھوڑو
میں بکھرتا نہیں کم زور ارادوں کی طرح
کہتے ہیں ممبئی کی مٹی میں بڑی تاثیر ہے۔ وہ ذرے کو بھی سجا سنوار کر سپر اسٹار بنا دیتی ہے. عزم کو بھی سیکھنے، سمجھنے اور سنورنے کے مواقع حاصل ہوئے۔
؂ ہر لمحہ گزرتا ہوں سنورنے کے عمل سے
اس خاک میں ہے چاک کی تاثیر ابھی تک
؂ وہ مٹی سہتی ہے رنج پھر بھی دستِ نو کو
ہنر کوزہ گری کا سکھانا چاہتی ہے
عزم نے بہ طور ڈائلاگ رائٹر ‘شکوہ` سیریل کے تقریباً پچہتر ایپی سوڈس کے مکالمے لکھے۔
انھوں نے ‘امراؤ جان ادا` ٹی وی سیریل کا تھیم سانگ قلم بند کیا. بہت سارے کام وہ بھی کیے جن کا کریڈٹ دوسروں کو حاصل ہوا۔ رفتہ رفتہ فلم نگر کی چکاچوند کا خمار اس کی کھوکھلی قدروں، مصنوعی پن، کھلے عام شراب نوشی اور دیگر بےضابطگیوں کے مظاہرے کے سبب ان کے سر سے اترتا گیا.
؂ یہ شہر سارا تو پردے میں بھی کھُلا ہوا ہے
کسے برہنہ کہیں کون ہے حجاب کے ساتھ
ان کی پیدائش، پرورش اور تربیت ایک شریف اور دین دار گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے اندر دیہات بستا تھا۔ ممبئی اگر شعور تھا تو گاؤں لاشعور۔ انھیں اپنا کردار، اپنے افکار، نظریات، اخلاق، قدریں اور دین و ایمان سب خطرے میں نظر آنے لگے۔
؂ مجھ میں آجائے نہ سیلاب کا میلا پانی
میں کنواں ہوں کسی آنگن کا بچا لو مجھ کو
لیکن گھر کی جانب واپسی ممکن نہ تھی کہ گاچھ پاڑا اگر جنم بھومی تھی تو ممبئ کرم بھومی۔ یہ زنجیر ان کے پیروں سے لپٹ چکی تھی۔
؂ آتا ہوں تیرے پاس سرِ شام لوٹ کر
کیا روکتا ہے پاؤں کو زنجیر کی طرح
لہذا انھوں نے ممبئ میں ہی حتی الامکان بنے رہنے کا فیصلہ لیا۔
؂ پھر ایک بار ترے ساتھ ساتھ چلنا ہے
بھلے ہی دور تلک سلسلہ رہے نہ رہے
1999ء میں انھوں نے ایک پرائیویٹ فرم کی تشکیل کی، بمبئی میونسپل کارپوریشن میں اس کا رجسٹریشن کروایا اور میکانیکل اور الیکٹریکل کاموں کا ٹھیکہ لینے کا سلسلہ جاری کیا جو ہنوز قائم ہے۔
؂ میں نے تتلی کے تعاقب میں جناب
وقت کھویا ہے گھڑی رکھ لی ہے
؂ بے ثمر ہے یہ درِ خواب پہ پہرہ دینا
سوچ کے پنکھ میں زنجیر لگاؤ، جاؤ
مستحسن پہلے اپنا ادبی نام مستحسن اختر مستحسن لکھا کرتے تھے لیکن 1990ء سے انھوں نے ‘عزم` تخلص اختیار کیا. عزم تخلص اختیار کرنے کے پیچھے کی نفسیات کیا ہے یہ جاننا بھی ہمارے لیے یقیناً دل چسپ ہوگا۔ آئیے! ان کے اشعار کے حوالے سے ان محرکات کی نشان دہی کرنے کی سعی کرتے ہیں.
؂ میں ایک بچہ بڑا ہوں گھر کا سو اپنے من سے
مجھے مچلتا ہوا وہ بچہ نکالنا ہے
؂ سورج کو کوسنے سے اندھیرا نہ جائے گا
جگنو ہو اپنے حصے کی تم روشنی کرو
؂ عزم اس خاکی فطرت میں جو اک ضد ہے وہ چاہے تو
جگ میں ہموار ہے سب کچھ ورنہ کچھ بھی ہموار نہیں
؂ جب بھی دشواری میں رکھتا ہوں بھروسہ اس پر
ایک طاقت مرے کردار میں آ جاتی ہے
؂ اپنی محنت سے بدلنی ہیں لکیریں ہاتھ کی
اپنے چہرے کو عطا کرنا ہے اک چہرہ مجھے
مستحسن عزم کی شاعری مجھے پسند ہے. اگر میں وجوہات بیان کرنے لگوں اور ساتھ ہی ان کے اشعار بہ طور مثال رقم کرنے لگوں تو مضمون خاصا طویل ہو جائے گا اور قارئین یہ کہہ اٹھیں گے کہ حضرت! اگر تمام اشعار آپ اس مضمون میں ہی رقم کر ڈالیں گے تو بقیہ کتاب میں ہم پڑھیں گے کیا؟
میں کوئی دقاق قسم کا ناقد بھی نہیں کہ یہ بیان کرسکوں کہ فلاں خیال کو غالب نے کس طرح بیان کیا ہے اور فراق نے کس طرح باندھا ہے اور… مجھ غریب کو تو خود کے بھی اشعار یاد نہیں رہتے، دوسروں کے کیا رکھوں۔
بہرکیف اتنی بات تو ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مستحسن عزم کی شاعری میں تنوع ہے، رنگینی ہے، ندرتِ خیال ہے، حساسیت ہے، زبان و بیان کی خوبیاں ہیں، عصر حاضر کی سچائیوں کا عکس ہے، فرد واحد کے مسائل، اس کی گھٹن اور تنہائی کا درد ہے۔ رشتوں کے درمیان کی خلیج، انسانی بہروپ اور منافقانہ رویوں کی لفظی عکاسی ہے۔ گہری اداسی کے ساتھ ہی ہمت و حوصلے کی اڑان بھی ہے، سادگی میں پرکاری ہے اور گہری سوچ کے ساتھ مشق سے حاصل شدہ ماہرانہ فن کاری ہے۔ گویا کہ ان کی شاعری فن کارانہ چابک دستی اور انفرادیت سے مملو ہے۔
چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
؂ وہ چڑیا چونچ سے پیڑ کو دیتی ہے پانی
وہ پاگل ہے جو اک کل سہانا چاہتی ہے
؂ اپنے چھپر سے اڑائے تھے پرندے، جب سے
آس باندھے ہوئے ہیں، پیڑ لگائے ہوئے ہیں
؂ میں پرندہ ہوں شجر درکار ہے
چھپروں میں آسرا مت دے مجھے
؂ میں جس کو گنگناتا ہوں تنہا رہ گزر پر
وہ تنہائی مجھے گنگنانا چاہتی ہے
؂ شام آتے ہی پسر جاتا ہے اک سناٹا
صبح کو صبح تک ہم صبح بنائے ہوئے ہیں
؂ نظر مصر ہے بدن کو بدن بنانے پر
مزہ تو جب ہے نظر کو نظر بنایا جائے
؂ مجھ سے امیدِ وفا، اور وفا، اور وفا
میرے لب پر کوئی شکوہ بھی تو ہو سکتا ہے
؂ میری غیبت وہ سرِ عام کیا کرتے ہیں
اور یہ الزام کہ میں صاحبِ کردار نہیں
؂ جو چڑھ گئی ہے نفاست زباں پہ جاتی نہیں
ذرا سا بیٹھا تھا اردو کی اک کتاب کے ساتھ
؂ بستر کو بدن، پگ کو آرام نہیں دیتا
الجھا ہوا دن مجھ کو اک شام نہیں دیتا
؂ پیٹھ کو ناؤ بنالی میں نے
جب بھی بچوں نے شکارہ چاہا
؂ ایسا فارغ کیا ہے وقت نے مجھ کو کہ جناب
روزِ اتوار بھی میرے لیے اتوار نہیں
الغرض مستحسن عزم کی شاعری ایک ایسا سمندر ہے جس میں ڈبکی لگانے والا ہر بار کچھ نیا لیے برآمد ہوتا ہے۔
؂ میں سمندر ہوں مجھے چھونا بڑی بات نہیں
چاہیے موتی، جیو مجھ میں، کھنگالو مجھ کو
میں ان کی شاعری کی مزید اڑان، اٹھان اور پہچان کے لیے دعاگو ہوں ۔

احسان قاسمی
مورخہ ۱۷ ؍ جنوری ۲۰۲۲ ء
نوری نگر ۔ پورنیہ
9304397482
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے :مستحسن عزم : تعارف، غزلیں اور ماہئیے

ضلع کٹیہار میں اردو شاعری کا منظر نامہ از احسان قاسمی 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے